واقفین نو کی تعلیم و تربیت

خطابات بابت وقف نو

خطاب برموقع نیشنل اجتماع وقفِ نو برطانیہ 17 مئی 2003 ء

حضورِ انورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نےایک بچے سے ”وقفِ نو“ کا مطلب دریافت فرمانے کے بعد خطاب کرتے ہوئے فرمایا:- ….آپ نے، یہ ابھی جو بچہ آیا تھا،اس سے سنا کہ آپ لوگوں کو آپ کے والدین نے ، والدین سے مراد ہے ان کے امی ابو نے وقف کیا حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کی اس تحریک پر کہ آئندہ صدی کے لئے مجھے واقفین چاہئیں اور پہلے دن سے ہی ان کے کان میں یہ ڈالا جائے کہ آپ وقف ہیں اور جماعت کے لئے آپ نے اپنی زندگی صرف کرنی ہے اور آپکی اپنی زندگی کوئی نہیں اور اسی طرح پہلے دن سے ہی انکی یہ اُٹھان کی جائے۔ اس پر اللہ تعالیٰ کے فضل سے دنیا کے کونے کونے سے ماں باپ نے اپنے بچے وقف کے لئے پیش کیے اور ابھی تک کرتے چلے جارہے ہیں۔ الحمدللہ

 

وقفِ نو بچے دین کی خدمت کرنے کے لئے تیار ہوجائیں
یہ جذبہ اور یہ اخلاص اور یہ قربانی کے معیار صرف آج کل ہمیں جماعت احمدیہ میں ہی نظر آتے ہیں کہ ماں باپ بجائے اس کے کہ یہ خواہش کریں کہ ہمارے بچے بڑے ہو کر دنیا کمائیں وہ یہ خواہش کرکے پیش کررہے ہیں کہ ہمارے بچے بڑے ہو کر دین کی خدمت کریں ۔تو ماں باپ نے تو اپنی طرف سے قربانی پیش کردی۔اب آپ نے بھی، جو وقفِ نو کے بچے ہیں۔ اپنے آپ کو اس کام کے لئے تیار کرنا ہے۔ میرے خیال میں اکثریت کو اُردوسمجھ آجاتی ہے سو میری باتیں سمجھ رہے ہونگے۔ آپ نے اپنے آپ کو وقف کے لئے تیار کرنا ہے اور اس میں بنیادی چیز یہ ہے کہ آپ پہلے دن سے ہی جس طرح حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ؒنے فرمایا تھا کہ پہلے دن سے ہی اپنی تربیت کریں۔ یہ سمجھیں۔ جب آپ کو ہوش کی عمر آجائے مثلاً سات سال کی عمر میں بچے کو نماز کے لئے کہنے کا حکم ہے۔ دس سال کی عمر میں نماز فرض ہوجاتی ہے۔ تو اس عمر سے اب بچے کو خود بھی احساس ہونا چاہیے اور والدین بھی ان کو یہ احساس دلوائیں کہ تم وقف ہو تم نے اپنی زندگی جماعت کیلئے پیش کی ہے۔ تمہاری جو خواہشات ہیں وہ اب تمہاری نہیں رہیں بلکہ جماعت جس طرح کہے گی وہ تم نے کرنا ہے۔

 

وقف نام ہے قربانی کا
دوسرے ایک بہت بڑا جو احساس ہے وہ بچوں کو ماں باپ کی طرف سے یہ ڈالا جانا چاہیے کہ آپ نے وقف کیا ہے اور وقف نام ہے قربانی کا تو پہلے دن سے جب تک آپ اپنے دوسرے بہن بھائیوں کے لئے قربانی نہیں دیں گے بڑے ہوکر آپ انسانیّت کے لئے قربانی نہیں دے سکیں گے۔ تو یہ بڑی ضروری چیز ہے اس بارے میں مَیں والدین کے سامنے زیادہ یہ عرض کررہا ہوں کہ بعض واقفینِ نو بچوں کو دوسرے بچوں سے زیادہ اہم سمجھتے ہیں یا اس لئے کہ یہ جماعت کی پراپرٹی ہے ان کا زیادہ خیال رکھا جائے۔ لیکن بعض دفعہ اسی سے عادتیں خراب ہوجاتی ہیں۔ اس لئے والدین پہلے دن سے ہی بچوں کو سخت جانی کی، Hardshipکی عادت ڈالیں۔

 

بچپن سے ہی سچ سے محبت او رجھوٹ سے نفرت ہو
پھر جس طرح حضرت صاحب نے فرمایا تھا کہ بچپن سے ہی سچ سے محبت ہو اور جھوٹ سے نفرت ہو۔ ہلکا سا مذاق بھی، جو جھوٹ کی طرف لے جانے والا ہو بچوں سے نہیں کرنا چاہیے۔ مثلاً حضورؒ نے اپنے خطبہ میں اس کی مثال بھی دی تھی کہ کبھی بچے سے یہ مذاق بھی نہ کریں کہ بتاؤ میرے ہاتھ میں کیا ہے یا میرے ہاتھ میں فلاں چیز ہے، اس ہاتھ میں ہے کہ اُس ہاتھ میں ہے۔ جبکہ دونوں ہاتھوں میں کچھ بھی نہ ہو تو بچے کو اس سے بھی جھوٹ بولنے کی عادت پڑجاتی ہے۔ یہ ہلکا سا ادنی ٰ سا مذاق ہے۔ اسکو ادنیٰ مذاق نہ سمجھیں اس سے بھی تربیت پر برا اثر پڑتا ہے۔ تو واقفینِ نو بچوں کی اُٹھان ، والدین کا بھی فرض ہے کہ انہوں نے پہلے دن سے تو کرنی ہے، سات سال اور دس سال کی عمر کے بعد، بہت سارے بچے دس سال کی عمر کو پہنچ چکے ہیں، اب آپ کا بھی فرض ہے کہ آپ کو جھوٹ سے بالکل نفرت ہو، ہلکا سا جھوٹ بھی برداشت نہ ہوسکے اور سچ سے ایسی محبت ہوجائے جیسی کسی بھی اچھی چیز سے آپ کو ہوسکتی ہے، (جیسے)ماں باپ سے۔

 

بچوں میں خوش مزاجی ہو
پھر ایک بہت بڑی بات بچوں کے لئے خوش مزاجی ہے۔ یعنی ہر وقت آپ کی جو طبیعت ہے اس میں خوشی رہے بعض بچے چڑچڑے ہوجاتے ہیں تو ماں باپ بھی خیال رکھیں کہ کس طرح ان کی تربیت کرنی ہے۔ بلاوجہ بچوں کو ضدّی نہ بنائیں اور ضدی بنایا جاتا ہے اس طرح کہ پہلے ایک بچہ کسی چیز کا مطالبہ کرتاہے کوئی چیز مانگتا ہے تو انکارکردیتے ہیں او رپھر جب وہ زیادہ ضد کرتا ہے تو تھوڑی سی سزا دے کراس کی وہ ضد بھی پوری کردیتے ہیں یا اس کے رونے دھونے کو دیکھ کر بغیر سزا کے ہی ضد پوری کردیتے ہیں تو بچہ یہ سمجھ جاتا ہے کہ اب ہر بات میں، مَیں نے جو چیز لینی ہے وہ ضد کرکے اور رو کر ہی لینی ہے اور اس سے پھر بدمزاجی پیدا ہوجاتی ہے تو اس طرف بھی ہمیں بہت توجہ کی ضرورت ہے۔ کیونکہ اس وقت والدین کی تعداد بھی ماشاءاللہ بچوں کی تعدادکے برابر ہی مجھے نظر آرہی ہے اس لئے میں بڑوں کے لئے بھی ساتھ ساتھ باتیں کررہا ہوں۔ تو ہمیشہ بچے جو دس سال کی عمر کو پہنچ گئے ہیں وہ اس بات کا خیال رکھیں کہ انہوں نے اپنے ساتھی بچوں سے کبھی نہیں لڑنا۔ اگر بری بات ان میں دیکھتے ہیں تو خاموش ہوجائیں، علیحدہ ہوجائیں۔

 

آپ کے اخلاق اچھے ہونے چاہئیں
آپ کے اخلاق بہت اچھے اخلاق ہونے چاہئیں اس لئے اس کو ذہن میں رکھیں کہ اگر آپ کے اخلاق اچھے ہوں گے تو پھر بڑے ہو کر آپ کا مزاج بھی ایسا اچھا بنے گا کہ لوگ خود بخود آپ کی طرف آئیں گے۔ آپ میں دلچسپی لیں گے اور پھر اس طریقے سے آپ احمدیت کا پیغام لوگوں تک پہنچا سکیں گے ۔لیکن اگر پہلے ہی ر ونے دھونے کی، ایک دوسرے کو ماردھاڑکی عادت پڑگئی تو یہ عادت آہستہ آہستہ پکی ہوتی جائے گی اور بڑے ہو کر بھی یہی سمجھیں گے کہ ہم نے اپنا حق لینا ہے، چاہے سختی سے یا کسی سے لڑجھگڑ کے۔ تو یہی میں آپ سے کہتا ہوں کہ اسی سے تو پھر آپ لوگوں کو اپنے سے دور ہٹا لیں گے۔ کوئی آپ کے قریب بھی نہیں آئے گا او رجب آپ کے قریب کوئی نہیں آئے گا تو پھر آپ احمدیت کا پیغام کس کو پہنچائیں گے؟ تو اس لئے ہمیشہ یہ عہد کرلیں آج وہ بچے جو میری بات سمجھ سکتے ہیں سات سال ،دس سال یا اوپر کے کہ ہم نے کسی سے نہیں لڑنا اپنے دوستوں سے بھی کھیل کودمیں بھی نہیں لڑنا۔ کھیل کے میدان میں بھی اگر کوئی، کوئی بات کہہ دیتا ہے تو جسے کہتے ہیں Sportsman Spiritوہ ہونی چاہیے او رکبھی زیادتی بھی ہوجائے تو اس کو برداشت کرلینا چاہیے۔

 

(الفضل انٹرنیشنل 6 جون 2003ء۔جلد 10 شمارہ 23۔ صفحہ 9)

خطاب برموقع نیشنل اجتماع وقفِ نو برطانیہ 2 مئی 2004 ء

پانچوں نمازیں باقاعدہ پڑھیں
چندباتیں مَیں کہوں گا تمہیں۔ پچھلے اجتماع میں بھی مَیں نے انہی باتوں پرزور دیاتھا بعض بنیادی چیزیں ہیں۔ سب سے پہلی بات ہے نمازوں کی پابندی۔اور آپ لوگ جو دس سال سے اوپر کی عمر کے ہوگئے ہیں۔ان کو خاص طور پر اس چیز کا خیال رکھنا ہے کہ اب نمازیں آپ پر فرض ہوگئی ہیں۔ ٹھیک ہے؟ پانچوں نمازیں باقاعدہ پڑھیں۔ سکول میں اگر سردی کے موسم میں وقت تھوڑا ہوتاہے، لیٹ ہوجاتے ہیں تو جو بریک(Break) ہوتی ہے اس میں کوئی وقت تلاش کریں کہ نمازیں پڑھ سکیں۔ ظہر، عصر کی۔ تو جو بچے باقاعدہ نماز پڑھتے ہیں وہ ذرا ہاتھ کھڑے کریں۔ سارے ہی پڑھتے ہیں۔ ماشاءاللہ۔ اچھا ٹھیک۔ اب مجھے یہ بتائیں کہ قرآن کریم کی تلاوت کون روز کرتے ہیں۔ ۔۔

مذاق میں بھی جھوٹ نہ بولیں
اب ایک بات میں نے گذشتہ سال بھی کہی تھی خاص زور دے کے، اب دوبارہ کہتاہوں اور یہ بڑی ضروری چیز ہے کہ کوئی بھی بچہ کوئی احمدی بچہ، وقفِ نو کا تو بہت اونچا معیار ہے ان سے تو یہ Expect نہیں کیاجاسکتا کہ وہ کبھی جھوٹ بولیں گے، کسی بھی احمدی بچے کو کبھی بھی مذاق میں بھی جھوٹ نہیں بولنا۔ تو اس لئے آپ لوگ ہمیشہ یہ یاد رکھیں کہ اپنے ساتھیوں سے کھیل رہے ہوں یا کوئی غلطی کرتے ہیں اور امّی ابّا آپ کے پوچھیں کہ فلاں کام تم نے تو نہیں کیا تو کبھی سزا کے ڈر سے بھی جھوٹ نہیں بولنا اور کبھی مذاق میں بھی جھوٹ نہیں بولنا۔

ایک دوسرے سے لڑائی نہ کریں
پھر ایک بات مَیں نے کہی تھی گذشتہ سال بھی دوبارہ یاد کرا دیتا ہوں کہ ایک دوسرے سے لڑائی نہیں کرنی کبھی بھی۔ کھیل کھیل میں بعض دفعہ لڑائیاں ہوجاتی ہیں۔ آپ لوگ جو اَب سات سال سے بڑی عمر کے بچے ہیں ان کو کافی ہوش آگئی ہے۔ یادرکھیں کہ لڑنا نہیں ہے ایک دوسرے کے ساتھ کھیل میں۔ اور اگر کوئی آپ کو کچھ مار دیتا ہے یا شرارت کردیتاہے تو معاف کرنے کی عادت ڈالیں۔

ماں باپ کا کہنا مانیں
تیسری یا جو بھی نمبر ہے اگلا کہ ماں باپ کا، امی ابّا کا آپ نے کہنا ماننا ہے۔ جو وہ کہیں اس کے مطابق کرنا ہے۔ ضدنہیں کبھی کرنی، نہ کھانے پینے کے معاملے میں، نہ کپڑے پہننے کے بارے میں۔ جسطرح وہ کہیں اسی طرح ان کی بات ماننی ہے۔

نمازمیں اپنے لئے دعا کریں
اور پھر ایک چیز یاد رکھیں کہ آپ لوگ وہ جن سے مَیں نے ہاتھ کھڑے کروائے ہیں دس سال کی عمر کے کافی بچے ہوچکے ہیں۔ چند ایک چودہ پندرہ سال، پھر سولہ سال کی عمر کے بھی ہیں۔ اب مستقل یہ عادت ڈال لیں کہ نماز میں اپنے لئے خاص طور پر دعا کرنی ہے ہر نماز میں کہ اللہ تعالیٰ آپ کو صحیح وقفِ نو بنائے۔ آپ کے ماں باپ نے اللہ تعالیٰ کے اس حکم کے مطابق کہ جو بھی بچہ اللہ میاں مجھے دے گا لڑکی ہو یا لڑکا، مَیں اسے تیری راہ میں وقف کروں گا یا کروں گی، انہوں نے وقف کیا آپ کو۔ اب آپ کاکام ہے جو نیک سوچ اُن کی تھی، جو وعدہ اللہ تعالیٰ سے انہوں نے کیا، اُس کو آپ نے پورا کرنا ہے۔ ٹھیک۔ اور اس کے لئے دعا کرنی ہے خاص طور پہ۔ کیونکہ دعا کی عادت اب دس سال کی عمرمیں آپ کو پڑجانی چاہیے، نمازیں پڑھنے کی اور خاص طور پر دُعا مانگنے کی۔ اور اللہ میاں کا بھی یہ حکم ہے۔ قرآن شریف میں بھی آیاہے کہ بچوں کو ماں باپ کے لئے دعا مانگنی چاہیے۔ خاص طور پر یہ شکرادا کرنا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں یہ انعام دیا، اچھی صحت دی، اچھی زندگی دی، اچھے ماں باپ دئیے اور ہمیں اس جماعت میں شامل کیا جس نے انشاءاللہ تعالیٰ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا جھنڈا دنیا میں لہرانا ہے۔ اور ہمیں ان بچوں میں شامل کیا جنہوں نے بڑے ہوکراپنی زندگی اللہ تعالیٰ کی راہ میں قربان کی ہوئی ہے، گذارنی ہے۔ اور وقف کی روح سے گذارنی ہے ان شاءاللہ تعالیٰ۔

بنیادی اخلاق سیکھنے بہت ضروری ہیں
اور پھر یہ کہ بنیادی باتیں ہیں بعض جو واقفینِ نو کو بہت زیادہ آنی چاہئیں۔ مثلاً اب سارے بچے یہاں صبح سے بیٹھے بیٹھے تھک گئے ہیں کافی۔ ان کو نیند بھی آرہی ہے۔ کچھ بیٹھے ہوئے ہیں انگڑائیاں لے رہے ہیں کچھ جمائیاں لے رہے ہیں۔ اور ہاتھ منہ پر رکھے بغیرمنہ کھول دیتے ہیں، یہ منع ہے۔ حدیث میں آیاہے کہ جب آپ کو نیند آئے اورمنہ کھول کرجمائی (Yawning)کرتے ہیں تو آپ ہاتھ سامنے منہ پر رکھیں۔ یہ چیز بھی بڑی ضروری ہے۔( اب میں کہہ رہاہوں اس بچے کاہاتھ نہیں منہ کے سامنے۔) تویہ چیزیں بنیادی چھوٹی چھوٹی چیزیں ہیں۔ یہ ہر واقفِ نو بچے کو یاد رکھنی چاہئیں۔ بڑی باتیں تو آپ سیکھ جائیں گے لیکن بنیادی اخلاق آپ کو سیکھنے بہت ضروری ہیں۔ اور اُن میں سے یہی ہے۔ نمازوں کی باقاعدگی، قرآن شریف پڑھنے کی توجہ، ماں باپ کا کہنا ماننا اور ضد نہیں کرنی۔ اپنے ہم عمر بچوں سے لڑائی نہیں کرنی۔ کھانا کھانا ہے تو آداب سے کھانا ہے۔ مجلس میں بیٹھنا ہے تو مجلس میں بیٹھناآنا چاہیے۔ ادھر اُدھر ہلنے کی بجائے تھوڑا سا صبر کریں۔ پھر اگر تھکاوٹ ہے اور اباسی(جمائی) آتی ہے تو ہاتھ رکھ کر منہ کھولناہے۔ منہ اس طرح ہی نہیں کھول دینا۔بھیڑئیے کی طرح۔

مختلف شعبوں میں واقفینِ نو کی ضرورت ہے
سب سے پہلے اب میں افریقہ کا دورہ کرکے آیا ہوں ۔ ہمیں وہاں ڈاکٹرز کی ضرورت ہے۔ ٹیچرز کی ضرورت ہے۔ تو اپنیPreference(ترجیحات)میں یہ شامل کریں کہ ہمیں ڈاکٹر چاہئیں اور ہمیں ٹیچر چاہئیں۔ کل کو ہوسکتا ہے ہم وہاں کوئی میڈیکل کالج بھی کھولیں تو جب آپ لوگ بڑے ہوں گے تو جاکے اس لیول کے ڈاکٹر بھی چاہئیں جو پڑھا سکیں۔ سکولوں کے لیول کے، یونیورسٹی کے لیول کے بھی ٹیچر چاہئیں۔ پھر لڑکیوں میں وکیل بن سکتی ہیں۔I.T(آئی۔ٹی) میں کام لڑکے لڑکیاں دونوں کرسکتے ہیں۔ میڈیسن میں بھی لڑکے لڑکیاں دونوں آسکتے ہیں۔ ٹیچنگ(Teaching)میں بھی دونوں آسکتے ہیں۔ تو ہر میدان میں ایک طرح ہمیں ضرورت ہے دونوں طرف کے لوگوں کی۔ اکثر فیلڈایسے ہیں جس میں دونوں طرح کے بچے شامل ہوچکے ہیں۔ اس لئے مجھے یہ بتائیں کہ مجھے اگلے دس سال میں فکر ہے کہ کافی ہمیں ڈاکٹرز اور ٹیچرز کی ضرورت ہے۔ پہلے وہ بچے ہاتھ کھڑا کریں جن کو یہ دلچسپی ہے کہ وہ ڈاکٹر بنیں۔ 25%ٹھیک ہے وہ لوگ جو ٹیچربننا چاہتے ہیں؟ کوئی بھی نہیں۔ اگرہاتھ نہیں کھڑے کریں گے تو مجھے زبردستی بنانا پڑے گا ساروں کو۔ ان بچوں میں سے مجھے Teaching Lineکے بچے بھی چاہئیں۔ سمجھ آئی؟ اس لئے وہ بھی دلچسپی پیدا کریں جن کو دلچسپی ہو۔ اور وکیل کتنے بننا چاہتے ہیں؟ Lawyer (وکیل)کتنے بننا چاہتے ہیں؟ اچھا۔مبلغ کتنے بننا چاہتے ہیں؟ ہاں یہ تسلّی ہوگئی تھوڑی سی۔ اچھا شاباش۔ جتنے ڈاکٹر ہیں اتنے ہی مبلغ ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت میں وقفِ نو کی طرف بچوں کو بھیجنے کی طرف کافی توجہ پیدا ہورہی ہے اور مَیں، انچارج جو ہیں وقفِ نو کے، کل ہی ان سے بات کررہا تھا کہ اس ایک سال میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے مَیں نے انکو یہی کہا تھا مکمل پوری فگرزمجھے بتائیں۔ میرا اندازہ ہے جو درخواستیں میرے پاس آئی ہیں۔ ماں باپ نے جو بچے اپنے وقف کیے ہیں وہ تقریباً دوہزار سے ڈھائی ہزار تک ہیں جو ایک سال میں وقف ہوئے ہیں۔ اسطرح انشاءاللہ تعالیٰ یہ تعداد تو بڑھے گی اور ضرورت پوری ہوتی رہے گی۔ لیکن آپ لوگ، آپ بچے جو دس سال کی عمر تک پہنچ چکے ہیں۔ اور دس سال کی عمر ایک ایسی عمر ہے جس میں بچوں کو سوچ لینا چاہیے۔ اپنی سوچMatureکرنی شروع کردینی چاہیے۔

 

(مشعلِ راہ۔ طبع اوّل مارچ 2006۔ ناشر مجلس خدام الاحمدیہ پاکستان۔ جلد پنجم حصّہ دوم ۔صفحہ1 تا 4)

خطاب برموقع سالانہ اجتماع واقفینِ نو یوکے 26 فروری 2011ء

تحریکِ وقفِ نو اسلام کی تعلیمات کو پھیلانے کے لئے شروع کی گئی تھی
’’ْ ۔۔۔ ایک اہم نکتہ جو آپ سب کو یاد رکھنا چاہیئے اور اس کی یاددہانی مَیں نے متعدد موقعوں پر کروائی ہے وہ یہ ہے کہ آپ کی پیدائش سے پہلے آپ کے والدین نے آپ کی زندگی خداتعالیٰ کے دین کے لئے وقف کرنے کا عہد کیا تھا۔ وقفِ نو کی تحریک حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے شروع فرمائی تھی اس خواہش کے ساتھ کہ تمام دنیا میں اسلام کی تعلیمات کو پھیلانے کے لئے جماعت کو بڑی تعداد میں خدمت کرنے والوں کی ضرورت ہو گی۔ حضور رحمہ اللہ کو احساس تھا کہ صرف چند درجن یا چند سو افراد اس عظیم الشان کام کے لئے کافی نہیں ہوں گے۔ بہت بڑی تعداد میں افراد کی خدمات درکار ہونگی۔ لہٰذا یہ بابرکت تحریک بفضلِ تعالیٰ شروع کی گئی اور آپکے والدین نے وہی نیّت کر لی جو حضرت مریم علیہا السلام کی والدہ نے بچے کی پیدائش سے پہلے کی تھی۔ خدا تعالیٰ نے اس کا ذکر سورۃ آل عمران میں فرمایا ہے کہ کس طرح حضرت مریم علیہا السلام کی والدہ نے دعا کی تھی۔ انہوں نے اپنے رب سے عرض کیا رَبِّ اِنِّیْ نَـذَرْتُ لَکَ مَا فِیْ بَــطْـنِیْ مُـحَرَّرًا فَـتَـقَــبَّـلْ مِنِّیْ یعنی اے میرے ربّ! جو کچھ بھی میرے پیٹ میں ہے یقیناً وہ مَیں نے تیری نذر کر دیا (دنیا کے جھمیلوں سے) آزاد کرتے ہوئے۔ پس تو مجھ سے قبول کر لے۔

مَیں دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ آپ کی ماؤں کی اس دعا کو بھی اُسی رنگ میں قبول فرمائے جیسا کہ خدا تعالیٰ نے حضرت مریم علیہا السلام کی والدہ کی دعا کو قبول فرمایا تھا۔ اور آپ جماعت کے لئے قابل قدر وجود بن جائیں۔


تجدیدِ عہد کی اہمیت
آپ میں سے بہت سے اب بلوغت کی عمر کو پہنچ رہے ہیں، ذہنی طور پر بھی اور جسمانی قابلیت کے لحاظ سے بھی۔ آپ میں سے بہت سے اعلیٰ تعلیمی اداروں میں سائنس اور دیگر مضامین میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ بہت سے کالج اور یونیورسٹی کے معیار کو پہنچ چکے ہیں۔ آپ کو یہ احساس ہوجانا چاہیئے کہ جب آپ پندرہ سال کی عمر کو پہنچ جائیں تو اس بات کی ضرورت ہے کہ آپ کے والدین نے ایک فرد کی حیثیت سے جو عہد خداتعالیٰ سے کیا تھا آپ بذات خود اس عہد کی اپنی طرف سے تجدید کریں۔ اور مَیں امید رکھتا ہوں کہ آپ سب جو اس عمر کو پہنچ گئے ہیں انہوں نے یہ تجدیدِ عہد کر لی ہوگی کیونکہ اس کے بغیر آپ کبھی بھی اپنی حقیقی ذمہ داریوں کو سمجھ نہیں سکیں گے۔ یہ بات مَیں نے کئی مرتبہ آپ سب کو سمجھائی ہے۔ اس لئے مجھے امید ہے کہ اس عمر کو پہنچنے والے ہر لڑکے نے ضرور تحریری طور پر تجدیدِ عہد لکھ کر بھیج دی ہوگی۔ مزید یہ بات اچھی طرح سمجھ لیں کہ صرف لفظوں میں تجدیدِ عہد کرنے کی کوئی حیثیت نہیں۔ آپ کو اچھی طرح ذہن نشین کرنا ہوگا کہ اب یہ آپ پر منحصر ہے کہ آپ خود اس عظیم ذمہ داری سے عہدہ برآ ہونے کے لئے کیا کوشش کرتے ہیں۔

 

واقفینِ نو کا اعلیٰ نمونہ اور اخلاق
ایک خطبہ جمعہ میں جو مَیں نے اکتوبر 2010ء میں دیا تھا مَیں نے واقفینِ نو بچوں کو ان کی ذمہ داریوں کی طرف توجہ دلائی تھی۔ یہ بات تو اپنی جگہ درست ہے کہ واقفینِ نو بچوں کو ان کے والدین نے خداتعالیٰ کے حضور خدمتِ اسلام کے لئے پیش کر دیا تھا اور ان کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ ان بچوں کی تربیت بھی اس رنگ میں کریں کہ وہ اسلام کے سچے خادم بنیں۔ مگر ہر واقفِ نو کی اپنی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی روزمرہ کی زندگی کو اس رنگ میں ڈھالے جو ایک خدا تعالیٰ کی راہ میں وقف فرد کے اطوار اور وقار کے مطابق ہو۔ اس کے لئے ضروری ہے کہ آپ کوشش کرتے رہیں کہ آپ خدا تعالیٰ کا قرب حاصل کرتے چلے جائیں اور ہر دن جو گزرتا ہے اس میں حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت میں بھی ترقی کرتے چلے جائیں۔ اس کے ساتھ ساتھ سیدنا حضرت مسیح موعود ؑ سے بھی بھر پور وفا اور خلافت کی کامل تابعداری آپ کی زندگی کا حصّہ ہو۔ نظامِ جماعت آپ کی نظر میں اور آپ کی زندگی میں ہر دوسری چیز کی نسبت عزیز اور مقدم ہونا چاہیئے۔ صرف تب ہی آپ میں وہ خصوصیات پیدا ہون گی جن سے آپ اس قابل بنیں کہ وقفِ نو کی عظیم ذمہ داریوں کو احسن رنگ میں پورا کر سکیں۔ جیسا کہ مَیں پہلے کہہ چکا ہوں آپکو اپنی زندگیوں کو اس طرح ڈھال لینا چاہیئے جس کا تقاضا اسلام کی حقیقی تعلیم ہم سے کرتی ہے۔ جب آپ کھڑے ہوں یا بیٹھے ہوں یا کسی محفل میں ہوں یا کہیں چلتے پھرتے نظر آئیں آپ کا طور طریقہ نمایاں طور پر اچھا ہو اور اعلیٰ اخلاق کا مظہر ہو ورنہ لوگ آپ پر انگلی اٹھائیں گے اور کہیں گے کہ اس واقفِ نو کے اخلاق اور کردار اعلیٰ معیار کے نہیں ہیں۔

 

ہر واقفِ نوکے لئے انتہائی ضروری ہے کہ وہ علمِ قرآن حاصل کرے
ایک احمدی کا سب سے بڑا فریضہ یہ ہے کہ وہ نیک و پاک زندگی بسر کرے۔ آپ میں سے اب بہت سے ہیں جو اس عمر کو پہنچ چکے ہیں کہ آپ کو اسلامی تعلیمات کی روشنی میں اپنے اوپر عائد ہونے والی ذمہ داریاں سمجھ آ جانی چاہیئں۔ ان ذمہ داریوں کو احسن طریق پر انجام دینے کے لئے ضروری ہے کہ آپ اپنا دینی علم بڑھائیں کیونکہ بغیر اسلامی تعلیمات کے جاننے اور سمجھنے کے نہ تو آپ خود اپنی ذمہ داریوں کو احسن طریق پر ادا کر سکتے ہیں اور نہ ہی اگلی نسل کی اسلام کی خوبصورت تعلیمات کی طرف رہنمائی کر سکیں گے۔ اس لئے دینی تعلیم حاصل کرنا نہایت اہم ہے اور اس تعلیم میں سب سے زیادہ اہمیت کا حامل قرآن کریم ہے۔ خدا تعالیٰ سے سچا تعلق پیدا کرنے کے لئے اور رسول کریم حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم سے سچی محبت پیدا کرنے کے لئے سب سے اہم ذریعہ قرآن کریم کی روزانہ باقاعدگی سے تلاوت کرنا ہے۔ مگر صرف تلاوت ہی کافی نہیں ہے بلکہ ضروری ہے کہ اس کے معانی بھی سیکھے جائیں اور قرآنی علوم کی روح کو سمجھا جائے۔ اس کے لئے آپ کو عادت بنا لینی چاہیئے کہ آپ اس غرض سے نوٹس بنا لیا کریں تا کہ یاد دہانی اور نکات کی سمجھ اور غوروفکر میں آسانی ہو۔
یہاں میں ایک اور بہت اہم امر کی طرف آپ کی توجہ مبذول کروانا چاہتا ہوں۔ قرآنی علوم کی گہری سمجھ حاصل کرنے کیلئے ضروری ہے کہ تفاسیر کا مطالعہ کیا جائے جو کہ اردو اور انگریزی میں مہیا ہیں۔ اس بات کو ہمیشہ یاد رکھیں کہ ہر واقف کے لئے انتہائی ضروری ہے کہ وہ علمِ قرآن حاصل کرے۔ یہاں مَیں آپ کیلئے سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ایک تحریر پیش کرنا چاہتا ہوں ۔ آپؑ اپنی کتاب کشتیٔ نوح میں فرماتے ہیں۔’’ سو تم ہوشیار رہو اور خدا کی تعلیم اور قرآن کی ہدایت کے برخلاف ایک قدم بھی نہ اٹھاؤ۔ میں تمہیں سچ سچ کہتا ہوں کہ جو شخص قرآن کے سات سو حکم میں سے ایک چھوٹے سے حکم کو بھی ٹالتا ہے وہ نجات کا دروازہ اپنے ہاتھ سے اپنے پر بند کرتا ہے۔ حقیقی اور کامل نجات کی راہیں قرآن نے کھولیں اور باقی سب اس کے ظل تھے۔ سو تم قرآن کو تدبر سے پڑھو اور اس سے بہت پیار کرو ۔ ایسا پیار کہ تم نے کسی سے نہ کیا ہو۔ کیونکہ جیسا کہ خدا نے مجھے مخاطب کر کے فرمایا اَلْـخَیْـرُ کُـلُّـہٗ فِی الْـقُـرْآنِ کہ تمام قسم کی بھلائیاں قرآن میں ہیں۔ یہی بات سچ ہے۔ افسوس ان لوگوں پر جو کسی اور چیز کو اس پر مقدم رکھتے ہیں۔ تمہاری تمام فلاح اور نجات کا سرچشمہ قرآن میں ہے۔ کوئی بھی تمہاری ایسی دینی ضرورت نہیں جو قرآن میں نہیں پائی جاتی۔ تمہارے ایمان کا مصدّق یا مکذّب قیامت کے دن قرآن ہے اور بجز قرآن کے آسمان کے نیچے اور کوئی کتاب نہیں جو بلاواسطہ قرآن تمہیں ہدایت دے سکے۔ خدا نے تم پر بہت احسان کیا ہے جو قرآن جیسی کتاب تمہیں عنایت کی۔ میں تمہیں سچ سچ کہتا ہوں کہ وہ کتاب جو تم پر پڑھی گئی اگر عیسائیوں پر پڑھی جاتی تو وہ ہلاک نہ ہوتے۔ اور یہ نعمت اور ہدایت جو تمہیں دی گئی اگر بجائے توریت کے یہودیوں کو دی جاتی تو بعض فرقے انکے قیامت سے منکر نہ ہوتے۔ پس اس نعمت کی قدر کرو جو تمہیں دی گئی۔ یہ نہایت پیاری نعمت ہے، یہ بڑی دولت ہے، اگر قرآن نہ آتا تو تمام دنیا ایک گندے مضغہ کی طرح تھی۔ قرآن وہ کتاب ہے جسکے مقابل پر تمام ہدایتیں ہیچ ہیں۔‘‘
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اس تحریر سے آپ نے اندازہ لگا لیا ہوگا کہ ایک احمدی مسلمان کے لئے قرآن کریم کس قدر عظیم اہمیت رکھتا ہے۔ اسی طرح آپ دیکھ سکتے ہیں کہ ایک واقفِ نو کے لئے کس قدر ضروری ہے کہ وہ قرآن کریم کے تمام احکام اور قوانین سے بخوبی واقف ہو۔ جب آپ قرآن کریم کی روزانہ تلاوت کرتے ہیں اور سمجھ بوجھ کر اس کی تعلیمات پر عمل کرتے ہیں تو پھر نیکی کے نئے نئے راستے اور خدا تعالیٰ کا قرب حاصل کرنے کے نئے نئے اسلوب آپ پر کھلنے لگتے ہیں۔ جب آپ قرآن کریم کی تعلیمات پر عمل کرتے ہیں تب ہی آپ صحیح معنوں میں واقفِ نو کہلا سکتے ہیں۔

 

کتب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا مطالعہ
اس کے ساتھ ہی بہت بڑی اہمیت کی حامل حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تصانیف ہیں۔ شروع میں آپ وہ کتابیں پڑھ سکتے ہیں جو حضور علیہ السلام نے اپنے آخری زمانے میں لکھیں کیونکہ وہ نسبتاً آسان ہیں۔ جو اردو پڑھ سکتے ہیں انہیں حضرت مسیحِ پاک علیہ السلام کی تصانیف کو براہ راست اردو میں ہی پڑھنا چاہیئے۔ مگر جن کو اردو نہیں آتی وہ ترجمہ پڑھیں جو جماعت نے شائع کیا ہے یا پھر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تصانیف میں سے بعض موضوعات چن کر جو حوالے کئی جلدوں میں Essence of Islam کے نام سے شائع شدہ ہیں ان کو پڑھیں۔ اگر آپ ان کتابوں کو پڑھیں تو وہ آپ کی تربیت کے لئے بہت مفید ہونگی اور آپ جماعت کے بہت اچھے سفیر بن جائیں گے۔

 

دینی علم کو بڑھانے اور ترقی دینے کا سب سے اہم ذریعہ دعا
اپنے دینی علم کو بڑھانے اور ترقی دینے کا سب سے اہم ذریعہ دعا ہے۔ جب تک آپ خدا تعالیٰ کے حضور دعائیں کرنے کے ذریعہ کو نہیں اپنائیں گے اور خدا تعالیٰ سے ذاتی تعلق نہیں پیدا کریں گے اس وقت تک آپ کا تمام دینی علم بیکار ہے۔ آپ کو یاد رکھنا چاہیئے کہ ہم دینی علوم کو محض علمیت حاصل کرنے کے لئے نہیں سیکھتے۔ اس کے ساتھ عاجزانہ اور سچی لگن اور تضرع سے کی ہوئی دعائیں بھی ہونی چاہیئں تا کہ جو علم آپ حاصل کریں وہ آپ کی روحانی ترقی کا ذریعہ بن جائے۔ جب یہ صورت پیدا ہوتی ہے تو انسان کی زندگی سے دنیاوی لذات اور دنیا کی رنگینیوں کے پیچھے بھاگنے کی طلب بھاپ کی طرح اڑ جاتی ہے اور اس فانی دنیا کی چاہتیں اور امنگیں مٹ کر یکسر غائب ہو جاتی ہیں۔ جب آپ کی یہ کیفیت ہو گی تو اس وقت وقفِ نو کی روح آپ میں سے ہر ایک کے اندر ظاہر ہو جائے گی۔ ان شاء اللہ تعالیٰ۔

 

ہر واقفِ نو اسلامی تعلیمات کو خوب اچھی طرح جانتا ہو
اس ضمن میں آپ کو ہمیشہ یاد رکھنا چاہیئے کہ جو مذہب آپ نے خوشی سے اختیار کیا ہے اسکی حقیقی تعلیمات کیا ہیں۔ اگر آپ کو اسلام کی حقیقی تعلیمات کا علم نہیں ہو گا تو ایک احمدی کی حیثیت سے اور پھر ایک واقفِ نو کی حیثیت سے آپ دوسروں کی اسلام کی طرف رہنمائی کس طرح کر سکتے ہیں۔ مغربی معاشرے میں رہتے ہوئے بعض ذہنی رجحانات پیدا ہو سکتے ہیں۔ مگر یہ تو خداتعالیٰ کا عظیم احسان ہے کہ اس نے ہمیں وقت کے امام حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ماننے کی توفیق عطا فرمائی جنہوں نے ہمیں اسلام کی حقیقی تعلیم سے روشناس کروایا۔
اس بارہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں ۔ ’’ اب قبل اس کے جو ہم دوسری بحثوں کی طرف توجہ کریں اس بحث کا لکھنا نہایت ضروری ہے جو دینِ اسلام کی حقیقت کیا ہے اور اس حقیقت تک پہنچنے کے وسائل کیا ہیں اور اس حقیقت پر پابند ہونے کے ثمرات کیا ہیں۔ کیونکہ بہت سے اثراتِ دقیقہ کا سمجھنا اسی بات پر موقوف ہے کہ پہلے حقیقتِ اسلام اور پھر اس حقیقت کے وسائل اور پھر اس کے ثمرات بخوبی ذہن نشین ہو جائیں۔ اور ہمارے اندرونی مخالفین کے لئے یہ بات نہایت فائدہ مند ہو گی کہ وہ حقیقتِ اسلام اور اس کی ابحاثِ متعلقہ کو توجہ سے پڑھیں کیونکہ جن شکوک و شبہات میں وہ مبتلا ہیں اکثر وہ ایسے ہیں کہ فقط اسی وجہ سے دلوں میں پیدا ہوئے ہیں کہ اسلام کی اتم اور اکمل حقیقت اور اس کے وسائل اور ثمرات پر غور نہیں کی گئی۔ اور اس بات میں کچھ شبہ نہیں کہ ان تمام حقیقتوں پر غور کرنے کے بعد اگر اس عاجز کے اندرونی مخالف اپنے اعتراضات کے مقابل پر میرے جوابات کو پڑھیں گے تو بہت سے اوہام اور وساوس سے مخلصی پا جائیں گے بشرطیکہ وہ غور سے پڑھیں۔ اور پھر ان مقامات کو نظر کے سامنے رکھ کر میرے ان جوابات کو سوچیں جو مَیں نے ان کے شبہات کے قلع و قمع کے لئے لکھے ہیں۔ ایسا ہی مخالفین مذہب کو بھی ان حقائق کے بیان کرنے سے بہت فائدہ ہوگا اور وہ اس مقام سے سمجھ سکتے ہیں کہ مذہب کیا چیز ہے اور اس کی سچائی کے نشان کیا ہیں۔ اب واضح ہو کہ لغتِ عرب میں اسلام اس کو کہتے ہیں کہ بطور پیشگی ایک چیز کا مول دیا جائے اور یا یہ کہ کسی کو اپنے کام سونپیں اور یا یہ کہ صلح کے طالب ہوں اور یا یہ کہ کسی امر یا خصومت کو چھوڑ دیں۔ اور اصلاحی معنے اسلام کے وہ ہیں جو اس آیت کریمہ میں اسطرف اشارہ ہے یعنی یہ کہ بَلیٰ ق مَنْ اَسْلَمَ وَجْھَہٗ لِلّٰہِ وَ ھُـوَ مُحْسِنٌ فَلَـہٗ ٓ اَجْـرُہٗ عِنْدَ رَبِّــہٖ ص وَ لَا خَوْفٌ عَلَـیْھِمْ وَ لَا ھُمْ یَحْـزَنُـوْنَ یعنی مسلمان وہ ہے جو خدا تعالیٰ کی راہ میں اپنے تمام وجود کو سونپ دیوے یعنی اپنے وجود کو اللہ تعالیٰ کے لئے اور اس کے ارادوں کی پیروی کے لئے اور اسکی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے وقف کر دیوے اور پھر نیک کاموں پر خدا تعالیٰ کے لئے قائم ہو جائے اور اپنے وجود کی تمام عملی طاقتیں اسکی راہ میں لگا دیوے۔ مطلب یہ کہ اعتقادی اور عملی طور پر محض خدا تعالیٰ کا ہو جاوے۔ ’’اعتقادی‘‘ طور پر اس طرح سے کہ اپنے تمام وجود کو درحقیقت ایک ایسی چیز سمجھ لے جو خدا تعالیٰ کی شناخت اور اسکی اطاعت اور اسکے عشق اور محبت اور اس کی رضامندی حاصل کرنے کے لئے بنائی گئی ہے۔ اور ’’عملی‘‘ طور پر اس طرح سے کہ خالص للہ حقیقی نیکیاں جو ہر ایک قوت سے متعلق اور ہر یک خدا داد توفیق سے وابستہ ہیں بجا لاوے مگر ایسے ذوق و شوق و حضور سے کہ گویا وہ اپنی فرمانبرداری کے آئینہ میں اپنے معبود حقیقی کے چہرہ کو دیکھ رہا ہے‘‘
اس تحریر میں حضرت مسیح پاک علیہ السلام نے سمجھایا ہے کہ یہ امر ایک مسلمان کے لئے کس قدر ضروری ہے کہ اسلام کی حقیقت کو صحیح طور پر سمجھا جائے۔ اگر ایک عام مسلمان کے لئے یہ امر اس قدر اہم ہے تو آپ اندازہ لگائیں کہ ایک واقفِ نو کے لئے اپنے دین کی تعلیم کو اچھی طرح جاننا کس قدر ضروری ہے۔ یہ ہر واقفِ نو کے لئے نہایت ضروری ہے کہ وہ اسلامی تعلیمات کو خوب اچھی طرح جانتا ہو تا کہ وہ سب سے پہلے اپنی زندگی تو اس کے مطابق ڈھال سکے۔
برطانیہ میں کئی سو واقفینِ نو موجود ہیں اور اگر یہ نئی روح آپ سب میں پیدا ہو جائے تو اس سے ایک ایسا مذہبی ماحول پیدا ہو جائے گا جس سے نہ صرف آئندہ نسلوں کو فائدہ پہنچے گا بلکہ یہاں برطانیہ میں پیغامِ حق پہنچانے کا ذریعہ پیدا ہو جائے گا۔ ان شاء اللہ تعالیٰ

 

واقفینِ نو کی ذمہ داریاں
اسوقت اسلام پر ہر سمت سے حملے کئے جا رہے ہیں اور اسلام کی مخالفت میں بہت کچھ کہا اور لکھا جا رہا ہے۔ اس صورت میں آپ کو اسلام کے دفاع کے لئے اٹھ کھڑے ہونا چاہیئے۔ ہر فرد کو اسلامی تعلیمات کے دفاع کے سلسلہ میں بھرپور کردار ادا کرنا چاہیئے۔ مگر ایک واقفِ نو کا کردار تو دوسروں سے بڑھ کر نمایاں ہونا چاہیئے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ واقفینِ نو بچوں کے والدین نے یہ عہد کیا تھا کہ ان کے بچے کی زندگی کا ہر لمحہ اسلام کی خدمت کے لئے وقف ہو گا۔ اور پھر پندرہ سال کی عمر کو پہنچنے کے بعد آپ نے اپنے اس عہد کی تجدید کی تھی کہ ہر لمحہ خدمتِ دین میں گزاریں گے۔ سو اپنے عہد کو پورا کرتے ہوئے اپنی ذمہ داریوں کو سمجھیں۔ اس مغربی معاشرہ میں جس میں آپ رہتے ہیں اپنے آپ کو وہ شمع بنا لیں جس میں دنیاوی حرص اور دنیاوی کھیل تماشوں کا کوئی عنصر موجود نہ ہو بلکہ حقیقت میں اپنے آپکو روحانی نور سے منور مشعلِ راہ بنا لیں۔
مَیں دعا کرتا ہوں کہ یہ نور آپ سب کی زندگیوں میں پیدا ہو جائے اور اگر آپ کو اس میں کامیابی حاصل ہو جائے تو ان شاء اللہ تعالیٰ آپ میری اور آئندہ آنے والے خلفاء کی فکروں کو دُور کرنے والے بن جائیں گے کیونکہ چراغ سے چراغ جلتا ہے یعنی نمونے کو دیکھ کر نمونہ اختیار کیا جاتا ہے۔ آپ میں سے جو بڑے ہیں وہ واقفینِ نو کی تحریک کی پہلی فصل ہیں اس لئے یہ آپ پر منحصر ہے کہ آپ نمونہ قائم کریں، رجحانات کی بنیاد ڈالنے والے بنیں۔ مَیں آپ سے کہتا ہوں کہ آگے بڑھیں اور نیک رجحانات پیدا کرنے والے قائدین بن جائیں۔ آپ جس میدان عمل میں بھی ہوں خواہ مربی ہوں، ڈاکٹر ہوں، ٹیچر ہوں، تاریخ دان ہوں، معیشت کے ماہر ہوں، سائنسدان ہوں جس میدان عمل میں بھی اتریں اپنی اعلیٰ کارکردگی کی چمک دکھائیں۔ ایسا نمونہ دکھائیں کہ نہ صرف آپ کی موجودہ نسل بلکہ آئندہ آنے والی نسلیں بھی آپ کے لئے دعائیں کریں۔ اللہ تعالیٰ آپ کو ان ذمہ داریوں کو احسن رنگ میں پورا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔

 

چھوٹے واقفین نو کے لئے ہدایات

آپ میں سے جو چھوٹے لڑکے ہیں مَیں ان سے خاص طور پر یہ بات کہنا چاہوں گا کہ جس شوق اور محنت سے آپ اپنے سکول کے کام کرتے ہیں اسی لگن اور اہمیت کے ساتھ آپ اپنی دینی تعلیم پر بھی توجہ دیں۔ آپ کو اپنے نصابِ وقفِ نو کے مطابق تمام چیزیں سیکھنی اور یاد کرنی چاہیئں۔ یہ نصاب خاص طور پر آپ کے لئے تیار کیا گیا ہے۔


مزید برآں یہ بات خاص طور پر یاد رکھیں کہ آپ نے اپنی نمازوں کی حفاظت کرنی ہے۔ کبھی ایک نماز کو بھی ضائع نہ ہونے دیں۔ اور قرآن کریم کو روزانہ باقاعدگی سے پڑھنے کی عادت ڈالیں خواہ ایک رکوع ہی کیوں نہ ہو۔


آپ کو ہمیشہ اپنے والدین کی کامل اطاعت کرنی چاہیئے یہاں تک کہ آپ اپنے دوسرے بہن بھائیوں کے لئے اعلیٰ اخلاق کا نمونہ بن جائیں۔ آپ کا واقفِ نو ہونا آپ کے لئے کسی قسم کے احساس برتری کا ذریعہ نہیں بننا چاہیئے یا کہ آپ سمجھیں کہ وقف ہونے کی وجہ سے آپ کو زیادہ توجہ ملنی چاہیئے یا زیادہ عزت ملنی چاہیئے۔ اس کے برعکس آپ کو دوسروں کی عزت کرنی چاہیئے اور اپنے والدین اور بڑوں کا کہنا ماننا چاہیئے۔ آپ جب دینی تعلیم و تربیت کی مجالس میں جائیں تو دوسروں کو محسوس ہونا چاہیئے کہ آپ بہت بلند اخلاق اور کردار کے مالک ہیں۔ آپ کے اسکول میں آپ کے اساتذہ اور ساتھ پڑھنے والے ساتھ محسوس کریں کہ آپ کے اخلاق اور اصول ایسے ہیں جو دوسروں کے لئے مشعلِ راہ ہیں۔


وقفِ نو کا نصاب انیس یا بیس سال کی عمر تک کے لئے تیار کیا جا چکا ہے۔ لہٰذا ہر بچے کو اپنی عمر کے مطابق نصاب کے لحاظ سے پڑھائی کرنی چاہیئے۔ اس ضمن میں والدین اور منتظمین توجہ دیں کہ بچے نصاب کے مطابق تعلیم و تربیت حاصل کر لیں۔ یہ آپ کی اعلیٰ تربیت کی بنیاد بن جائے گی۔ خدا کرے کہ آپ کو توفیق ملے کہ آپ اپنی ذمہ داریوں کو اچھی طرح سمجھ کر انہیں عملی جامہ پہنائیں۔

( الفضل انٹرنیشنل ۔ 6 مئی 2011ء۔جلد 18 شمارہ 18۔ صفحہ 16، 11، 12)

خطاب برموقع سالانہ اجتماع واقفاتِ نو یوکے بتاریخ 5 مئی 2012ء

 تحریک کے سلور جوبلی کا سال
الحمدللہ آج آپ سب کو ایک بار پھر واقفاتِ نو کے اجتماع میں شامل ہو نے کی توفیق ملی ہے۔ یہ یقیناً خدا تعالیٰ کا ہم سب پر ایک بہت بڑا احسان ہے کہ اس نے ہمیں اس زمانہ کے مسیح موعود اور امام مہدی کو ماننے کی توفیق عطا فرمائی۔ خاص طور پر، اللہ تعالیٰ نے مزید آپ سب پر یہ انعام کیا ہے کہ اس نے نہ صرف آپ کے والدین کو احمدیت قبول کرنے کی توفیق عطا فرمائی بلکہ خلیفۂ وقت کی آواز پر لبیک کہنے کی بھی توفیق عطا فرمائی اور آپ کی زندگی وقفِ نو کی تحریک کے لئے وقف کردی۔
یہ سال بہت اہمیت کا حامل ہے کیونکہ یہ اس تحریک کی سلور جوبلی کا سال ہے۔ اس مبارک تحریک کے 25 سال پورے ہو چکے ہیں۔ آپ میں سے بہت ساری ایسی واقفاتِ نو ہیں جوکہ واقفاتِ نو کی سب سے پہلیBatch کا حصّہ ہیں اور یہ حقیقی طور پر ایک بڑا اعزاز ہے جو اللہ تعالیٰ نے آپ کو عطا کیا ہے پس ان انعامات کی روشنی میں آپ پر یہ لازم ہے بلکہ آپکا فرض ہے کہ آپ ہمیشہ اللہ تعالیٰ کی شکرگزار رہیں ۔
یقیناً اگر آپ اخلاص کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی اس کے انعامات پر شکر گزار ہوں گی تو مستقبل میں آپ مزید الٰہی انعامات کی وارث بن جائیں گی جیسا کہ ہم قرآن مجید میں سورة ابراہیم آیت 8میں پڑھتے ہیں ”لَئِنْ شَـکَرْتُمْ لَاَ زِیْـدَنَّکُمْ “ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر تم شکر گزار ہوگے تو یقیناً مَیں تم پراپنے مزید انعام نازل کروں گا۔ اس لئے اگر آپ اللہ تعالیٰ کے زیادہ انعامات اور برکات کی وارث بننا چاہتی ہیں تو آپ اپنے آپ کو اس کی شکرگزاری میں مشغول کرلیں ۔ اور جب آپ حقیقی طور پر خود کو اس میں مشغول کر لیں گی تو آپ کو ایک نئی زندگی دی جائے گی۔ آپ ہمیشہ یہ بات اپنے ذہن میں رکھیں کہ یہ دنیا جس میں ہم رہتے ہیں یہ صرف ایک عارضی ٹھکانہ ہے۔ عام طور پر لوگ 70یا 80سال کے لئے زندہ رہتے ہیں یا شاید اس سے کچھ زیادہ لیکن آخر کار ہر شخص اس دنیا کو چھوڑ دے گا اور پھر خدا تعالیٰ کے سامنے اُخروی زندگی میں حاضر ہو گا۔ وہ زندگی ایک دائمی زندگی ہوگی۔ یہ ہمیشہ کی زندگی ایسی جگہ ہوگی جہاں ہم ہر اُس کام اور عمل کے متعلق پوچھے جائیں گے جو ہم اس عارضی زندگی میں بجالائیں گے۔ ہمارے تمام اچھے اعمال اللہ تعالیٰ کی طرف سے نوازے جائیں گے اور وہ ہمیں ہمارے گناہوں کی سزا دے گا۔
اگر آپ اس بنیادی اُصول کو ہمیشہ اپنے سامنے رکھیں گی اور پھر اپنا ہر عمل خدا تعالیٰ کے لئے کرنے کی کوشش کریں گی تو پھر آپ یہ محسوس کرسکیں گی کہ آپ کامیاب ہوگئی ہیں اور یہ کہ آپ نے وہ حقیقی زندگی پالی ہے جس کے لئے ایک مومن کو کوشش کرنی چاہئے اور اس مقصد کے حصول کا ایک اہم طریقہ یہ ہے کہ ہمیشہ اللہ تعالیٰ کی ان چیزوں پر شکر گزار رہیں جو اس نے آپ کو عطا فرمائی ہیں۔
بے شک صرف وہ لوگ جو اللہ تعالیٰ کا حقیقی شکر بجالاتے ہیں وہی اس کے تمام احکامات پر عمل پیرا ہونے کی کوشش کرتے ہیں۔ وہ لوگ ہیں جو اس کے بے شمار انعامات اور برکات کے وارث بن جاتے ہیں۔ اور ان انعامات کے حاصل ہونے پر یہ مومن پھر اللہ تعالیٰ کی طرف اس کا شکر ادا کرنے کے لئے رُخ کرتے ہیں اس طرح خدا تعالیٰ کی برکات اس شخص کی شکر گزاری کے ساتھ مسلسل جاری رہتی ہیں۔
مَیں اس کو واضح کرنے کے لئے ایک مثال دیتا ہوں۔ ہم سب نے دیکھا ہے کہ جب کوئی شخص ندی میں کوئی کنکر یا پتھر پھینکتا ہے تو یہ ٹکڑاؤ پانی میں ایک گول دائرہ پیدا کرتا ہے۔ اور یہ مسلسل بڑاہوتا جاتا ہے۔ اسی طرح روحانیّت اور شکر گزاری کا دائرہ مسلسل بڑھتا اور پھیلتا جاتاہے۔ ندی کا دائرہ آخر کار ختم ہوجاتا ہے چاہے وہ کنارے تک پہنچنے کی وجہ سے ہو یا پھر اس ٹکڑاؤ کا اثر ختم ہو جانے کی وجہ سے۔ لیکن جو روحانی دائرہ مَیں نے بیان کیا ہے وہ ایسا ہے جو بڑھتا چلا جاتا ہے اور ہمیشہ بڑھتا رہتا ہے۔یہ دائرہ اس زندگی میں مسلسل ہمارے ساتھ رہتا ہے اور دوسری زندگی میں بھی ہمارے ساتھ سفر کرتا ہے۔
جب ہم یہ جان لیتے ہیں کہ روحانی انعامات بے انتہا ہیں اور نہ ختم ہونے والے ہیں تب جاکرہم یہ جاننا شروع کرتے ہیں کہ ہمارا خدا ہم سے کتنا زیادہ پیار کرتا ہے کیونکہ اللہ نے اپنے انعامات کو اور احسانات کو اپنی مخلوقات پر محدود نہیں کیا۔ بلکہ اس نے اپنے انعامات کے ذرائع کو ہمیشہ بڑھنے والا بنایاہے۔ پس کیا یہ ہمارا فرض نہیں بنتا کہ ہم اس کا فائدہ اٹھائیں اور اپنے پیار کرنے والے خدا سے ایک پختہ تعلق قائم کریں جس کی مثال ہم اَور کہیں نہیں دیکھتے۔
اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ ہم اسے ہر دوسرے دنیاوی رشتے یا دوسرے پیاروں سے بڑھ کر پیار کریں۔ یہ اس لئے نہیں ہے کہ وہ نعوذباللہ ضرور ت مند ہے یا دوسرے کی محبت کی احتیاج رکھتا ہے۔ بلکہ وہ وجہ جس کے لئے وہ چاہتا ہے کہ ہم اس سے پیار کریں وہ یہ ہے کہ اس طرح انسان سیدھے راستے پر قائم رہے گا اور اس طرح وہ دنیاوی اور روحانی خزائن سے فائدہ اٹھانے والے ہوں گے۔

 

واقفاتِ نو کو دوسروں کے لئے نمونہ بننا چاہیئے
آپ میں سے بہت ساری واقفاتِ نو بلوغت کی عمر کو پہنچ چکی ہیں اور اس طرح خود اس عہد کو جاری رکھنے کا عہد کیا ہے جو آپ کے والدین نے آپ کی ولادت سے پہلے کیا تھا۔ آپ سب کو یہ یادرکھنا چاہئے کہ صرف وہی زندگی کا میاب سمجھی جاسکتی ہے جو اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول میں گزاری جاتی ہے اور ایک واقفۂ نو لڑکی ہونے کی حیثیت سے آپ کو ہمیشہ یہ بات ذہن میں رکھنی چاہئے کہ آپ کا وجود حضرت مریم ؑ کے وجود کی طرح ہے۔ دوسرے لفظوں میں ہمیشہ ان کے کردار اور طرزعمل کو راہنما کے طور پر اپنے سامنے رکھیں۔اللہ تعالیٰ نے حضرت مریم ؑ کے بارے میں قرآن مجید میں مختلف مقامات میں ذکر فرمایا ہے۔ مثال کے طور پر سورة التحر یم کی آیت 13میں انہیں ان الفاظ میں یاد فرمایا :” اَلَّـتِیْٓ اَحْصَنَتْ فَرْجَھَا فَنَفَخْنَا فِیْہِ مِنْ رُّوْحِنَا “ جس کا مطلب یہ ہے کہ وہ عورت جس نے اپنی عصمت اور عزت کی حفاظت کی تو ہم نے اس میں اپنی روح میں سے کچھ پھونکا۔اس لئے اس میں کچھ شک نہیں کہ ہر مومن عورت کے لئے لازم ہے کہ اگر وہ اللہ تعالیٰ کی برکات حاصل کرنا چاہتی ہے اور اس کا قرب چاہتی ہے تو وہ اپنی عصمت اور عزت کی حفاظت کرے۔
بہر حال ہر واقفۂ نو ایک مثال ہے اور دوسری لڑکیوں کے لئے پیروی کرنے کے لئے ایک رول ماڈل ہے۔ اور انہیں چاہئے کہ وہ دوسروں کی حیا، عصمت اور عزت کرنے میں رہنمائی کریں ۔ پس وہ طرز جس میں آپ اپنی زندگی کو ڈھالتی ہیں اور وہ دوستیاں جو آپ بناتی ہیں وہ سب اللہ تعالیٰ کے حکموں کے مطابق ہوں۔ چاہے آپ یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کر رہی ہوں یا کسی کالج میں کسی بھی دوسری جگہ میں آپ کا کردار اعلیٰ ترین د رجہ کا ہونا چاہئے۔ خاص طور پر لڑکوں اور مردوں سے واسطہ پڑنے پر آپ کا طرزعمل ایسا ہونا چاہئے کہ فوری طور پر وہ یہ سمجھ جائیں کہ باوجود اس کے کہ اس لڑکی نے اس سوسائٹی میں زندگی گزاری ہے یہ لڑکی کسی بھی غیر اخلاقی، بیہود ہ اور ناپسندیدہ اعمال میں ملوث نہیں ہوگی جو کہ عموماََ آج کی سوسائٹی میں نظر آتے ہیں۔ پس کوئی مرد آپ کی طرف نا پاک طریق سے نہ دیکھ سکے۔ بلکہ آپکا طرز عمل ایسا اعلیٰ ہونا چاہئے کہ وہ آپ کی عزت اور احترام کرنے پر مجبور ہوجائے۔

 

ہمیشہ سچ بولیں
حضرت مریم ؑ کی ایک دوسری بڑی خوبی جو کہ قرآن کریم میں بیان کی گئی ہے وہ یہ ہے کہ وہ صدیقہ تھیں۔ صدیقہ سچ بولنے والی عورت کو کہتے ہیں۔ انہیں ایک سچی عورت کے طور پر پیش کرتے ہوئے قرآن مجید ان کے انتہائی اعلیٰ اخلاقی معیار کی طرف اشارہ کرتا ہے اور تمام جھوٹے الزامات کی تردید کرتا ہے جو کہ ان پر یہودیوں کی طرف سے لگائے گئے۔ جب اللہ تعالیٰ نے اس طرح واضح طور پر فرمادیا کہ حضرت مریم ؑ ایک سچی عورت تھیں تو پھر چاہے تمام دنیا آپ کے خلاف بولے وہ سب غلط ہوں گے اور جو حضرت مریم ؑ نے کہاوہی سچ ہوگا۔ یہ اس لئے کہ آپ کے دل میں ہمیشہ خدا کا خوف تھا اور آپ نے کبھی بھی ایک چھوٹا سا جھوٹ بھی نہیں بولا۔ یہ وہ سچائی کا معیار تھا جو کہ Hannaنے دکھایا جو کہ عمران کی عورت تھی جس نے اپنا بچہ جو ابھی پیدا نہ ہوا تھا اللہ تعالیٰ کی خدمت کے لئے وقف کر دیا۔ اس لئے حضرت مریم ؑ نے اپنی والدہ کا کیا ہوا عہد نہایت اعلیٰ طریق پر پورا کر دکھایا۔
آپ سب واقفاتِ نو جو میرے سامنے بیٹھی ہیں ان عورتوں کی بیٹیاں ہیں انہوں نے بھی اللہ تعالیٰ سے وعدہ کیا جب انہوں نے آپ کو وقفِ نو کی تحریک میں پیش کردیا جو کہ خلیفۂ وقت نے جاری کی تھی۔ اور اب آپ نے خود اس عہد کی تجدید کی ہے۔ اس لئے آپ کو بھی اسے ہمیشہ سچائی اور ایمانداری کے راستے پر چلتے ہوئے پورا کرنا چاہئے۔ آپ کا ہر عمل مکمل سچائی پر اور خدا تعالیٰ کے خوف پر مبنی ہونا چاہئے۔ جو آپ کریں یا کہیں وہ یہ ظاہر کرے کہ آپ ایک واقفۂ نَو ہیں۔ آپ ایک صدیقہ ہیں جو کہ مکمل طور سچاوجود ہیں کیونکہ آپ ایک واقفۂ نو ہیں۔ جو بھی ہو آپ سچ بولنے والی کی حیثیت سے پہچانی جائیں ۔
جب آپ یہ اعلیٰ معیار حاصل کرلیں گی صرف تب آپ اپنا عہد پورا کرنے والی ہوں گی جو کہ آپ نے خلیفۂ وقت سے باندھا ہے۔ آپ کوہمیشہ یاد رکھنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ نے جھوٹ کو شرک کے برابر قرار دیا ہے جو کہ اس کے ساتھ شریک بنانے کو کہتے ہیں۔ وہ جو سچ نہیں بولتا وہ ہر معاملے میں شرک کر رہا ہے اور اس لئے وہ کبھی بھی اللہ تعالیٰ کی برکات کا وارث نہیں ہو سکتا۔ اس لئے آپ اپنی زندگی کے ہر معاملہ میں کامل سچائی کو اپنائیں چاہے شادی سے پہلے یا پھر شادی شدہ زندگی شروع کرنے کے بعد۔ اب کافی تعداد واقفاتِ نوکی ایسی ہے جو شادی شدہ ہیں ۔اور خاص طور پر آ پ کی ازدواجی زندگی میں سچائی کا اظہار نہایت ضروری ہے۔یقینًاشادی کے بعد اپنے خا وند اور سسرال کے ساتھ تعلق میں سچائی میں معمولی کمی بھی نہیں آ نی چاہئے۔

 

حقیقی مومن کو اللہ تعالیٰ بے حساب دیتا ہے
اگر ہم حضرت مر یم ؑ کی زندگی کو دیکھتے ہیں تو اس وجہ سے کہ آپ اخلاص کے ساتھ اﷲتعا لیٰ کی عبادت کرتی تھیں اور اس کے ساتھ ایک خاص تعلق قائم کر چکی تھیں۔آپ اﷲ تعا لیٰ کی جناب سے بہت نوازی گئیں۔آپکی تمام ضرورتیں اﷲ تعالیٰ خود پوری فرماتا تھا۔ اسلیئے آپ بے شمار چیزوں اور برکات کی وارث بنیں جو غیب سے نازل ہوئیں۔جب آپکے نگران حضرت ز کر یاؑ آپ سے دریافت فرماتے کہ یہ کہا ں سے آئیں؟ تو آپ ہمیشہ یہ جواب دیتیں کہ اِنَّ اللّٰہَ یَـرْ زُقُ مَنْ یَّـشَـآ ءُ بِغَـیْـرِ حِسَابٍ کہ یقینًا اﷲتعالیٰ جسے چاہتا ہے بے حساب دیتا ہے۔پس ایک حقیقی مو من کی ایک اور نشانی یہ ہے کہ اﷲتعالیٰ اسے بے حساب دیتا ہے اور اس کی تمام ضرورتیں پوری کر تا ہے۔ اسی طرح آپ کو یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ اگر آپ اﷲ تعا لیٰ کے ساتھ ایک مضبوط تعلق قائم کر یں گی تو وہ آپ کو ایسے طریقوں سے عطا کرے گا جن کے متعلق آپ سوچ بھی نہیں سکتیں۔وہ تمام چیزیں اور ضرورتیں جن کی آپ محتاج ہوں گی وہ خود اﷲ تعالیٰ کی طر ف سے پوری کی جائیں گی۔جب آپ اس مقام پر پہنچیں گی توآپ کی آنکھیں دنیا وی خوبصورتیوں کی طر ف مائل نہیں ہوں گی اور آپ کبھی دوسرے دنیاوی لوگوں کی دولت اور مال پر حسد نہیں کرے گی۔بلکہ خداتعالیٰ سے اپنے تعلق کی وجہ سے ایک اطمینان اور سکون سے آپ کا دل بھر جائے گا۔اور یہی ایک واقفۂ نو کا طرۂ امتیازہو نا چاہئے۔اگر آپ کو خود میں یہ سکو ن حاصل ہے اور دوسروں کی دنیاوی وجا ہت کی طر ف آپ مائل نہیں بلکہ آپ کی تمام خواہشات اﷲ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے ہوں تو آپ حقیقی طور پر اس کی رضا کی وارث بن جائیں گی۔یہ اس لئے ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے مومنوں سے یہ وعدہ کیا ہے کہ وہ ا نہیں ایسے ذریعوں سے مہیا کرے گا جن کا وہ گمان بھی نہیں کر سکتے۔ پس اگر آپ کو وقتی آزمائشیں در پیش ہوں اور آپ انہیں اﷲ تعالیٰ کے لئے خوشی سے بر داشت کریں اور صرف شکر گزاری کا اس کے سا منے اظہار کریں چا ہے جو بھی صورتحال ہو تو اس میں کچھ شک نہیں کہ اﷲ تعالیٰ کی بر کات آپ پر نازل ہوں گی۔ اسلیئے واقفاتِ نو کی ممبر ہونے کی حیثیت سے آپ کو ہمیشہ یاد رکھنا چاہے کہ بے شک آپ اس دنیا سے ہیں مگر آپ کا دنیا پر ستی کے ا مور سے کوئی واسطہ نہیں۔
جب آپ یہ روح پیدا کر لیں گی تو پھر آپ یہ سمجھ سکتی ہیں کہ آپ نے اپنے والدین کا کیا ہوا وعدہ پورا کر دیا ہے۔ اور آپ اس نیک اور پاکباز عورت کی مثال کی پیروی کر نے والی ہوں گی جس کی مثال آپ کے سامنے رکھی گئی تھی۔جب آپ نے اپنے آپ کو اﷲ تعالیٰ کے لئے وقف کیا اور پھر آپ کا وقف آپ کی خدا سے محبت کی گواہی دے گا۔اور یقینًاآپ کی اعلیٰ اخلاقی تر بیت کی وجہ سے ہزاروں عیسیٰ پیدا ہوں گے جو مسیح محمدی کی اقتداء میں معاشرہ کی رو حانی بیماریوں اور پر یشانیوں کے علاج مہیا کر یں گے جنہوں نے دنیا کو اپنے شکنجے میں لیا ہوا ہے۔

 

واقفاتِ نو دوسروں کے لئے رول ماڈل بنیں
حضرت مریمؑ کوجو اعلیٰ مقا م اﷲتعالیٰ نے عطا فرمایا وہ اس طرح بھی ظا ہر ہوتا ہے کہ آپ ان دو عو رتوں میں سے ایک ہیں جن کا قرآن کر یم میں حقیقی مومن کے طو رپر نام کے ساتھ ذکر کیا گیا ہے۔آپکی نیکی نے انہیں تمام مومنوں کے لئے رول ماڈل بنا دیا۔
آپ سب کو یہ یاد رکھنا چا ہئے کہ یہ کا فی نہیں کہ آپ کا کردارایسا ہو کہ دوسر ے آپ پر الزام نہ لگا سکیں بلکہ اس سے بڑھ کر آپ کو ایسے اعلیٰ اخلاق اپنا نے چاہئیں کہ آپ کا طر زعمل دوسروں کے لئے ایک خوبصورت قابل تقلید مثال بن جائے۔
اس لئے اپنی عبادت کے اعتبار سے آپ کو سب کے لئے رول ماڈل ہو نا چا ہئے۔ اپنی سچا ئی کے اعتبار سے آپ کو سب کے لئے رول ماڈل ہونا چاہئے۔اﷲ تعالیٰ پر اپنے توکل کے اعتبارسے آپ ہر ایک کے لئے ایک رول ماڈل ہوں۔اور اپنی پاکبازی اور عفّت کے اعتبار سے آپ ہر ایک کے لئے ایک رول ماڈل ہوں۔اسی طرح آپ کو بے فائدہ اور وقت ضائع کرنے والی مصروفیات سے دُور رہنے میں ایک مثال قائم کر نی چا ہئے۔ اور ان سے کسی بھی طرح متَاثر نہ ہوں۔اور آپ کا کسی بھی ناپسندیدہ فیشن اور رواج کی طرف رجحان نہیں ہونا چاہئے۔کہا جاتا ہے کہ لڑکیوں کو فیشن کی ضرورت ہو تی ہے اور ان کے فیشن کے لئے بعض پروگرام ہونے چاہئیں لیکن آپ کو ان سے دُور رہنا چاہئے۔
جب آپ ان تمام خو بیوں کو اپنا لیں گی تو آپ صرف ایک ایسا وجود نہیں ہوں گی جس کے اخلاق اعلیٰ معیار کے ہوں گے بلکہ آپ آئندہ نسلوں کے اخلاق اور تقویٰ کی ضامن ہوں گی۔اسی لئے ہر وقت اﷲ تعالیٰ کو اپنے سا منے رکھیں اوران تمام چیزوں سے دُوررہیں جو اُسے پسند نہیں ۔
ہمیشہ خلافت سے وفا کا تعلق قائم ر کھیں اور اس کی حفا ظت اور استحکام کے لئے ہر قسم کی قربانی کے لئے تیار رہیں آپ جمعہ کے خطبوں کوغور سے سنا کریں اور خلیفۂ وقت کی دوسری تقریروں کو بھی۔ اوران پر ہر ممکن عمل کرنے کی کوشش کریں۔اﷲ تعالیٰ آپ کو ایسا کر نے کی تو فیق عطا فرمائے۔

 

چھوٹی بچیوں کو زریں ہدایات

نمازوں کی ادائیگی: وہ چھوٹی بچیاں جو میرے سا منے یہاں بیٹھی ہیں انہیں مَیں یہ کہنا چا ہوں گا کہ آپ میں سے جو دس سال اور اس سے زیادہ عمرکو پہنچ گئی ہیں آپ کو نمازوں کی ادائیگی میں باقاعدہ ہو نا چاہئے۔ یہی حکم بڑی لڑکیوں کے لئے بھی ہے۔ اگر ظہر اورعصر کا وقت سکول کے دوران آئے توا نہیں وقت پر ادا کرنیکی پوری کوشش کریں۔جب موسم سر ما میں دن چھوٹے ہو جائیں تو یہ خدشہ ہو تا ہے کہ نماز ادا ہونے سے رہ جائے اسلئے اس سے بچنے کا خاص خیال رکھیں اور اپنی نمازوں کو وقت پر ادا کرنی کی پوری کوشش کریں۔


تلاوت قرآن کریم: اسی طرح جیسے قرآن کریم کا پڑھنا بڑی بچیوں کے لئے لازمی ہے ویسے ہی چھوٹی بچیوں کے لئے بھی لازمی ہے۔مزید یہ کہ اس کا تر جمہ پڑھنا بھی ضرور ی ہے تاکہ آپ اﷲ تعالیٰ کی تعلیما ت اور احکا مات کو سمجھ سکیں اور پھر آپ کواﷲ تعالیٰ کی تعلیما ت پر عمل پیرا ہو نے کی ہر ممکن کو شش کر نی چا ہئے ۔


سکول کی پڑھائی: اپنے سکولوں میں آپ کو اپنی پڑ ھا ئی کی طر ف پو ری تو جہ دینی چایئے تا کہ آپ مکمل طور تعلیم یا فتہ بن سکیں جو کہ جماعت کو حقیقی طور پر فائدہ پہنچا سکیں ۔ آپ کی آئندہ کی پڑھائی کی فیلڈ کے متعلق آپ کو چاہئے کہ آپ خلیفۂ وقت سے ،وقفِ نو ڈیپارٹمنٹ کے ذریعے راہنمائی حاصل کریں اور جو بھی رہنمائی آپ کو ملے اس کی پیروی کریں۔


والدین کا احترام: آپ ہمیشہ اپنے والدین کی عزت اور ا حترام کر یں اور آپ کو اپنے بہن بھا ئیوں سے ہمیشہ پیار اور محبت کا سلوک کر نا چاہئے۔ آپ کو اپنے بڑوں کا احترام کر نا چاہئے۔


سکول میں نمونہ: سکو ل میں اپنے اچھے رویہ کی بنا پر آپ کوا یسی انفرادیت حاصل ہو کہ اسا تذہ اور طلباءآپ کو ایسے رول ماڈل کے طو ر پر دیکھیں، جسے وہ دوسروں کے لئے مثال کے طو ر پر پیش کریں۔ اﷲ تعالیٰ آپ کو اس کے حصو ل کی توفیق عطا فر مائے۔

 

ماؤں کو زریں ہدایات
ان ماؤں سے جو یہاں مو جود ہیں،مَیں یہ کہوں گا کہ آپکو چاہئے کہ آپ اپنے وقفِ نو بچوں کی اخلاقی تربیت کیلئے رول ماڈل بنیں۔اس لئے ہمیشہ اچھی زبان ا ستعمال کریں،کبھی کوئی ایسی بات نہ کر یں جو نظامِ جماعت کے خلاف ہو ۔اور آپ کے وہ بچے جو وقفِ نو نہیں ہیں ان سے بھی نہا یت احترام کا سلو ک کر یں اور ان کی تربیت کی طر ف پوری تو جہ کریں۔اگر آپ اس کی طر ف تو جہ کریں گی تو آپ کے وقفِ نو بچوں کی تر بیت اور اخلاق میں فطر تًابہتری پیدا ہو گی۔گھر میں تربیت کااصل سر چشمہ ما ں ہے اس لئے اپنے عہد کو جو آپ نے کیا ہے پورا کرنے کےلئے آپ کو چاہئے کہ اپنے بچوں کو اعلیٰ اخلاقی تر بیت دیں۔

جب کوئی اپنے پیا روں کو کوئی تحفہ دینا چا ہتا ہے تو وہ خواہش رکھتا ہے کہ تحفہ نہایت عمدہ اور خوبصورتی کے ساتھ آراستہ کیا گیا ہو۔اسی طر ح جب آپ اپنے بچے جماعت کو پیش کرتے ہیں تو انہیں اعلیٰ تر ین اخلاقی تربیت اور رہنمائی دے کر پیش کریں۔وقفِ نو بچوں کی مائیں اپنے بچوں کو جماعت کے لئے وقف کر نے کا عہد تب ہی پورا کر سکیں گی جب وہ ہمیشہ دعاؤں میں مشغو ل رہیں گی اور ہمیشہ اپنے بچوں کی اخلاقی تربیت کی طرف متو جہ رہیں گی۔اﷲ تعالیٰ ماؤں کو ایسا کر نے کی تو فیق عطا فر مائے۔

بعض مائیں شا ید پوری طر ح انگلش نہ سمجھ سکتی ہوں ان کیلئے مَیں بتا دوں کہ وقفِ نو کی ماؤں کا یہ فرض ہے کہ اپنے تمام بچوں کی تر بیت ا چھی طرح کریں چا ہے وہ وقفِ نو ہے یا وقفِ نو نہیں ہے۔اور تربیت کا بہترین طر یقہ یہ ہے کہ زبا ن ہمیشہ ا چھی ہو نی چا ہئے۔ کبھی غصہ میں بھی اس قسم کی زبان بچوں کے لئے استعمال نہ کر یں یا بچوں کے سامنے نہ کریں جس سے بچو ں کی تر بیت خراب ہو تی ہو۔کبھی نظا مِ جماعت کے متعلق تبصرے یا باتیں گھر وں میں بیٹھ کر نہ کریں اس سے بھی بچوں کی تربیت پر اثر پڑتا ہے۔ ہمیشہ تربیت کے پہلو مدّنظر ر کھتے ہوئے اپنے تمام بچوں کوسا منے رکھیں۔یہ نہیں کہ صر ف وقفِ نو بچوں کی تر بیت کر نی ہے اور باقیوں کی نہیں کر نی اور اپنی مثال اگر قائم کر یں گی، اپنے آپ کو بچوں کے لئے ایک نمو نہ بنائیں گی، ایک رول ماڈل بنا ئیں گی تبھی بچے صحیح طر ح اپنی تر بیت کر سکیں گے اور آپ سے تربیت حاصل کر سکیں گے ۔
یہ ہمیشہ یاد ر کھیں کہ آپ نے ایک عہد کیا تھا خلیفۂ وقت کے سا تھ اور جماعت کے ساتھ کہ اپنے بچوں کو دین کی خد مت کے لئے وقف کر نا ہے اور یہ عہد جو ہے یہ ایک طرح آپ نے خدا تعالیٰ سے کیا ہے۔ دنیا میں بھی آپ دیکھیں اگر کسی پیارے کو تحفہ دینا ہو تو اس کو بڑا سجاکردیا جاتا ہے پس اﷲ تعالیٰ کو بھی،خلیفۂ وقت کو بھی ، جماعت کو بھی جو تحفہ آپ نے دینا ہے وہ سجا کر دیں اور وقفِ نو بچوں کا سجاکر تحفہ دینا یہ ہے کہ ان کی اچھی اور بہترین تر بیت کریں۔ﷲ تعالیٰ سب کو اسکی تو فیق عطا فرمائے۔
اب ہم دعا کریں گے۔آپ سب میرے ساتھ دعا میں شا مل ہو جائیں۔


(روزنامہ الفضل ربوہ 10 اکتوبر 2012ء۔ جلد 62-97 نمبر 236۔ صفحہ 3 تا 5)

خطاب برموقع سالانہ اجتماع واقفینِ نو یوکے 6 مئی 2012ء

تحریک وقف نو کے پچیس سال

 الحمد للہ کہ آج آپ اپنا واقفینِ نو کا سالانہ اجتماع منعقد کر رہے ہیں۔ اس سال کا اجتماع اس لئے بھی زیادہ اہمیت کا حامل ہے کہ پورے پچیس سال پہلے یہ تحریک حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ؒ نے جاری فرمائی تھی۔ یہ سال اس تحریک کی سلور جوبلی کا سال ہے۔ اللہ تعالیٰ اس اجتماع کو آپ سب کے لئے ڈھیروں برکتوں کا موجب بنائے۔ آمین

 

واقفینِ نو جماعت کا خاص حصّہ
آپ کو ہمیشہ یاد رکھنا چاہیئے کہ آپ جماعت کا وہ حصّہ ہیں جن کے والدین نے خدا تعالیٰ سے ایک عہد باندھا ہے کہ آپکی زندگیاں جماعت کی خدمت کے لئے وقف ہیں۔ اس لئے ہمیشہ اپنی اہمیت کو پہچانیں اور سمجھیں اور کبھی بھی اس عہد کو نہ توڑیں جو آپ کے والدین نے باندھا تھا۔ دوسرے الفاظ میں آپ کے والدین نے حضرت مریمؑ کی والدہ حنّا کی مثال کی پیروی کی۔ وہ حقیقی قربانی جو انہوں نے دی اور جو مثال انہوں نے قائم کی اس کا ذکر سورۃ آل عمران آیت 36 میں کیا گیا ہے جہاں بیان ہوا ہے یعنی: یاد کرو جب عمران کی عورت نے یہ کہا کہ اے میرے ربّ میں نے اسے تیری نذر کیا جو بھی میرے پیٹ میں ہے کہ وہ تیری خدمت کے لئے وقف ہو۔ پس مجھ سے قبول فرما۔ بیشک تو ہی بہت سننے والا اور صاحب علم ہے۔

 

تجدیدِ عہد
آپ میں سے بہت سارے یا تو 15 سال کے ہیں یا اس سے بڑے۔ آپ نے اس عہد کی تجدید کرنے اور خود کو جماعت کی خدمت کے لئے وقف کرنے کا عہد کیا ہے۔ پس اس عہد کو پورا کرنے کے لئے جو کہ دراصل آپ کے والدین نے کیا تھا ایک بار جب آپ اپنی تعلیم مکمل کر لیں تو آپ پر لازم ہے کہ آپ خود کو باضابطہ طور پر جماعت کی خدمت کے لئے پیش کر دیں۔

 

خدمت کے لئے خود کو پیش کرنا
پہلے ہی آپ میں سے ایک حصّے نے جامعہ احمدیہ میں داخلہ لے لیا ہے اور اس طرح اسلام کی خدمت کا وعدہ کرنے کے بعدخود کو اس عظیم مقصد کے لئے تیار کر رہے ہیں۔ انشاء اللہ اس سال مبلغین کا پہلا گروپ یوکے جامعہ سے فارغ التحصیل ہو گا اور اس طرح اپنے اس عہد کو پورا کرنے کی کوشش کریں گے جو دراصل ان کے والدین نے کیا تھا اور جس کی تجدید بعد میں انہوں نے خود کی۔ پس میں دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ ان سب کو ایسا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
بہرحال جامعہ میں پڑھنے والوں کے علاوہ بہت سارے ایسے واقفینِ نو بھی ہیں جو دوسرے علوم حاصل کر رہے ہیں۔ اس لئے آپ کو ہمیشہ یاد رکھنا چاہیئے کہ آپ صرف اس وقت خود کو حقیقی طور پر واقفین میں شمار کر سکیں گے جب آپ اپنی پڑھائی مکمل کر کے خود کو جماعت کی خدمت میں پیش کر دیں گے۔

 

پروگراموں میں غیر حاضری
مجھے یہ سن کر بہت افسوس ہوا ہے کہ آج بہت سارے ایسے واقفینِ نو جن کی عمر 15 سال سے زیادہ ہے وہ اس اجتماع میں شامل ہونے کے لئے نہیں آئے۔ وقفِ نو کی انتظامیہ، سیکریٹری صاحب وقفِ نو ان سے رابطہ کریں اور اگر وہ دلچسپی نہیں رکھتے یا ان کو اب دلچسپی نہیں رہی تو ان کا نام واقفینِ نو کی فہرست سے نکال دیا جائے۔ یا مَیں یہ کہوں گا کہ وہ لازمی طور پر معذرت نامہ لکھ کر پیش کریں ورنہ ان سے کوئی عذر تسلیم نہیں کیا جائے گا۔


تعلیم کے سلسلہ میں جماعت سے رہنمائی
اپنے میٹرک کے امتحانات کے فوراً بعد آپ کو جماعت سے رہنمائی لینی چاہیئے کہ مستقبل میں کون سے مضامین یا راستہ آپ کو اپنانا چاہیئے۔ جب آپ یہ کریں گے تو خلیفۃ المسیح کی رہنمائی کے مطابق وقفِ نو کا شعبہ اس بات کو مدنظر رکھتے ہوئےکہ جماعت کے لئے کیا فائدہ مند ہے آپ کو بتائے گا کہ کون سی مزید تعلیم آپ کو حاصل کرنی چاہیئے۔
بعض وقفِ نو بچوں سے جب یہ پوچھا جاتا ہے کہ وہ کیا کر رہے ہیں؟ وہ یہ جواب دیتے ہیں کہ وہ کسی ہوٹل یا ریسٹورنٹ میں مینیجر ہیں یا کام کر رہے ہیں یا بعض یہ کہتے ہیں کہ ان کی کسی خاص شعبے یا کام میں دلچسپی ہے جو کہ اگر ہم دیکھیں تو جماعت کے لئے کسی طرح بھی فائدہ مند نہیں ہوتا۔ اگر ایسے واقفینِ نو بچے انہیں شعبوں میں کام کرنا چاہتے ہیں تو انہیں وقفِ نو کی تحریک سے علیحدہ ہونے کی اجازت لے لینی چاہیئے۔ پھر ان کا نام فعال واقفین کے رجسٹر سے نکالا جا سکتا ہے۔ ایسی صورت میں یہ بہتر ہو گا کہ ایسا واقفِ نو بذاتِ خود اجازت لے اور پھر اس پڑھائی کو جاری رکھے جسے وہ جاری رکھنا چاہتا ہے یا اگر وہ چاہتا ہے تو ہوٹل میں کام کرنا شروع کر دے۔ اس کے لئے بہت بہتر ہوگا کہ وہ خود ہی چھوڑ دے بجائے اس کے کہ وہ خاموشی سے کسی آئل فرم میں کام کرنا شروع کر دے یا خاندانی بزنس میں نوکری شروع کر دےاور دوسری طرف جماعت یہ سمجھتی رہے کہ وہ ایک واقفِ زندگی ہے جو کہ اپنی تعلیم مکمل کرنے کے بعد خود کو جماعت کی خدمت میں پیش کر دے گا۔

 

وقفِ نو کی حقیقی روح
پس وہ جو وقفِ نو کی تحریک میں شامل رہنا چاہتے ہیں انہیں ہمیشہ یاد رکھنا چاہیئے کہ ان پر لازم ہے کہ وہ ایک حقیقی واقفِ زندگی کی روح کے مالک ہوں جس کا لفظی مطلب یہ ہے کہ ایک زندگی وقف کرنے والا۔ اپنی زندگی وقف کرنے کی یہ روح آپکے لئے لازمی ہے تاکہ آپ اپنے والدین کا کیا ہوا عہد پورا کر سکیں جو انہوں نے حضرت مریم ؑ کی مثال کی پیروی کرتے ہوئے باندھا اور جس کی آپ نے خود تجدید کی ہے۔
اس روح کو حاصل کرنے کے لئے یہ لازمی ہے کہ آپ اپنی زندگی میں جو بھی کریں وہ مکمل طور پر خدا تعالیٰ کے لئے ہو۔ اس لئے مَیں آپ سب پر یہ بالکل واضح کر دینا چاہتا ہوں کہ اگر آپ یہ سمجھتے ہیں کہ آپ اس روح کو قائم نہیں ر کھ سکتے تو ایسوں کے لئے بہت بہتر ہوگا کہ خود ہی وقفِ نو کی تحریک سے علیحدہ ہو جائیں۔ یہ بہت بہتر ہے اس سے کہ آپ خود کو اور اپنے والدین کو اور جماعت کو دھوکے میں مبتلا رکھیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جو عہد آپ نے اور آپ کے والدین نے باندھا ہے وہ کہیں زیادہ اہمیت کا حامل ہے اس عہد سے جو آلِ عمران کی عورت نے باندھا تھا جس کے متعلق مَیں نے شروع میں کہا تھا کہ وہ حضرت مریمؑ کی والدہ کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ ایسا اس لئے ہے کہ آپ نے اور آپ کے والدین نے آپ کی زندگیوں کو زمانہ کے مسیح کی خدمت میں قربان ہونے کے لئے پیش کر دیا ہے جو کہ ہمارے پیارے نبی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی غلامی میں آئے تھے۔ یقیناً میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بات کر رہا ہوں۔

 

دعوت الی اللہ کی ذمہ داری
آپ سب جو واقفینِ نو ہیں آپ پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مشن کے پھیلانے کی ذمہ داری ہے۔ پس یہ آپ کی ذمہ داری ہے کہ آپ تمام دنیا کی رہنمائی کریں اور تمام لوگوں کو خداتعالیٰ کی طرف لے کر آئیں۔ اور آنحضورصلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق اللہ تعالیٰ نے سورۃ الاعراف آیت 159 میں فرمایا ہے کہ : تُو کہہ دے کہ اے لوگو! مَیں تم تمام لوگوں کی طرف اللہ کی طرف سے رسول بنا کر بھیجا گیا ہوں جس کے لئے آسمانوں اور زمین کی بادشاہت ہے۔ کوئی معبود نہیں سوائے اس کے ۔ وہ زندگی دیتا ہے اور موت وارد کرتا ہے۔ اس لئے اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لاؤ جو کہ اُمّی نبی ہے جو اللہ اور اس کے کلمات پر ایمان رکھتا ہے اور اس کی پیروی کرو تا کہ تم ہدایت پا جاؤ۔
پس جسطرح ہمارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم تمام دنیا کی رہنمائی کے لئے مبعوث کئے گئے تھے اسی طرح مسیح موعود و امام مہدی علیہ السلام کو اسی مقصد کے ساتھ اور آنحضورصلی اللہ علیہ وسلم کی کامل فرمانبرداری میں مبعوث کیا گیا ہے۔


دین کو دنیا پر مقدم رکھنے کا عہد
اسی طرح وہ لوگ جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کوقبول کرنے کا شرف رکھتے ہیں اور انہوں نے اللہ تعالیٰ کی راہ میں اپنی زندگیاں وقف کی ہیں ان کا کام بھی کسی ایک سے مخصوص نہیں بلکہ پوری دنیا پر محیط ہے۔ بے شک یہ حقیقت ہے کہ ہر احمدی یہ عہد کرتا ہے کہ وہ دین کو دنیاوی امور پر ترجیح دے گا۔ لیکن ایک واقفِ نو کو یہ یاد رکھنا چاہیئے کہ جب وہ یہ عہد کرے تو اسے اس پر عمل بھی دوسروں سے کہیں زیادہ کرنا چاہیئے۔ جب یہ روح حقیقت میں آپ میں ظاہر ہو جائے گی تو آپ یہ سمجھ سکیں گے کہ آپکی زندگی کا مقصد خدا تعالیٰ کے دین کی خدمت کرنا ہے، نہ کہ اپنی کسی ذاتی یا دنیاوی خواہش کی تکمیل۔

 

دنیاوی تعلیم کا مقصد خدمت دین
بے شک یہ ضروری ہے کہ آپ دنیاوی علم اور تعلیم حاصل کریں لیکن آپ کو یہ ہمیشہ یاد رکھنا چاہیئے کہ ایسے علم کی تحصیل کا مقصد صرف یہ ہے کہ وہ آپ کو خدمت دین کرنے میں مدد دے سکے۔ جو تعلیم آپ حاصل کریں وہ مزید دنیاوی مقاصد کے حصول کے لئے استعمال نہیں کرنی چاہیئے جب تک کہ خلیفۂ وقت نے آپ کو جماعت سے باہر ایک مخصوص وقت کے لئے کام کرنے کی اجازت نہ دی ہو۔

 

آپ کو اپنی ذمہ داریوں کو سمجھنا چاہیئے
اور آپ کو یہ بھی یاد رکھنا چاہیئے کہ اپنی دنیاوی تعلیم کے ساتھ ساتھ یہ نہایت ضروری ہے کہ آپ دینی علم کے حصول کی کوشش بھی کریں۔ اپنی نماز کی حفاظت ایک واقفِ نو کی اوّلین ترجیح ہونی چاہیئے۔ اور اس کے لئے ضروری ہے کہ آپ اپنی پنج وقتہ نمازوں کو پوری توجہ اور اہتمام سے ادا کریں۔ آپ کو جتنا زیادہ سے زیادہ ممکن ہو نوافل کے ادا کرنے کی طرف بھی توجہ کرنی چاہیئے۔ آپ کو قرآن مجید کی روزانہ تلاوت کرنی چاہیئے اور اس کا ترجمہ اورگہرے مطالب سیکھنے چاہیئں۔ صرف قرآن کریم پڑھ لینا کافی نہیں بلکہ آپ کو اسے جو قرآن سکھاتا ہے عملی طور پر اختیار بھی کرنا چاہیئے۔ یہ تمام امور سب واقفین کے لئے ضروری ہیں۔ جب آپ یہ بنیادی باتیں پوری کر رہے ہوں گے تب ہی آپ اپنی اخلاقی تربیت ہونے دے رہے ہوں گے۔ اور تبھی آپ ایسا وجود سمجھے جائیں گے جس کا ہر عمل خدا تعالیٰ کی رضا کے حصول کی خاطر ہوگا۔ پھر آپ ایسا وجود بن جائیں گے جو خدا تعالیٰ سے حقیقی تعلق پیدا کرے اور آپ وہ ہونگے جو حقیقی طور پر اس کی محبت کے حصول کے لئے کوشاں ہوں گے۔ جب آپ اس مقام پر پہنچ جائیں گے تب آپ زمین کے کناروں تک حضرت محمدمصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے پیغام کی اشاعت کی تکمیل اور اس کی امداد کا ذریعہ بن جائیں گےجو کہ وہ عظیم مقصد تھا جس کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اس زمانے میں مبعوث فرمایا۔ پس آپ کو اپنی ذمہ داریوں کو سمجھنا چاہیئےجو کہ کوئی معمولی ذمہ داری نہیں ہے۔

 

تبلیغ کی ذمہ داری
ہماری جماعت میں تبلیغ کا کام صرف مبلغین کی ذمہ داری نہیں ہے بلکہ یہ جماعت احمدیہ کے ہر فرد کی ذمہ داری ہے اور خاص طور پر وقفِ نو کے ہر رکن کی۔پس آپ کو چاہیئےکہ آپ اپنی زندگیوں میں ایک مثبت تبدیلی اور انقلاب لے کر آئیں تا کہ لوگ فطری طور پر آپ کی طرف مائل ہو جائیں اور آپ کی باتوں کو شوق سے سنیں۔ اگر یہ ہو گا تو ایسے لوگ اسلام کی خوبصورت تعلیمات کی طرف مائل ہو جائیں گے۔ اور پھر وہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی امّت میں شامل ہو جائیں گے۔ اس لئے خلیفۃ المسیح کی اجازت سے چاہے جو بھی شعبہ آپ نے اختیار کیا ہو یا آپ نوکری کر رہے ہوں، آپ کو پھر بھی اس بات کا خیال رکھنا چاہیئےکہ آپ کے تقویٰ اور نیکی کے معیار ایسے ہوں کہ آپ کا وجود ایک مقناطیس کی طرح بن جائے جو دوسروں کو اپنی طرف متوجہ کر رہا ہو۔ اس لئے یہ ضروری ہے کہ آپ بے فائدہ اور وقت ضائع کرنے والے کاموں سے دور رہیں اور ان سے متاثر نہ ہوں۔ اسی طرح آپکو جدید فیشن اور رواجوں سے کوئی لگاؤ نہیں ہونا چاہیئے۔


ہمیشہ وقفِ نو کا عہد یاد رکھیں
ہمیشہ آپ اپنا وقفِ نو کا عہد یاد رکھیں اور یاد رکھیں کہ یہ عہد خدا تعالیٰ سے باندھا گیا ہے جو کہ غیب کا علم رکھنے والا ہے۔ اس سے کچھ بھی چھپا ہوا نہیں ہے۔ اور وہ آپ کے ہر عمل کو دیکھ رہا ہے۔ اس میں کچھ شک نہیں کہ آپ اللہ کی طرف سے پوچھے جائیں گے اور جو وعدہ آپ نے کیا ہے اس کے متعلق پوچھے جائیں گے اس لئے یہ ایک بہت بڑی ذمہ داری ہے جو کہ واقفینِ نو پر ڈالی گئی ہے۔ اس لئے اس عہد کو پورا کرنے کے لئے آپ کو اس کی اہمیت اور اصل مطلب سمجھنا چاہیئے۔ آپ میں سے بہت سارے جلد ہی عملی زندگی میں قدم رکھیں گے یا رکھ چکے ہیں اور جماعت کے لئے کام کرنا شروع کریں گے یا پہلے سے ہی شروع کر چکے ہیں۔ اس لئے آپ پر یہ لازم ہے کہ آپ روزانہ اپنا جائزہ لیں اور یہ دیکھیں کہ آیا آپ حقیقت میں اپنا عہد پورا کر رہے ہیں؟ کیا آپ اللہ تعالیٰ کے نزدیک ہو رہے ہیں؟ اور تقویٰ کی راہوں کو اختیار کر رہے ہیں؟ اگر اس سوالوں کا جواب نہیں میں ہے تو پھر جماعت کو آپ کے وقفِ نو ہونے سے کوئی فائدہ نہیں ہے۔

 

چھوٹی عمر کے واقفینِ نو کو نصائح
اب میں چھوٹی عمر کے واقفینِ نو سے کہتا ہوں کہ جو بارہ سال سے یا دس سال سے چھوٹی عمر کے ہیں ۔

نماز: میں آپ سب کو یہ یاددہانی کروانا چاہتا ہوں کہ جب آپ دس سال کی عمر کو پہنچتے ہیں تو نماز آپ پر فرض ہو جاتی ہے۔ اس لئے آپ کو چاہیئےکہ آپ اپنی تمام نمازیں ٹھیک وقت پر ادا کریں۔ جب آپ اسکول میں ہوتے ہیں تو آپ کو چاہیئےکہ اپنی نماز ادا کریں چاہے وہ بریک کے دوران کریں یا پھر چاہے آپ کو اپنے ٹیچر سے اجازت لے کر جانا پڑے۔ اگر نہایت مجبوری ہو تو آپ ظہر اور عصر کی نمازوں کو جمع کر سکتے ہیں مگر یہ ضروری ہے کہ آپ نماز کو اس کے ٹھیک وقت پر ادا کریں۔ ایک بات جو یاد رکھنی چاہیئےوہ یہ ہے کہ جب سورج غروب ہونے لگے تو نماز پڑھنا منع ہے۔ آج کل دن لمبے ہیں اس لئے ایک لمبا وقت ہوتا ہے جس میں نماز ادا کی جاسکتی ہے۔ اس لئے وقت آرام سے مل جاتا ہے لیکن خاص طور پر موسم ِسرما میں آپ کو اپنی نمازوں کی حفاظت کا بہت خیال رکھنا چاہیئے۔ اپنی نمازوں کی حفاظت کرنے کا مطلب یہ ہے کہ انہیں وقت پر ادا کیا جائے اور ٹھیک طریقے سے ادا کیا جائے۔

تلاوتِ قرآن مجید: اسی طرح یہ بھی نہایت ضروری ہے کہ ہر واقفِ نوقرآن مجید کی روزانہ تلاوت کرے۔ آپ کو اس کا ترجمہ بھی پڑھنا شروع کر دینا چاہیئے۔ یاد رکھیں کہ اس عمر میں آپ جو بھی سیکھیں گے وہ آپ کو آپ کی آئندہ زندگی میں فائدہ پہنچائے گااور آپکے ساتھ رہے گا۔

اطاعتِ والدین : ایک اور ضروری بات یہ ہے کہ آپ لازماً اپنے والدین کی اطاعت کریں اور یہ خوبی واقفینِ نو بچوں میں دوسرے بچوں سے کہیں زیادہ نمایاں ہونی چاہیئے۔آپ کو اپنے بہن بھائیوں سے پیار سے پیش آنا چاہیئے اور ان سے کسی قسم کی لڑائی اور جھگڑے سے بچنا چاہیئے۔ آپ کو اپنے دوستوں سے اچھا سلوک کرنا چاہیئے۔ آپ کو ہمیشہ بُری زبان اور گالیوں سے بچنا چاہیئے اور اس کی جگہ اچھی زبان کا استعمال آپ کے کردار کا نمایاں حصّہ ہونا چاہیئے۔

سکول کی پڑھائی اور نمونہ: اسکول کی پڑھائی میں آپ کو دوسرے بچوں سے بہتر ہونا چاہیئے۔ اس بات کا خیال رکھیں کہ آپ اپنا کام اپنی پوری صلاحیتوں کے مطابق کریں اور کلاس میں ہر وقت توجہ سے بیٹھیں۔ آپ کا رویہ اتنا اچھا ہونا چاہیئے کہ آپ کے ٹیچر آپ میں اور دوسرے بچوں میں فرق محسوس کر سکیں۔ اگر ایسا ہوگا تو آپ چھوٹی عمر میں ہی خاموشی کے ساتھ مگر بہت ہی مؤثر طریق سے ایک طرح کی تبلیغ کر رہے ہونگے۔

 

واقفینِ نو کے والدین کو نصائح
میں واقفینِ نو کے والدین کو بھی اپنے واقفینِ نو بچوں کی تربیت کے متعلق نصیحت کرنا چاہوں گا۔ انہیں اپنے تمام بچوں کی اخلاقی تربیت کی نگرانی کرنی چاہیئے اور صرف ان کی نہیں جو وقفِ نو کی تحریک کا حصّہ ہیں۔ یہ اس لئے ہے کہ اگر وہ صرف اپنے وقفِ نو بچوں کی تربیت پر توجہ دیں گےاور اپنے دوسرے بچوں کو فراموش کر دیں گے تو اس میں کچھ شک نہیں کہ اس کام کا واقفینِ نو بچوں پر بھی برا اثر پڑے گا اور نتیجۃً واقفِ نو اس معیار کو حاصل نہیں کر سکے گا جو ان سے توقع کیا جاتا ہے۔ اس لئے اپنے واقفینِ نو بچوں کی اعلیٰ اخلاقی تربیت کے لئے یہ لازمی ہے کہ آپ اپنے تمام بچوں کی اچھی طرح تربیت کریں۔ اسی طرح آپ کو یہ بھی یاد رکھنا چاہیئےکہ اگر آپ کا سب سے بڑا بچہ واقفِ نو ہے تو اگر آپ اس کی اخلاقی تربیت اچھے طور پر کریں گے تو وہ حقیقت میں اپنے چھوٹے بہن بھائیوں کے لئے اچھا نمونہ بن جائے گا۔ اس طرح وہ فطری طور پر اس کے اچھے اخلاق سے سیکھنے لگ جائیں گے۔ ہم سب یہ جانتے ہیں کہ نیک مخلص اور سچے بچے اپنے والدین کے لئے انمول خزانہ ہوتے ہیں۔ پس آپ کو متواتر اس خزانے کی حفاظت اور رہنمائی میں مشغول رہنا چاہیئے جو اللہ تعالیٰ نے آپ کو عطا کیا ہے۔
اللہ تعالیٰ تمام بڑے اور چھوٹے بچوں کو توفیق دے کہ جو کچھ مَیں نے ان سے کہا ہے وہ اسے سمجھیں اور نہ صرف سمجھیں بلکہ اس پر عمل بھی کریں۔ اور تمام واقفینِ نو کے والدین بھی اپنی ذمہ داریاں پوری کرنے والے ہوں۔ آمین

(روزنامہ الفضل ربوہ 12 اکتوبر 2012ء۔ جلد 62-97 نمبر 238۔ صفحہ 3 تا 5)