واقفین نو کی تعلیم و تربیت

وقف نو کلاسز جرمنی

واقفینِ نو کلاس جرمنی بتاریخ 2 ستمبر 2005ء

حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے بچوں سے دریافت فرمایا کہ انہیں جیب خرچ ملتا ہے ، کتنا ملتا ہے؟ اپنے جیب خرچ میں سے بچا کر ہیومینیٹی فرسٹ میں دیا کریں۔ افریقہ میں آپ سب بچوں کے جیب خرچ سے ایک کنواں لگ سکتا ہے۔ حضورِ انور نے فرمایا کہ دوسرے بچوں کو بھی تحریک کریں۔
حضورِ انور نے بچوں سے دریافت فرمایا کہ آپ دن میں کتنے کوک یا جوس کے ڈبے پیتے ہیں۔ اگر یہ قربان کر دیں تب بھی آپ افریقہ کی بہت خدمت کر سکتے ہیں۔ جرمنی کے ذمہ افریقہ کے دو ممالک ہیں جہاں ہیومینیٹی فرسٹ کام کر رہی ہے اور لوگوں کو پینے کا پانی مہیا کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔
اسی طرح حضور نے بچوں سے دریافت فرمایا کہ کتنے ہیں جو مربی بننا چاہتے ہیں۔ کتنے ڈاکٹر، وکیل اور کتنے انجینئر وغیرہ بننا چاہتے ہیں۔

(روزنامہ الفضل ربوہ 20 ستمبر 2005۔ جلد 55-90نمبر 210۔ صفحہ 4)

واقفاتِ نو کلاس جرمنی بتاریخ 3 ستمبر 2005ء

حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے بچیوں سے دریافت فرمایا کہ کتنی بچیاں سکولوں میں حجاب لیکر جاتی ہیں اور ان بچیوں کو کلاس میں حجاب لینے پر ٹیچر تنگ تو نہیں کرتے کہ سکول میں حجاب نہ لیا کرو۔۔۔۔ نیز فرمایا کہ جو بچیاں آج حجاب لے کر آئی ہیں وہ اب اسکو اُتار نہ دیں بلکہ اس پردہ پر اب قائم رہنا ہے۔
تعلیم کے متعلق حضور انورنے دریافت فرمایا کہ کتنی بچیاں ریال میں جاتی ہیں اور کتنی گمنازئیم میں ۔ حضور نے ارشاد فرمایا کہ بچیوں کو گمنازئیم میں جانے کی کوشش کرنی چاہیئے۔ اسی طرح حضورِ انور نے دریافت فرمایا کہ کتنی بچیاں ڈاکٹر، وکیل، ٹیچراور انجینئر بننا چاہتی ہیں۔ کلاس کے آخر پر حضورِ انور نے منتظمات کو ہدایت فرمائی کہ جو بچیاں ریسرچ میں شوق رکھتی ہیں وہ بائبل میں سے حوالے نکال کر ان پر ریسرچ کریں اور آپ اس کام میں ان کی مدد کریں۔


(روزنامہ الفضل ربوہ 22 ستمبر 2005 ۔ جلد 55-90نمبر 212۔ صفحہ 4)

واقفینِ نو کلاس جرمنی بتاریخ 9 جون 2006ء

اجتماع خدام الاحمدیہ جرمنی کے موقع پر پندرہ سال سے بڑے جامعہ احمدیہ میں جانے کے خواہش مند واقفینِ نو کے ساتھ منعقدہ ایک میٹنگ میں حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے ارشاد فرمایا کہ یوکے کا جامعہ تو انہیں Absorbنہیں کر سکتا۔ جرمنی والے اپنا جامعہ کھولیں۔ بچوں سے مخاطب ہو کر حضورِ انور نے فرمایا کہ جو کسی کے کہنے پر جامعہ میں جانے کا سوچ رہے ہیں وہ دوبارہ سوچ لیں۔ نیز دریافت فرمایا کہ کیا آپ سب نے سوچ سمجھ کر جامعہ میں جانے کا فیصلہ کیا ہے؟اسی طرح حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے استفسار فرمایا کہ کیا آپ سب نے وقفِ نو کا بانڈ Renew کر دیا ہے؟

بعد ازاں حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے پانچوں نمازیں وقت پر ادا کرنے، روزانہ کم از کم ایک رکوع کی تلاوت کرنے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب کا ایک صفحہ مطالعہ کرنے کی ہدایت فرمائی۔ فرمایا کتب پڑھتے ہوئے ساتھ نوٹس بھی بنایا کریں۔ خطبات باقاعدہ سنا کریں یہ سوچ کر کہ ان پر عمل بھی کرنا ہے۔ فجر سے پہلے کم از کم دو نفل پڑھا کریں۔ عشاء پر بھی دو نفل پڑھا کریں۔

حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے واقفینِ نو کو انٹرنیٹ پر بے وجہ کی CHATTINGاور بیکار Text Messages سے منع فرمایا۔ فرمایا کہ ایک گھنٹہ گیم بھی کیا کریں۔ پھر یہ کہ واقفینِ نو کا حلیہ بھی اچھا ہونا چاہیئے۔ سلجھی ہوئی ٹوپیاں پہنا کریں۔ فیشن کی بجائے دین پر توجہ دیا کریں۔

(روزنامہ الفضل ربوہ 26 جون 2006۔ جلد 56-91نمبر 139۔ صفحہ 4)

واقفاتِ نو کلاس جرمنی بتاریخ 29 اگست 2007ء

وہ پڑھائی کریں جس کا جماعت کو فائدہ ہو
ایک بچی نے آفس کے کام کے تعلق میں تین سالہ کورس کا بتایا۔ اس پر حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمایا کہ تم نے کس کا آفس چلانا ہے۔ تم تو واقفۂ نو ہو۔ اس کا کیا فائدہ ہو گا۔ واقفاتِ نو وہ پڑھائی کریں جس کا جماعت کو فائدہ ہو۔ جیسا کہ حضرت مصلح موعود ؓ نے بھی فرمایا تھا کہ عورتیں جو تعلیم حاصل کریں اس کو اپنی عملی زندگی میں استعمال کریں۔ بچوں کی تربیت کے لئے استعمال کریں۔ یہ نہیں کہ پڑھنے کے بعد آپ یہ کہیں کہ اب آفس میں نوکری کرنی ہے۔ایک طرف آپ وقف ہیں اور ایک طرف ایسی تعلیم حاصل کر رہی ہیں جس میں آپ کے وقف کا جو تقدس ہے جو ایک احمدی کا عموماً ہونا چاہیئے وہی قائم نہیں رہ سکتا۔ ۔۔ اگر آپ آفس میں جاؤ گی اور نوکری کرتی رہو گی تو تمہیں ایم ٹی اے یا اپنے حلقہ میں کام کرنے کا وقت کہاں ملے گا؟ اور پھر واقفِ زندگی نوکری کر ہی نہیں سکتی۔ وقف کا مطلب یہ ہے کہ تم اس طرح کام کرو جماعت کا جس طرح واقفِ زندگی مرد کرتے ہیں۔ وقفِ نو کا یہ مطلب نہیں ہے کہ وقفِ نو کی کلاس اٹینڈ کر لی اور پھر فارغ ہو گئے۔

 

ایک بچی سے حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے دریافت فرمایا کہ تم کیا کرو گی؟ بچی نے بتایا کہ مَیں ڈاکٹر بننےکا سوچ رہی تھی یا کیمسٹری یا میتھ کی تدریس کرنا چاہتی تھی۔ تو حضورِ انور نے فرمایا اب سوچنے میں وقت نہ گزاردو، ایک ارادہ کرو اور اس پر پکی ہو جاؤ۔


ایک بچی نے فارسی اور عربی میں اورئنٹل پڑھائی کے بارہ میں حضورِ انور سے رہنمائی لی جس پر حضورِ انور نے خوشی کا اظہار فرمایا کہ اچھا تم عربی سیکھنے کے لئے کسی عرب ملک جیسے مصر یا شام اور فارسی کے لئے ایران جاؤ۔ بچی کی وضاحت پر کہ جرمنی میں ہائیڈل برگ یونیورسٹی میں بھی یہ سہولت مہیا ہے حضورِ انور نے یہیں سے تعلیم حاصل کرنے کی ہدایت فرمائی۔ حضورِ انور نے فرمایا کہ فارسی کی بڑی کمی ہے۔ ہمیں بہت سی فارسی کتابوں کا ترجمہ کرنا ہے۔ اچھا ہے فارسی اور جرمن میں ترجمہ آسان ہو جائے گا۔


وکالت کی تعلیم حاصل کرنے کے متعلق پوچھنے پر حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا اس میں پریکٹیکل ٹریننگ لازمی ہے۔ کسی لائر کے ساتھ کام کرنا پڑے گا۔ کورٹ میں جانا پڑے گا، اس لئے لڑکیوں کے لئے لاء کی تعلیم حاصل کرنا فضول ہے۔

میڈیکل اور ٹیچنگ کی تعلیم حاصل کرنے کے متعلق حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا کہ یہ کریں۔ حضور کو ٹیچنگ کے بارہ میں بتایا گیا کہ خواتین اساتذہ پڑھاتے وقت سر پر سکارف نہیں لے سکتیں۔ حضورِ انورنے فرمایا کہ ٹیچنگ سیکھ لو، ہمیں واقفاتِ نو اُن کی یونیورسٹیوں کے لئے نہیں چاہیئں بلکہ ہمیں اپنے سکولوں کی لئے چاہیئں۔

جرنلزم کی تعلیم حاصل کرنے کے بارہ میں حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اجازت اس وضاحت کے ساتھ فرمائی کہ مضمون لکھنے کے لئے جرنلزم کی تعلیم حاصل کرنی چاہیئے۔

ایک بچی نے سائیکالوجی پڑھنے کے بارہ میں حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز سے رہنمائی حاصل کی۔ حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا کہ اچھی بات ہے پڑھو۔ سائیکالوجی پڑھنی چاہیئے۔ as a Subjectپڑھانے کے لئے بھی کام آسکتی ہے اور ویسے بھی سائیکالوجی پڑھ کر کچھ مضمون لکھ سکتی ہو تم۔ سائیکالوجی ٹیچنگ میں کام آ سکتی ہے، ٹریننگ میں کام آسکتی ہے ۔ بہت فائدہ ہے۔

اسی طرح ایک بچی نے حضورِ اقدس سے عرض کی کہ میرا انٹرسٹ کیمسٹری میں ہے کیا میں کر لوں؟ اس پر حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا اگر تمہارا انٹرسٹ کیمسٹری میں ہے تو کیمسٹری میں ماسٹر کرو تا کہ پڑھا سکو۔ پھر یہ ضروری نہیں کہ تمہیں جرمنی میں رکھا جائے ۔ کہیں بھی بھیجا جا سکتا ہے۔ چلی جاؤ گی نا؟ بچی نے جواب دیا ہاں جی حضور ضرور۔ حضورِ انور نے فرمایا چاہے افریقہ بھیج دیں یا پاکستان یا انڈیا یا ساؤتھ امریکہ بھیج دیں؟ بچی نے جواب دیا کہ بھیج دیں۔

 

جو بھی پڑھائی کرنی ہے جماعت کے لئے کرنی ہے
حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا ایک بنیادی چیز ہمیشہ یاد رکھو۔ لڑکیو! تم واقفاتِ نو ہواور جماعت کے لئے کام کرنا ہے پیسے کے لئے پڑھائی نہیں کرنی۔ اس لئے جو بھی پڑھائی کرنی ہے جماعت کے لئے کرنی ہے تاکہ جماعت کے کام آئیں اور اپنی جو آئندہ گھریلو زندگیاں ہیں ان کے کام آئیں۔ آئندہ نسلوں کے کام آئیں۔ اس لئے یہ نہ سمجھیں کہ ہم ڈگری لے لیں گی یا Ph.Dکر لیں گی یا ریسرچ میں چلی جائیں گی اور پھر ضرور ( اسی فیلڈ میں جا کر) وہی کام کرنا ہے۔ پیسے کمانے کی نیّت سے نہ پڑھو بلکہ علم حاصل کرنے کی نیّت سے پڑھوتاکہ اس سے آگے تم جماعت کو فائدہ پہنچا سکو۔ جماعت کی نسلوں کو فائدہ پہنچا سکو۔

 

(روزنامہ الفضل ربوہ 12 ستمبر 2007ء۔ جلد 57-92نمبر 208۔ صفحہ 3)

واقفینِ نو کلاس جرمنی بتاریخ 29 اگست 2007ء

واقفینِ نو کے لئے مضامین کا انتخاب:
یونیورسٹیوں میں بتدریج تعلیم حاصل کرنے کا رجحان گرنے اور خصوصاً میڈیکل کی تعلیم حاصل کرنے کے رجحان کا گراف گرنے کے تذکرہ پر حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا کہ احمدی طلباءکو یونیورسٹیوں میں زیادہ سے زیادہ داخلہ لینا چاہیئے۔ خاص طور پر یورپ کے احمدی سٹوڈنٹس آگے آئیں اور اس گیپ (Gap)کو پورا کریں۔

واقفینِ نو بچوں کو سول انجینئرنگ، آرکیٹیکچرل انجینئرنگ، الیکٹریکل انجینئرنگ، انفارمیشن ٹیکنالوجی اور انوائر مینٹل ٹیکنالوجی میں زیادہ آنے کی کوشش کرنی چاہیئے۔ سپیس(Space) ٹیکنالوجی کا مضمون بھی اچھا ہے۔۔۔۔ آپ کے لئے راستے کھل رہے ہیں اور اللہ تعالیٰ موقعے دے رہا ہے۔ اس سے فائدہ اٹھاؤ۔

نیچرل سائنس کے شعبہ جات جیو گرافی، کیمسٹری، فزکس، بائیالوجی، سٹیٹ ، میتھ اور اسٹرانومی کے تذکرہ پر حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا ٹیچنگ کے لئے یہ ساری چیزیں اچھی ہیں جس نے یہ کرنی ہیں وہ ماسٹرز کرے۔ جو بچے کم نمبر لیں وہ ٹیچنگ میں جا سکتے ہیں ۔ جو ریسرچ کا شوق رکھتے ہیں وہ ریسرچ میں جا سکتے ہیں ۔ سارے میدان کھلے ہیں۔ ایگرانومی، ووڈن ٹیکنالوجی، ووڈن ایکانومی، ہارٹیکلچر، ایگریکلچر، لینڈکیئر، سینری آرکیٹیکچر اور فارسٹری کے ذکر پر حضورِ انور نے فرمایاکہ اس میں اور بھی ہے۔ ایگرانومی، ایگریکلچر کی فیکلٹی ہے۔ ایگریکلچرجو ہے اسی میں ایگرانومی آجاتی ہے۔ اسی میں سوئل سائنس آجاتی ہے۔ اسی میں اینٹومولوجی آجاتی ہے اور اسی میں پلانٹ پروٹیکشن، پلانٹ پیتھالوجی آجاتی ہے۔ اسمیں بھی بہت ساری لائنیں ہیں۔ تو اس میں بھی پڑھنا چاہیئے۔تمہیں موقع مل رہا ہے پڑھنے کا اور ریسرچ میں آنے کا۔


واقفینِ نو کا حلیہ
حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے نصیحت فرماتے ہوئے فرمایا کہ ایک چیز اور یاد رکھو کہ واقفینِ نو لڑکوں اور دوسرے لڑکوں کی شکلوں اور حلیہ میں فرق ہونا چاہیئے۔ کیونکہ جس نے وقف کرنا ہے اس کی ظاہری حالت اور لباس اچھا ہونا چاہیئے لیکن فیشن کا اظہار زیادہ نہیں ہونا چاہیئے۔ بال بھی اچھی طرح بنے ہونے چاہیئں۔ جھومر جھومنٹ نکالنے نہیں چاہیئں۔ ٹوپی پہنی ہو اور بال بھی صحیح طرح کنگھی کی ہو۔ نظر آرہا ہو کہ یہ لوگ دوسرے لوگوں سے مختلف ہیں۔ واقف میں فرق ہونا چاہیئے۔ دوسروں سے تھوڑا سا سوبر نظر آئیں۔ یہ ساروں کے لئے مَیں کہہ رہا ہوں ۔ کیونکہ آپ لوگوں نے جماعت کے بہت سارے کاموں کی ذمہ داری اٹھانی ہے۔

 

تعلیم کے سلسلہ میں واقفینِ نو کی رہنمائی
حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے مختلف فیلڈز میں جانے والے بچوں کا جائزہ لینے کے بعد فرمایا کہ اس سال کوئی جامعہ میں جا رہا ہے جو میرے سامنے بیٹھے ہیں؟ یوکے کے جامعہ میں کوئی نہیں جا رہا؟ کیا جرمنی میں جامعہ کھلنے کا انتظار کر رہے ہو اگر انہوں نے ہمت کر کے کھول لیا؟

ایک بچے نے جس نے یونیورسٹی میں اکنامکس کے لئے درخواست دی ہوئی تھی جس کا داخلہ منظور ہونے پر یونیورسٹی کی طرف سے مطالبہ ہوا کہ اس سے پہلے سوشل ورک کرنا پڑے گا تو حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا کہ سوشل ورک کریں۔

ایک بچے نے حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کو بتایا کہ اس نے پولیٹیکل سائنس میں داخلہ لینا ہے۔ حضورِ انور نے فرمایا کہ اس کے بعد کیا کرو گے؟ بچے نے جواب دیا کہ کسی منسٹری میں کام ملے گا۔ حضورِ انور نے فرمایا کہ اس سے وقفِ نو کو کیا فائدہ ہو گا؟ وقف کا مطلب تو وقف ہے۔

 

وقفِ نو کا مطلب:
حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا وقف کا مطلب تو وقف ہے ۔ جو تصور تم لوگوں کو ہے نا اب تک، کہ ہم ماسٹرز کر لیں گے، یہ کر لیں گے وہ کر لیں گے۔ جو ریسرچ والے ہیں اُن کو تو ہم کچھ دیر تک اجازت دے سکتے ہیں ۔ ٹھیک ہے وہ ریسرچ کی فیلڈ میں جا رہے ہیں ۔ وہ ریسرچ کریں ۔ جو اچھے ریسرچ انسٹیٹیوٹ ہیں ان میں جائیں ، کام کریں تا کہ ایک نام پیدا ہو۔ اور کچھ پیشوں کو بھی اجازت دی جا سکتی ہے کہ مختلف جگہوں پر چلے جائیں تا کہ وہاں اپنا اثر قائم کر کے ایک واقفیت پیدا کریں ، رابطے زیادہ بڑھائیں۔ لیکن وہ فیصلہ ہر فرد کے لئے علیحدہ علیحدہ ہو گا۔ آپ لوگ جو واقفِ زندگی ہیں، آپ خود تو فیصلہ نہیں کر سکتے کہ ہم نے منسٹری میں جانا ہے یا فلاں جگہ جانا ہے۔ پڑھائی ختم کر کے آپ نے اپنے آپ کو پیش کرنا ہے کہ ہم نے وقف کیا ہوا ہے، بتائیے آپ نے ہمیں کہاں لگانا ہے؟ جرمنی میں رکھنا ہے، انڈونیشیا میں بھیجنا ہے، Pecific-Islandمیں یا ایشیا کے ملکوں میں بھیجنا ہے، ساؤتھ امریکہ میں بھیجنا ہے یا افریقہ میں بھیجنا ہے۔وقفِ نو کا یہ تصور ابھی تک وقفِ نو میں قائم ہی نہیں ہوا۔ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ جو جامعہ میں چلے گئے ہیں وہ تو ہو گئے جماعت کے، ایسے واقفینِ نو جماعت کی سروس میں آگئے اور جو دوسری فیلڈ میں جا رہے ہیں انہوں نے جماعت کی سروس نہیں کرنی۔ حالانکہ جماعت کو اب اپنی ہر فیلڈ میں لوگ چاہیئں۔ پھر جماعت کا یا خلیفۂ وقت کا فیصلہ ہو گا کہ آیا اجازت دینی ہے کہ ریسرچ کریں یا کسی اور ادارہ میں کام کریں۔ یا اگر کوئی جرنلزم کر رہا ہے تو اس کی صرف ٹریننگ کے لئے کسی اخبار میں کام کروائیں۔ یا (کسی کو) اچھی ٹریننگ دینے کے لئے کسی اچھے Financialادارہ یا کمپنی میں کام کروائیں۔ لیکن وہ ہر ایک کے بارہ میں الگ الگ فیصلہ ہو گا ۔ آپ لوگوں نے وقف کیا ہوا ہے۔وقف کا مطلب ہے کہ اب میں آگیا ہوں ، اب جہاں چاہیں لگا دیں۔ کیا تو میں نے ماسٹرز ہے، چاہے تو مجھے چپڑاسی لگا دیں یا کچھ اور لگا دیں یا جس کام میں بھی جماعت لے لے۔ یہ روح پیدا کرنی پڑے گی۔ یہ نہیں ہو گا کہ Ph.Dکر لی ہے، اجازت دیں کہ ہم دنیا داری کی نوکری کرتے رہیں۔ واقفین، جماعت کو اب ہر فیلڈ میں چاہیئں۔ آئندہ جو وقت آرہا ہے ہو سکتا ہے ریسرچ کا کوئی ادارہ جماعت کا اپنا ہو جائے۔ ٹیچنگ کے لئے بہت سارے چاہیئں۔ قانون میں چاہیئں۔ اکاؤنٹس میں چاہیئں۔ بزنس کے ماہرین چاہیئں اور اسی طرح مربیان چاہیئں۔آپ اپنی تعلیم مکمل کر نے کے بعد اپنے آپ کو پیش کرنا ہوگا۔ ٹھیک ہے۔ پتا ہے نا یہ؟ نہیں پتہ تو گھر جا کر مزید سوچ لینا پھر لکھ کر بتا دینا۔

 

(روزنامہ الفضل ربوہ 12 ستمبر 2007۔ جلد 57-92نمبر 208۔ صفحہ 3 تا 4)

واقفینِ نو کلاس جرمنی بتاریخ 20 اگست 2008ء

واقفینِ نو کے لئے مضامین کا انتخاب:
یونیورسٹیوں میں بتدریج تعلیم حاصل کرنے کا رجحان گرنے اور خصوصاً وقف کرنے کے بعد آپ نے صرف اور صرف جماعت کی خدمت کرنی ہے
حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے واقفینِ نو بچوں سے مخاطب ہوتے ہوئے فرمایا کہ واقفینِ نو بچے یاد رکھیں کہ وہ چاہے جامعہ میں جا رہے ہوں یا ڈاکٹر یا انجنیئر یا ٹیچر یا وکیل یاکسی اور لائن میں جانا چاہتے ہوں جب بھی اپنی تعلیم مکمل کریں آپ نے جماعت کو اطلاع دینی ہے۔ جو جامعہ میں ہوں گے ان کا تو پہلے ہی علم ہو گا۔ باقی سب نےاپنی پڑھائی سے فارغ ہو کر بتانا ہے کہ ہم نے اپنی تعلیم مکمل کر لی ہے اور اپنی پڑھائی سے فارغ ہو گئے ہیں ہمیں جماعت جہاں بھجوانا چاہتی ہے بھجوا دے ۔
حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا کہ آپ میں سے کچھ ایسے ہونگے جو ریسرچ فیلڈ میں جانا چاہتے ہونگے۔ وہ اپنی ماسٹرز کی ڈگری کرنے کے بعد ریسرچ میں جانا چاہتے ہونگے۔ ان کیلئے ضروری ہے کہ جماعت کو اطلاع دیں کہ ہم نے ریسرچ میں جانا ہے۔ جماعت کو اطلاع دے کر اجازت حاصل کرنا ضروری ہے۔ حضورِ انور نے فرمایا وقف کرنے کے بعد آپ نے صرف اور صرف جماعت کی خدمت کرنی ہے نہ کسی اور لائن میں جانا ہے۔ ہمیشہ یہ یاد رکھیں کہ آپکے والدین نے آپکو وقف کیا ہوا ہے۔
حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا اب آپ نے جو جامعہ میں نہیں جا رہے اپنے آپ کو پڑھائی کے بعد وقف کے لئے پیش کرنا ہے، جماعت جہاں چاہے آپ کو بھجوا دے۔ افریقہ میں بھجوا دے، ایشیا کے کسی ملک میں بھجوائے، امریکہ کے ممالک میں بھجوائے یا جزائر میں بھجوائے۔ ہمیشہ یہ بات یاد رکھیں کہ آپ واقفِ زندگی ہیں ۔ پڑھائی مکمل کرنے کے بعد آپ نے اپنا کوئی کام نہیں کرنا جہاں جماعت نے آپ کو لگانا ہے وہاں جانا ہے اور ایک واقفِ زندگی کے طور پر کام کرنا ہے اور کوئی ڈیمانڈ، کوئی مطالبہ نہیں کرنا۔جہاں رہنے کے لئے کہا جائے جنگل میں، Bush میں رہنا پڑے تو رہنا ہے۔
حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے غانا میں قیام کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ ایک علاقے میں قریباً ایک سال میں اکیلا رہاہوں، عید پر بھی کل تین افراد ہوتے تھے، میں میری فیملی اور ایک معلم دوسرے علاقے سے آ جاتے تھے۔ پانی اور بجلی کی کوئی سہولت نہیں تھی۔ ہمارے پاس ایک کیروسین لیمپ تھا اور کنویں سے بالٹی ڈال کر پانی نکال لیتے تھے ، سہولیات نہیں تھیں۔
اسی علاقہ میں کیتھولک پادری کے پاس ساری سہولتیں تھیں، جنریٹر تھا اور سفر کے لئے موٹر سائیکل تھا۔ سب سہولیات تھیں۔ وہ پادری اپنے موٹر سائیکل پر نکل جاتا اور کئی کئی دن نظر نہیں آتا تھا۔ اس سے پوچھا کہاں جاتے ہو تو اس نے بتایا کہ جنگل میں ایک گاؤں ہے دس ہزار کی آبادی کا۔ ان کی اپنی زبان ہے اور میں وہاں ان کی زبان سیکھنے جاتا ہوں۔ پوچھنے پر اس نے بتایا کہ زبان اس لئے سیکھ رہا ہوں کہ زبان سیکھ کر بائبل کا ترجمہ کرنا ہے۔ تو اب دیکھیں اس چھوٹی سی آبادی میں عیسائی جاتے ہیں اور وہاں قیام کرتے ہیں۔ مچھر کاٹتے ہیں اور وہاں سڑک نہیں ہے۔ ایک چھوٹا سا ٹریک ہے جہاں موٹر سائیکل چل سکتا ہے تو ان حالات میں وہ لوگ اسقدر محنت کر رہے ہیں۔ ہمارے مربیان جس علاقے میں وہ رہے ہیں وہاں بھی تبلیغ کر رہے ہیں اس لئے کہ ان کی تعداد کم ہے۔ جب آپ مربی بنیں گے تو آپ کو ایسے ریموٹ علاقوں میں بھجوایا جا سکتا ہے۔ وہاں جا کر مٹی کے کچے گھروں میں رہیں گے اور خدمت کریں گے اور زبان سیکھیں گے۔ریموٹ علاقوں میں لوکل معلمین جاتے ہیں۔ عیسائی مشنری جنگل میں رہنے والوں کو عیسائی بنا رہے ہیں۔ ان شاء اللہ ایک وقت آنا ہے کہ ان سب نے احمدیت میں آ جانا ہے۔ کوشش کریں گے تو کام ہو گا اور یہ لوگ احمدیت میں آئیں گے۔ گھروں میں بیٹھ رہنے سے کچھ نہیں ہوتا۔ کوشش سے پھل ملتے ہیں
حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا جو ڈاکٹر بنیں گے ان کو بھی ہمارے ہسپتالوں میں جو ریموٹ ایریا ہیں، جنگلوں میں ہے بھجوایا جا سکتا ہے۔ چھوٹے چھوٹے علاقوں میں،دیہات میں ہمارے سکول بھی ہیں جو ٹیچر بنیں گے ان کو وہاں بھجوایا جا سکتا ہے۔ اسی طرح جو انجینئر ز بنیں گےوہ دور دراز علاقوں میں جا کروہاں کی مساجد اور وہاں جو عمارات بن رہی ہیں وہاں انہیں کام کرنا پڑے گا۔
حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا احمدیہ آرکیٹیکٹس ایسوسی ایشن کے تحت ہمارے انجینئرز جو کہ باقاعدہ واقفِ زندگی نہیں ہیں وہ وقفِ عارضی کرتے ہیں، وہ دو دو تین تین ہفتوں کے لئے وقف کرتے ہیں اور افریقہ کے ممالک میں جاتے ہیں وہاں جا کر انہوں نے سولر انرجی اور ونڈمِل کے تجربے کئے۔ وہاں دور دراز کے علاقوں میں پہنچے، وہاں کے سفر کئے اور وہاں جا کر کام کیا۔ ان کو مچھروں نے کاٹا، ملیریا بخار ہوا لیکن انہوں نے کام کیا، مساجد مشن ہاؤسز اور ہسپتالوں کو روشنی مہیا کی۔

 

واقفینِ نو کو دوسروں سے مختلف ہونا چاہیئے
حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا آپ نے جو وقفِ نو ہیں جنہوں نے ساری زندگی وقف میں پیش کرنی ہے۔ اس سوچ کے ساتھ تیاری کریں کہ آپ نے اپنی زندگی وقف کر کے کام کرنا ہے۔ اس لحاظ سے جو پندرہ سال سے اوپر کے ہیں اور ان کی سوچیں میچور ہو چکی ہیں اپنے آپ کواس کے لئے تیار کریں کہ تعلیم مکمل کرنے کے بعد جماعت کو پیش کرنا ہے اس لحاظ سے واقفینِ نو کو دوسروں سے تھوڑا سا مختلف ہونا چاہیئے۔نمازوں کے پابند ہوں، پانچوں نمازیں پڑھنے والے ہوں۔ کوئی ایسا نہ ہو جو پانچوں نمازیں نہ پڑھتا ہو۔ رات کو نفل پڑھیں ۔ قرآن کریم کی تلاوت روزانہ کرنی چاہیئے ۔ کام پر جانے سے پہلے، سکول، کالج،یونیورسٹی جانے سے پہلے تلاوت کیا کریں۔ پھر قرآن کریم کو سمجھنے کی کوشش کریں، اس کی ٹرانسلیشن پڑھیں۔ پھر کوئی دینی کتاب مطالعہ میں رکھیں۔ چاہے روزانہ ایک صفحہ پڑھیں، روزانہ مطالعہ کریں۔ آپکا علم بڑھے گا اور پھر فیلڈ میں بھی کام آئے گا۔ سکول میں تبلیغ کے سلسلہ میں حضورِ انور نے فرمایا کہ اگر تمہارا اپنا کریکٹر اچھا ہے شریف ہو، گالی نہیں دیتے، سکول میں نماز پڑھتے ہو تو لوگ خود تم سے متاثر ہوں گے اور تبلیغ کا موقع مل جائے گا۔ حکمت کے ساتھ تبلیغ کا حکم ہے۔

 

تعلیم کے سلسلہ میں واقفینِ نو کی رہنمائی
ایک طالب علم نے کہا کہ میں ڈاکٹر بننا چاہتا ہوں تو اس پر حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا ضرور بنیں جماعت کو ڈاکٹروں کی ضرورت ہے۔ ایک طالب علم نے کہا مجھے میڈیا میں گرافکس میں دلچسپی ہے اور زبان سیکھنے میں بھی دلچسپی ہے۔ فرمایا زبان میں بھی دلچسپی ہے تو پھر زبان کرو، گرافکس رہنے دو۔ایک طالب علم کے سوال پر حضورِ انور نے فرمایا کہ جنرل سرجری میں دلچسپی ہے تو وہ کرو لیکن پہلے میڈیکل میں داخلہ تولو۔ ایک طالب علم کے سوال پر کہ مربی بننے کے لئے کون کون سی زبانیں ضروری ہیں۔ حضورِ انور نے فرمایا کہ مربی بننے کے لئے اردو اور عربی سیکھو۔ ایک طالب علم نے کہا میں لاء اور میڈیسن میں داخلہ ملا ہے تو اس پر حضورِ انور نے فرمایا کہ میڈیسن کر لو۔ ایک اور طالب علم کے سوال پر کہ میں نے فرنچ زبان سیکھنی ہے اور سیکھ رہا ہوں۔ ٹیچر بننے کا ارادہ ہے حضور نے فرمایا ہمیں فرنچ سپیکنگ ممالک کے لئے بھی ٹیچر چاہیئں۔

( روزنامہ الفضل ربوہ 5 ستمبر 2008ء۔ جلد 58-93نمبر 204۔ صفحہ 3تا 4)

واقفاتِ نو کلاس جرمنی بتاریخ 20 اگست 2008ء

واقفاتِ نو کے لئے میدان عمل
حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا ” لڑکیوں کے لئے یہ بھی ہے کہ جامعہ میں تو تم جا نہیں سکتی۔ جب پڑھائی مکمل کرو گے اس کے بعد کچھ کو جماعت کہہ سکتی ہے مثلاً ٹیچرز ہیں ڈاکٹرز ہیں بعض انجینئرز ہیں یا بعض اور لینگوئجز ہیں جو ایکسپرٹ ہونگے کہ جماعت کا کام کرو۔ بہت ساری ایسی لڑکیاں ہونگی جو پڑھائی تو مکمل کر لیں گی لیکن جماعت براہ راست ان سے کوئی کام نہیں لے سکتی۔ تو ان کا کام یہ ہے کہ جو بھی ان کا ماحول ہے اردگرد جو لوگ ہیں، اپنی شادیاں ہو جائیں تو اپنا محلّہ یا جس علاقے میں رہتے ہیں اس میں اپنا نمونہ ایسا دکھائیں جو جماعت کی اپنوں کی تربیت کی وجہ بن سکے اور دوسروں کے لئے جماعت کی تبلیغ کا باعث بنے۔ اس کے لئے تیاری کرنی ہو گی۔

واقفاتِ نو کی میدانِ عمل کے لئے تیاری
پہلی تیاری کیا ہے کہ ہر واقفۂ نو جو ہے اس کا اللہ تعالیٰ سے تعلق ہو اور اللہ تعالیٰ سے تعلق کس طرح ہو گا۔ جب نمازوں کی طرف توجہ ہو گی۔ جب دعاؤں کی طرف توجہ ہوگی۔ جب قرآن کریم پڑھنے کی طرف توجہ ہوگی،جب اللہ تعالیٰ نے جو احکامات دئیے ہیں قرآن کریم میں ان کو سمجھنے اور ان پر عمل کرنے کی طرف توجہ ہو گی تب تم کہلا سکتی ہو صحیح واقفۂ نو اور ایک صحیح مومنہ عورت یا لڑکی۔ تو اس طرف توجہ رکھو۔ اپنی پڑھائی کے دوران بھی نمازوں کی طرف توجہ رہنی چاہیئے۔نفل پڑھنے کی طرف توجہ رہنی چاہیئے جیساکہ لڑکوں کو بھی میں نے کہاتھا۔ قرآن کریم پڑھنے کی طرف توجہ رہنی چاہیئے۔ اللہ تعالیٰ کے بہت سارے حکم ہیں قرآن کریم میں اُن کی طرف توجہ رہنی چاہیئے۔


خلافت سے مضبوط تعلق
سورة النور میں ہم پڑھتے ہیں خلافت کی آیت ہے کہ خلافت سے ہم تعلق رکھیں گے ۔ اللہ تعالیٰ کہتا ہے کہ خلافت میں جاری رکھوں گا۔ تمہیں تمکنت دوں گا۔ مطلب یہ ہے کہ تمہیں مضبوطی دوں گا۔ جماعت کی حیثیت سے ایک مضبوط حیثیت ہو گی تمہاری۔ انفرادی طور پر ایک مضبوط حیثیت ہو گی تمہاری۔ اور مضبوط حیثیت کا مطلب یہ ہے کہ کوئی تمہیں نقصان نہیں پہنچا سکتالیکن اس کے باوجود کسی کو خیال آ سکتا ہے کہ احمدی بہت سارے ایسے ہیں جن کو نقصان پہنچتا ہے۔ لوگ دشمن جو ہیں، مخالفین جو ہیں وہ نقصان پہنچاتے ہیں۔ پاکستان میں یا بعض دوسری جگہوں میں احمدی شہید بھی ہوتے ہیں۔ کئی احمدی عورتیں، لڑکیاں ہیں جو شہید ہوئیں۔ تو مضبوطی کیا ہوئی؟ مضبوطی یہ ہے کہ مخالفت کے باوجود ایک تو یہ ہے کہ تم لوگ ایمان میں مضبوط ہوتے ہو۔ تمہیں کوئی کہے بھی کہ احمدیت چھوڑ دو تم لوگ کہو کہ نہیں ہم مر سکتے ہیں کٹ سکتے ہیں لیکن احمدیت نہیں چھوڑ سکتے ۔ ہم مر سکتے ہیں کٹ سکتے ہیں لیکن اللہ تعالیٰ نے جو ہمیں حکم دئیے ہیں قرآن کریم میں وہ نہیں چھوڑ سکتے۔

 

لغویات سے پرھیز
اسی صورت میں پردے کا بھی حکم ہے۔ سچ بولو، ایک دوسرے پہ الزام نہ لگاؤ، نیک باتیں کرو، نمازیں پڑھو، اللہ تعالیٰ سے دعائیں کرو۔ سارے حکم آ جاتے ہیں۔ ان سارے حکموں پہ جو بڑی لڑکیاں ہو گئیں ہیں چودہ پندرہ سال کی یا ان سے اوپر، عقل والی عمر ہے یہ، سوچ سکتی ہیں اچھا کیا ہے برا کیا ہے؟ تو قرآن کریم میں سے نکالو کہ کیا کیا حکم ملے ہوئے ہیں اور ہم نے کس طرح عمل کرنا ہے مثلاً اللہ میاں نے ایک حکم دیا ہے کہ لغویات سے بچو۔ لغو کیا چیزیں ہیں۔ لڑائی جھگڑا کرنا لغویات میں ہے۔ فضول باتیں، بیٹھے گپیں مارنا، وقت ضائع کرنا لغویات میں سے ہے۔ پڑھائی کا وقت ہے تو پڑھائی نہ کرنا اور اس وقت بیٹھ کر ڈرامے اور فلمیں دیکھنا ٹی وی پر، یہ لغویات میں سے ہے۔ اگر کوئی بھی ایسی بے ہودہ فلم یا ڈرامہ آرہا ہو جو دین سے دور لے جانے والاہووہ سب لغویات ہیں۔ کسی سے لڑنا جھگڑنا سب لغویات ہیں۔ مثلاً آج کل بظاہر بعض ڈرامے ننگے نہیں ہوتے جس میں کھلی ہوئی بے حیائی یا ننگ نہیں ہوتا انڈین ڈرامے ہیں یا انڈین فلمیں ہیں ان میں مثلاً تم دیکھو گی کہ انڈین گھروں میں کسی ہندو گھر میں بھی جاؤ تو وہاں چھوٹی چھوٹی مورتیاں رکھی ہوتی ہیں۔ دیو، دیویاں بنائی ہوتی ہیں تو ان کی پوجا کر رہے ہوتے ہیں کہ یہ دیوی ہے ہماری فلاں، فلاں۔ اور ہر دیوی کے پاس جاتے ہیں اور جو مورتیاں بت بنائے ہوتے ہیں ان کو یوں جھک کر سلام کرتے ہیں۔ اس سے لاشعوری طور پر، سوچ کے نہیں بغیر سوچے، ایک خیال sub-conscious میں چلا جاتا ہے کہ یہ چیز بڑی اچھی لگی ہے ۔ اور میں نے دیکھا ہے کہ بعض احمدی گھروں نے اپنے ڈرائنگ روم میں وہ مورتیاں لا کے سجا لی ہیں کہ ہم عبادت تو نہیں کرتے ہمیں ویسے اچھی لگی تھی، ہم نے سجا لی۔ اب اچھی لگی اور سجا لی اورگھر کی لڑکیاں اور عورتیں اس میں زیادہ کردار ادا کرتی ہیں۔اچھی لگ کے سجا لی پہلا قدم تو یہی ہے کہ مورتی سجا لی۔ اگلا قدم یہ ہو گا کہ کبھی کسی مشکل میں پڑیں گی کوئی ہندو دوست کہے گی دیکھو ہم نے اپنی مورتی سے مانگا تھا تو ہمارا کام ہو گیا۔ تو اگلا قدم یہ ہوگا کہ عورت بجائے یہ کہ سجدہ کرے، اللہ میاں سے نماز میں دعا کرے وہ مورتی کے پاس جاکر ہاتھ جوڑ کر کھڑی ہو جائے گی۔ اسی طرح برائیاں پھیلتی ہیں۔ اس لئے لغویات سے پہلے ہی بچو۔ ان کو گھر میں آنے ہی نہ دو۔ یہی چیزیں ہیں جو برائیاں پیدا کرتی ہیں ۔ پہلے چھوٹی برائیاں ہوتی ہیں پھر بڑی برائیاں بنتی چلی جاتی ہیں۔
ہر چمکتی ہوئی چیز جو نظر آتی ہے وہ سونا نہیں ہوتی (انگریزی محاورہ ہے جرمن میں بھی شاید ہوگا) ۔ اس لئے پندرہ سال چودہ سال کی لڑکیاں جوہیں جو ہوش و حواس میں ہوتی ہیں ہر چیز کو اچھا نہ سمجھا کریں۔ انٹر نیٹ پر مثلاً بیٹھ جاتی ہیں اور ایک چیز تبلیغ ہے۔ سمجھ رہی ہوتی ہیں کہ ہم بڑا اچھا کام کر رہی ہیں تبلیغ کر کے۔ لیکن اگر وہ تبلیغ لڑکیوں تک ہو رہی ہے تو بڑی اچھی چیز ہے۔ وہی تبلیغ جب لڑکوں کے ساتھ شروع ہو جاتی ہے تو وہ بعض دفعہ پھر برائی بن جاتی ہے۔ کیونکہ اس تبلیغ سے پھر اور مزید رابطے پیدا ہوتے ہیں اور پھر بعض دفعہ اپنے گھر والوں کی اپنے خاندان والوں کی بدنامی کا باعث ہو جاتی ہیں لڑکیاں۔


واقفاتِ نو کا ایک علیحدہ اعلیٰ مقام
حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا ایک وقفِ نو بچی جو ہے اس کا ایک علیحدہ بڑا مقام ہے دوسری بچیوں سے۔ اس کو ہمیشہ یہ خیال رکھنا چاہیئے کہ اس نے اپنے آپ کو ان ساری برائیوں سے، لغویات سے بچا کے رکھنا ہے اور جو اللہ تعالیٰ کے حکم ہیں اس پر عمل کرنا ہے۔ آج تم جس طرح لوگ سر ڈھانک کے بیٹھی ہوئی ہو یہ دوغلی نہیں ہونی چاہیئے، منافقت نہیں ہونی چاہیئے۔ کہ باہر جاؤ، بازار میں جاؤ، شاپنگ کرنے جاؤ، سیر کرنے جاؤ، جو بڑی لڑکیاں ہو گئی ہیں تب بھی ان کے سر پہ اسکارف، حجاب یا دوپٹہ ہونا چاہیئے۔ کیونکہ تمہارا نمونہ جو ہے وہ باقیوں کے کام آئے گا ۔ تم لوگ ایک کریم ہو جماعت کی بچیوں کی تو اس لئے اپنا وہ مقام بھی یاد رکھو، تمہارا اپنا ایک اسٹیٹس ہے اس کو یاد رکھواور ہمیشہ اس کی حفاظت کرو۔ ہر احمدی بچی کا اپنا ایک تقدس ہے ایکSancitity ہے اس کا خیال رکھنا چاہیئے۔ لیکن وقفِ نو بچی جو ہے اس کو سب سے زیادہ اپنا خیال رکھنا چاہیئے۔ کوئی ایسی حرکت نہ ہو اس سے جو خاندان کی، اپنی جماعت کی بدنامی کا باعث بن جائے۔ یہ چیزیں ہمیشہ یاد رکھو۔ قرآن کریم پڑھو، غور سے پڑھو گی تو سارے حکم بھی مل جائیں گے بیچ میں سے۔

 

اطاعت کو ہمیشہ پیش نظر رکھو
بعض لوگ کہتے ہیں کہ یونہی ہم پہ پابندیاں لگا دیتا ہے نظام، جماعت پابندیاں لگا دیتی ہے، اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں کہا۔ غور سے دیکھیں تو اللہ تعالیٰ نے ساری باتیں کہی ہوئی ہیں کوئی ایسی بات خلیفۂ وقت یا جماعت نہیں کہتی یا خلیفۂ وقت کے ذریعہ سے جماعت کی طرف سے آرڈر نہیں آتاجس کا قرآن کریم میں ذکر نہ ہو۔ اس لئے ہمیشہ یاد رکھیں، یہاں جو تلاوت کی، اس سے پہلے لڑکوں نے کی تھی اس میں طاعت در معروف کا حکم تھا۔ کہ جو بھی معروف حکم ہوگا ہم مانیں گے۔ تو اللہ تعالیٰ نے یہی کہا ہے کہ یوں نہ قسمیں کھاؤ کہ ہم یہ کر دیں گے ہم وہ کر دیں گے، ہم احمدی بچیاں ہیں، وقفِ نو بچیاں ہیں، ہم زمین و آسمان پہ انقلاب لے آئیں گے۔ اللہ تعالیٰ کہتا ہے انقلاب تو تم لے آؤ گے لیکن صرف دعوے نہ کرو۔ پہلے جو میں نے حکم دئیے ہوئے ہیں اسی سورۂ نور میں آیت استخلاف جو ہے اس سے پہلے کی آیات میں جو باتیں میں نے کہی ہوئی ہیں، جو تمہیں حکم دئے ہوئے ہیں ان کو مانو۔ کسی بھی حکم پہ اعتراض نہ ہو۔ اطاعت کو ہمیشہ پیشِ نظر رکھو۔ اطاعت کرو گی تو کامیابیاں حاصل کرو گی۔ اطاعت کرو گی تواپنی عزت کی حفاظت کرنے والی ہو گی۔ اطاعت کرو گی تو اپنے گھر والوں کیلئے نیک نامی کا باعث بنو گی۔ اطاعت کرو گی تو جماعت کے لئے مفید اور کارآمد وجود بنو گی۔

 

واقفاتِ نو کا اعلیٰ نمونہ
اس لئے ہمیشہ یاد رکھو کہ ہمارا ایک مقام ہے اور ہم نے اس کو حاصل کرنے کی کوشش کرنی ہے۔ نمازوں کی پابندی، قرآن کریم پڑھنے کی پابندی، اس پر عمل کرنے کی پابندی اور ہر قسم کے جو لغویات ہیں ان سے بچنے کی ضرورت۔ اور لغویات میں غلط قسم کے فیشن بھی آجاتے ہیں۔ ہمبرگ میں بھی کہا تھا، یہاں بھی مثلاً بچیاں کوٹ پہنتی ہیں (جو جوانی کی عمرکو پہنچ گئیں) پردے کے لئے۔ کوٹ ایسا ہو جو ساتھ چپکا نہ ہو جسم کے، بلکہ تھوڑاسا ڈھیلا ہونا چاہیئے۔ بازو اس کے یہاں ( کلائی) تک ہوں۔ پھر پتا لگے گا کہ تم لوگ مختلف ہو دوسروں سے۔ ان سب باتوں کا ہمیشہ خیال رکھو اور پڑھائی کی طرف توجہ دو۔ عموماً لڑکیاں میں نے دیکھا ہے کہ لڑکوں کی نسبت زیادہ ہوشیار ہیں۔ گمنازیم میں پڑھنے والی ہیں یہاں جو بڑی ہو گئیں ہیں۔ لیکن لڑکے بھی آج دیکھا ہے وقفِ نو کے کافی ہوشیار تھے، عموماً دوسروں کی نسبت زیادہ بہتر ہیں۔ امید ہے تم لوگ بھی زیادہ بہتر ہی ہوگے۔ تو جو لائن بھی اختیار کرنی ہے اس کے لئے ضروری ہے کہ محنت کی جائے اورجب تعلیم حاصل کر لو تو پھر جو براہ راست جماعت کے کام میں نہیں بھی آ رہیں وہ بھی اپنے ماحول میں اپنا جو مقام ہے اس کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے جماعت کے لئے ایک نمونہ بنیں۔ تربیت کے لئے بھی دوسروں کی، احمدیوں کی آپس میں تربیت کے لئے اور تبلیغ کے لئے بھی تا کہ جو بنیادی کام ہے تم لوگوں کا وہ کر سکو۔

 

تعلیم کے سلسلہ میں واقفاتِ نو کی رہنمائی
اس کے بعد حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے بچیوں کو فرمایا کوئی سوال ہے تو کریں۔

کیا واقفات نو وکالت پڑھ سکتی ہیں

ایک واقفۂ نو نے پوچھا کہ کیا وہ وکیل بن سکتی ہے۔ حضور اقدس نے فرمایا” وکالت پڑھنا چاہتی ہو تو پڑھ لو مگر بعد میں کورٹ میں جانے کی اجازت نہیں ہو گی۔ اگر وکیل اس لئے بننا چاہتی ہو کہ تم کورٹ میں پیش ہو بطور وکیل کے، تو تم وقفِ نو ہو اس کی اجازت نہیں ہو گی۔ لیکن اگر وکالت صرف پڑھنا چاہتی ہو تو پڑھ لو ، اگر تم پیچھے بیٹھ کر صرف کیس تیار کرنا چاہتی ہو تو پیچھے بیٹھ کر سکتی ہو۔ اگر تم انٹرنیشنل لاء کرو ، اس میں تمہارے سے جماعت خدمت لے سکتی ہے۔لیکن اگر تمہارا یہ خیال ہے کہ تم عام وکیل بن کے سول کورٹ میں پیش ہو جاؤ یا کریمینل کورٹ میں پیش ہو جاؤاور جج کے سامنے بحث کرو، اپنے دلائل دو تو وقفِ نو کو میں اس کی اجازت نہیں دیتا۔

حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم  نے دو علموں کا ذکر کیا ہے ایک دین کا علم اور ایک جسم کا علم۔ اگر تم اتنی ہوشیار ہو تو ڈاکٹر بن جاؤ ۔ ٹیچر بن جاؤ، دوسروں کو پڑھانے کیلئے مختلف زبانوں میں کرو جماعت کے کام آ سکتی ہو۔ آرکیٹیکٹ بن جاؤ جماعت کے کام آ سکتی ہو اور جرنلزم میں اگر تم پڑھ لو تو آرٹیکل لکھو اخباروں میں، تبلیغ کے کام کر سکتی ہو، لیکن اخباروں میں نوکری کرنے کیلئے جرنلزم نہیں پڑھنا۔

لڑکیوں کے لئے جامعہ کیوں نہیں:
ایک بچی نے سوال کیا کہ لڑکیوں کے لئے جامعہ کیوں نہیں ہوتا۔ حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا” لڑکیوں کے لئے جامعہ اس لئے نہیں ہوتا کہ پہلے لڑکوں کے لئے ہی جامعہ پورے نہیں ہو رہے۔ پہلی بات تو یہ ہے۔ دوسری بات یہ کہ مردتو کھلے طور پر تبلیغ کے لئے باہر جا سکتے ہیں ، میدان میں بھی جا سکتے ہیں۔ لڑکیاں صرف دینی علم سیکھ سکتی ہیں۔ ربوہ میں بھی چند سال پہلے ایک دینیات کلاس کھولی لڑکیوں کے لئے، جس میں لڑکیاں آکر دینی علم سیکھ لیں لیکن باہر تو کھلے طور پر نہیں جا سکتیں۔ اگر اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ حج پہ جانا ہو تب بھی عورت اگر حج پر جا رہی ہے اپنے قریبی رشتے دار کو کسی خونی رشتہ دار کو کسی محرم رشتے دار کو ساتھ لے کر جائے۔ اگر عبادت کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے اتنی سختی فرمائی ہے کہ علیحدہ نہ نکلو تو پھرتبلیغ کے کام کے لئے اور دوسرے ہر کام کے لئے زیادہ زور ہونا چاہیئے۔ اس لئے یہ تو نہیں ہو گا کہ ایک لڑکی ہم مبلغ بنا دیں اور جماعت اس کو الاؤنس دے تبلیغ کرنے کا پھر اسکے بھائی کو یا خاوند کو الاؤنس دے کے کہ تم اس کی حفاظت کے لئے اسکے ساتھ جاؤ۔ تو لڑکی اگر جامعہ میں جائے گی، مبلغ بنے گی تو پھر فیلڈ میں جانے کے لئے دو دو خرچے برداشت کرنے پڑیں گے۔ فی الحال ہم ایک خرچہ برداشت کر سکتے ہیں۔ دوسرے یہ کہ دینی علم سیکھنے میں کوئی پابندی نہیں ہے۔ اس کیلئے ناصرات کو، لجنہ کو کلاسیں لگانی چاہیئں۔ سیلیبس بھی ہے وقفِ نو کا اور خود بھی مَیں نے تم لوگوں کو کہا ہے پڑھو۔

حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایاکہ واقفینِ نو کی تعداد اب کوئی سینتیس ہزار(37000) تک پہنچ چکی ہے جس میں بائیس ہزار لڑکے ہیں، پندرہ سولہ ہزار یا اس سے بھی کم لڑکیاں ہیں لڑکے زیادہ ہیں۔ سارے تو جامعہ میں نہیں جاتے زیادہ سے زیادہ ان کی 0.001%یا 0.01% جامعہ میں جاتی ہے۔ لیکن باقیوں کو بھی دینی علم سیکھنا چاہیئے۔ ان کو اپنے طور پردینی علم سیکھنا چاہیئے۔ ابھی تو ہم لڑکوں پر بھی پورا خرچ نہیں کر سکتے۔ ایک وقت آئے گا کہ شاید ضرورت پڑے اورلڑکیوں کے لئے بھی دینی کلاس، شارٹ کورس شروع ہو جائے۔ لیکن فی الحال ابھی موقع نہیں ہے، وقت نہیں ہے، وسائل نہیں ہیں۔ اور resources نہیں ہیں۔

کیا واقفاتِ نو لڑکیاں  بیرون ملک پڑھائی کے لئے جا سکتی ہیں؟
ایک بچی نے سوال کیا کہ کیا ہم پڑھائی کے لئے کسی دوسرے ملک جا سکتی ہیں؟ حضورِ انورنے فرمایا کہ صرف اس شرط پر جا سکتے ہیں کہ اپنے ملک میں وہ کورس ہوتا نہ ہو یا ملک میں کہیں بھی داخلہ نہ ملا ہو تو والدین کی اجازت سے جا سکتے ہیں اور جہاں جانا ہے وہاں صرف لڑکیوں کا ہوسٹل ہوجس میں رہائش ہواور وہاں لڑکوں کا کوئی دخل نہ ہو ، آنا جانا نہ ہو۔ حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے مزید فرمایا کہ اس کے باوجود بہتر ہے کہ وہیں تعلیم حاصل کی جائے جہاں والدین ہیں اور اگر ایک کورس میں داخلہ نہیں ملا تو کوئی دوسری لائن اختیار کر لیں۔

( روزنامہ الفضل ربوہ 5 ستمبر 2008ء۔ جلد 58-93نمبر 204۔ صفحہ4 تا 5)

واقفینِ نو کلاس جرمنی بتاریخ 21 جون 2010ء

عہد کو ہمیشہ یاد رکھیں
حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا کہ یہ عہد جو کر لیا ہے اب اس کو یہاں صرف مسجد میں یا کسی پروگرام میں آتے ہوئے ذہن میں نہیں رکھنا بلکہ اس کا فائدہ تب ہی ہو گا جب ہر واقفِ نو ہر وقت ہر روز صبح اٹھ کے اپنے اس عہد کو یاد رکھے کہ میں واقفِ نو ہوں۔ کیونکہ اب پندرہ سال کے بعد آپ لوگوں نے خود اپنے آپ کو پیش کر دیا ہے اور وقف فارم پُر کر دئیے ہیں اس لئے اب اس عہد کی جگالی کرنے کی ضرورت ہے۔ روزانہ، ہر روز جگالی کریں گے تب ہی آپ کو یاد رہے گا کہ وقفِ نو ہیں اور یہ وقتی جذبہ نہیں ہے بلکہ آپ نے مستقل مزاجی سے اپنے آپ کو دین کی خدمت کرنے کے لئے تیار کرنا ہے اور اس کے لئے سب سے بڑی اہم ضرورت، اہم چیز دعا ہے اور اللہ تعالیٰ سے تعلق ہے۔ اس لئے آپ کی ہر صبح باقاعدہ فجر کی نماز کے ساتھ، وقت پر نماز کے ساتھ ہونی چاہیئے۔ پھر تلاوتِ قرآن کریم ہونی چاہیئے، پھر اس عہد کو ذہن میں دوہرانا چاہیئے۔ پھر اس کے بعد آپ کی پڑھائی شروع ہو یا جس جس فیلڈ میں کام کرتے ہیں وہ شروع ہو۔ اگر یہ نہیں تو پھر آپ کا یہ عہد صرف زبانی دعویٰ ہو گا جو مسجد میں آکے آپ اجلاس میں بیٹھ کر تو کر دیں گےلیکن حقیقت میں اس کی کوئی حیثیت نہیں ہے اسلئے ہمیشہ اس چیز کو یاد رکھیں۔

 

تعلیم کے سلسلہ میں واقفینِ نو کی رہنمائی

بیرون ملک تعلیم:

ایک طالبعلم نے سوال کیا میں نے گزشتہ سال Abiturکیا تھا۔ حضورِ انور نے مجھے ڈاکٹر بننے کی اجازت عطا فرمائی تھی لیکن اس سال داخلہ نہیں ملا اور مزید انتظار کرنا پڑے گا۔ ملک ہنگری میں اپلائی کیا تھا۔ وہاں داخلہ ملنے کی امید ہے کیا میں وہاں چلا جاؤں؟۔ اس پر حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا ہاں چلے جائیں اگر داخلہ ملتا ہےتو۔ لڑکوں کو جانے میں کوئی حرج نہیں۔ لڑکیوں کو تو مَیں روکا کرتا ہوں لیکن لڑکوں کو کوئی حرج نہیں۔حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے دریافت فرمایا کہ کیا وہاں جرمن میں پڑھاتے ہیں؟ طالب علم نے عرض کیا کہ وہاں جرمن میں پڑھاتے ہیں۔ ادھر جرمنی میں مجھے پانچ سال انتظار کرنا پڑسکتا ہے۔ اس پر حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا اتنا لمبا انتظار کرنے کی ضرورت نہیں یا تو دوبارہ اگلے سال کی امید ہو تو ٹھیک ہے ورنہ باہر جا کر پڑھ سکتے ہیں تو ٹھیک ہے۔ نیز حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اخراجات کے بارہ میں دریافت فرمایا کہ وہاں فیس وغیرہ زیادہ تو نہیں ہے؟ طالب علم نے عرض کی کہ والدین انتظام کریں گے۔ حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا اگر فیس وغیرہ کا انتظام والدین کر سکتے ہیں یا تمہارے لئے کوئی مسئلہ نہیں ہے تو ٹھیک ہے چلے جائیں۔حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا کہ چیک ریپبلک میں بھی لوگ میڈیسن کے لئے جاتے ہیں۔ یو کے سے بھی لوگ وہاں گئے ہیں۔ کیا وہاں انگلش میں پڑھا رہے ہیں؟ حضورِ انور کی خدمت میں عرض کیا گیا جی وہاں انگریزی زبان میں پڑھایا جا رہا ہے۔

ایک طالب علم نے سوال کیا کہ میں یونیورسٹی میں اکانومی لاء پڑھ رہا ہوں۔ لاء میں میری پڑھائی اچھی نہیں ہے۔ اکانومی میں اچھی ہے۔ اگر مجھے اجازت ہو اور جماعت کو ضرورت ہو تو کیا میں انٹرنیشنل بزنس پڑھ سکتا ہوں۔ حضورِ انور کے دریافت فرمانے پر طالب علم نے بتایا کہ اکنامک بزنس پڑھنا چاہتا ہوں۔ اس پر حضورِ انور نے فرمایا ٹھیک ہے یہ کر لیں۔ لیکن ایسا نہ ہو کہ صرف بزنس رہ جائے اور باقی تعلیم ایک طرف ہو جائے۔ نیز فرمایا کہ یہ لکھ کر بھیجیں کہ مَیں یہ پڑھ رہا ہوں یا پڑھنا چاہتا ہوں اور جب مکمل کروں گا تو مَیں اطلاع کر دوں گا۔

ایک واقفِ نو طالب علم نے کہا میں کمپیوٹر و الیکٹرونکس پڑھنا چاہتا ہوں۔ مجھے بہت شوق ہے اس چیز کے پڑھنے کا مَیں حضور سے دعا چاہتا ہوں۔ حضور میرے لئے دعا کریں۔ حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا دعا تو میری ہو گی لیکن آپ کو پڑھنے کا شوق ہے تو محنت بھی کرنی پڑے گی۔ طالب علم نے بتایا کہ مَیں ابھی الیکٹرونکس کا کام بھی کر رہا ہوں جیسے موبائل ریپئیر اور اسی طرح کے دوسرے کام جیسے مائکرو چِپ وغیرہ کے بارہ میں سیکھ رہا ہوں۔ حضورِ انور کے دریافت فرمانے پر طالب علم نے بتایا کہ مَیں ڈپلومہ کرنا چاہتا ہوں۔ حضورِ انور نے فرمایا اچھا ٹھیک ہے تو کریں لیکن دعا اس وقت ہو گی جب ساتھ آپ خود بھی دعا کر رہے ہوں گے اور پڑھ بھی رہے ہونگے۔ یہ صرف کہہ دینا کہ ہم نے دعا کے لئے کہا تھا منظور نہیں ہوئی، اگر آپ لوگوں کی اپنی دعائیں ساتھ نہیں ہونگی تو کوئی فائدہ نہیں۔ لیکن اپنے آپ کو بھی دعاؤں کا پابند کریں۔

ایک طالب علم نے کہا کہ میڈیسن کے تیسرے سمسٹر میں پڑھ رہا ہوں اب اسپیشلائز کس میں کروں؟ حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا طالبعلم کی اپنی دلچسپی بھی ہوتی ہے۔ آپ کی دلچسپی کس میں ہے سرجری میں دلچسپی ہے یا جنرل میڈیسن میں ہے؟ واقفِ نو طالب علم نے بتایا کہ کارڈیالوجی میں دلچسپی ہے۔ اس پر حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا ٹھیک ہے اس میں اسپیشلائز کریں۔ لیکن پہلے کوالیفائی تو کریں پھر اگلوں کی مرضی ہو گی کہ اس لیول کے آپ ہیں بھی کہ نہیں کیونکہ ان کی بھی تو Preferences ہوتی ہیں۔ جو کالجز، یونیورسٹی ہاسپٹلز ہیں یہ آپ کو اس میں اسپیشلائز کروائیں گے بھی یا نہیں۔ ان کی ایک اپنی میرٹ لسٹ ہوتی ہے اس کے حساب سے وہ کر رہے ہوتے ہیں۔ اگر اس میں آپ آ جاتے ہیں تو ضرور کریں۔

ایک طالب علم نے بتایا کہ اس وقت چھٹے سمسٹر میں میڈیسن پڑھ رہا ہوں اور نیوروسرجیکل ریسرچ میں پی ایچ ڈی بھی شروع کی ہے۔ حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے دریافت فرمایا کہ میڈیسن میں کتنے سال باقی رہتے ہیں۔ پی ایچ ڈی کر لیں گے تو کیا آپ کو اس کا کریڈٹ مل جائے گا۔ اس کا عرصہ کم ہو جائے گا۔ اس پر طالب علم نے بتایا کہ یہاں طریق یہ ہے کہ چھ سال کی پڑھائی کے دوران پی ایچ ڈی کر سکتے ہیں اور اس کا فائدہ یہ ہے کہ پی ایچ ڈی کی ڈگری مل جاتی ہے۔ حضورِ انور کے دریافت فرمانے پر کہ پی ایچ ڈی کرنے کا مطلب ہے کہ آپ کو ریسرچ کرنے کا شوق لگتا ہے۔ اس لئے اگر آپ پی ایچ ڈی کر لیتے ہیں تو پھر ریسرچ میں جائیں۔
ایک طالب علم نے دریافت کیا کہ ٹیچنگ کے ساتھ جرمن زبان مضمون کے طور پر رکھ سکتے ہیں؟ اس پر حضورِ انور نے فرمایا جرمن ساتھ ر کھ سکتے ہیں تو رکھیں۔ ایک اور طالب علم نےسوال کیا کہ اس سال آبی ٹور کیا ہے۔ کیا میں یونیورسٹی میں فزکس پڑھ سکتا ہوں؟ حضورِ انور نے فرمایا اگر فزکس میں دلچسپی ہے پھر آگے ماسٹرز کرنا ہے فزکس میں پی ایچ ڈی کرنی ہے اور ریسرچ کا ارادہ لگتا ہے تو ٹھیک ہے ضرور جاؤ لیکن اطلاع ساتھ ساتھ کرنی ہے کہ میں کیا کر رہا ہوں۔

ایک واقفِ نو طالب علم نے بتایا کہ فوج میں رہ کر میڈیسن کرنے کا پروگرام ہے۔ اس پر حضورِ انور نے فرمایا پھر فوج کی یہ شرائط بھی ہونگی کہ پانچ سال دس سال سروس کرو۔ حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا جو موجودہ کریڈٹس آپ کے پاس ہیں اس میں میڈیکل میں داخلہ نہیں مل سکتا اور فوج میں جانے کے بعد آپ کو بہتر مل جائے گا تو ٹھیک ہے لیکن ساتھ ساتھ آپ اطلاع کرتے رہیں کہ کیا صورتحال ہے۔ سات سال کی سروس کے بعد یہ نہ ہو کہ اب مجھے بڑے میڈل ملتے جا رہے ہیں میرا ہائی رینک بن رہا ہے تو اب مجھے چھٹی دے دی جائے کہ اب مَیں فوج میں رہوں۔ یہ تو ارادہ نہیں؟ حضورِ انور نے فرمایا سات سال تک اجازت ہے اس سے زیادہ نہیں۔
ایک سوال کے جواب میں حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا کہ پائلٹ کی تو فی الحال ضرورت نہیں ہے اگر تیسری جنگ عظیم ہو جائے تو شاید ضرورت پڑے ہی نہ، پھر سائکلسٹ اور گھوڑسواروں کی ضرورت پڑے گی۔ اسی طرح ایک طالب علم جس نے آئی ٹی میڈیا میں کورس کرنا تھا اسے حضورِ انور نے فرمایا کہ صرف پروگرامنگ کا کورس ہے یا پروڈکشن بھی ہے اور پروگرامنگ بھی؟ فرمایا پڑھ کر پھر واپس آ جاؤ گے؟ وقف جاری رکھنا ہے ۔ ایم ٹی اے میں کام آ سکتے ہیں۔

ایک طالب علم کے سوال کے جواب میں حضورِ انور نے فرمایا ترکی زبان پڑھنی ہے تو کیا ساتھ Hebrew نہیں پڑھ سکتے؟ بطور زائد زبان لینی پڑتی ہے تو ساتھ یہ زبان بھی کر لو۔ عربی پڑھنی ہے تو ساتھ ہی Hebrewبھی پڑھو۔

(روزنامہ الفضل ربوہ مورخہ 12 جولائی 2010۔ جلد 60-95نمبر 146۔ صفحہ 3تا 5)

واقفاتِ نو کلاس جرمنی بتاریخ 21 جون 2010ء

ہر دن تم کو یاد دلائے کہ تم واقفاتِ نو ہو
حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایاکہ ہدایات تم لوگوں نے بہت سی سن لی ہیں۔ اب اگر ادھر ہی بیٹھ کر سنیں اور باہر نکلتے نکلتے بھول گئے تو پھر نہ پہلی ہدایات کا فائدہ ہے اور نہ اب ہدایات دینے کا فائدہ ہے۔ ہدایت یہ ہے کہ خدا سے تعلق کی باتیں کرتے ہو تم لوگ، تو خلافت ان لوگوں کو ملے گی جن کا خدا سے تعلق ہے۔ خلافت کا ان لوگوں سے وعدہ ہے جو مستقل نیک عمل کرنے والے ہوں گے۔ یہ نہیں کہ عید پہ، جلسے پہ اور وقفِ نو کی کلاس میں یہاں آئے تو اس وقت یاد آئے کہ ہم واقفاتِ نو ہیں۔ ہر روز، ہر دن جو تم لوگوں پہ چڑھے وہ تم لوگوں کو یاد دلائے کہ واقفاتِ نو ہو۔
حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا کہ ہم وہ ہیں جنہوں نے دین کی خاطر اپنے آپ کو وقف کر دیا ہے اور اپنے اس عہد کو دہرایا ہے اور دوبارہ اس عہد پر پابندی کرنے کا وعدہ کیا ہے جو ہمارے ماں باپ نے کیا تھا۔ میں نے کہا تھا کہ پندرہ سال کے بعد سارے یہ دہرائیں۔ پھر اس کے بعد آپ کو روزانہ اپنی حالتوں کا جائزہ لینا چاہیئے۔ لڑکوں کو میں نے کہا تھا کہ آپ کی ہر صبح باقاعدہ فجر کی نماز کے ساتھ ہو۔ وقت پر نماز پڑھی جائے۔ قرآن کریم پڑھا جائے اور اس کا ترجمہ پڑھا جائے۔ ابھی میں نے پچھلے خطبہ میں بتایا تھا شہداء کے واقعات سنا رہا تھا کہ ایک شہید صبح اپنے بچوں کو نماز پڑھانے کے بعد کہا کرتے تھے کہ قرآن کریم پڑھو، چاہے ایک آیت پڑھو اور پھر ترجمہ پڑھو تا کہ تم اس پر عمل کر سکو۔ اس طرح قرآن کریم کی سمجھ آئے گی۔ تو ایسے ایسے لوگ اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت میں موجود ہیں، نوجوانوں میں بھی ہیں اور بڑوں میں بھی ہیں۔ انہوں نے اپنے گھروں میں رواج جاری کیا ہوا ہے۔ اس لئے جب آپ لوگ واقفاتِ نو ہیں۔ کچھ ایسی بھی ہونگی جن کی شادیاں ہو گئی ہیں یا ہونے والی ہیں بلکہ بعض مجھے ملی ہیں جن کی شادیاں ہو گئی ہیں جنہوں نے اپنے بچوں کی تربیت کرنی ہے۔ اس لئے اب اپنے عملی نمونے قائم کریں اور صرف یہ ترانے اور یہ ارشادات اور یہ پُر جوش تقریریں اور اجتماعات پر حاضریاں، جلسوں پر حاضریاں یہ کوئی چیز نہیں ہیں جب تک دل کے اندر جوش سے انقلاب نہیں پیدا ہوتا۔

 

بہت بڑی ذمہ داریاں آپ پر پڑیں گی
حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا ’’اب ایسے ایسے واقعات ہو رہے ہیں پاکستان میں اور بڑے سخت حالات ہیں وہاں پر، ان دنوں میں خاص طور پر دعاؤں اور صدقات پر بہت زور دیں۔ اگر آپ لوگوں کی دعائیں اور چیخیں آسمان پر پہنچیں گی تو ہی اللہ تعالیٰ حالات بدلے گا۔ بہت سارے لوگ ایسے ہمارے واقفاتِ نو میں ہیں جن کے عزیز وہاں پاکستان میں ہیں اور بڑے سخت حالات میں وہاں ہیں۔ ویسے بھی انسانی ہمدردی کا تقاضا ہے پھر جماعت تو ایک بنیانِ مرصوص ہے۔ ایک سیسہ پلائی دیوار کی طرح ہے۔ ایک جسم کی طرح ہے۔ اس کے لئے تو ہمیں کوشش کر کے مضبوط رکھنا ہے اور اگر کسی کو تکلیف ہے تو اس کی تکلیف کو محسوس کرنا ہے۔ بنیانِ مرصوص اس وقت بنتی ہے جب ہر ایک اپنا اپنا فرض پورا کرنے والا ہو، صرف زبانی سیسہ پلائی ہوئی دیوار نہیں بن جاتی۔ اس لئے اپنی ذمہ داریوں کو سمجھیں، بہت بڑی ذمہ داریاں آپ پر پڑیں گی۔ جب آپ لوگوں کو اپنی نسلوں کی تربیت کا موقع ملے گا۔

 

تعلیم کے سلسلہ میں واقفاتِ نو کی رہنمائی

ایک واقفۂ نو کے سوال کے جواب میں حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا۔ ٹیچنگ کے بارہ میں اجازت مل گئی تھی تو پھر کرو۔ اللہ تعالیٰ فضل کرے۔ اسی طرح سائیکالوجی کے لئے اپلائی کرنے کی اجازت کے بارہ میں ایک سوال پر حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا کریں۔
ایک طالبہ کے اس سوال پر کہ آرکیٹیکچر کےلئے اجازت ہے؟ حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا بالکل کرو۔ایک واقفۂ نو طالبہ کے اس سوال پر کہ میں سائیکالوجی اور ہسٹری پڑھ رہی ہوں ، Bechelorکس میں کروں؟ حضورِ انور نے فرمایا ہسٹری میں کرو۔ ایک واقفۂ نو کے سوال پر کہ Educational Sciences میں ماسٹر کرنے کی اجازت چاہیئے۔ حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا کرو اللہ فضل کرے گا۔ اس سوال کے جواب پر کہ Speech Therapy اور نرس ٹیچر میں سے ایک کا انتخاب کرنا ہے۔ حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا Speech Therapy

ایک واقفۂ نو نے میڈیسن کرنے کے لئے اجازت چاہی تو حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا میڈیسن نہ صرف کر سکتی ہو بلکہ ضرور کرو۔ دو ہی تو علم ہیں جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا کہ اچھے علم ہیں۔ دین کا علم اور یہ جسم کا علم اور عورتوں کے لئے تو میڈیسن سے اچھی چیز کوئی نہیں ہے۔ یہی تو مَیں کہتا ہوں لڑکیوں کو، جتنی زیادہ لڑکیاں میڈیسن میں جائیں اتنا ہی اچھا ہے،پھر ٹیچنگ میں جائیں، پھر زبانوں میں جائیں۔ اگر میڈیسن کرنی ہے تو اللہ کرے داخلہ بھی مل جائے۔

ایک واقفۂ نو نے ہومیو پیتھی کا کورس کرنے کی اجازت چاہی تو حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا بڑی اچھی بات ہے کریں۔ جرمنی میں ہمارے لئے یہی مشکل ہے کہ یہاں ہومیوپیتھی کرنے نہیں دیتے۔ پریکٹس کرنے نہیں دیتے جب تک ڈگری ہاتھ میں نہ ہو اور ہمارے احمدیوں میں میرا خیال ہے بہت کم ہیں، شاید ہی ایک ہو ۔ تو پرائیویٹ ہوتا ہے تو پیسے زیادہ لگتےہیں۔ حضورِ انور کی خدمت میں یہ بات پیش کی گئی کہ امتحان دینے کے لئے ضروری ہےکہ پچیس سال عمر ہو۔ اس پر حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا پھر تین سال ضائع کرنے کی بجائے بائیولوجی میں کوئی ڈگری کرنے کی کوشش کریں۔

(روزنامہ الفضل ربوہ مورخہ 12 جولائی 2010۔ جلد 60-95نمبر 146۔ صفحہ 5تا 7)

واقفینِ نو کلاس جرمنی بتاریخ 19 جون 2011ء

فیصلہ خلیفۂ وقت نے کرنا ہے
حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا ’’یہ عہد صرف ترانے تک نہیں ہونے چاہیں۔ یہ دل کی آواز ہونی چاہیے۔ یہ نہیں کہ صرف منہ سے کہہ دیا اسکے بعد دوڑ گئے اس لئے ہر واقفِ نو جو ہے وہ یاد رکھے کہ چاہے وہ کسی بھی فیلڈ میں ہے اس نے اپنی تعلیم سے فارغ ہو کر اپنی خدمات کو پہلے جماعت کے لئے پیش کردینا ہے جماعت اگر کہے گی، خلیفۂ وقت اگر کہے گا کہ تم لوگ جماعت کی خدمت کیلئے آجاؤ تو اسی وقت فوراً آجائیں اور اگر کہا جائے گا کہ دو سال بعد چار سال بعد اور اپنی فیلڈ میں experienceلے کر آؤ تب آئیں۔ پھر اگر کہا جائے کہ اپنا کام کرو پھر کرتے رہیں لیکن یہ فیصلہ آپ نے خود نہیں کرنا بلکہ جماعت نے کرنا ہے خلیفۂ وقت نے کرنا ہے اس لئے یہ یاد رکھیں ہمیشہ ۔ نہیں تو یہ صرف ترانے جو ہیں ایک وقتی جوش ابھارنے کے لئے ہی نہ ہوں یہ مستقل آپ کی زندگی کا حصّہ ہوں۔

 

واقفینِ نو کا نمونہ
اور ایک واقفِ نو کو ہمیشہ یہ یاد رکھنا چاہیے ہمیشہ میں نصیحت کرتا ہوں کہ اس کا معیار نیکی کا دوسروں سے بلند ہونا چاہیے۔ نمازوں کی ادائیگی کی طرف توجہ ہونی چاہیے۔ پانچ وقت نمازیں فرض ہیں لیکن مجھے پتہ ہے کہ بعض واقفینِ نو ایسے ہیں جو پانچ وقت نماز بھی نہیں پڑھتے۔ کوئی تین پڑھ رہا ہوتا ہے کوئی چار پڑھ رہا ہوتا ہے اور بہانے ہو جاتے ہیں یہ سب نفس کے بہانے ہیں ان کو دور کریں اور اس طرح باقی اخلاق جو ہیں وہ آپ کے بہت زیادہ اعلیٰ ہونے چاہیں۔ دوسروں کی نسبت۔ سچائی آپ کا طرۂ امتیاز ہو آپ کا خاص نشان ہو۔ کبھی کسی بھی معاملے میں جھوٹ نہیں بولنا چاہیے۔پھر برداشت ہے۔ برداشت آج کل بہت کم ہوتی چلی جارہی ہے دنیا میں۔ اور صبر ہے یہ بھی آپ میں پیدا ہونا چاہئے تبھی آپ حقیقت میں فیلڈ میں جاکر اپنی خدمات کا صحیح استعمال کر سکتے ہیں۔ بہر حال اللہ تعالیٰ آپکو اسکی توفیق دے۔‘‘


تعلیم کے سلسلہ میں واقفینِ نو کی رہنمائی
ایک طالب علم نے پوچھا کہ وہ میڈیسن میں داخلہ لینا چاہتا ہے تو حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا۔ ’’ مل جاتا ہے میڈیسن میں داخلہ تو لے لیں۔ اللہ کرے مل جائے۔ ڈاکٹر تو جتنے بھی بن جائیں اتنے کم ہیں جس طرح ہمیں مبلغین کی زیادہ ضرورت ہے اسی طرح ڈاکٹرز اور ٹیچرز کی زیادہ ضرورت ہے اور باقی فیلڈز میں بھی اسی طرح ہے۔‘‘
ایک واقفِ نو نے سوال کیا کہ دسویں کلاس کے بعد جامعہ میں آنا چاہئے یا کہAbitur(ایف ایس سی) کے بعد۔ حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے دریافت فرمایا کہ جامعہ والوں کا کیا خیال ہے۔پھر طالب علم کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا ’’ کرسکتے ہو تو (Abitur)کرلو۔ بڑی اچھی بات ہے ۔ ذرا experienceہی ہوجائے گا ۔ تھوڑے اور میچور ہوجاؤ گے۔‘‘
جامعہ میں داخلہ کے لئے تین طلباء نے دعا کی درخواست کی۔ حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا۔’’اللہ فضل کرے اگر اس قابل ہو گے تو ان شاءاللہ سلیکٹ ہو جاؤ گے۔ اگر نیک نیّت ہے۔کافی لوگوں نے درخواست دی ہے اگر زیادہ ہوئے تو UK لے جائیں گے‘‘
ایک واقفِ نو نے بتایا کہ اسے زبانوں میں دلچسپی ہے تو حضورِ انور نے دریافت فرمایا ’’ کس زبان میں دلچسپی ہے؟“ طالب علم نے بتایا فرنچ اور انگریزی میں ۔حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا جرمن اچھی آتی ہے تو پھر انگلش میں کرلو اگر انگلش میں دلچسپی ہے۔‘‘
ایک واقفِ نو نے بتایا کہ اس نے Abitur(ایف ایس سی)کیا ہے اور اسے دلچسپی آسٹرونومی اور فزکس میں ہے۔ حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نےفرمایا ’’ فزکس والوں کو ہی آسٹرونومی میں داخلہ دیتے ہیں ۔ ٹھیک ہے اگر دلچسپی ہے تو کرلو لیکن آسٹرونومی کر کے پھر آگے ماسٹرز بھی کرنا ہے۔ آگے پڑھنا ہے پھر۔ صرف ڈگری لے کے بیٹھ نہ جانا۔ ‘‘
ایک واقفِ نو نے بتایا کہ وہ اکنامکس کا thesisلکھ رہا ہے جسکا موضوع ہے ’’ بھار ت اور یورپ کے درمیان تجارتی معاہدہ‘‘ اس پر حضورِ انورنے فرمایا”انڈیا تو نئیEmergingاکانومی ہے وہ تو کھا جائے گی کچھ سالوں میں یورپ کو‘‘فرمایا ’’ٹھیک ہے کریں‘‘

( روزنامہ الفضل ربوہ 8 جولائی 2011ء۔ جلد 61-96نمبر 156۔ صفحہ 3تا 5)

واقفاتِ نو کلاس جرمنی بتاریخ 19 جون 2011ء

قرآنی احکامات کی پابندی
حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا ’’یہ ساری لجنہ پندرہ سال سے اوپر کی ہیں۔پندرہ سال سے اوپر جو عمر ہے بڑی میچور عمر ہوتی ہے۔کچھ دسویں کلاس سے چلی گئی ہونگی۔کچھ آبی ٹور (Abitur) کررہی ہیں ۔کچھ یونیورسٹی میں چلی گئی ہیں ۔کچھ شادی شدہ بھی ہیں۔میرا خیا ل ہے قرآنی احکامات کی باتیں ہورہی ہیں تو قرآن کے احکامات میں حقوق اللہ اور حقوق العباد، اللہ کے حق اور بندے کے حق خاص طور پر بیان ہوئے۔حضرت مسیحِ موعودعلیہ السلام نے فرمایا قرآن کریم میں سات سو حکم ہیں۔بعض جگہ فرمایا پانچ سو حکم ہیں۔لیکن اگر تفصیل سے دیکھا جائے تو اس سے بھی زیادہ احکامات ملتے ہیں۔لیکن بعض احکامات کو ایک جگہ اکٹھا کرکے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے سات سو حکم کہا ہے۔لیکن قرآن کریم کے بے شمار احکام ہیں ۔ اسکے حکموں پہ عمل کرنا ہر ایک کے لئے ضروری ہے۔مرد ہو یا عورت ہو۔بعض حکم مردوں اور عورتوں کے لئے کامن ہیں ۔بعض حکم ہیں جو عورتوں کے لئے مخصوص ہیں ۔بعض مردوں کو دیے گئے ہیں قرآن کریم نے نماز روزہ زکٰوة حج اس قسم کی باتیں کی ہیں قربانی کی اور عبادات کی۔یہ مردوں کے لئے بھی ہیں اور عورتوں کے لئے بھی ،لڑکیوں کے لئے بھی بچیوں کے لئے بھی ۔ہر ہوش مند مسلمان کے لئے۔اور آپ لوگ جو واقفاتِ نو ہیں ان چیزوں پر پابندی تو کرنی ہے۔اس کے علاوہ بعض احکامات ہیں وہ دیکھنے ہیں۔

 

پردے کی اہمیت
مثلاً یورپ میں رہتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں خاص طور پر پردے کی اہمیت کو اجاگر کیا ۔یہ صرف عورتوں کو، لڑکیوں کو ،بچوں کوبعض دفعہ غلط فہمی ہو جاتی ہے کہ صرف پردہ کا حکم ہمیں کیوں دیا گیا ہے۔مَردوں کو بھی کوئی حکم ہونا چاہیے پردے کا۔حالانکہ جہاں اللہ تعالیٰ نے پردے کا حکم دیا ہے وہاں نظریں نیچی رکھنے کا پہلے حکم ہے کہ اپنی نظریں نیچی رکھو تا کہ تمہاری حیا ٹپکے۔اس سے پہلی آیت میں مَردوں کے لئے حکم دیاہے کہ اپنی نظریں نیچی رکھو۔بلاوجہ یونہی دائیں بائیں دیکھتے نہ جاؤ۔ہر ایک عورت کی طرف نظر اٹھا کرنہ دیکھو۔پہلے مَرد کو حکم ہے پھر عورت کو حکم ہے کہ اپنی نظریں نیچی رکھے اور اپنی زینت ظاہر نہ کرے۔پھر آگے اس کی تفصیل ہے کہ اپنے سروں کو ڈھانکو۔اپنے جو جسم کے اعضاءہیں ایسے جنہیں پردے کی ضرورت ہے،جن کو مَردوں سے چھپانے کی ضرورت ہے ان کو چھپاؤ۔باہر ایسی زینت ظاہر نہ کرو جو تم اپنے ماں باپ،بھائی اور سگے رشتہ داروں کو دکھاتی ہو۔تو باپ اور بھائی اور سگے رشتہ داروں میں چہرہ ہی ننگا ہوتا ہے ناں باقی ننگ تو ظاہر نہیں ہو رہا ہوتا۔ہاتھ نظر آرہے ہوتے ہیں۔یا سر پہ دوپٹہ نہ ہو تب بھی کوئی حرج نہیں ہے۔چہرہ بھی نظر آرہا ہوتا ہے۔لیکن انسان باقی جسم مکمل طورپر باپ بھائی وغیرہ کے سامنے نہیں کرتا ۔ہر عقلمند انسان ایساکرتا ہے۔لیکن اس کے علاوہ جب باہر نکلو تو اس سے بڑھ کر تمہارا پرد ہ ہونا چاہیے۔یہ حکم ہے۔

واقفاتِ نو کونصیحت کرتے ہوئے حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا”واقفاتِ نو جو ہیں ان کو یہ مدِنظر رکھنا چاہیے کہ اپنے ہر معاملے میں رول ماڈل بنیں ۔ایک نمونہ بننا ہے۔اس لئے اس معاشرے میں جہاں پردے کا بڑا شور ہوتا ہے۔ پردے کو بھی جاری رکھنا ہے۔اس کے ساتھ حیا کا پہلو بھی ہو۔ صرف حجاب لینے سے پردہ نہیں ہوجاتا۔جب تک حیا نہیں ہوگی عورت مرد لڑکے لڑکی کے آپس کے میل جول میں علیحدگی نہیں ہوگی۔ایک بیریر (Barear)ہونا چاہیے۔کسی کو جرأت نہ ہو کہ غلط نظر ڈالے کسی لڑکی پر۔ اور واقفاتِ نو کے نمونے جو ہونگے تو آئندہ دوسروں کی اصلاح کاباعث بننے والے ہونگے۔پس ہمیشہ یہ یاد رکھیں کہ آپکا پردہ قرآنی حکم کے مطابق ہونا چاہیے کہ جب وہ باہر نکلے تو کسی قسم کی زینت اور حسن عورت کا لڑکی کا دوسروں کو نظر نہ آتا ہو ۔سر ڈھکا ہو ، بالوں کا پردہ ہے، چہرے کا پردہ ہے۔ضروری نہیں ہے کہ ناک بند کرکے ہی چلنا ہے۔اگر میک اپ نہیں کیا ہوا، ٹھوڑی، ماتھا اور بالوں کا جو پردہ ہے وہ ٹھیک ہے لیکن اگر میک اپ کیا ہو اہے توبہرحال چہرہ چھپانا ہوگا ۔ پھر اگلے میعار بڑھتے ہیں۔ جوبعض لڑکیاں پاکستان سے آتی ہیں وہاں نقاب اور برقعہ پہن کر آتی ہیں یہاں آکر اسکارف لینے لگ جاتی ہیں۔تو وہ غلط ہے۔ایک اچھا میعار جو پردے کا اختیار کیا ہے تو اس کو قائم رکھنا چاہئے۔اچھائی سے برائی کی طرف نیچے نہیں آنا چاہیے،میعار اوپر جانا چاہیے۔افریقہ کا ابھی پروگرام ہورہا تھا لڑکوں میں۔وہاں اگر مسلمان ہوتی ہیں مشرکوں میں سے، لامذھبوں میں سے،عیسائیوں میں سے،تو ان کے پردے کا میعار بالکل نہیں ہے لیکن جب پردہ کرتی ہیں تو ان کے لئے لباس پہن لینا اور اپنے آپ کو ڈھانک لینا ہی بہت بڑا پردہ ہے۔ان میں سے بعض جب ترقی کرتی ہیں روحانی لحاظ سے تو برقعے بھی پہنتی ہیں ۔تو ایک اچھے مومن کامومنہ کا جو لیول ہے اوپر جانا چاہیے۔۔ واقفاتِ نو کو ہمیشہ یہ ذہن میں رکھنا چاہیے کہ وہ نمونہ ہیں دوسروں کے لئے۔ آپ لوگوں کو دوسری بچیاں دوسری عورتیں دیکھتی ہیں۔ اگر آپ کے نمونے قائم نہیں ہوں گے تو کوئی فائدہ نہیں ہوگا ۔ اب یہ جو کہتے ہیں جینز پہن لیتی ہیں عہدیداریاعہدیداروں کی بچیاں اور یہ اور وہ۔اگر آپ میں سے کوئی پہن لیتاہے جینز،skin جینز۔سوال یہ ہے کہ ایسا لباس یعنی جینز پہننے میں کوئی حرج نہیں۔لیکن کوئی بھی ایسا لباس جس سے جسم کے حصّے یا اعضاءظاہر ہوتے ہوں، تنگ لباس ہو وہ منع ہے۔ ہندوستان میں رواج ہے تنگ پائجامہ پہننے کا،لیکن جب باہر نکلتے ہیں تو برقعہ ہوتا ہے ،لمبا کوٹ ہوتا ہے یا چادر ایسی ہونی چاہیے جس نے کم ازکم گھٹنوں تک لپیٹا ہو۔جینز اگر پہن لی ،اگر لمبی قمیص ہے تو کوئی حرج نہیں۔ لیکن اگر جینز پہن کے چھوٹا بلاؤز ہے صرف سر پر حجاب لیکر باہر نکل آئی ہیں تو وہ بے فائدہ چیز ہے۔ کیونکہ سر کا پردہ تو آپ نے کرلیاجسم کا نہیں کیا اور حیا جو ہے وہ قائم رکھنا اصل مقصد ہے۔حیا کے میعار بڑھنے چاہیئں۔اصل چیز یہ ہے ۔ عورت کا تقدس اسی میں ہے۔بلکہ اب تو پچھلے دنوں ٹی وی پر ایک پروگرام غیروں کا آ رہا تھا مسلمانوں کا۔ کوئی عورتیں جو اب مسلمان ہوئیں ہیں انہوں نے کہا ہے کہ ہم اپنے آپ کو ڈھانک کے زیادہ محفوظ محسوس کرتی ہیں۔بلکہ ایک عیسائی انگریز عورت کابھی اس میں بیان تھا کہ مرد جو پردے پردے کا شور مچاتے ہیں کہ ہم نے عورت کو آزادی دلوادی۔ حالانکہ مسلمان نہیں تھی وہ عیسائی جرنلسٹ ہے اس نے کہا کہ پردہ دیکھ کے اور یہ ساری باتیں سن کے مَیں سمجھتی ہوں کہ مغرب میں پردہ چھڑایا جارہا ہے ۔ مردوں نے اپنی عیاشی کے لئے ،اپنی نظروں کی تسکین کے لئے چھڑایا ہے، عورتوں کی آزادی کے لئے نہیں چھڑایا۔اس لئے ہمیشہ یاد رکھیں کہ عورت کا ایک تقدس ہے ،اس تقدس کو قائم رکھنا ہے۔اس تقدس کو قائم رکھنے کی مثال واقفاتِ نو نے بننا ہے ہر بارے میں ہر معاملے میں۔ کیونکہ پردہ آجکل ایشو ہے اس لئے میں نے اسکو چھیڑ دیاہے۔ہر چیز میں ،عبادتوں میں آپ کا میعار اچھا ہونا چاہیے۔دوسرے احکامات میں میعار اچھا ہونا چاہیے ۔ جیسا کہ مَیں نے کہا حضرت مسیحِ موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے لکھا ہے کہ جو سات سو حکم کی پابندی نہیں کرتا، یہاں تک لکھا ہے کہ وہ میری جماعت میں سے نہیں۔ تو یہ تلاش کرنا آپ لوگوں کا کام ہے۔ تاکہ جس جس ماحول میں رہ رہی ہیں مختلف جگہوں پر، اس جگہ پر باقی احمدی لڑکیوں کیلئے بھی، باقی احمدی عورتوں کے لئے بھی آپکے نمونے قائم ہوں۔ یہ سوچیں اور اگر یہ ہو جائے گا تو ان شاءاللہ تعالیٰ آپ لوگ پھر انقلاب لانے والی بنیں گی۔ ‘‘


اسکے بعد ایک ترانہ ’’ ہیں واقفات ہم وفا کے گیت گائیں گی‘‘ پڑھا گیا۔ حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایاکہ یہ جو ترانہ تم لوگوں نے سنا اور انجوائے کیا یہ صرف انجوائے کرنے کی حد تک نہیں ہونا چاہیئے۔ ترانے کا مطلب سمجھاتے ہوئے حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا کہ زمین و آسمان بنانا کیا ہے؟ نہ تو زمین نئی آ سکتی ہے اور نہ آسمان بن سکتا ہے۔ زمین بھی وہی رہنی ہے اور آسمان بھی وہی رہنا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ایک محاورہ ہے کہ جو معاشرے میں برائیاں پھیل گئی ہیں ان کو بدلنے کے لئے انبیاء آتے ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اس زمانے میں اسی لئے آئے تھے اور کہتے ہیں کہ ایک نئی زمین و آسمان پیدا ہو گا۔ آنحضرتصلی اللہ علیہ وسلم اسی لئے آئے تھے کہ اس کام کو جاری رکھنے کے لئے ۔ کچھ لوگ ایسے ہونے چاہیئں جو اپنی مثالیں قائم کرتے ہوئے اس معاشرے کی اصلاح کا باعث بنیں ۔ پس واقفاتِ نو جو ہیں نیا زمین و آسمان تبھی بنا سکتی ہیں جب اس معاشرے کی اصلاح کا باعث بن جائیں اور اصل دین لاگو ہو ، نہ یہ کہ روایات کو اختیار کر لیا جائے۔

( روزنامہ الفضل ربوہ 8 جولائی 2011ء۔ جلد 61-96نمبر 156۔ صفحہ 5تا 6)


تعلیم کے سلسلہ میں واقفاتِ نو کی رہنمائی
ایک واقفۂ نو نے سوال کیا کہ میں نے میڈیسن کے لئے پچھلے سال اپلائی کیا تھا تو مجھے داخلہ نہیں ملا۔ میں کمپیوٹر سائینس پڑھنا چاہتی ہوں ۔ آپ مجھے بتائیں۔حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا ’’پڑھ سکتی ہو‘‘۔

ایک بچی نے سوال کیا کہ میں نے آبی ٹور (Abitur)کیا ہے اور آرکیٹیکٹ بننا چاہتی ہوں۔حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا ’’پڑھو۔ لیکن پھر یہ ہے کہ کہیں جاب وغیرہ نہ کرنے لگ جانا۔ اسٹڈی کر لو، پھر جب اسٹڈی کرلو تو پوچھ لیناکہ آگے میں نے کیا کرنا ہے ۔‘‘

ایک واقفۂ نو نے پوچھا کہ چھ سال پہلے جو کلاس ہوئی تھی اس میں مَیں نے کہا تھا کہ مَیں نے پائلٹ بننا ہے تو آپ نے منع فرمایا تھا ۔مجھے سمجھ نہیں آرہی تھی کہ مَیں کیا کروں۔حضورِ انور نے فرمایا ’’یا پائلٹ بننا ہے یا کچھ بھی نہیں بننا،یہ تو بچوں والی باتیں ہیں جذباتی،جہاز اڑتا دیکھ لیا تو پائلٹ بنناہے۔۔۔۔جذبات ہر جگہ پاک کرنے پڑتے ہیں‘‘۔واقفۂ نو نے اپنے مضامین ہسٹری اور بیالوجی کے بارہ میں بتایا ۔حضورِ انور نے فرمایا ’’ہسٹری میں کرلو،آرکیالوجی میں کرلو‘‘

ایک واقفۂ نو نے کہا کہ مَیں سائنس میں دلچسپی رکھتی ہوں اور فارمیسی پڑھنا چاہتی ہوں۔ حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا ’’ اچھی بات ہے ضرور پڑھو‘‘۔ ایک واقفۂ نو نے سوال کیا کہ مَیں نے اپنا آبی ٹؤر مکمل کیا ہے میں آن لائن جرنلزم پڑھنا چاہتی ہوں۔حضورِ انور نے فرمایا ’’کیوں یونیورسٹی نہیں جاسکتی۔کرو جرنلزم اچھی بات ہے۔تاکہ اخباروں میں لکھ سکو‘‘۔

ایک واقفۂ نو نے سوال کیا کہ مَیں میڈیکل کے دوسرے سال میں ہوں کیا ہم دوران تعلیم بھی خدمت پیش کر سکتے ہیں۔افریقہ جا سکتے ہیں۔ حضورِ انور نے فرمایا ’’اگر والدین محرم کے ساتھ جانے کی اجازت دے دیں اور کوئی لڑکیوں کا چا ر پانچ سات دس کا گروپ جارہا ہو لجنہ کے تحت تو پھر تو ٹھیک ہے‘‘۔

ایک واقفۂ نو نے سوال کیا کہ اگلے سال آبی ٹؤر ختم ہونے کے بعد میں اسلامک اسٹڈی یا عربک لینگویج پڑھنا چاہتی ہوں۔ حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا ’’آبی ٹؤر میں کیا مضمون ہیں‘‘۔ اس نے جواب دیاہسٹری اور انگلش ہیں۔حضورِ انور نے فرمایا ’’عربک لینگوئج کرو‘‘۔

ایک واقفۂ نونے سوال کیا کہ مَیں لینگویج اسٹڈی کرنا چاہتی ہوں۔ حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا ’’اچھی بات ہے کرو‘‘۔ واقفۂ نونے کہا البانین زبان تو آتی ہے۔انگلش اسٹڈی کرنا چاہتی ہوں۔حضورِ انور نے فرمایا ’’جس میں دلچسپی ہے کرلو‘‘۔

ایک واقفۂ نونے سوال کیا کہ مَیں لینگویج سیکھنا چاہتی ہوں۔ حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا ’’کونسی زبان کی طرف رحجان ہے‘‘۔ اس نے جواب دیا انگلش اورجرمن۔حضورِانور نے فرمایا ’’جرمن زبان میں کرو پھر لکھو گی اخباروں میں‘‘۔

ایک واقفۂ نو نے سوال کیا اب جماعت کو کونسی زبانوں کی زیادہ ضرورت ہے جو ہم سیکھ سکیں۔ حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا ’’جماعت کو ہر زبان کی ضرورت ہے۔آپ لوگوں کو یہاں دلچسپی کس چیز میں ہے۔یورپ کی بہت ساری زبانیں ہیں۔سیکھیں ،سیکھ سکتی ہیں۔جرمن فرنچ میں تو ہمارے پاس کافی لوگ ہیں،ایسٹرن یورپین زبانیں ہیں۔ سیکھ سکتی ہیں توکئی سیکھیں‘‘۔

(روزنامہ الفضل ربوہ 9 جولائی 2011ء۔ جلد 61-96نمبر 157۔ صفحہ 2تا 4)

واقفینِ نو کلاس جرمنی بتاریخ 8 اکتوبر 2011ء

جماعت کو جب بھی ضرورت ہو گی آپ کو لے لیا جائے گا
حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا کہ پندرہ سال کی عمر میں ہونے کے بعد پھر اپنے وقف کی تجدید کرنی ہو گی۔ بتانا ہو گا کہ وقف میں رہنا چاہتا ہوں یا نہیں رہنا چاہتا۔ حضورِ انور نے پندرہ سال سے اوپر کے بچوں سے دریافت فرمایا تو سب نے بتایا کہ ہم نے یہ لکھ کر دے دیا ہوا ہے کہ ہم وقف میں رہنا چاہتے ہیں۔
حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا ’’ آپ میں سے جو طلباء جامعہ احمدیہ میں نہیں جا رہے ان کو اپنی تعلیم مکمل کرنے کے بعد یہ لکھ کر دینا پڑے گا کہ ہم نے اپنی پڑھائی مکمل کر لی ہے اب ہمارے لئے کیا حکم ہے۔ تو جماعت آپ کے بارہ میں فیصلہ کرے گی کہ کوئی خدمت، کوئی کام آپ کے سپردکرنا ہے یا کہے گی کہ دوچار سال اپنا کام کر لو یا مزید تعلیم حاصل کرو۔ جماعت کو جب بھی ضرورت ہو گی آپ کو لے لیا جائے گا۔ اس لئے ہمیشہ آپ کے ذہن میں یہ ہونا چاہیئے کہ آپ آزاد نہیں ہیں۔ وقف کا مطلب یہ ہے کہ اپنی پڑھائی ختم کر کے اپنے آپ کو جماعت کے لئے پیش کر دیا۔ آگے جماعت جہاں چاہے کام لے، جرمنی میں لے، یورپ میں لے، افریقہ بھجوا دے یا ساؤتھ امریکہ کے ممالک میں بھیج دے۔ جو انجینئرز بن رہے ہیں ان کو ساؤتھ امریکہ کے ممالک میں بھجوا دے کہ جاؤ وہاں اَور مساجد بناؤ۔ اسی طرح جزائر کے ممالک ہیں۔ وہاں پر اس وقت احمدی کم ہیں۔ وہاں بھی سکول، ہسپتال کھلنے ہیں وہاں ڈاکٹرز کو بھجوایا جا سکتاہے‘‘۔

 

واقفینِ نو کی خصوصیات
حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا ’’ نمازوں میں آپ کو باقاعدہ ہونا چاہیئے۔ تلاوتِ قرآن کریم میں باقاعدہ ہونا چاہیئے۔ روزانہ تلاوت کرنی چاہیئے۔ پڑھائی کی طرف بہت توجہ دیں تا کہ کسی اچھے اور مفید پروفیشن میں جا سکیں‘‘۔

حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا ’’بازاروں میں سڑکوں پر چلتے ہوئے آپ میں اور دوسرے لڑکوں میں فرق ہونا چاہیئے۔ یہ نہیں کہ دوسرے لڑکوں کی طرح ایک دوسرے کے گلے میں بانہیں ڈالی ہوئی ہیں اور چلتے چلے جا رہے ہیں۔ یہاں ان ملکوں میں تو شاید برا نہ لگے لیکن دینی معاشرے میں ان حرکتوں کو پسند نہیں کیا جاتا‘‘۔

حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا ’’ ہمارے اندر قربانی کی روح ہونی چاہیئے۔ یہ نہیں سوچنا کہ حق لینے ہیں بلکہ یہ سوچنا ہے کہ دوسروں کو انکے حق دینے ہیں۔ آپ میں یہ روح ہوگی تو آپ کامیاب واقفِ نو ہو سکتے ہیں۔ ہم نے محض وقفِ نو کی تعداد نہیں بڑھانی بلکہ جو اصل اعلیٰ معیار ہے اسکو لینا ہے‘‘

عاجزی اور انکساری
ایک سوال پر کہ عاجزی انکساری کیسے پیدا ہو سکتی ہے؟ حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا ’’اپنے اندر خدا کا خوف پیدا کرو۔ اپنے دل میں فیصلہ کرو کہ میں نے عاجز بننا ہے ۔ بدتر بنو ہر ایک سے اپنے خیال میں۔ خود اپنی کوشش سے عاجزی پیدا ہو سکتی ہے۔ کوئی کام کر لو تو یہ خواہش پیدا ہو کہ لوگ میری تعریف کریں تو اس سے تکبر پیدا ہوتاہے۔پس اپنے لئے دعا کرو اور پانچوں نمازیں پڑھا کرو، اپنی تعریف کروانے کی عادت اور اپنے آپ کو نمایاں کرنے کی عادت سے بچو، باقی عاجزی کے حصول کے لئے کوشش کرو۔ عاجزی کوشش سے پیدا ہو سکتی ہے۔‘‘


جوانی میں محبّتِ الٰہی
اس سوال کے جواب پر کہ نوجوانی میں کس طرح خدا سے محبت پیدا کریں؟ حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نےفرمایا ’’ اپنی نمازوں میں خداتعالیٰ سے مدد مانگو کہ خدا تعالیٰ اپنی محبت پیدا کر دے‘‘۔ حضورِ انور نے فرمایا ’’ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم  کی یہ دعا پڑھا کرو
اَللّٰهُـمَّ اِنِّيْ أَسْاَلُكَ حُبَّكَ وَحُبَّ مَنْ يُحِبُّكَ وَ الْعَمَلَ الَّـذِیْ يُـبَـلِّـغُـنِیْ حُبَّكَ ، اَللّٰهُـمَّ اجْـعَلْ حُبَّكَ اَحَبَّ اِلَيَّ مِنْ نَـفْسِیْ وَ اَهْلِیْ وَ مِنَ الْمَآءِ الْبَارِدِ (ترمذی کتاب الدعوات)
اے میرے اللہ! میں تجھ سے تیری محبت مانگتا ہوں اور ان لوگوں کی محبت جو تجھ سے پیار کرتے ہیں اور اس کام کی محبت جو مجھے تیری محبت تک پہنچا دے۔ اے میرے اللہ! ایسا کر کہ تیری محبت مجھے اپنی جان، اپنے اہل و عیال اور ٹھنڈے پانی سے بھی زیادہ پیاری اور اچھی لگے۔

حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا ’’ اللہ تعالیٰ کا خوف ہوگا تو محبت بھی ہو گی۔ خداتعالیٰ تو کہتا ہے کہ تم میری راہ میں ایک قدم آگے بڑھاتے ہو تو مَیں دو قدم آگے بڑھاتا ہوں اور جب میری طرف کوئی چل کر آتا ہے تو مَیں اس کی طرف دوڑے ہوئے جاتا ہوں۔اگر دنیا کی خواہشات بڑھ جائیں ۔ ٹی وی ڈراموں اور انٹرنیٹ پر اتنے مگن ہوں کہ نمازوں میں تاخیر ہو جائے تو پھر خدا کی محبت پیدا نہیں ہو سکتی۔ اس محبت کے حصول کے لئے اپنی خواہشات کی قربانی کرنی پڑتی ہے‘‘۔

حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا ’’پروگراموں میں، کلاسز میں ترانے پڑھے جاتے ہیں ان ترانوں کے الفاظ پر غور بھی کیا کرو اور اس پر عمل بھی کیا کرو‘‘۔


نماز میں لذّت کا حصول
نماز میں لذت کے حصول کے بارہ میں ایک سوال پر حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا ’’ لذّت حاصل کرنے کے لئے کوشش کرو۔ نماز کے الفاظ پر غور کرو۔ اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْن پڑھو تو بار بار سوچو، اس پر غور کرو اور اپنے اندر ایک درد پیدا کرو اور اپنے اوپر ایک رونے والی کیفیت پیدا کرو، اس کا اثر دل پر بھی ہوتا ہے۔ پس دعا بھی کرو اور کوشش بھی کرو۔ نماز کا ہر لفظ سمجھ سمجھ کر پڑھو تو پھر توجہ پیدا ہوتی ہے‘‘۔

 

تعلیم کے سلسلہ میں واقفینِ نو کی رہنمائی
بعد ازاں حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نےدریافت فرمایا کہ کون کون ہیں جن کا جامعہ میں جانے کا ارادہ ہے، ڈاکٹر بننے کا ارادہ ہے۔ کتنے میڈیکل کالج میں پڑھ رہے ہیں اور کتنے کا انجنیئرز بننے کا ارادہ ہے۔

ایک طالب علم کی رہنمائی کے لئے درخواست پر حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا ’’اگر بیالوجی میں دلچسپی ہے اور اچھے گریڈ آتے ہیں تو پھر میڈیسن کرو۔ جن کو فزکس، کیمسٹری یا سائنس کے مضامین میں دلچسپی ہے وہ آگے پڑھیں اور پی ایچ ڈی کریں اور ریسرچ میں جائیں‘‘۔

ایک طالب علم نے عرض کی کہ ڈپلومیٹک سروس میں جانا ہے۔ اس پر حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا ’’جماعت نے تو کوئی ڈپلومیٹک سروس نہیں بنانی۔ لکھ کر دو کہ یہ شوق ہے پھر جماعت آپ کو بتائے گی کہ کیا کرنا ہے۔ فیصلہ کر لو کہ وقفِ نو رہنا ہے یا نہیں؟ اگر رہنا ہے تو پھر ڈپلومیٹک سروس کیوں؟ لکھ کر دو کہ یہ میرا ارادہ ہے، مجھے اس میں دلچسپی ہے‘‘۔

ایک طالب علم نے سوال کیا کہ عربی پڑھ رہا ہوں مزید عربی کے لئے کس عرب ملک میں جاؤں۔ اس پر حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا ’’سیریا کے حالات تو آج کل خراب ہیں، مصر کے حالات بہتر ہو گئے تو وہاں جا سکتے ہو۔ اچھی عربی زبان سیکھنے کے لئے سیریا اور مصرہی ہیں‘‘۔

( روزنامہ الفضل ربوہ 21 نومبر 2011ء۔ جلد 61-96نمبر 262۔ صفحہ 3)

واقفاتِ نو کلاس جرمنی بتاریخ 8 اکتوبر 2011ء

حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا ’’کئی واقفاتِ نو بچیوں کا ارادہ میڈیسن پڑھنے کا ہے۔ میڈیسن پڑھ کر خود کو جماعت کو پیش کروگی۔ پھر باہر بھیجنا پڑے گا افریقہ یا ربوہ یا قادیان۔ تیار ہو جانے کے لئے؟ ایسا نہ ہو کہ اس خوف سے میڈیسن پڑھنا ہی چھوڑ دو‘‘۔
حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا ’’ ٹیچنگ میں کس کو دلچسپی ہے۔ سائنس، جرنلزم میں کس کو ہے، زبانوں میں کس کو ہے۔ بہرحال جس مضمون میں بھی دلچسپی ہے پڑھائی کرو، توجہ کرو، محنت کرو اور اپنی پڑھائی مکمل ہونے پر اپنے آپ کو پیش کرو‘‘۔

 

واقفاتِ نو کا اعلیٰ نمونہ
حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا ’’واقفاتِ نو کو ہمیشہ یاد رکھنا چاہیئے کہ اپنے آپ کو دوسروں سے مختلف رکھنا ہے اور ہر پہلو سے بہتر رکھنا ہے۔ آپ کا اٹھنا، بیٹھنا، بول چال، حلیہ، پردہ دوسروں سے بہت بہتر اور مختلف ہونا چاہیئے۔ آپ نمازیں پڑھنے والی ہوں، قرآن کریم کی تلاوت کرنے والی ہوں اور آپ کا ایسا اعلیٰ معیار ہو کہ آپ دوسری لڑکیوں کے لئے نمونہ بنیں اور بڑی عورتیں بھی آپ سے نمونہ لیں۔ آپ نے سب کے لئے نمونہ بننا ہے۔ جن کا پردہ کا معیار اور تربیتی معیار ٹھیک نہیں ہے ان کو اپنا نمونہ دکھاتے ہوئے بتائیں کہ یہ نمونے ہیں جو ہم نے قائم کرنے ہیں‘‘۔

حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا ’’آپ یہ نہ سوچیں کہ بڑی عورتیں کیا کرتی ہیں، چغلیاں کرتی ہیں، باتیں کرتی ہیں۔ آپ قرآن کریم کی تعلیم پر چلیں۔ جو حضرتِ اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے اس پر چلیں اور عمل کریں۔ اگر واقفاتِ نو ارادہ کر لیں کہ ہم نے اپنی اصلاح کے ساتھ اپنے ماحول کی اصلاح کرنی ہے اور نمونے قائم کرنے ہیں تو بہت سی کمزوریاں دور ہو جائیں گی۔ اس لئے ابھی سے اپنے آپ کو استاد سمجھیں اور ذہن میں رکھیں کہ آپ نے سب کا علاج کرنا ہے۔ نمونہ بننے کے لئے ضروری ہے کہ آپ کو دین کا علم ہو، نمازوں کی طرف توجہ ہو اور روزانہ قرآن کریم کی تلاوت کرنے والی ہوں، حجاب اور سکارف اور باقاعدہ باپردہ ہوں۔ اگر حجاب لیا ہے اور منہ ننگا ہے تو پھر میک اَپ نہیں ہونا چاہیئے۔ اگر میک اَپ کیا ہوا ہے تو پھر منہ ڈھانکنا پڑے گا۔ تو یہ ساری باتیں ہمیشہ یاد رکھیں‘‘۔

حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا ’’دعاؤں کی طرف توجہ دیں، دعائیں بھی کریں۔ دعا سے ساری تکلیف دہ باتیں ٹَل جاتی ہیں اور ہو بھی سکتی ہیں ۔ احمدیت نے قائم رہنا ہے۔ جماعت احمدیہ آہستہ آہستہ بڑھتی جائے گی اور یہی غلبہ ہوتا ہے۔ دشمن برباد کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ خداتعالیٰ نئے ملک دے دیتا ہے۔ لاکھوں میں بیعتیں دے دیتا ہے۔ غلبہ یہ نہیں کہ حکومت ہمارے ہاتھ میں آئے، نہ ہی یہ ہماری غرض ہے اور نہ ہی یہ ہمارا مقصد ہے‘‘۔

چیٹنگ کے نقصانات
فیس بک کے بارہ میں ایک سوال کے جواب میں حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا ’’ مَیں نے یہ نہیں کہا کہ اس کو نہ چھوڑو گے تو گنہگار بن جاؤ گے بلکہ مَیں نے بتایا کہ اس کے نقصان زیادہ ہیں اور فائدہ بہت کم ہے۔ آج کل جن کے پاس فیس بک ہے وہاں لڑکے اور لڑکیاں ایسی فیس بک پر چلے جاتے ہیں جہاں برائیاں پھیلنی شروع ہو جاتی ہیں۔ لڑکے تعلق بناتے ہیں۔ بعض جگہ لڑکیاں ٹریپ ہو جاتی ہیں اور فیس بک پر اپنی بے پردہ تصاویر ڈال دیتی ہیں۔ گھر میں، عام ماحول میں، آپ نے اپنی سہیلی کو تصویر بھیجی اس نے آگے اپنی فیس بک میں ڈال دی اور پھر پھیلتے پھیلتے ہمبرگ سے نکل کر نیویارک (امریکہ) اور آسٹریلیا پہنچی ہوتی ہے اور پھر وہاں سے رابطے شروع ہو جاتے ہیں اور پھر گروپس بنتے ہیں مَردوں کے عورتوں کے اور وہ تصویروں کو بگاڑ کر آگے بلیک میل کرتے ہیں۔ اس طرح برائیاں زیادہ پھیلتی ہیں۔ اس لئے یہی بہتر ہے کہ برائیوں میں جایا ہی نہ جائے۔ میرا کام نصیحت کرناہے۔ قرآن کریم نے کہا ہے کہ نصیحت کرتے چلے جاؤ۔ جو نہیں مانتے ان کا گناہ ان کے سر ہے۔ اگر فیس بک پر تبلیغ کرنی ہے تو پھر اس پر جائیں اور کریں۔ الاسلام ویب سائٹ پر یہ موجود ہے وہاں تبلیغ کے لئے استعمال ہوتی ہے۔ لڑکیاں جلد  بیوقوف بن جاتی ہیں۔ جو کوئی تمہاری تعریف کر دے تو تم کہو گی کہ تم سے اچھا کوئی نہیں۔ اگر ماں باپ نصیحت کریں تو تم کہو گی کہ ہم تو جرمنی میں پڑھی ہوئی ہیں اور آپ لوگ کسی گاؤں سے اٹھ کر آگئے ہو۔ الحکمۃ ضالۃالمومن یعنی ہر اچھی بات جہاں سے بھی اور جس جگہ سے بھی ملے لے لیں۔ ان لوگوں کی سب ایجادیں اچھی نہیں ہیں۔ جو بات نہیں مانتیں وہ پھر روتے روتے خط لکھتی ہیں کہ غلطی ہو گئی ہے کہ ہمیں فلاں جگہ ٹریپ کر لیا گیا ہے۔جس شخص نے یہ فیس بک بنائی ہے اس نے خود کہا کہ مَیں نے اس لئے بنائی ہے کہ ہر شخص کو ننگا کر کے دنیا کے سامنے پیش کروں۔ کیا احمدی لڑکی ننگا ہونا چاہے گی۔ جو نہیں مانتے وہ نہ مانیں‘‘۔


وقف کی اصل روح
حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے ایک سوال کے جواب میں غانا میں اپنے قیام کے حوالہ سے ذکر کرتے ہوئے فرمایا ’’ مَیں واقفِ زندگی تھا اور غانا میں دوسال ایک ایسے گاؤں میں رہا ہوں جس میں سارے افریقن ہی تھے اور کوئی افریقن احمدی نہ تھا۔ ایک افریقن لڑکے کو وہاں لا کے رکھا اور سکول میں داخل کروایا۔ یہاں قیام کے دوران بعض سختیاں برداشت کرنی پڑیں۔ خود ہی کھانا پکانا پڑتا تھا۔ ایک مربی صاحب جو ستر میل دور رہتے تھے ان سے روٹی پکانی سیکھی تھی۔ زارڈین مچھلی کا ٹن کھول کر کھانا کھا لیا کرتے تھے۔ مَیں جس جگہ تھا وہاں بجلی نہیں تھی۔ میرے پاس ایک لیمپ تھا۔ رات کو جلا لیا کرتا تھا۔ نہ ٹی وی تھا اور نہ کوئی اور سہولت۔ رات کو ریڈیو سے خبریں سن لیں اور سو گئے۔ ہمارے قریب کیتھولک مشن تھا وہاں ٹی وی، کاریں جنریٹر اور سب کچھ تھا۔ ایک واقفِ زندگی کو پتہ ہونا چاہیئے کہ قربانیاں دینی پڑتی ہیں۔ سال 2004ء میں جب مَیں دوبارہ غانا گیا ہوں تو اس جگہ بھی اپنے پرانے گھر میں گیا تھا۔ دو چھوٹے چھوٹے کمرے تھے۔ اس کے بعد ایک اور جگہ آ گیا تھا۔
واقفِ زندگی کو خوراک کی تنگیاں بھی برداشت کرنی پڑتی ہیں۔ بیوی کو بھی برداشت کرنی پڑتی ہیں۔ تم واقفِ زندگی سے بیاہی جاؤ اور پھر یہ تنگیاں اور تکلیفیں برداشت کرنی پڑیں تو شور نہیں ڈالنا۔ خداتعالیٰ نے کبھی تنگی میں نہیں رکھا۔ کوئی چیز ختم ہو تو اس کا خود انتظام ہو جاتا ہے۔ اس کا اللہ تعالیٰ انتظام کرتا ہے‘‘۔

 

تبلیغ کے لئے اپنا نیک نمونہ
تبلیغ کے حوالہ سے ایک سوال کے جواب میں حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا ’’ تبلیغ کے لئے راستے آپ کو تلاش کرنے پڑیں گے۔ تبلیغ کے لئے خود مواقع پیدا کرو۔ اگر آپ پڑھائی میں ہوشیار ہیں، آپ کا حلیہ، رویہ، کردار اچھا ہے، سکارف ٹھیک ہے اور پردہ ہے، دوستیاں بڑھانے کی طرف متوجہ ہوں گی اور پوچھیں گی کہ کون ہو۔ تو تم بتاؤ کہ مَیں احمدی ہوں۔ پھر بتاؤ کہ امام مہدی کو مانا ہے۔ اس طرح بات آگے بڑھے گی اور تبلیغ کا رستہ کھلے گا‘‘۔

 

شادی کے لئے مناسب عمر
شادی کی عمر کے حوالہ سے ایک سوال کے جواب میں حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا ’’شادی کی عمر میں تو کوئی شرط نہیں ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جب حضرت خدیجہ ؓ سے شادی کی تو حضرت خدیجہؓ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے عمر میں پندرہ سال بڑی تھیں۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے سے بیس سال چھوٹی عمر سے بھی شادی کی۔عمروں کا اتنا لحاظ نہیں ہے۔ اصل یہ ہے کہ سوچیں ملنی چاہیئں۔ اگر دونوں میں سے کسی ایک کا دماغ میچور نہیں تو پھر لڑائیاں اور فتنے فساد پیدا ہوتے ہیں۔ نسلوں کو بچانے کے لئے قربانیاں کرنی پڑتی ہیں۔
گلگت کے علاقے میں اسماعیلیوں کی کافی تعداد ہے انہوں نے وہاں سکول بھی کھولے ہیں۔ وہاں لڑکے زیادہ تعلیم یافتہ نہیں ہیں۔ وہاں ایم اے پاس لڑکیوں نے میٹرک پاس لڑکوں سے شادیاں کی ہیں اور اس کی غرض یہ بتاتے ہیں کہ ہماری اسماعیلی فرقہ کی اگلی نسل محفوظ ہو جائے اور اسماعیلی فرقہ قائم رہے۔ پس اگر اسماعیلی فرقہ اتنی قربانی کر سکتا ہے جبکہ دین ان میں نام کا نہیں ہے تو ایک احمدی لڑکی کو بھی اپنی نسل بچانے کے لئے قربانی کرنی چاہیئے۔ تو جہاں سوچیں ملتی ہیں اور کفو ملتے ہیں تو وہاں عمر کا فرق کوئی بات نہیں ہے۔ لڑکیاں ویسے بھی جلد سمجھدار میچور ہو جاتی ہیں‘‘۔

حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا ’’ویک اینڈ میں یعنی ہفتہ اتوار جو چھٹی کا دن ہوتا ہے کھانا پکانا سیکھو۔ اگر پڑھائی کر رہی ہو اور شادی جلد ہو جاتی ہے تو شادی سے قبل پڑھائی کے لئے شرط رکھو کہ شادی کے بعد پڑھائی جاری رکھنی ہے اور تعلیم مکمل کرنی ہے۔ باقاعدہ خاوند سے طے کرواور تحریر کرو۔ دوسرے اگر پڑھائی کے ساتھ ساتھ گھر کے حقوق بھی ادا کرنے ہیں تو مختلف وقتوں میں کورس آفر ہوتے ہیں۔ لوگ اپنی سہولت کے مطابق کورس لے لیتے ہیں۔ اس طرح خاوند اور بچوں کے حق بھی ادا کر سکتی ہو۔ ویک اینڈ پر محنت کرو اور اس دوران کھانا پکانابھی سیکھو تا کہ جب آزاد ہو، اپنا علیحدہ گھر ہو تو اپنے گھر کو بھی سنبھال سکو۔ ضروری نہیں کہ سسرال کے ساتھ ہی رہنا ہے۔ پرانے زمانے میں چودہ پندرہ سال کی لڑکیوں کی شادیاں ہو جاتی تھیں۔ لڑکیوں سے غلطی ہوتی تھی لیکن وہ جلدی سنبھل جاتی تھیں اور پھر سارا گھر سنبھالتی تھیں۔ سب کام کرتی تھیں۔ حضرت امّاں جان ؓ کی شادی بھی چھوٹی عمر میں ہوئی تھی۔ آپ نے سارا گھر سنبھالا۔ سب کچھ سیکھا اور پھر دوسروں کو سکھایا۔ عورتوں کی تربیت کی۔ ارادہ ہو تو سب کچھ ہو سکتا ہے‘‘۔

ایک بچی کے سوال پر حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا ’’اگر رشتہ ہو گیا ہے تو پھر چھوٹی چھوٹی باتیں برداشت کریں، مسائل برداشت کریں، مسائل کو حل کرنے کی کوشش کریں۔ اگر کوئی بڑا معاملہ ہے، کوئی شرعی مسئلہ ہے، غیر اخلاقی حرکات ہیں تو پھر علیحدگی ہوتی ہے تو ٹھیک ہے۔ حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا بعضوں کو تو مَیں لندن میں بلا کر سمجھاتا رہتا ہوں۔ ابھی سفر پر آنے سے قبل ایک رشتہ جوڑ کر آیا ہوں۔ تین سال سے ان میں علیحدگی تھی۔ ان کا نکاح پڑھا کر آیا ہوں۔ پس اگر تو بڑی بڑی باتیں ہیں، غیر اخلاقی حرکتیں ہیں، دین اور مذہب کا سوال آ جاتا ہے تو پھر وہاں رشتہ ضرور توڑ لینا چاہیئے۔ ‘‘

 

لڑکیوں کے دوسرے شہر میں تعلیم حاصل کرنے کے بارہ میں ہدایت
لڑکیوں کے دوسرے شہر میں جا کر تعلیم حاصل کرنے کے بارہ میں حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا ’’ اگر ماں باپ اجازت دیں تو پھر سوچا جا سکتا ہے کہ جہاں جانا ہے وہاں کس کے پاس رہنا ہے۔ لڑکیوں کا علیحدہ ہوسٹل ہونا چاہیئے۔ اگر علیحدہ ہے تو ٹھیک ہے۔ پھر وہاں پڑھتے ہوئے اپنے تقدس کا، پاکیزگی کا خیال رکھنا ضروری ہے۔‘‘

حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا ’’ ربوہ کی لڑکیاں جب باہر پڑھنے جاتی تھیں تو ہر لڑکی نظارت تعلیم کے ذریعہ مجھ سے اجازت لیتی تھی۔ CO-EDUCATION کی صورت میں بھی مجھ سے اجازت حاصل کرتی ہیں۔ پھر لکھ کر دیتی ہیں کہ پردے میں رہ کر پڑھائی کریں گی‘‘۔

حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا ’’ اگر والدین کو تسلی نہیں تو پھر بہتر ہے کہ اپنے علاقے میں رہو اور یہیں پڑھائی کرو‘‘۔


( روزنامہ الفضل ربوہ 21 نومبر 2011ء۔ جلد 61-96نمبر 262۔ صفحہ 4تا5)

واقفینِ نو کلاس جرمنی بتاریخ 8 دسمبر 2012

حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا پہلی بات تو یہ کہ جو تلاوت کی گئی ہے اس میں حضرت اسماعیل علیہ السلام کی قربانی کی مثال بچپن کی دی گئی کہ انہوں نے اپنے ابّا یعنی باپ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو یہ کہا کہ جس طرح اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے کہ میری قربانی کرو، اسی طرح کر دو۔ اب یہ قربانی کا جذبہ ہر بچے میں اس وقت پیدا ہوسکتا ہے جب آپ لوگ کچھ تھوڑی سی تاریخ سے بھی واقفیت رکھیں اور تاریخ پڑھیں۔
حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے دریافت فرمایا کہ کن کن بچوں نے حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت اسماعیل علیہ السلام کی کہانی پڑھی ہے۔ اس پر بچوں نے ہاتھ کھڑے کئے تو حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا چار پانچ نے پڑھی ہے تو پتہ کیا لگے گا۔

بہرحال پہلی بات تو یہ ہے کہ اس وقت وقفِ نو کے لئے مرکزی طور پر مَیں نے ’’اسماعیل‘‘ نام سے رسالہ شروع کروایا ہے اور اس کا نام اسی وجہ سے رکھا ہے۔ اب تو اس کا تیسرا ایشو بھی آ رہا ہے۔ وہ رسالہ یہاں آنا چاہیئے اوراس کے مضامین منگوا کر یہاں بھی شائع کرنا چاہیئے۔ آدھا حصّہ جرمن میں اور باقی حصّہ اردو زبان میں شائع ہو تا کہ ان بچوں کو بھی پتہ لگے کہ واقفینِ نو کی کیا اہمیت ہے۔ یہ رسالہ صرف یوکے کے لئے نہیں بلکہ مَیں نے کہا تھا کہ ساری دنیا کو بھیجا جائے۔

حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا کہ یہ جو سارا آج پروگرام تھا پہلے تو قرآن کریم کی تلاوت تھی اس میں حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت اسماعیل علیہ السلام کی قربانیوں کا ذکر ہے خاص طور پر حضرت اسماعیل علیہ السلام کی قربانی کا ذکر ہے۔ پھر حدیث پیش ہوئی جس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میرا حال تو یہ ہے جس طرح ایک انسان ایک مسافر پیدل جا رہا ہو، سفر کر رہا ہو۔ آج کل تو سفر کے بہت سے ذریعے ہیں کار میں بیٹھ جاتے ہو، جہاز میں بیٹھ جاتے ہو، ٹرین پر بیٹھ جاتے ہو۔ پرانے زمانے میں یا گھوڑوں پر سفر کرتے تھے یا اونٹوں پر سفر کرتے تھے اور وہ بھی ریگستان میں دور دور تک درخت کوئی نہیں ہوتا تھا۔ عربوں کی یہی مثال دی ہےکہیں درخت نظر آ جاتا تھا، سایہ ہوتا تھا تو وہاں سفر کرتے کرتے اس کے سائے میں بیٹھ کے سستا لیتے تھے۔ تمہارے یہاں سردیاں ہوں، برف پڑ رہی ہو تو ہیٹنگ آن کر لیتے ہو، گرمیاں آئیں تو ائیر کنڈیشن آن ہو جاتے ہیں، پنکھے چل جاتے ہیں۔ لیکن اُس زمانے میں پنکھے نہ تھے۔ تو اُس زمانے کی مثال آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے دی ہے کہ دیکھو تم سفر کر رہے ہو دھوپ تیز ہو، صحرا ہو ، ریت کی گرمی ہو اور تم تھکے ہوئے ہو تو جب کوئی درخت نظر آتا ہے تو اس کے سائے کے نیچے تھوڑا سا آرام کرتے ہو، پھر چل پڑتے ہو۔ تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میری زندگی تو ایسے ہے۔ مَیں تو دنیا کی جو چیزیں ہیں، دنیا کے آرام اور آسائشیں ہیں، سہولتیں ہیں، ان سے میرا کوئی تعلق نہیں۔ اس لئے کہ مَیں تو لوگوں کو اللہ تعالیٰ کے قریب کرنے کے لئے دنیا میں آیا ہوں۔ انسان کو محبت و پیار سکھانے کے لئے دنیا میں آیا ہوں اور میرا مسلسل سفر ہے۔ رات کو سوتا ہوں آرام کرتا ہوں ، دوپہر کو بیٹھتا ہوں تو یہ اسی طرح ہے جس طرح ایک مسافر چلتے چلتے تھوڑی دیر درخت کے نیچے آرام کرے اور پھر آگے روانہ ہو جائے۔

حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایاکہ یہ چیزیں ذہن میں رکھنی چاہیئں اور جب یہ چیزیں یاد آئیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کس طرح اپنی جان کو لوگوں کی ہدایت کے لئے ہلکان کیا ۔ اللہ تعالیٰ کہتا ہے ہلاک نہ کر اپنی جان کو کہ یہ ایمان نہیں لاتے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ایسی حالت ہو گئی تھی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ خواہش تھی کہ ساری دنیا اللہ تعالیٰ کو ماننے والی ہو جائے،عبادت کرنے والی ہو جائے، نمازیں پڑھنے والی ہو جائے، بتوں کو چھوڑ دے تو اس کی خاطر بے چین ہوتے تھے، دعائیں کرتے تھے اور کوشش کرتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے کہا ہے کہ کسی کو ہدایت دینا میرا کام ہے تمہارا کام صرف تبلیغ کرنا ہے ہاں بیشک تبلیغ کرو لیکن اتنی فکر بھی نہ کرو کہ اپنے آپ کو ہلاک کر لو، مار ہی لو کہ یہ کیوں مسلمان نہیں ہوتے۔

 

مبلغین کی ہمیں زیادہ سے زیادہ تعداد چاہیئے
حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایاکہ یہ اب واقفینِ نو کا بھی کام ہے۔ تمہاری خاص پرسنٹیج (Percentage)ایسے لوگوں کی ہونی چاہیئے جو جامعہ میں جانے والے ہوں مبلغین بھی بنیں۔ ایک تو عمومی طور پر واقفین زندگی ہیں، واقفینِ نو ہیں جس میں سے انجینئر بھی بن رہے ہیں ڈاکٹر بھی بن رہے ہیں لائرز بھی بن رہے ہیں لیکن کچھ لوگ جامعہ میں جانے والے ہونے چاہیئں۔ اب آہستہ آہستہ جامعہ میں جانے والوں کی تعداد کم ہو رہی ہے جبکہ مبلغین کی ہمیں زیادہ سے زیادہ تعداد چاہیئے۔ جرمنی میں کتنے شہر ہیں کتنے قصبے ہیں ہزاروں میں ہوں گے۔ اب ہر جگہ ایک مبلغ بھیجنا ہو تو ہم نہیں بھیج سکتے ہمارے پاس زیادہ سے زیادہ پندرہ بیس مبلغ ہیں۔ ایک ریجن میں ایک مبلغ بیٹھا ہوتا ہے۔ ہمبرگ میں مبلغ ہیں تو سارے علاقے کو کور کر رہے ہیں حالانکہ یہاں سے مہدی آباد Nahe تک جاؤ تو تین شہر راستے میں آ جاتے ہیں۔ ہر جگہ ایک مربی بیٹھنا چاہیئے مبلغ ہونا چاہیئے۔ اور صرف جرمنی نہیں ساری دنیا ہمارا میدان ہے۔ کوشش کرو کم از کم بیس فیصد جو واقفینِ نو ہیں وہ جامعہ میں جانے والے ہوں۔ اسی طرح ڈاکٹر ہیں ان کی بھی ایک خاص پرسنٹیج ہونی چاہیئے۔ اللہ تعالیٰ نے کہا ہے کہ تمہارے میں سے ایسے لوگ ہونے چاہیئں جو دین کا علم حاصل کریں اور دین کا علم حاصل کر کے پھر اس کو اپنے اپنے علاقے میں پھیلائیں یا ویسے تبلیغ کریں۔ تو یہ تبلیغ کا ایک بہت بڑا کام ہے جو ہمارے سپرد ہے۔ اس طرف بھی توجہ دینی چاہیئے۔ نہیں تو آٹھ دس لڑکے ہر سال جامعہ میں آتے ہیں تو فائدہ کوئی نہیں ہو گا۔

 

واقفین زندگی کی سب سے بڑی چیز وفاہے
حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایاکہ پھر آگے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا اقتباس پڑھا گیا جس میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کی قربانی اور وفاداری کی مثال دی گئی ہے کہ سب سے بڑی چیز وفاداری ہے۔ قرآن کریم میں لکھا ہے اِبْـرٰھِـیْـمَ الَّـذِیْ وَفّٰٓی ابراہیم وہ تھا جس نے وفا کی۔ وفا کیا ہے؟ وفا یہ ہے کہ جو وعدہ کیا ہے اس کو پورا کرو۔ وفا یہ ہے کہ اب اس زمانے میں خدا تعالیٰ کا اتنا بڑا انعام ہے۔ مَیں نے بتایا ہے کہ پرانے زمانے میں کہ نہ کوئی سہولت تھی، نہ کوئی پانی ہوتا تھا، نہ بجلی تھی، نہ پنکھا تھا، نہ ہیٹنگ تھی۔ سردی ہے تو اس میں آگ جلانی پڑتی تھی، لکڑیاں اکٹھی کر کے اگر وہ بھی مل جائیں۔ اور گرمیاں ہوں تو جیسا بھی پانی ملے وہ بڑی نعمت لگا کرتی تھی۔ آجکل اتنا سب کچھ ہے۔ اللہ تعالیٰ سے وفاداری کا تقاضا ہے کہ ان نعمتوں کا بھی شکر ادا کرو اور سب سے زیادہ ہر احمدی کو ان نعمتوں کا شکر ادا کرنا چاہیئے۔ اور یہ وفاداری واقفینِ نو کی یہ ہے کہ ایک تو اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنی کبھی نہ بھولیں، پھر جس مقصد کے لئے ماں باپ نے وقف کیا ہے اس کو ہمیشہ یاد رکھیں۔ اس دنیا میں رہتے ہوئے یہاں کی سہولتوں کو آرام کو آسائش کو دیکھ کر بھول نہ جائیں کہ ہمارے کچھ اللہ تعالیٰ سے وعدے بھی ہیں ان کی وفا کرنی ہے۔ بلکہ ہر جو سہولت ملتی ہے، ہر آرام جو تم دیکھتے ہو، پڑھائی میں اگر اچھے ہو، سکولوں میں اگر پڑھ رہے ہو، تعلیم میں آگے جا رہے ہو۔ اللہ تعالیٰ کا مزید شکر کرتے ہوئے دین کی طرف زیادہ لگاؤ ہونا چاہیئے بجائے اس کے کہ دنیا کی طرف لگاؤ ہو۔ واقفین زندگی کی سب سے بڑی چیز وفا ہے۔

حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایاکہ نظم بھی یہاں پڑھی گئی جس میں حضرت مصلح موعودؓ نے کہا کہ زمانے کے حالات جو ہیں بڑے مشکل ہیں۔ آپ کی ایک اور نظم ہے جس میں لکھا ہوا ہے کہ
جدھر دیکھو ابر ِگنہ چھا رہا ہے                         گناہوں میں چھوٹا بڑا مبتلا ہے
پس اتنا زیادہ گناہ ہے دنیا میں، میڈیا ہے انٹرنیٹ ہے، ٹی وی کے پروگرام ہیں، چیٹنگ ہے، ویب سائٹس ہیں ، فیس بک ہے اور بھی بہت ساری چیزیں ہیں۔ ان سب میں نیکی کی کم تعلیم ہوتی ہےگناہوں کی زیادہ باتیں ہوتی ہیں۔ تو ان چیزوں سے خود بھی بچنا اور دوسروں کو بچانا واقفینِ نو کا کام ہے۔ حضرت مصلح موعودؓ نے فرمایا ہے کہ شیطان ایک عرصے سے حکمران ہو رہا ہے۔ اب تمہارا کام ہے جو احمدی ہیں جنہوں نے حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کو مان لیا ہے اس شیطان سے اپنے آپ کو بھی بچاؤ اور دنیا کو بھی بچاؤ۔ یہ بہت بڑا کام ہے، بہت بڑی ذمہ داری ہے جو واقفینِ نو کی لگائی گئی ہے۔

 

وفا کاپہلا تقاضا۔ اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنا
پھر واقفینِ نو کے حوالہ سے جو باقی مضامین ہیں مختصر یہ ہے کہ ہر واقفِ نو یہ عہد کرے کہ مَیں نے ایک تو اللہ تعالیٰ سے ہمیشہ وفا کرنی ہے اور وفا یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جس مقصد کے لئے مجھے پیدا کیا ہے وہ کیا ہے اس کی عبادت کرنا۔ کبھی اپنی پانچ نمازیں نہیں چھوڑنی۔ میرے سامنے جتنے بچے بیٹھے ہوئے ہیں دس سال سے بڑی عمر کے ہیں جو چھوٹے سے چھوٹا ہے وہ بھی دس سال سے اوپر ہے اور دس سال کی عمر وہ ہے جس میں نمازیں فرض ہو جاتی ہیں ۔ اور اس میں تو کوئی رعایت نہیں ہے بلکہ دس سال کے بعد سختی کرنے کا حکم ہے۔ ایک دو سال تک ماں باپ کوئی ایک آدھ چپیڑ مار بھی دیں کہ تم نے نماز نہیں پڑھی تو برداشت کر لیا کرو۔ اور جو جوان ہیں انہیں خود ہوش ہونی چاہیئے۔ بارہ سال کے جو ہو جاتے ہیں پانچ نمازیں جو فرض ہیں ان کو پڑھنا ضروری ہے، سکول میں جاتے ہو، آجکل سردیاں ہیں اور وقت نہیں ملتا یا تو سکول والوں سے کہو کہ ایک ڈیڑھ بجے جو بریک ہوتی ہے اس میں وقت دے دیں کہ ہم نماز پڑھ لیں۔ سکول میں دونوں نمازیں جمع کر لیا کرو کیونکہ تین پونے چار کے بعد تو نماز کا وقت ہی نہیں رہتا۔ اس لئے نمازوں کو کبھی نہ چھوڑو۔پانچوں نمازیں پوری پڑھنی ہیں۔


وفا کا دوسرا تقاضا ۔ تلاوتِ قرآن کریم
دوسرے وفا کا تقاضا ہے کہ دین کا علم سیکھو اور دین کا علمِ قرآن کریم پڑھنے سے آتا ہے۔ جو بڑے ہو گئے ہیں وہ بھی ہمیشہ یاد رکھیں کہ گھر سے باہر نہیں نکلنا چاہیئے جب تک آپ قرآن کریم کی تلاوت نہ کر لیں، کم از کم ایک رکوع ہر روز پڑھا کریں چاہے تھوڑا وقت ہی ہو۔

 

وفا کا تیسرا تقاضا۔ مطالعۂ کتب حضرت مسیح موعودعلیہ السلام
پھر وفا کا تقاضا یہ ہے کہ اس زمانے میں اللہ تعالیٰ نے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو بھیجا ہے ان سے ایک مضبوط تعلق پیدا کرو۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ تمام دنیاوی رشتوں سے زیادہ میرے سے رشتۂ محبت پیدا کرو اور اس کا طریقہ یہی ہے کہ آپؑ کی کتابیں پڑھو۔ جو کتابیں جرمن میں ترجمہ ہو گئی ہیں ان کو پڑھو۔ جو نہیں ہیں وہ ماں باپ سے کہو کہ پڑھ کر سنائیں۔ تمہارے ساتھ ساتھ ماں باپ کو بھی پڑھنے کا شوق پیدا ہو جائے گا۔ اور حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یہ بہت خوبصورت بات کہی ہوئی ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام وہ شخص ہیں جن پر فرشتے اترتے تھے اور آپؑ کی کتابیں وہ ہیں جو اس طرح فرشتوں کی رہنمائی میں لکھی گئیں۔ اللہ تعالیٰ کی رہنمائی میں مکمل کی گئیں۔ آپؑ پر فرشتے اترتے تھے اور جو لوگ ان کو پڑھتے ہیں اگر سنجیدہ ہو کر پڑھیں تو ان پر بھی فرشتے اترنے لگ جاتے ہیں یعنی ان کو نیکیوں کی طرف تلقین کرتے ہیں۔ پس جو اثر حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کی کتابوں کا ہے وہ کسی اور کا نہیں ہو سکتا۔

 

نصاب وقفِ نو کی طرف خصوصی توجہ
حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایاکہ آپ لوگ بڑے ہو گئے ہیں پندرہ، سولہ، اٹھارہ سال کے۔ پھر وقفِ نو کا کورس کر لینا اور اس میں بھی 50 فیصد بچوں میں 50 فیصد کورس کر لینا یہ تو کوئی کمال کی بات نہیں ہے۔ آپ میں سے ہر ایک کو سو فیصد کورس مکمل کرنا چاہیئے اوروہ معمولی سا کورس ہے۔ اس کے علاوہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتابیں پڑھیں، قرآن کریم کی کمنٹری ہے۔ انگلش جن کو آتی ہے وہ انگلش میں volume 5کمنٹری پڑھیں۔ چھوٹے بچے جو ہیں وہ ترجمہ سیکھنے کی کوشش کریں۔ مَیں نے وقفِ نو یوکے کے اجتماع میں کافی ساری ہدایات دی تھیں وہ بھی جرمن میں اور اردو میں پرنٹ کروا کر آپ کے سامنے رکھنی چاہیئں۔ دو مختلف اجتماعوں میں ہدایات دے چکا ہوں۔ پس ان پر عمل کرنے کی کوشش کرو۔ چھوٹے بچے بھی بڑے بھی۔ جس طرح آپ بڑے ہوتے جا رہے ہیں آپ لوگوں کی ذمہ داریاں بھی بڑھتی جا رہی ہیں۔ وفا کا معیار جو ہے وہ بھی بڑھتا چلا جانا چاہیئے۔

 

( روزنامہ الفضل ربوہ 31 دسمبر 2012ء۔ جلد 62-97نمبر 301۔ صفحہ 3تا 5)

واقفاتِ نو کلاس جرمنی بتاریخ 8 دسمبر 2012ء

واقفاتِ نو کی ذمہ داریاں
حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا کہ آپ لوگوں نے بڑا اچھا پروگرام رکھا تھا لیکن اس کو یاد رکھنا بھی بہت بڑا کام ہے۔ ترانے میں تو یاد رکھ لیا اب گھر جا کر یاد رکھتے ہو کہ نہیں یہ نہیں پتہ۔ فرمایا کہ تلاوت یہ کی تھی کہ ہم وہ لوگ ہیں یَاْمُـرُ وْنَ بِالْـمَـعْـرُوْفِ وَ یَـنْـھَـوْنَ عَنِ الْـمُـنْکـَرِط کہ جو اچھی باتیں ہیں ان کی ہم تبلیغ کرتے ہیں، وہ بتاتے ہیں، ہدایت کرتے ہیں اور بُری باتوں سے روکتے ہیں۔ اچھی باتوں کے بتانے والے وہی لوگ ہو سکتے ہیں جو خود اچھے کام کر رہے ہوں اور برے کاموں سے روکنے والے بھی وہی لوگ ہو سکتے ہیں جو خود برے کاموں سے رُک رہے ہوں۔ ہر واقفۂ نو کو یہ بات یاد رکھنی چاہیئے ۔ ایک پہلی بات تو یہ ہے کہ ایک احمدی بچی، ایک احمدی لڑکی ایک احمدی عورت کا فرض ہے ہر ایک کا فرض ہے کہ ہر احمدی دوسروں سے ( یعنی غیروں سے ) مختلف ہو لیکن واقفۂ نو جو ہے اُس میں اور ایک عام لڑکی میں بڑا فرق ہونا چاہیئے۔ آپ لوگوں نے اپنے آپ کو وقف کیا ہے یا بچپن یا پیدائش سے پہلے آپ کے ماں باپ نے آپ کو وقف کیا ہے اور پندرہ سال کے بعد اپنے اپنے بانڈ کو Renew کیا اور وقف کیا ہے تو ہمیشہ یہ خیال رکھیں کہ جوانی کی عمر میں قدم رکھنے کے بعد آپ لوگوں کو ان چیزوں کی تلاش کرنی چاہیئے جو اللہ تعالیٰ کو پسند ہیں۔ نیکیاں کون سی ہیں۔ اللہ تعالیٰ کہتا ہے نیکیاں وہ ہیں جو قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے بیان کی ہیں۔ برائیاں کون سی ہیں؟ وہ برائیاں جو قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے بیان کی ہیں۔ پس نیکیوں کو اختیار کرنا، برائیوں سے روکنایہ خاص طور پر وقفِ نو کا کام ہے اور نیکیوں کی تلاش کہ کون کون سی نیکیاں ہیں، برائیوں کی تلاش کہ کون کون سی برائیاں ہیں یہ کرنے کے لئے آپ لوگوں کے لئے قرآن کریم کا پڑھنا ضروری ہے۔ قرآن کریم کی صرف تلاوت نہیں بلکہ اس کا ترجمہ بھی سیکھنا ضروری ہے۔ پس ایک تو یہ بات ہمیشہ یاد رکھیں کہ قرآن کریم صرف ناظرہ نہ پڑھ لیا کریں بلکہ اس کا ترجمہ بھی ساتھ پڑھیں۔ اس کی کمنٹری بھی پڑھیں جہاں جہاں مہیا ہے تا کہ آپ کو پتہ لگے کہ آپ کے کام کیا ہیں۔ آپ کی ڈیوٹیز کیا ہیں۔ عام لڑکی کی طرح آپ کی ڈیوٹی یہ نہیں ہے کہ فیشن کر لیا اور پس ختم ہو گیا۔ یا یہ ڈیوٹی نہیں ہے کہ لجنہ کے کام کے لئے ہفتے میں ایک گھنٹہ آ کر دفتر میں بیٹھ گئے یا لجنہ کا کام اپنے حلقہ میں کر لیا بلکہ پوری ذمہ داری واقفۂ نو کی یہ ہے کہ ہر وقت یہ خیال رکھے کہ اس نے لوگوں کے لئے نمونہ بننا ہے اور چوبیس گھنٹے کی یہ ڈیوٹی ہے۔ نمونہ گھر میں بھی، نمونہ بہن بھائیوں کے لئے بھی، باہر بھی نمونہ بننا ہے اور دوسرے احمدیوں کے لئے نمونہ بننا ہے۔ پس اس بات کو میں پہلے بھی کہہ چکا ہوں۔ میں دوبارہ کہتا ہوں اس کو یاد رکھیں تبھی آپ لوگ صحیح کام کرنے والی ہو سکتی ہیں۔

 

سچی اطاعت
حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایاکہ حدیث بھی آپ نے پڑھی ہے اور یہ ترانہ بھی پڑھا ہے کہ اطاعت کرنی ہے۔ حدیث میں آپ نے یہ پڑھا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہم ہر حالت میں اطاعت کریں گی۔ سنیں گی اور اطاعت کریں گی جیسے مرضی حالات ہو جائیں۔ اور آگے یہ بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے الفاظ ہیں دیکھیں کتنی حکمت ہے فرمایا بعض لوگوں کو بڑے شکوے پیدا ہو جاتے ہیں کہ صدر نے یا فلاں سیکریٹری نے یا فلاں نے اُس لڑکی کو زیادہ لفٹ کرا دی، اُس سے کام لے لیا ہمارے سے نہیں لیا اور دُور ہٹ گئے۔ عمومی طور پر ایک مسلمان کے لئے ایسا کرنا درست نہیں پھر اس زمانے میں احمدی مسلمان کے لئے اور اس سے بڑھ کر واقفۂ نو کے لئے یہ معیار ہونا چاہیئے کہ چاہے اپنے افسروں سے یا اپنے عہدیداروں سے شکوے بھی ہوں تب بھی آپ نے کامل اطاعت کر کے اپنا جو مقصد ہے وقفِ نو کا اس کو پورا کرنا ہے۔ دل میں شکوہ نہیں لانا۔ کوئی برائی کرتا ہے تو دل میں شکوے آتے ہیں، دل میں خیال پیدا ہوتا ہے لیکن وہ خیال جو پیدا ہوتا ہے اس کو جماعتی کاموں کے لئے روک نہیں بننا چاہیئے۔ آپ لوگوں کی نیکیوں میں کمی کرنے کا باعث نہیں بننا چاہیئے۔ پس ہمیشہ یاد رکھیں سچی اطاعت وہ ہے جو باوجود اس کے کہ آپ سے اچھا سلوک نہ ہو تب بھی کرنی ہے۔ یہی اس حدیث میں پڑھایا گیا ہے۔

حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ، حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بھی یہ کہا ہے کہ اگر مصیبتوں کے پہاڑ بھی ٹوٹ پڑیں تو اللہ تعالیٰ کو نہیں چھوڑنا۔ اللہ کو پکڑ لیں تو سارے مسئلے حل ہو جائیں گے۔ دنیا والوں سے آپ نے کچھ نہیں لینا نہ آپ کو اپنی سیکریٹری وقفِ نو سے کچھ لینا ہے نہ آپ کو اپنی صدر سے کچھ لینا ہے نہ آپ کو اپنے کسی عزیز رشتہ دار سے کچھ لینا ہے۔ دنیاوی چیزیں جو لینی ہیں وہ بھی خداتعالیٰ سے ہی لینی ہیں۔ خدا تعالیٰ سے تعلق پیدا کر لو، نمازوں میں باقاعدگی پیدا کرو، قرآن کریم پڑھو اور اس پر عمل کرنے کی کوشش کرو۔ ایسا تعلق ہو جائے کہ پھر اللہ تعالیٰ تمام ضرورتیں پوری کرنے لگ جائے۔

 

مطالعۂ کتب حضرت مسیح موعود علیہ السلام
حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتابیں، انگلش جن کو پڑھنی آتی ہے وہ انگلش میں جو ترجمہ ہے وہ پڑھیں۔ جن کو جرمن آتی ہے وہ جرمن میں جو ترجمہ ہے وہ پڑھیں۔ زیادہ تراجم نہیں ہیں تو بار بار ان کو پڑھیں۔ ہر بار جب آپ پڑھیں گی تو آپ کے علم میں اضافہ ہو گا۔ اس لئے اس بارے میں خاص طور پر بہت زیادہ کوشش کریں۔

 

واقفاتِ نو کا نمونہ
حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا کہ آپ کا اٹھنا بیٹھنا، رہن سہن، کپڑے، لباس، حجاب، جو جوان ہو گئی ہیں تیرہ چودہ سال کی ہو گئی ہیں وہ دوسروں سے مختلف ہونی چاہیئں۔ بلکہ نمونہ ہونا چاہیئے۔ یہ نہ دیکھیں کہ فلاں لڑکی تو فیشن کر رہی ہے یا میری فلاں بہن فیشن کر رہی ہے میری امّاں اس کو کچھ نہیں کہتیں اور مجھے کہتی ہیں کہ تم اپنے آپ کو ڈھانک کر رکھو یا فلاں لڑکی فیشن کر رہی ہے اور وہ فلاں عہدیدار کی بیٹی ہے اور مجھے کہتے ہیں وقفِ نو والے کہ تم زیادہ فیشن نہ کرو۔ فیشن کرنے میں کوئی برائی نہیں لیکن ایسا فیشن جس سے آپ لوگوں کی جو حیا ہے اس پر اثر پڑتا ہو وہ فیشن نہیں کرنا چاہیئے۔ اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے حجاب کا، برقعے کا، تو ایک عمر کے بعد تو وہ پہننا چاہیئے بغیر شرمائے پہننا چاہیئے۔ یہ نہ دیکھو کہ فلاں صدر صاحبہ یا فلاں سیکریٹری صاحبہ کی بیٹی نے نہیں پہنا تھا یا فلاں جماعت کے عہدیدار کی بیٹی نے نہیں پہنا ہوا تو ان کو چھوڑو۔ تم نے ان کی بھی اصلاح کرنی ہے اور اپنی ہم عمر لڑکیوں کی بھی اصلاح کرنی ہے اور اپنے سے بڑی جو ہیں ان کی بھی کرنی ہے۔ اسلئے آپ لوگوں نے نمونہ بننا ہے۔ تبھی آپکا وقفِ نو حقیقی وقف شمار ہو سکتا ہے۔
حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایایہ حضرت مصلح موعودؓ کی جو نظم لکھی ہے۔ اس میں بھی یہی لکھا ہے خلاصہ اس کا یہی ہے کہ جو مرضی حالات ہو جائیں اسلام کی حقیقی تعلیم ایک احمدی میں ہونی چاہیئے ۔ اور وہ احمدی جس کے ماں باپ نے یہ عہد کیا ہو کہ یہ بچہ میرا یا بچی میری احمدیت کی خدمت کرے گی اور پھر پندرہ سال کے بعد آپ خود عہد کرتی ہیں کیونکہ اکثر میں دیکھ رہا ہوں کہ تیرہ چودہ سال سے اوپر کی لڑکیاں ہی ہیں اور بعض اس سے بڑی بھی ہونگی۔ آپ لوگوں نے حقیقی تعلیم کا نمونہ بننا ہے۔ اس کے لئے رستے تلاش کریں اور جو مریم رسالہ یہاں آتا ہے انٹرنیٹ پر آتا ہے تو اس کا کوئی ایشو نکال کر اس سے مواد لے لیا کریں وہ جرمن زبان میں بھی یہاں ترجمہ کر کے ایک رسالہ یہاں شائع کر سکتے ہیں۔ آپ لوگ جرمن اور اردو میں کریں تا کہ ان کو بھی سمجھ آ جائے۔ تو زیادہ سے زیادہ علم حاصل کرنے کی کوشش کرو۔ قرآن کریم کا علم حاصل کرو۔


چار اہم باتوں کی طرف توجہ
حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا کہ پہلی بات نمازیں ہیں اللہ تعالیٰ سے تعلق ہے دوسری بات قرآن کریم پڑھنا اس میں سے اچھائیوں کو نکال کر اپنے اوپر لاگو کرنا اور برائیوں سے بچنا ، تیسری بات حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتابوں کو تفصیل سے پڑھو تمہیں پتہ لگے گا کہ قرآن کی تعلیم کا مطلب کیا ہے۔ چوتھی بات میرے خطبے جو میں دیتا ہوں ان کو باقاعدگی سے سنو اور ان پر عمل کرنے کی کوشش کرو۔ میری تقریریں جو لجنہ میں کی ہیں انہیں سنو۔ لباس ہے حیا ہے ۔ پھر میں بہت سی مختلف ہدایتیں حالات کے مطابق دیتا ہوں۔ انٹرنیٹ پر چیٹنگ ہے اس سے منع کیا، فیس بک پہ میں نے منع کیا کیونکہ اس سے غلط باتیں پیدا ہوتی ہیں۔ یہ گناہ نہیں ہے لیکن یہ چیزیں غلط کاموں کی طرف لے جاتی ہیں۔ پروگرام بہت سارے ٹی وی پر آتے ہیں ان ملکوں میں گندے ہوتے ہیں ان کو کبھی نہ دیکھو۔ اپنا مقصد صرف یہ رکھو کہ ہم واقفاتِ نو ہیں۔ ہم نے دنیا کی اصلاح کرنی ہے۔ دنیا کی اصلاح کرنے کے لئے بہت بڑی تبدیلی پہلے اپنے اندر پیدا کرنی پڑے گی پھر ہی اصلاح کر سکتے ہو اس کے بغیر نہیں۔

 

عائلی زندگی کے بارہ میں زرّیں ہدایات
بچیوں کے رشتہ کے تذکرہ پر حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایااللہ تعالیٰ مبارک کرے۔ یہ جن کے رشتے ہوئے ہیں اللہ تعالیٰ ان سب کے رشتے مبارک کرے اور صبر سے حوصلے سے اپنے رشتوں کو نبھانے کی کوشش کرنا۔ اپنی طرف سے کوئی پہل نہ کرنا، موقع نہ دینا، نہ اپنے خاوند کو، نہ اپنے سسرال کو کہ وہ انگلی اٹھا کے یہ کہیں کہ اس لڑکی نے یہ کیا تھا وہ کیا تھا۔ جو اپنی کوشش ہو سکتی ہے رشتوں کو نبھانے کے لئے وہ کوشش کرو۔ یہ بڑی فکر کی بات ہوتی ہے کہ بعض رشتے ہوتے ہیں اور وہ ٹوٹ جاتے ہیں۔
اسی طرح رشتے کے سلسلہ میں تصویر بھجوانے کے بارہ میں حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایارشتے کے لئے تصویر انٹرنیٹ یا فیس بک پر تو نہیں لگانی۔ اگر کسی جگہ سے رشتہ آتا ہے تو خود آکر دیکھ لیں۔ اگر کسی دوسرے ملک میں تصویر بھیجنی پڑتی ہے تو کسی ذمہ دار رشتہ دار یا عزیز کے ہاتھ بھجوائیں۔ جماعتی عہدیدار کے ہاتھ تا کہ وہ جائے اور دکھا کر واپس آ جائے۔ یہ نہیں کہ اس تصویر کا غلط استعمال شروع ہو جائے۔

 

کسی کو اپنے اوپر فخر نہیں کرنا چاہیئے
سچی خوابوں کے بارہ میں سوال کے جواب میں حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا سچی خواب چوروں ڈاکوؤں کو بھی آ جاتی ہیں۔ خواب آنا کوئی بڑی نیکی کی بات نہیں۔ یہ تو اللہ تعالیٰ کا کام ہے۔ بڑی نیکی تو یہ ہے کہ جو اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے کہ تم دعائیں کرو اور نمازیں پڑھو، قرآن کریم کی تعلیم پر عمل کرو۔ یہ نیکی ہے تمہارے لئے۔ خوابیں دیکھنے سے کوئی نیک نہیں بن جاتا۔ یہ نہ سمجھو کہ سچی خوابیں آ گئی ہیں تو میں نیک ہو گئی ہوں۔ سچی خوابیں نیک لوگوں کو بھی آتی ہیں اور جوبرے ہوتے ہیں ان کو بھی آ جاتی ہیں۔ خواب کے اوپر کسی کو اپنے اوپر فخر نہیں کرنا چاہیئے۔ جب سچی خواب آ جائے تو دعا ضرور کرو اور ضرورت سے زیادہ استغفار کرو کہ اللہ میاں نے مجھے خواب دکھائی اور پھر اسے سچا بھی کر دیا۔ تب نیکی پیدا ہوتی ہے۔

 

ذیلی تنظیم میں خدمت کے مواقع
ایک سوال پر کہ ناصرات میں بعض اوقات کچھ ذمہ داری ہوتی ہے لیکن لجنہ میں آ کر کیسے ایکٹو رہ سکتے ہیں۔ حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایالجنہ کا کام ہے۔ ان کو چاہیئے کہ جو ناصرات میں اچھے کام کر رہی تھیں، کوئی عہدہ تھا اس کو کوئی عہدہ نہیں بلکہ کوئی ذمہ داری کہنا چاہیئے، کوئی کام کر رہی تھی ان کو حلقے کی مختلف ٹیموں میں نائبات یا معاونات لگائیں تا کہ ان کی پریکٹس ہو۔ ان کو احساس ہو کہ ہمارا ٹیلنٹ ہماری صلاحیتیں ضائع نہیں ہو رہی ہیں۔ خدمت لینی چاہیئے ان سے نہیں لیتیں تو ان کا قصور ہے۔


شہادت کے درجات
ایک سوال پر کہ شہادت کے رتبہ کیلئے دعا کرنی چاہیئے یا غازی بننے کے لئے ؟ حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایااپنے اپنے مقام کے مطابق لوگ دعا کرتے ہیں۔ دعا شہادت کے لئے کرتے ہیں وہ بھی اپنے لحاظ سے کرتے ہیں۔ لیکن تم یہ کرو کہ اللہ تعالیٰ تمہیں غازی بنائے۔ بعد میں جو پیچھے رہنے والے ان کے لئے بھی بعض مسائل کھڑے ہو جاتے ہیں۔ ان کا ایمان اتنا نہیں ہوتا تو اللہ تعالیٰ سے یہ دعا کرنی چاہیئے کہ اللہ تعالیٰ ہم سے راضی ہو جائے اور شہید صرف ایک طرح کا تو نہیں ہے۔ اگر مسلسل ایک آدمی دین کے لئے اسلام کے لئے خدمت کر رہا ہے، اللہ تعالیٰ کی طرف بڑھ رہا ہے۔ قرآن کریم کی تعلیمات پر عمل کرنے والا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ پر چلنے والا ہے تو یہ بھی شہادت کا درجہ ہی ہے۔

 

بہترین اخلاق
ایک سوال پر کہ حضور کو کون سی عادتیں اچھی لگتی ہیں جو انسانوں کے اخلاق میں ہونی چاہیئں؟ حضورِ انور نے فرمایاتم قرآن کریم پڑھو اس میں اچھی عادتیں، اچھے اخلاق کے بارہ میں سب کچھ لکھا ہوا ہے ان کو اختیار کر لو۔ مجھے کیا اچھی لگنی ہیں ۔ اللہ تعالیٰ کو جو اچھی لگتی ہیں وہ اختیار کرنی چاہیئں۔ حضرت عائشہ ؓ سے کسی نے پوچھا تھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق کے بارہ میں بتائیں عادتوں کے بارہ میں بتائیں ۔ تو انہوں نے جواب دیا تھا کہ تم نے قرآن کریم نہیں پڑھا؟ جو قرآن کریم ہے وہ سارے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق کی تصویر تھی۔

 

مقبول توبہ
ایک واقفۂ نو نے سوال کیا کہ اگر کسی سے کوئی غلطی ہو جائے اور اسکو اس کی غلطی کا احساس بھی ہو جائے وہ توبہ بھی کرے تو اسے کیسے پتہ لگتا ہے کہ اسکی توبہ قبول ہو گئی ہے؟ حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا کہ توبہ کا تو اس طرح پتہ لگے گا کہ قبول ہو گئی ہے کہ دوبارہ اس غلطی کی طرف دھیان نہ جائے۔ ایک غلطی کر لی،استغفار کر لی، توبہ کر لی اور پندرہ دن بعد دوبارہ وہی غلطی کر لی۔ تو اس کا مطلب ہے ڈھیٹ ہو تم۔ تمہاری توبہ، توبہ نہیں ہے۔ توبہ اس کو کہتے ہیں جو کام تم نے غلط کیا اور اصلاح کر لی تو جس وجہ سے کام کیا تھا اور جس کیلئے توبہ اور استغفار کر رہی تھی تو اس سے شدید نفرت پیدا ہونی چاہیئے۔ اگر وہ نفرت پیدا ہو گئی ہے تو سمجھو توبہ قبول ہو رہی ہے۔ لیکن اس کے باوجود استغفار کرتےرہو۔ استغفار صرف گناہوں کو معاف کرانے کے لئے نہیں ہے۔ بلکہ اگلے گناہوں کو نہ کرنے کے لئے طاقت حاصل کرنے کے لئے بھی ہے۔ اس لئے استغفار بہت زیادہ کرنی چاہیئے۔

 

تعلیم کے سلسلہ میں واقفاتِ نو کی رہنمائی
ایک واقفہ نے ٹیچر بننے کے متعلق بتایا تو حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا ٹیچر بننا لیکن یہاں جو ٹیچرز ٹریننگ سکول ہیں سنا ہے بعض جگہوں پہ حجاب وغیرہ پہننے نہیں دیتے۔ آپ لوگوں کے ریجن میں ایسا ہے تو پھر احتیاط کرو اور کسی دوسری جگہ جا کر پڑھو۔

ایک واقفۂ نو نے ہیلتھ سائنس کے سلسلہ میں پوچھا تو حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا ہیلتھ سائنس ضرور کرو۔ ہیلتھ سائنس تو پڑھنی چاہیئے۔ حضورِ انور نے مسجد میں آویزاں ایک حدیث کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ وہ دیکھو لکھا ہوا ہے ۔ دین کا علم حاصل کرو یا بدن کا علم حاصل کرو۔ بدن یعنی ہیلتھ کا۔


سکول میں پردہ کی مشکلات کا حل
سکول میں ٹیچر کے لئے پردہ کی مشکلات کے بارہ میں ایک مقالہ لکھنے کے سوال کے جواب میں حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا کہ کوشش کرو کہ جو لڑکیوں کے سکول ہیں وہیں پہ پڑھانے کے لئے کوئی جگہ مل جائے۔ جتنی دیر پڑھانا ہے اتنی دیر کے لئے بیشک نہ پہنو۔ لیکن لباس بہت اچھا ڈھکا ہوا ہونا چاہیئے اور کلاس روم سے باہر نکلتے ہی فوراً پہن لینا چاہیئے۔ اپنے مقالہ میں یہ نکتہ اٹھائیں کہ ٹیچنگ کے لئے یہ کیا ثبوت ہے کہ جس نے سر پر دوپٹہ اوڑھا ہوا ہے اس کے دماغ میں کمی پیدا ہو گئی ہے اور جنہوں نے نہیں دوپٹہ اوڑھا ہوا ہے ان کے دماغ زیادہ تیز ہیں۔ اس پر بچی نے بتایا کہ وہ لوگ یہ اعتراض کرتے ہیں کہ جو ٹیچرز ہیڈ سکارف پہنتی ہیں وہ ان بچیوں پر دباؤ ڈالتی ہیں جو ہیڈ سکارف نہیں پہنتیں اور اپنا پوائنٹ آف ویو ان پر ڈالتی ہیں۔ اس پر حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایایہ تو نہیں ہے۔ ان سے کہو، جو ٹیچر ڈھکا ہوا لباس پہنتی ہیں وہ بھی ان کو دباؤ میں لاتی ہیں جو کلاس روم سے نکل کے منی سکرٹ پہن لیتی ہیں۔ تو باقی لباس میں یہ دلیل کیوں نہیں ہے؟ یہ صرف نفس کے بہانے ہیں۔

ایک بچی نے کہا کہ مَیں نرسنگ میں بی ایس سی کر رہی ہوں اور اس کے بعد بتائیں کہ مَیںmanagement میں جاؤں یا padagogik میں؟ حضورِ انور نے فرمایانرسنگ میں ہی کرو جو بھی کرنا ہے۔ ماسٹر کرنے کی کیا ضرورت ہے۔ بیچلر کر لیا ٹھیک بس نرسنگ کرو۔ ہمیں تو اتنی ہی کافی ہے نرسنگ کی ٹریننگ۔ اسکے بعد وقف کرو اور جاؤ افریقہ جا کے خدمت کرو۔

(روزنامہ الفضل ربوہ 2 جنوری 2013ء۔ جلد 63-98نمبر 2۔ صفحہ 2تا 4)

واقفاتِ نو کلاس جرمنی بتاریخ 23 جون 2013ء

تربیت اولاد کے سلسلہ میں انمول رہنمائی
ایک واقفۂ نو نے اپنے چھوٹے بیٹے کے سلسلہ میں رہنمائی کی درخواست کی کہ وہ بہت ہائپر ہے اور بات نہیں مانتا۔ اس پر حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا چاکلیٹ کھاتا ہے تو ہائپر ہو جاتا ہے۔ اگر ہائپر ہے تو کیا ہو گیا؟ ایکٹو ہو گا۔ آجکل تو یہ مشکل پڑ گئی ہے کہ بچہ ذرا ایکٹو ہو جائے تو لوگ ماں کو کہتے ہیں ہائپر ہو گیا۔ ہائپر ہو گیا تو کیا ہو گیا۔ اچھا intellegent ہوتا ہے۔ بڑا ہو کر intelligent نکلے گا ان شاء اللہ۔
بات نہ ماننے کے تذکرہ پر حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا آپ کون سا مانا کرتی تھیں۔ اپنے ماں باپ سے پوچھا ہے کہ آپ مانتی تھیں؟ کسی نہ کسی کا کریکٹر اس میں آ گیا ہو گا۔ کوئی ایسی بات نہیں ہے کہ کہنا نہیں مانتا۔ بچوں کو ان کی نفسیات کے مطابق ٹریٹ کرنا چاہیئے۔ ایک دفعہ اگر کہہ دیا کہ یہ کام نہیں کرنا اور وہ روتا ہے، چیختا ہے، دھاڑتا ہے، چیزیں ادھر ادھر پھینکتا ہے۔ اس کے بعد آپ بات مان لیتی ہیں تو وہ کہہ دے گا کہ آپ سے بات منوانے کا طریقہ یہی ہے کہ دھاڑو اور شور مچاؤ اور اپنی بات منوا لو۔ دو دفعہ آپ انکار کریں گی، نہیں مانیں گی تو ٹھیک ہو جائے گا۔ اس کی ضد اگر پوری کریں گی تو اور ضدی ہوتا جائے گا۔ جس کو پھر آپ ہائپر کہہ دیتی ہیں۔
حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایایہ بھی نہ ہو کہ کچھ نہیں دینا۔ اگر وہ کوئی چیز مانگ رہا ہے اور اس سے کسی کا اور اس کا اپنا کوئی نقصان نہیں ہے اور نہ آپ کا نقصان ہے تو دے دینے میں کوئی حرج نہیں ہوتا۔ بچوں کو ماں باپ انکار کر کے بھی ضدی بنا لیتے ہیں یا ہر بار ضد سے منوانے کے بعد بناتے ہیں۔ اس لئے پہلے بچوں کی نفسیات پڑھیں اور اس کے مطابق بچوں کو ٹریٹ کیا کریں۔

(روزنامہ الفضل ربوہ 10 جولائی 2013ء۔ جلد 63-98نمبر 156۔ صفحہ 2)

واقفینِ نو کلاس جرمنی بتاریخ 23 جون 2013ء

پہلی ترجیح جامعہ میں جانے کی ہونی چاہیئے
کلاس میں جامعہ احمدیہ کے بارہ میں مضامین پیش کئےگئے اس کے بعد حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے دریافت فرمایا کہ جو امسال جامعہ احمدیہ میں داخلہ لینا چاہتے ہیں وہ ہاتھ کھڑا کریں۔ اسی طرح حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے دریافت فرمانے پر جو بچے آئندہ سال اور پھر اس سے اگلے سال جامعہ احمدیہ میں داخلہ لینے کے خواہشمند تھے انہوں نے اپنے ہاتھ کھڑے کئے۔ اس پر حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایاجامعہ جرمنی میں ہر سال جرمنی سے کم از کم بیس طلباء داخل ہونے چاہیئں۔ آپ کی جو ضروریات ہیں، جو تقاضے ہیں، وہ پورے کرنے ہیں تو پھر کم از کم اتنی تعداد ہونی ضروری ہے۔

حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا جو طلباء اس وقت ریال میں ہیں اور آبی ٹور میں ہیں وہ اس بارہ میں سوچیں۔ صرف وقفِ نو کا ٹائٹل لگا کر سافٹ ویئر انجینئرنگ، کمپیوٹر سائنس میں جانے کی بجائے پہلی ترجیح جامعہ میں جانے کی ہونی چاہیئے۔ اس کے بعد ڈاکٹرز، انجینئرز یا کسی دوسری فیلڈ میں جانے کا سوچیں۔ دنیا داری کی طرف سوچیں زیادہ لگ گئی ہیں۔

ایک واقفِ نو نے خلیفۂ وقت سے تعلیم کے سلسلہ میں اجازت حاصل کرنے کے متعلق سوال کیا تو حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا آپ تو ویسے وقفِ نو ہیں، آپ کےلئے تو ویسے ہی ضروری ہے لیکن باقی عام آدمی کے لئے ضروری نہیں ہے۔

 

تعلیم کے سلسلہ میں واقفینِ نو کی رہنمائی
ایک واقفِ نو نے سول انجینئرنگ میں کنسٹرکشن میں سپیشلائزیشن کرنے اور ماسٹرز کرنے کے متعلق پوچھا تو حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایااچھی بات ہے کریں۔ جرمنی میں جو مساجد پانچ سال میں بنانی تھیں اس میں سے ابھی بیس سالوں میں پچاس بھی نہیں بنیں۔ ابھی بہت وقت ہے اور انشاء اللہ آئندہ بھی بناتے رہنا ہے۔ ایسا ڈیزائن کرو، جو سستا بھی ہو۔ بلکہ یہ بھی ریسرچ کرنی چاہیئے کہ کون سے میٹیریل استعمال کئے جائیں جو دیرپا بھی ہوں۔ ابھی یہ Pre-Fabricated Materialاستعمال کر رہے ہیں جس سے مساجد کی costآدھی رہ گئی ہے۔ لیکن مزید دیکھنا چاہیئے کہ اس کی مضبوطی کیسی ہے، لائف کتنی ہے؟ اور مزید ریسرچ بھی کرنی چاہیئے کہ کس طرح ہم کم خرچ پر زیادہ سے زیادہ مساجد بنا سکتے ہیں۔

اسلامک سٹڈی کے بعد ٹیچنگ لائن اختیار کرنے کے بارہ میں حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا ٹھیک ہے اسلامک سٹڈی کریں اور اس کے بعد بتا دیں کہ میں نے یہ پڑھائی مکمل کر لی ہے اور اب کیا مجھے اجازت مل سکتی ہے کہ یہاں اگر سکولوں میں جگہ ملے تو ادھر ہی پڑھا لوں۔ یا ابھی تو جماعت کا کوئی سکول نہیں ہے، لیکن جب جماعت سکول کھولے گی تو وہاں پڑھا لیں۔

 

پاکستان سے نئے آنے والے واقفینِ نو کو ہدایات
جرمنی میں نئے آنے والوں کے بارہ میں ایک سوال پر کہ کافی احمدی لوگ یہ خیال کر کے آئے تھے کہ جلد کیس پاس ہو جائے گا اور سٹڈی وغیرہ جاری کر سکیں گے حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا اگر تو جرمن گورنمنٹ سے کوئی معاہدہ کر کے آئے تھے تو پھر تو امید ہونی چاہیئے۔ اگر اس لئے آئے تھے کہ ہم وہاں مشکلات میں ہیں اور اس سے آسانی اور چھٹکارا پانا ہے اور جا کر قسمت آزمائی کر لیتے ہیں اور پھر اس کے بعد دعا اور صدقات پر بھی زور دیا تو کام ہو جاتا ہے۔ بعض ایسے کیسز مَیں نےدیکھے ہیں جنہوں نے آتے ہی قرآن کریم پکڑا اور مصلیّ پکڑا اور اُس وقت بیٹھ گئے اور دعائیں اور نفل اور صدقے کرتے رہے۔ ان کے پندرہ دن میں کیس پاس ہو گئے۔ جو بظاہر نیک لوگ تھے، دعائیں بھی کرتے تھے لیکن ان کے ابھی نہیں ہوئے۔ تو بعضوں سے اللہ تعالیٰ مزید امتحان بھی لیتا ہے۔ کچھ کے کیس لمبے ہو جاتے ہیں، کچھ کے جلدی ہو جاتے ہیں۔ دعاؤں کی طرف اگر توجہ ہو تو اللہ تعالیٰ کی رضا پر راضی رہنا چاہیئے۔ آدمی کو مشکلات آتی ہیں تو ان مشکلات میں تو سب کچھ برداشت کرنا پڑتا ہے۔
پاکستان سے نئے آنے والے ایک واقفِ نو نے عرض کیا کہ اتنی دیر لگتی ہے کہ پہلے زبان سیکھیں اور پھر سٹڈی کریں۔ تو اس سے جماعت کو یہ تو نہیں ہو گا کہ ضرورت سے کافی زیادہ وقت ہماری تعلیم پر لگ رہا ہے۔ اس پر حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا آپ فکر نہ کریں۔ آپ اب ایف ایس سی کرنے کے بعد یہاں پر آئے ہیں۔ آپ کا کیس پاس ہو جاتا ہے تو اس کے بعد دیکھیں اور ایکسپلور کریں کہ مختلف آپشنز کیا ہیں؟ جو بھی آپشنز ہوں وہ پھر لکھ کر مجھے پوچھیں تو مَیں آپ کو بتاؤں گا کہ ان آپشنز میں سے آپ کے لئے اور جماعت کے لئے کونسا بہتر ہے۔ تا کہ آپکا وقت بھی ضائع نہ ہو اور نہ جماعت کا وقت ضائع ہو۔


ایک واقفِ نو نے جسمانی ورزش کے بارہ میں پوچھا کہ کس حد تک کرنی چاہیئے؟ حضورِ انورنے فرمایا جس حد تک آپ سمارٹ رہیں اور آپ بڑے سمارْٹ ہیں ماشاء اللہ ۔ ورزش تو صحت قائم رکھنے کے لئے کرنی چاہیئے کسی کو مارنے کے لئے نہیں کرنی چاہیئے۔

 

ہر واقفِ نو چھٹیوں میں کم از کم دو ہفتوں کے لئے وقفِ عارضی کرے
ایک واقفِ نو نے پوچھا کہ ہمیں کچھ ہفتوں میں چھٹیاں ہونے والی ہیں تو مَیں پوچھنا چاہتا ہوں کہ کیا ہمیں چھٹیوں میں کام کرنے کی اجازت ہے؟ اس پر حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایااگر تو آپ کو پیسوں کی ضرورت ہے تو کام کریں ورنہ پھر وقفِ عارضی کریں اور جماعت کے کام کریں اور اگر اپنی فیلڈ میں کوئی ٹیکنیکل skill سیکھنے کے لئے کوئی کام کرنا ہے تو ٹھیک ہے، کر لیں کوئی حرج نہیں ہے۔ ماں باپ کا خرچہ کم کرنے کے لئے اور ان کا ہاتھ بٹانے کے لئے۔ اگر کوئی ہنرسیکھنے کے لئے ضرورت ہے تو آپ تھوڑی دیر کے لئے کام کر لیں۔ لیکن چھٹیوں میں ہر واقفِ نو کو یہ کوشش ضرور کرنی چاہیئے کہ کم از کم دو ہفتوں کے لئے وقفِ عارضی کرے اور جو وقفِ عارضی کا نظام ہے ان کو کہیں کہ وہ آپ کو کسی جماعت میں بھیج دیں جہاں آپ نمازوں کی طرف توجہ دے کر، قرآن کریم پڑھنے کی طرف توجہ دے کر ، اپنا دینی علم بڑھانے کی طرف توجہ دے کراپنی تربیت بھی کریں اور جس جماعت میں جائیں تو وہاں کے بچوں کو بھی تعلیم دیں اور خدام کو بھی تعلیم دیں اور پڑھائیں۔ اس کے علاوہ آپ کو جو باقی وقت ملتا ہے اس میں اپناکام کر لیں۔ واقفینِ نو جو پندرہ سال سے اوپر ہیں اگر وہ اپنے سکولوں کی چھٹیوں میں وقفِ عارضی کریں تو آپ کے شعبہ وقف عارضی کے لئے ایک ہزار واقفین عارضی یہاں ہی سے پورے ہو جائیں گے جن کا وقفِ عارضی کا ٹارگٹ بھی پورا نہیں ہوتا۔

 

خود اپنے لئے دعا کرو پھر دوسرے کو دعا کے لئے کہو
ایک واقفِ نو نے کالج میں اچھے مارکس کے لئے دعا کی درخواست کی تو حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: اللہ تعالیٰ فضل فرمائے۔ اس کے لئے دعا پہلے خود بھی کرنی چاہیئے۔ پہلے خود پانچوں نمازوں کی پابندی کرو ، خود اپنے لئے دعا کرو، پھر دوسرے کو دعا کے لئے کہو، تو پھر دعا قبول ہوتی ہے۔یہ نہیں کہ خود آدمی نمازیں نہ پڑھ رہا ہو، نہ اپنے لئے دعائیں کر رہا ہو اور نہ محنت کر رہا ہو اور پھر دوسروں کو کہے کہ دعا کرو۔ ہمارے ایک صاحب ہوتے تھے ۔ ایک بزرگ نے ان کی طرف سے الفضل میں اعلان شائع کروا دیا کہ اللہ تعالیٰ انہیں اعلیٰ کامیابیوں سے نوازے، انہوں نے میٹرک کا امتحان دیا ہوا ہے۔ تو بعد میں پتا لگا کہ میٹرک کی اعلیٰ کامیابیاں کیا لینی ہیں، انہوں نے میٹرک کے تین پیپر ہی نہیں دئیے تھے۔ تو اس طرح بزرگوں کو کہہ کر یہ ظاہر نہ کریں کہ لوگ سمجھیں کہ بزرگوں کی دعائیں، جماعت کی دعائیں قبول نہیں ہوتیں۔ پہلے خود کچھ ہمت کرو اور پڑھائی پوری کرو، خود دعا کرو، نمازوں کی طرف توجہ کرو تو اللہ تعالیٰ خود مدد کرتا ہے اور پھر دوسروں کی دعائیں بھی قبول ہوتی ہیں۔


ایک واقفِ نو نے ڈپلومہ کے بعد میڈیکل ٹیکنیک کی تعلیم حاصل کرنے کی اجازت طلب کی تو حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا ان مشینوں کی جو ٹیکنیکل سائیڈ ہے جو ٹیکنیکل سٹاف ہوتا ہے۔ وہ کورس کرنا چاہتے ہو تو ٹھیک ہے کر لو۔


(روزنامہ الفضل ربوہ 10 جولائی 2013ء۔ جلد 63-98نمبر 156۔ صفحہ 2تا 6)

واقفینِ نو کلاس جرمنی بتاریخ 8 جون 2014ء

جامعہ احمدیہ میں تعلیم کے متعلق رہنمائی
حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے بچوں سے دریافت فرمایا کہ جن کی جامعہ احمدیہ میں جانے کی خواہش ہے وہ ہاتھ کھڑا کریں تو اس پر بڑی تعداد میں بچوں نے اپنے ہاتھ کھڑے کئے اور جامعہ احمدیہ میں جانے کے عزم کا اظہار کیا۔ تو اس پر حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایاکہ یہ پوری کلاس چلی جائے گی تو پھر جامعہ والوں کو ایک اور بلاک کھولنا پڑے گا۔ اچھی بات ہے ماشاء اللہ۔ اپنے اس عزم کو قائم رکھیں۔ یہ نہ ہو کہ جب سیکنڈری سکول کر لو، گمنازئیم کے بعد آبی ٹور کر لو تو کہہ دو کہ ہماری نیّت بدل گئی ہے۔ اب ہمارا ارادہ ہے کہ ہم فلاں فیلڈ میں چلے جائیں اس لئے وقف کرنا ہے ساروں نے اور پھر جامعہ میں جانا ہے ۔ تو وقف کا مطلب ہے کہ پھر تم لوگوں کو جرمنی چھوڑ کر کہیں اور بھی جانا پڑے تو جانے کے لئے تیار ہو۔ اس پر طلباء نے یک زبان ہو کر کہا کہ ہم ہر جگہ جانے کے لئے تیار ہیں۔
ایک واقفِ نو نے سوال کیا کہ کیا ریال سکول کرنے کے بعد ہم جامعہ میں داخلہ لے سکتے ہیں کہ نہیں۔ یہ دسویں کلاس کے برابر ہے۔ اس پر حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا کہ دسویں کلاس کے بعد اگر تم کوالیفائی کر لو اور جامعہ نے داخلہ کا جو معیار رکھا ہوا ہے تم اس پر پورا اترتے ہو۔ اگر تمہاری اردو ٹھیک ہے۔ تمہیں قرآن شریف پڑھنا آتا ہے، تمہیں عربی آتی ہے، تمہیں نماز آتی ہے، تمہیں ترجمہ آتا ہے اور جامعہ کے ٹیسٹ کوالیفائی کر لیتے ہو تو ٹھیک ہے۔ لیکن یہاں والوں کو جرمن زبان بھی آنی چاہیئے۔ اگر تم آبی ٹور وغیرہ کر لو تو جرمن زبان تمہاری اچھی ہو جاتی ہے اس لئے جامعہ والے آبی ٹور کو پریفر کرتے ہیں۔ لیکن اگر تم پڑھائی میں اچھے ہو تو دوسری زبانیں بھی تو سکھائی جا سکتی ہیں۔ ضروری تو نہیں کہ جتنے ہاتھ کھڑے ہوئے ہیں یہ سارے مربی جرمنی کو دئیے جائیں۔ دوسرے ملکوں میں بھی جانے ہیں۔ ان کو فرنچ بھی سکھانی ہے فلیمش بھی سکھانی ہے اور انگلش بھی سکھانی ہیں اور دوسری زبانیں بھی سکھانی ہیں۔ اس لئے اگر کوالیفائی کر لو تو جامعہ میں جا سکتے ہو۔
ایک واقفِ نو نے سوال کیا کہ پہلے تو جرمنی میں جامعہ نہیں تھا لندن میں تھا۔ اب جرمنی میں بھی بن گیا ہے تو اب اگر کوئی لندن جامعہ میں جانا چاہے تو کیا وہ جا سکتا ہے؟ اس پر حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا کہ بڑی اچھی بات ہے تم آنا چاہو میں تمہیں بلا لوں گا۔ اگر تم یہاں جرمنی سے لندن کے جامعہ میں پڑھنا چاہتے ہو تو تمہیں اجازت ہے۔ بشرطیکہ ان کے پاس سیٹیں ہوں۔

 

وقفِ نو کا مطلب
ایک واقفِ نو نے سوال کیا کہ وقفِ نو کا کیا مطلب ہوتا ہے؟ اسکے جواب میں حضورِ انور نے فرمایاکہ وقفِ نو کا مطلب ہے نیا وقف۔ یعنی جو ایک نئی سکیم بچوں کو وقف کرنے کی نکلی ہے جس میں ماں باپ اپنے بچوں کو ان کی پیدائش سے پہلے وقف کر دیتے ہیں اور جب بچہ بڑا ہو جائے، ہوش میں آ جائے، پھر وہ دوبارہ بانڈ لکھے کہ میں اپنے آپ کو وقف کرنا چاہتا ہوں۔
ایک وقفِ اولاد ہوتا ہے۔ جب بچہ پیدا ہو گیا اس وقت دو چار چھ سال کا ہو گیا اس وقت ماں باپ کی خواہش ہوتی ہے بچوں کو وقف کر دیں تو وہ وقف، وقفِ اولاد میں شمار ہوتا ہے اور یہ پہلے سے ایک سکیم جاری ہے۔

 

جنّت ماں کے قدموں کے نیچے ہے
ایک واقفِ نو نے سوال کیا کہ حدیث میں آتا ہے کہ جنّت ماں کے قدموں کے نیچے ہے یا صرف مسلمان ماؤں کے قدموں کے نیچے ہے۔ حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا جنّت ماں کے قدموں کے نیچے سے مراد یہ ہے کہ ماں اگر اچھی تربیت کرتی ہے اور بچہ نیک ہوتا ہے نیک کام کرتا ہے، اللہ کی عبادت کرتا ہے تو وہ بچہ نیک کاموں کی وجہ سے جنّت میں جائے گا اور اگر کوئی بھی ماں ہو۔ وہ اگر اپنے بچے کی تربیت ایسے کر دے کہ خدا کو پہچاننے والے ہوں اور اس تلاش میں ہوں کہ اللہ تعالیٰ کے جو حکم ہیں ان کو ہم مانیں تو وہ جنّت میں لے جانے والی ہے۔ اب حضرت موسیٰ علیہ السلام نے بھی اپنے بعد آنے والے نبی کی خبریں دیں۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے خبر دی تو یہ سب جو پرانے نبی ہیں انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے آنے کی خبر دی۔ اگر وہ ان کو نہیں مانتے تو وہ مومن نہیں ہو سکتے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن شریف میں کہا ہے کہ جو عیسائی ہے یہودی ہے مجوسی ہے وہ بخشا جائے گا۔ یعنی وہ مومن ہو تو جنت میں جائے گا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ وہ لوگ اپنی اس نیکی کی وجہ سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بیعت میں آ جائیں گے ان کو مان لیں گے اور پھر اللہ تعالیٰ سے جزا پائیں گے۔ باقی جنت یا دوزخ کا فیصلہ کرنا یہ اللہ تعالیٰ کا کام ہے۔ یہ انسانوں کا کام نہیں۔ اس سے مراد یہی ہے کہ ایک مسلمان عورت اگر اپنے بچے کی نیک تربیت کرتی ہے، اس کو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کے حکموں پر چلنے والا بناتی ہے، اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنے والا بناتی ہے اور نیک کام کرنے والا بچہ ہے نیکیوں کو پھیلانے والا بچہ ہے تو وہ جنّت میں جائے گا۔ باقی یہ کہنا کہ دوسری مائیں جو مسلمان نہیں ہیں وہ اپنے بچوں کی تربیت بھی کریں تو جنّت میں نہیں جائیں گی۔ ایسا نہیں کہا جا سکتا کیونکہ بہت سارے اعلیٰ اخلاق ہیں اور اللہ تعالیٰ تو بخشنے والا ہے کسی کو بھی کسی نیکی کے اوپر جنّت میں بھیج سکتا ہے۔ دو آدمیوں کی بحث ہو گئی ۔ ایک نے کہا کہ تم ایسے ایسے بُرے کام کرتے ہو تم جنّت میں نہیں جا سکتے۔ مَیں دیکھو کتنے نیک کام کرتا ہوں مَیں عبادت کرتا ہوں اور میرا بڑا اونچا مقام ہے۔ خیر مرنے کے بعد دونوں اللہ کے حضور پیش ہوئے تو اللہ تعالیٰ نے کہا تم کون ہوتے ہو جنّت یا دوزخ کا فیصلہ کرنے والے۔ مَیں ہوں جس نے جنّت اور دوزخ میں ڈالنا ہے۔ جس کو تم کہتے ہو کہ تم جنّت میں نہیں جاؤ گے تم دوزخ میں جاؤ گے۔ اس کو میں جنّت میں بھیج رہا ہوں اور تم کو جو تکبر پیدا ہو گیا تھا کہ میں بڑا ہی عبادت گزار ہوں۔ نیک کام کرتا ہوں تمہیں دوزخ میں ڈالتا ہوں۔ یہ فیصلے اللہ نے کرنے ہیں۔ باقی اس سے مراد یہ ہے کہ اگر ماں اچھی نیک تربیت کرتی ہے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ایسی مسلمان ماں کے بچے جو ہیں وہ انشاء اللہ تعالیٰ جنّت میں جانے والے ہوں گے ان نیک کاموں کی وجہ سے جو وہ اچھی تربیت کی وجہ سے کریں گے۔


جہاد کے حقیقی معنی
جہاد کے بارہ میں ایک سوال کے جواب میں حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا ایک جہاد سے جنگ سے واپس آ رہے تھے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اب ہم چھوٹے جہاد سے بڑےجہاد کی طرف آ رہے ہیں اور بڑا جہاد یہ ہے کہ اپنے نفس کے خلاف جہاد کرو۔ یعنی اپنے دل کی جو برائیاں ہیں ان کو دُور کرو یہ بھی جہاد ہے۔ تبلیغ کرو یہ بھی جہاد ہے۔ قرآن کریم کے ذریعے سے تبلیغ کرنا یہ بھی جہاد ہے۔ اللہ تعالیٰ بھی فرماتا ہے قرآن کریم کے ذریعہ سے پیغام پہنچانا یہ بھی جہاد ہے۔ جہاد کوشش کرنے کو کہتے ہیں۔ کوئی بھی کوشش کسی کام کے کرنے کے لئے جو تم کرتے ہو وہ جہاد ہے۔ اور اگر تم اپنے نیک کام کرنے کیلئے کوشش کرتے ہو تو تم جہاد کر رہے ہو۔ تمہارے اندر کوئی برائیاں ہیں تو انکو دُور کرنے کے لئے تم کوشش کرو تو یہ تمہارا جہاد ہے۔ اگر تم تبلیغ کرتے ہو اور یہاں جرمنوں کولٹریچر پمفلٹ تقسیم کرتے ہو تو بھی جہاد ہے۔
حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا کہ تم پوری توجہ سے قرآن کریم کا علم حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہو تو یہ بھی تمہارا علم حاصل کرنے کیلئے ایک جہاد ہے۔ صرف تلوار چلانا جہاد نہیں ہے۔ اس کو مسلمانوں نے غلط لیا ہے یا اسلام کی طرف منسوب کر دیا گیا اور ویسے آجکل کے عمل تو مسلمانوں کے یہی ہیں۔ اس لئے مَیں نے اس پر کافی سارے لیکچر دیئے ہوئے ہیں۔ تم ابھی اتنے بڑے ہو گئے ہو۔ سولہ سترہ سال کے ہو تو میرے لیکچر پڑھ لو تمہیں جہاد کی سمجھ آ جائے گی۔

 

فیس بک کے حوالہ سے ہدایات
فیس بک کے حوالے سے وضاحت فرماتے ہوئے حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا کہ کوئی حرام نہیں قرار دیا گیا۔ بند اس لئے کیا ہے کہ اس میں بہت ساری برائیاں سامنے آ جاتی ہیں۔ تم لوگ ابھی بچے ہو چھوٹے ہو تم لوگوں کو پتا ہی نہیں لگتا کہ دوسرے لوگ تمہیں آہستہ آہستہ ٹریپ کر لیتے ہیں، اب جب تک تمہارا علم پورا نہ ہو جب تک تمہاری سوچ میچور نہ ہو اس وقت تک تم استعمال نہ کرو۔ جماعت احمدیہ کی جو ویب سائٹ ہے اس میں فیس بک بھی ہے۔ ہمارے پریس والوں نے ایک فیس بک بنائی ہوئی ہے۔ تم اس سے فائدہ اٹھاؤ۔ پرسنل فیس بک سے اس لئے منع کیا گیا ہے کہ تم لوگوں کو پورا علم نہیں ہے بعض دفعہ تم لوگ غلط ہاتھوں میں ٹریپ ہو جاتے ہو۔ اب دنیا میں بہت سارے فیس بک اکاؤنٹ ہیں ۔ دنیا کو بھی اب realize ہو رہا ہے، ان کو بھی سمجھ آ رہی ہے کہ فیس بک میں بعض دفعہ برائیاں زیادہ ہیں اس لئے امریکہ میں ہی گزشتہ دنوں میں قریباً کوئی چھ لا کھ اکاؤنٹس انہوں نے بند کر دیئے ۔ یہ کہہ کے کہ ہمیں فیس بک نے نقصان پہنچایا ہے۔ اگر ان لوگوں کو سمجھ آ گئی ہے جو دنیا دار ہیں تو ہم دینداروں کو زیادہ جلدی سمجھ آنی چاہیئے۔ ہاں اگر تمہیں تبلیغ کیلئے کرنا ہے تو جماعتی ویب سائٹ والی فیس بک استعمال کر لو

 

تعلیم کے سلسلہ میں واقفینِ نو کی رہنمائی
ایک سوال کے جواب میں کہ کیا واقفینِ نو اپنی پسند کی فیلڈ میں جا سکتے ہیں مثلاً کیا وہ پائلٹ بن سکتےہیں۔ حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا آپ وقفِ نو ہو آپ نے پائلٹ بننا ہے تو آپ پہلے پوچھیں کہ میری بہت زیادہ خواہش پائلٹ بننے کی ہے۔ مَیں صرف پائلٹ ہی بن سکتا ہوں کچھ اور نہیں بن سکتا۔ تو پھر آپ کو جماعت بتا دے گی یا خلیفۂ وقت بتا دے گا کہ آپ پائلٹ بن سکتے ہیں کہ نہیں بن سکتے۔ اگر آپ کو اجازت مل جائے تو بن جائیں۔ یا پھر یہ ہے کہ آپ اجازت لے کے یہ کہہ دیں کہ مَیں وقفِ نو سے باہر نکلنا چاہتا ہوں۔ میرے امّاں ابّا نے تو مجھے وقف کیا تھا۔ اگر جماعت کو ضرورت نہیں تو میری دلچسپی یہ ہے ، مجھے اجازت دی جائے کہ مَیں یہ کام کر لوں۔ پھر کسی وقت کسی اور طریقے سے مَیں جماعت کی خدمت کر لوں گا۔ لیکن اس وقت وقفِ نو کی فہرست میں سے مجھے کاٹ دیں۔


حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا وقفِ نو کے لئے مَیں نے ہدایت دی ہوئی ہے کہ جماعت کی طرف سے گائڈنس اور کونسلنگ پوری مکمل ہونی چاہیئے۔ جن کی ہمیں زیادہ ضرورت ہے وہ ڈاکٹرز ہیں ٹیچرز ہیں ٹرانسلیشن کرنے والے ہیں ۔ زبانوں کے ماہر ہیں۔ انجینئرز ہیں ، آرکیٹیکٹ ہیں اور بعض شعبے ایسے ہیں بعض دفعہ وکیلوں کی بھی ضرورت پڑتی ہے جو مختلف skills ہیں۔ جو طلباء زیادہ نہ پڑھ سکیں تو دوسرے مختلف فیلڈز میں بھی ان کی ضرورت پڑتی ہے۔ اس کے علاوہ پوچھ لو یا کچھ وقت کے لئے بعض لوگ کہہ دیتے ہیں اچھا ہماری یہ دلچسپی ہے ہمیں کم از کم دوسال، چار سال، چھ سال اجازت دیں کہ ہم وہ کام کر لیں۔ تو ان کو اجازت مل جاتی ہے۔ لیکن وقف اصل یہی ہے کہ وہ چیز کرو جس کی جماعت کو ضرورت ہے۔

(روزنامہ الفضل ربوہ 3 جولائی 2014ء۔ جلد 64-99نمبر 151۔ صفحہ 4تا 6)

واقفاتِ نو کلاس جرمنی بتاریخ 8 جون 2014ء

ہر حال میں اللہ کا شکر ادا کریں
ایک سوال کے جواب میں کہ جو آئینے میں دیکھنے والی دعا ہے کہ ہمارے خوبصورت چہرے کے ساتھ ہمارے اخلاق بھی خوبصورت بنا دے۔ تو کچھ ایسے بھی ہوتے ہیں جن کو اپنا چہرہ خوبصورت نہیں لگتا۔ اُن کے لئے کیا ہے؟ حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا تو جیسا اللہ تعالیٰ نے بنایا ہے اللہ تعالیٰ کا شکر کر لیا کریں کہ یہ اللہ تعالیٰ نے بنایا ہے اس سے زیادہ بُرا نہیں بنایا۔ ایک دفعہ بازار میں ایک شخص کھڑا تھا اور اُس کے چہرہ میں کوئی خوبصورتی نہیں تھی اُس کو لوگ اچھا نہیں سمجھتے تھے۔ اُس کو خود بھی احساس تھا کہ میرے چہرے پر کوئی خوبصورتی نہیں ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم  پیچھے سے گئے اور اُس کے گلے میں ہاتھ ڈال کر اُس کو پیچھے سے پکڑ لیا۔ اُس کی آنکھیں بند کر کے کھڑے ہو گئے۔ اُس نے خوب اپنا جسم رگڑنا شروع کیا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ میرا خاص آدمی ہے اِس کا کون خریدار ہے۔ اِس پر اُس نے کہا میرا اس بدشکل آدمی کا اور کسی کام کے نہ آدمی کا کون خریدار ہو سکتا ہے؟ کون مجھے پسند کر سکتا ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا نہیں مجھے تم بہت پسند ہو۔ تو اگر کسی کا چہرہ ایسا ہے اور اللہ تعالیٰ نے اگر ایسا بنایا ہوا ہے تو پھر اسی پر خوش ہو جائے کہ اس سے بھی بھیانک چہرہ ہو سکتا تھا۔ جو اللہ تعالیٰ نے دیا ہے وہی اچھا ہے۔ شکر کرنا چاہیئے۔ شکر کرو گے تو اللہ تعالیٰ مزید دیتا جائے گا۔

 

نماز میں لذّت حاصل کرنے کے طریق
ایک سوال کے جواب میں کہ ہم نماز میں لذّت کیسے حاصل کر سکتے ہیں؟ حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا نماز کے تمہیں معنی آنے چاہیئں۔ سوچ سوچ کے پڑھو۔ جو عربی کے الفاظ ہیں انہیں غور سے پڑھو پھر سجدے میں جب جاتے ہو تو اپنی زبان میں دعا کرو۔ رکوع میں جاتے ہو اپنی زبان میں دعا کرو اور جو ہر ایک کی کوئی نہ کوئی خاص چیز ہوتی ہے جس کے لئے اُس کو دل میں درد ہوتی ہے اس کو سوچو اور دل میں لاؤ۔ سٹوڈنٹ ہیں تو ان کو یہی ہوتا ہے کہ ہم پاس ہو جائیں تو ایک دم فکر پیدا ہوتی ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ کے آگے جھکتے ہیں۔ ہمارے امتحان ہیں پاس ہو جائیں۔ اس میں وہ لذت آنی شروع ہوتی ہے۔ پھر آدمی روتا ہے چلاّتا ہے تو وہی مزا آتا ہے اس کے بعد آہستہ آہستہ عادت پڑتی چلی جاتی ہے۔ پھر جس طرح اللہ تعالیٰ کی محبّت پیدا کرنے کی سوچ بڑھتی ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ کی محبّت حاصل کرنے کے لئے انسان کوشش کرتا ہے روتا ہے چلاّتا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ تم نماز میں اور کچھ نہیں اور ایسی حالت پیدا ہوتی نہیں تو رونی شکل بنا لیا کرو۔ چاہے زبردستی بناؤ کیونکہ رونی شکل بنا کے بعض دفعہ رونا آ جاتا ہے۔ پھر اس میں انسان آہستہ آہستہ بڑھتا جاتا ہے۔ دعا کرو، جو دعا درد سے ہو، سوچ سمجھ کے ہو تو پھر لذّت آتی ہے۔ دعا ہونی چاہیئے تو دل سے ہونی چاہیئے اور جب دل سے نکلتی ہے تو لذّت بھی آنے لگ جاتی ہے۔

 

تحریکِ وقفِ نو میں شمولیت
ایک سوال کے جواب میں کہ جو وقفِ نو نہیں ہوتیں ان میں سے بعض کا جو وقفِ نو ہونے کا دل چاہتا ہے وہ کیا کریں؟ حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا اُن کے ماں باپ کو اپنے اس بچے کو پہلے وقف کرنا چاہیئے تھا جنہوں نے اپنے بچوں کو وقف کیا اس لئے کہ وہ دین کی خدمت کر سکیں۔ اس لئے وقف کیا کہ بچے بڑے ہو کے علم حاصل کر کے دین کی خدمت کریں۔ کوئی ڈاکٹر بن کےدین کی خدمت کر سکتا ہے۔ کوئی ٹیچر بن کے۔ کوئی زبانیں سیکھ کے۔ اب اپنے آپ کو وقف کر دو اور دین کی خدمت کے لئے لگ جاؤ تو وہی وقف ہو جائے گا۔ اللہ تعالیٰ نے یہ تو نہیں لکھا ہوا کہ جو وقفِ نو میں ہے مَیں اُسی کا وقف قبول کروں گا اور باقیوں کا نہیں کروں گا۔ دنیا میں بہت سے انسان ایسے ہیں جو دین کی خدمت کر رہے ہیں وہ وقفِ نو تو نہیں ہیں۔ ہمارے زمانے میں وقفِ نو کی سکیم نہیں تھی تو ہم بھی تو وقف تھے۔
حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا اگر تم وقفِ نو کا ٹائٹل لگا لو اور نماز تم باقاعدہ نہ پڑھتی ہو، قرآن کریم تم نہ پڑھتی ہو، دین کی خدمت کا جذبہ نہ ہو اور کہو کہ میں وقفِ نو ہوں تو اس کا کوئی فائدہ نہیں۔ یہ تمہارا کوئی وقف نہیں۔ اللہ کے نزدیک قبول ہی نہیں ہوگا۔ ایک دوسری لڑکی ہے جو وقفِ نو تو نہیں ہے وہ نمازیں بھی پڑھتی ہے قرآن بھی پڑھتی ہے، دین کا علم بھی حاصل کرتی ہے، خدمت بھی کرتی ہے وہ تو وقفِ نو سے زیادہ بہتر ہے۔


اس سوال کے جواب میں کہ بچے کو پیدائش سے پہلے کیوں وقف کرتے ہیں اس کے بعد کیوں نہیں کرتے؟ حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا پیدائش کے بعد وقف کرنے سے کس نے روکا ہے۔ کسی نے نہیں روکا۔ وقفِ نو سکیم جو ہے وہ حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ؒ نے شروع کی تھی اور وہ اس لئے تھی کہ ماں باپ پیدائش سے پہلے حضرت مریم ؑ کی والدہ کا جو اسوہ ہے اور ان کی دعا ہے اس کو مانگتے ہوئے اپنے بچے کو پیدائش سے پہلے وقف کریں اور پیدائش کے دوران اس کے لئے دعا کرتے رہیں کہ اللہ تعالیٰ ان کو جو بچہ عطا فرمائے وہ دین کا خادم ہو اور پھر جب وہ بچہ پیدا ہو جائے تو پھر اس کے لئے مسلسل دعائیں کرتے رہیں اور پھر اس کی تربیت بھی اس لحاظ سے ہو کہ وہ دین کی خدمت کرنے والا بن سکے۔ باقی یہ ہے کہ پیدائش کے بعد اگر ماں باپ اچھی تربیت کرتے ہیں اپنے بچے وقف کرتے ہیں بہت سارے وقفِ زندگی ہیں جو وقفِ نو نہیں ہیں لیکن جامعہ میں بھی پڑھ رہے ہیں اور باقاعدہ وقف کر کے جامعہ میں پڑھتے ہیں اور بعض جماعت میں دوسری خدمات بجا لا رہے ہیں۔

 

روزے رکھنے کی عمر
ایک سوال کے جواب میں کہ کونسی عمر سے روزے رکھنے چاہیئں؟ حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا جب تم ابھی سٹوڈنٹ ہو اور تمہاری گروتھ کی عمر ہے تو روزے نہ رکھو لیکن ایک آدھ روزہ ر کھ کے عادت ڈالنی چاہیئے اور جب سترہ اٹھارہ سال کی ہو جاؤ تو پھر روزے رکھنے چاہیئں۔ لیکن اس وقت اگر امتحان ہے اور بڑے مسائل ہیں اور پریشانی ہے لمبے روزے نہیں رکھ سکتے تو وہ روزے بعد میں پورے کر لو۔ لیکن روزے رکھنے میں بہانہ نہیں کرنا چاہیئے۔ اٹھارہ سال کی عمر جو ہے یہ میچور عمر ہوتی ہے اس میں روزے رکھ لینے چاہیئں۔ اس سے پہلے پہلے روزے رکھنے کی عادت ڈالنی چاہیئے۔

 

دعا کی طرف توجہ
ایک واقفۂ نو نے سوال کیا کہ جب وہ دن آئے گا جب جرمنی کے رہنے والے لوگوں کا بڑا طبقہ احمدی ہوگا۔ کیا وہ دن ہم دیکھنے والے ہیں یا ہمارے بعد آنے والے دیکھنے والے ہیں۔ وہ دن کب آئے گا؟
حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا یہ تو اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے۔ میں تو پیشگوئی نہیں کر سکتا۔ لیکن ان شاء اللہ ضرور آئے گا۔ اب تم لوگ دعائیں کتنی کرتے ہو، کوشش کتنی کرتے ہو، اپنی حالتوں کو کتنا عملی طور پر بدلتے ہو، نیک نمونہ کتنا دکھاتے ہو۔ تو اگر سارے دعائیں کرنے لگ جاؤ تو وہ دن ان شاء اللہ آ جائیں گے۔ جلدی آ جائیں گے۔ لیکن دنیا میں آثار تو شروع ہو گئے ہیں۔ ہر سال لاکھوں بیعتیں ہوتی ہیں۔ اسی لئے ہوتی ہیں کہ اللہ تعالیٰ تھوڑے تھوڑے پیمانے پر نظارے دکھا رہا ہے۔ اب یہ تمہاری دعا پر dependکرتا ہے۔ تمہاری دعا سے مراد ہے ساری جماعت دعا کرے۔

 

ماں کی اہمیت
ایک سوال کے جواب میں کہ باپ کے قدموں کے نیچے جنّت کیوں نہیں ہے؟ حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے کسی صحابی نے پوچھا کہ کس کا حق مجھ پر زیادہ ہے۔ مطلب ہے کہ ماں یا باپ میں سے کون زیادہ حق رکھتا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تیری ماں۔ اس نے کہا پھر، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تیری ماں۔ اس نے کہا پھر، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تیری ماں۔ پھر چوتھی دفعہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تیرا باپ۔ کیونکہ ماں جو ہے وہ بچے کو پیدا بھی کرتی ہے، اسکی خاطر درد بھی اٹھاتی ہے، اس کی تکلیف بھی اٹھاتی ہے، اسکی تربیت بھی کرتی ہے۔ باپ تو باہر کے کاموں میں لگا رہتا ہے۔ گھر میں تو ماں ہو تی ہے اور ماں کے ساتھ بچوں کا زیادہ تعلق رہتا ہے۔ تربیت کا جتنا وقت ہے ماں کے ساتھ گزرتاہے۔ اس لئے اگر ماں نیک تربیت کر لے گی تو پتا چل جائے گا ، بچہ جنّت میں جانے والا ہوگا۔ اگر ماں نیک تربیت نہیں کرتی تو پھر دوزخ میں بھی اپنے بد اعمال کی وجہ سے چلے جاتے ہیں۔

 

آیت الکرسی پڑھنے کی ہدایت
حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا تم آیت الکرسی یاد کرو۔ جب وہ پڑھو گی پھر اس کا ترجمہ پڑھو گی تو تمہیں شفاعت کا مطلب پتا لگ جائے گا۔ بلکہ پڑھو اور ساری واقفاتِ نو کو چاہیئے کہ آیت الکرسی یاد کریں اور رات کو سوتے ہوئے اپنے اوپر پھونکا کریں تا کہ تم لوگوں میں نیکیوں کی روح پیدا ہو اور اللہ تعالیٰ کی حفاظت میں آؤ۔

 

پنجوقتہ نماز کی فرضیت
نماز کے متعلق ایک سوال پر حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا وقفِ نو کا کیا سوال ہے ہر مسلمان کے لئے پانچ نمازیں فرض ہیں۔ ہر ایک کو پڑھنی چاہیئں۔ تین چار کیا باقی نمازیں تم بخشوا کے آئی ہو؟ وقفِ نو کا سوال نہیں ہے ہر جو سچا مسلمان ہے اس کے لئے پانچ نمازیں فرض ہیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے پڑھ کے ہمیں بتائیں کہ کس طرح پڑھنی ہیں کون کون سے وقت پر پڑھنی ہیں اور کتنی تعداد میں پڑھنی ہیں۔ اس لئے یہ تو فرائض ہیں۔ ارکان اسلام کیا ہیں؟ آتے ہیں؟ وقفِ نو کی بچی ہو اور ارکان اسلام ہی نہیں آتے؟ تو وقفِ نو کی ٹریننگ آپ نے کیا کرائی ہوئی ہے۔ جس کو ارکان اسلام نہیں آتے اس بیچاری نے نماز کیا پڑھنی ہے۔
کلمہ طیبہ، نماز، روزہ، زکوٰۃ اور حج۔ یہ پانچ ارکان اسلام ہیں۔ حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا سمجھ آئی؟ کلمہ کے بغیر تم مسلمان نہیں ہو سکتی۔ نماز فرض ہے۔ پانچ وقت کے لئے اس کو پڑھنا ضروری ہے۔ اس کے بغیر تم مسلمان نہیں ہو سکتی۔ پھر روزہ ہے جو کہ فرض ہے اس میں بعض حالات میں چھوٹ بھی ہے۔ باقی جو ارکان ہیں ان میں ہے کہ تم روزہ رکھو ، بیمار ہو تو نہیں رکھ سکتے، مسافر ہو تو نہیں رکھ سکتے، چھوٹی عمر ہے تو نہیں رکھ سکتے۔ جب فرض ہو جائیں تو شرائط پوری کرتے ہوئے رکھو۔ زکوٰۃ ان پہ جن کے پاس پیسے ہوں اور ایک حد تک اتنا ہو مال جو پورا سال ان کے پاس رہے ، یا جانور ہوں یا اور جائیداد ہو وہ زکوٰۃ دیتے ہیں۔ ان پر زکوٰۃ فرض ہے۔ اور حج ان پر فرض ہے جو رستے کا خرچ بھی دے سکتے ہوں۔ امن اور سکون کی حالت بھی ان کو میسر ہو۔ حج زندگی میں ایک دفعہ ہی عموماً لوگ کرتے ہیں۔ پانچ نمازیں فرض ہیں۔ تم نے کہیں اپنے امّاں ابا کو تین نمازیں پڑھتے دیکھ لیا ، تم سمجھی تین نمازیں ہوتی ہیں۔ تین نمازیں نہیں ہوتیں، پانچ ہوتی ہیں۔ فجر، ظہر، عصر، مغرب عشاء۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے لکھا ہے جو پانچ نمازیں نہیں پڑھتا وہ احمدی نہیں ہے۔

 

تعلیم کے سلسلہ میں واقفاتِ نو کی رہنمائی
ایک واقفۂ نو نے سوال کیا کہ ایک وقفِ نو بچی پولیس میں جا سکتی ہے؟ اس سوال کے جواب میں حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا ہمیں پولیس میں واقفۂ نو کی ضرورت نہیں ہے۔ احمدی ایسے جرم کرتے ہی نہیں کہ پولیس میں اس کی ضرورت ہو۔ جب تم پولیس میں جاؤ گی تو پولیس کےلئے علیحدہ ٹریننگ کالج تو کوئی نہیں ہے۔ تمہیں مردوں کے ساتھ ہی ٹریننگ لینی پڑے گی۔ وہیں رہنا پڑے گا، وہیں ٹریننگ کرنی پڑے گی، انہیں کا لباس پہننا پڑے گا۔ وہ یونیفارم پہننا پڑے گا۔ نہ تمہارا پردہ رہے گا نہ حجاب رہے گا، نہ حیا رہے گی۔ اس لئے صرف وقفِ نو کا سوال نہیں ہے کسی بھی احمدی لڑکی کو پولیس میں جانے کی ضرورت نہیں ہے۔


ایک واقفۂ نو نے سوال کیا کہ لڑکیوں کے لئے کیوں جامعہ نہیں؟ حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا جب ہمارے اتنے وسائل ہو جائیں گے تو لڑکیوں کے لئے بھی کھول لیں گے پہلے لڑکوں کا تو پورا کرنے دو۔ لڑکیوں کے لئے ربوہ میں مثلاً عائشہ اکیڈمی ہے جہاں لڑکیاں دینیات کی تعلیم بھی لیتی ہیں، حفظ قرآن بھی کرتی ہیں۔ کینیڈا والوں نے عائشہ اکیڈمی کھول لی ہے۔ وہاں بھی دینیات کی تعلیم دی جاتی ہے۔ ان کا پہلا بیج پاس ہوا ہے۔ تو دینیات کا کورس انہوں نے دو سال کا کیا ہے۔ قرآن کریم کی حفظ کی کلاس لگتی ہے، حفظ بھی کروائے جاتے ہیں۔ تو جرمنی والے بھی جب انکے وسائل ہونگے کھول لیں گے۔

ایک واقفۂ نو نے سوال کیا کہ کیا واقفۂ نو بچیاں پرائمری سکول ٹیچر بن سکتی ہیں؟ حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا ہاں بن سکتی ہیں لیکن یہاں پڑھنے کے لئے کوشش یہ کرو کہ ایسی جگہوں پہ جا کے داخلہ لو جہاں تمہیں اسکارف میں پڑھنے کی اجازت ہو اگر نہیں اجازت ملتی اور اگر تمہارا زبردستی سکارف سکول کالج میں اتارتے ہیں تو اتار کے پڑھنے کے بعد پھر سکول کے گیٹ سے باہر نکلتے ہی سکارف تمہارے سر پہ ہونا چاہیئے۔

ایک واقفۂ نو نے سوال کیا کہ آیا واقفۂ نو وکیل بن سکتی ہے؟ حضورِ انورنے فرمایا وکالت پڑھ سکتی ہیں پریکٹس نہیں کرنی۔ پریکٹس کرنے سے پہلے مجھ سے پوچھے۔

 

(روزنامہ الفضل ربوہ 4 جولائی 2014ء۔ جلد 64-99نمبر 152۔ صفحہ 4تا 6)