پیٖغامات حضور انور برموقع اشاعت میگزین
واقفین نو کے سہ ماہی مرکزی رسالہ ’’اسماعیل‘‘ کے آغاز پر
حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا خصوصی پیغام
پیارے واقفین نو
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ
الحمدللہ کہ آپ کا پہلا رسالہ حسن اتفاق سے اس وقت سامنے آ رہا ہے جب اس تحریک کے 25 سال بھی پورے ہو رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ اس کو ہر لحاظ سے بابرکت کرے۔ اس کا نام ’’اسماعیل‘‘ رکھا گیا ہے جو ان قربانیوں کی یاد دلاتا ہے جو حضرت اسماعیل علیہ السلام اور حضرت ہاجرہ علیھا السلام نے دیں اور ایک وادی غیر ذی زرع میں اپنی زندگی گزاری اور دین کے لئے قربانی کے اعلیٰ معیار قائم کئے۔ اسی طرح ہر واقفِ نو سے یہ توقع کی جاتی ہے کہ اپنے وقفِ نو کے عہد کو جو ان کے ماں باپ نے ان کی پیدائش سے بھی پہلے کیا اور جس کی تجدید انہوں نے خود کی، اس کو اس اعلیٰ معیار کے ساتھ نبھانے کی کوشش کریں گے جس کی مثال حضرت اسماعیل علیہ السلام نے ہمارے سامنے رکھی اور ان کی قربانیوں کو قبول کرتے ہوئے ان کی نسل سے اللہ تعالیٰ نے اس انسانِ کامل کو پیدا کیا جس نے عظیم روحانی انقلاب پیدا کیا اور جنگل کے رہنے والے بدّوں کو تعلیم یافتہ انسان بنایا اور پھر باخدا اور خدانما انسان بنا دیا اور پھر انہوں نے بھی دین کی خاطر وہ قربانیاں دیں کہ جو اسلام کی تاریخ میں ہمیشہ سنہری حروف سے لکھی جانے والی ہیں۔ وہ ایک باقاعدہ نظام میں شامل نہ ہونے کے باوجود ہر وقت اپنی زندگیاں دین کے لئے وقف رکھتے اور ہر قربانی کیلئے ہمہ وقف مستعد رہتے۔
ہر وقفِ نو جو عملاً وقف کے ایک باقاعدہ نظام میں شامل ہوتا ہے کہ نہیں، یعنی جماعت کے مستقل کارکن کی حیثیت سے کام کرتا ہے یا نہیں، وہ وقفِ زندگی بہرحال ہے اور اس کا ہر قول و فعل وقفِ زندگی کے اعلیٰ معیاروں کے مطابق ہونا چاہیئے جس میں سب سے بڑی چیز تقویٰ ہے ۔ اسے ہمیشہ اپنے پیشِ نظر رکھیں کہ ہم نے تقویٰ پر قائم رہنا ہے اور ہر کام اللہ کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے کرنا ہے۔ اپنی نمازوں کی بھی حفاظت کرنی ہے اور قرآنی تعلیم پر غور و تدّبر کر کے اس کو اپنی زندگیوں پر لاگو کرنے کی کوشش کرنی ہے۔ اس زمانے میں اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عاشقِ صادق کو ہماری اصلاح کے لئے مسیحِ موعود اور مہدیٔ معہود بنا کر بھیجا ہے اور جن کی بیعت میں آکر ہم نے یہ عہد کیا ہے کہ ہم دین کو دنیا پر مقدّم رکھیں گے لیکن یہ ہم اس وقت تک حاصل نہیں کر سکتے جب تک کہ ہم اپنی زندگی کے ہر قول اور فعل کو قرآنی تعلیم اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سنّت کے تابع گزارنے کی کوشش نہیں کرتے۔ اگر ہماری زندگیاں قرآن و سنّت کے مطابق اور ان کی جو تشریح اس زمانے کے امام حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے کی ہے اس کے مطابق گزریں تو تبھی ہم اپنے وقف کے عہد کو حقیقی طور پر نبھا سکتے ہیں۔ خاص طور پر اس معاشرے میں جہاں آزادی کا دور دورہ ہے اور آزادی کے نام ہر اخلاقی بے راہ روی ہر جگہ عام نظر آتی ہے۔ اس میں ہم نے اپنے آپ کو ہر لحاظ سے سنبھال کر رکھنا ہے اور ایک نمونہ قائم کرنا ہے تا کہ دوسرے نوجوان بھی اور بچے بھی ہمیں دیکھ کر ہم سے نمونہ حاصل کریں۔ اور اس طرح ہم ہر احمدی بچے اور جوان کے لئے ایک نمونہ بنتےہوئے ان کی اصلاح کا موجب بننے والے ہوں۔ پس اس بات کو ہمیشہ یاد رکھیں کہ ہم نے اپنی زندگیاں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تعلیمات اور ارشادات کی روشنی میں حقیقی اسلامی نمونہ کے مطابق گزارنی ہے اور یہ تبھی ممکن ہو گا جب آپ ہمیشہ خلافت سے وفا کا تعلق رکھیں گے اور خلیفۂ وقت کی ہر نصیحت پر بھرپور عمل کرنے کی کوشش کریں گے۔ اور ہر بات کا مخاطب سب سے پہلے اپنے آپ کو سمجھیں گے۔ اگر آپ یہ کر لیں تو آپ اس عہد کو نبھانے والے بنیں گے جو آپ نے بحیثیت وقفِ نو خدا تعالیٰ سے کیا یا آپ کے والدین نے آپ کی پیدائش سے بھی قبل آ پ کو وقف کر کے کیا۔ اللہ آپ کو اس کے مطابق عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین
(سہ ماہی رسالہ اسماعیل ۔ شمارہ 1۔ اپریل تا جون 2012ء۔ صفحہ 5 تا 6)
واقفاتِ نو کے سہ ماہی مرکزی رسالہ ’’مریم‘‘ کے آغاز پر
حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا خصوصی پیغام
میری عزیز واقفاتِ نو!
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ
میرے لئے یہ امر باعثِ مسرّت ہے کہ یہاں لندن سے وقف نو بچیوں کے لئے ایک مرکزی رسالہ شروع کیا جا رہا ہے۔ اللہ مبارک کرے اور آپ سب کو اس میں لکھنے کی بھی اور اس سے بھرپور استفادہ کرنے کی بھی توفیق عطا فرمائے۔
اس رسالے کو اس پہلو سے ایک تاریخی حیثیت حاصل ہے کہ یہ پہلا رسالہ ہے جو مرکزی سطح پر وقفِ نو بچیوں کے لئے جاری کیا جا رہا ہے۔ وقفِ نو بچیوں کو وقف کی یہ تاریخ کبھی نہیں بھولنی چاہیئے کہ دنیا میں سب سے پہلے اپنے بچے کو اس کی پیدائش سے قبل وقف کرنے والی ایک عورت ہی تھی اور جس کو اس نے جنم دیا یعنی سب سے پہلے ’’واقفہ نو‘‘ وہ بھی ایک عورت ہی تھی جس کا نام مریم تھا۔ اس کو وقف کرنے والے والدین نے اس کی ایسی اعلیٰ درجہ کی تربیت کی اور اس بچی نے بھی اپنے اس مقام کو سمجھتے ہوئے وقف کے تقاضوں کو ایسا نبھایا کہ عرش کے خدا نے رہتی دنیا تک کے لئے قرآن کریم جیسی کتا ب میں عفت و عصمت کی اس دیوی اور تقویٰ و طہارت سے زندگی بسر کرنے والی اس عورت کی زندگی کو نیکی اور تقویٰ کا اعلیٰ مقام پانے کے لئے ایک مثال کے طور پر محفوظ کر دیا۔ اس دَور میں اس سنّت کے تابع آپ کے والدین نے بھی آپ کو آپ کی پیدائش سے پہلے وقف کیا ہے اور آپ نے بڑے ہو کر خود ان کے اس عہد کی بڑے اخلاص اور وفا سے تجدید کی ہے۔ آپ کے وقف کا یہ مقام اور اعزاز کوئی معمولی بات نہیں لیکن وقف کا یہ اعزاز تبھی آپ کے ماتھوں کا جھومر بن سکتا ہے جب آپ وقف کے تقاضوں کو نبھاتے ہوئے اپنی زندگیاں خلافت کی تابعدار بن کر گزارنی شروع کریں گی۔ اس لئے ہمیشہ یہ بات یاد رکھیں اور دنیا کے تمام مذاہب اور تمام تہذیبوں کی تاریخ پڑھ جائیں تو آپ جان لیں گی کہ جو عظمت اور مقام اسلام نے عورت کو دیا ہے وہ کبھی کسی اور مذہب نے اسے نہیں دیا۔ ایک عورت کا حقیقی تابعدار ہونا اور کامل مسلمان ہونا اس کے لئے پہلے بھی فخر کا باعث تھا اور اب بھی ہے۔ اسلا م کے پہلے دَور میں عورت نے علم و عمل کے ہر میدان میں قابلِ قدر اور قابلِ رشک کارنامے سرانجام دئیے ۔ جنگ کے میدان ہوں یا عبادت و ریاضت کے، کاشتکاری کا میدان ہو یا درس و تدریس کا، تجارت ہو یا طب و جراحت، کوئی ایسا علمی و عملی میدان نہیں جس میں عورتیں مردوں سے پیچھے رہی ہوں۔ تمام تر اسلامی تعلیمات کے زیور سے آراستہ و پیراستہ ہوتے ہوئے بردے کی رعایت کے ساتھ ہزاروں مردوں کے مجمعوں سے خطابات بھی ان مسلم عورتوں نے کئے اور درس بھی دئیے۔ پھر جب انہوں نے امانت و تقویٰ اور زہد و ریاضت کے میدان میں قدم رکھا تو صالحیت اور ولایت میں بھی نام پیدا کئے۔ اور علم و عمل کا یہ جھنڈا صرف اسلام کے دَورِ اوّل میں ہی نہیں اسلام کے اس دَورِ ثانی میں بھی احمدیت یعنی حقیقی اسلام میں احمدی عورتوں نے ہی بلند کر رکھا ہے۔ اور اب آپ جو واقفاتِ نو بچیاں ہیں ، آپ نے بھی یہ جھنڈا علم و عمل کے ہر میدان میں اونچے سے اونچا لہرانا ہے۔ آپ نے یورپ کی مصنوعی آزادیوں اور آسائشوں کی طرف اپنے قلب و نظر کو مائل نہیں ہونے دینا کیونکہ ان کے پیچھے ایسے ہولناک اور روح فرسا مناظر ہیں کہ جو جسموں کے ساتھ ساتھ روحوں کو بھی ایک ایسی قید میں جکڑ لیتے ہیں جن سے پھر انسانیت پاتال کی اتھاہ گہرائیوں میں دفن ہو جاتی ہے حتیٰ کہ کہ پھر نہ دنیا باقی رہتی ہے اور نہ دین۔ پس دنیا کی نت نئی ایجادات اور ان کی attractionمیں آپ نے کبھی نہیں پڑنا بلکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے تجدیدِ دین کے کاموں کو پھیلانے اور دین کی خدمت کے لئے ہمیشہ مستعد رہنا ہے۔ اس کے لئے آپ کی نظریں ہمیشہ آسمانوں کی طرف رہیں اور آپ کے ذہنوں اور علم وعمل کی پروازیں بھی آسمانوں کی رفعتوں کو چھونے کے عزائم لئے ہوئے ہوں۔ اور اگر آپ نے یہ بلندیاں واقعی حاصل کرنی ہیں تو اس زمانے کے امام اور اسلام کی خوبصورت تعلیمات کے نور سے دنیا کو منور کرنے والے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تحریرات کو ہمیشہ اپنے سامنے رکھیں۔ خلیفۂ وقت کی ہدایات اور نصائح کو اپنے لئے مشعلِ راہ بنا لیں کہ آج یہی تعلیمات آبِ حیات کا حکم رکھتی ہیں جو بالآخر انسان کو ہمیشہ کی زندگی کا وارث بنا دیتی ہیں۔ یہی وہ زندگی بخش باتیں ہیں جو مردہ دلوں کو حیات جاودانی عطا کرتی ہیں اور زمین سے اٹھا کر آسمانوں کی رفعتوں تک پہنچا دیتی ہیں جہاں فرشتے بھی ان سے ہمکلام ہونے میں فخر محسوس کرتے ہیں۔ پس آپ کو ہمیشہ اس بات کا فہم و ادراک ہونا چاہیئے کہ یہ آبِ حیات سوائے احمدیت یعنی حقیقی اسلام کے کہیں اور سے کبھی آپ کو میسر نہیں آ سکتا۔ اگر آپ نے یہ نقطہ سمجھ لیا اور اس کے مطابق عمل کیا نیز بحیثیت واقفاتِ نو اپنی زندگیوں کے مقصد کو پانے کی کوشش کی اور اس کی روشنی میں اپنی زندگیاں گزاریں تو یقیناً دنیا و آخرت کی فلاح و نجات آپ کا مقدر ہو گی۔
حضرت بانی ٔ سلسلہ ٔ احمدیہ فرماتے ہیں۔’’میں سچ سچ کہتاہوں کہ مسیح کے ہاتھ سے زندہ ہونے والے مر گئے۔ مگر جو شخص میرے ہاتھ سے جام پئے گا جو مجھے دیا گیا ہے وہ ہر گز نہیں مرے گا۔ وہ زندگی بخش باتیں جو میں کہتا ہوں اور وہ حکمت جو میرے منہ سے نکلتی ہے اگر کوئی اور بھی اس کی مانند کہہ سکتا ہے تو سمجھو کہ میں خدائے تعالیٰ کی طرف سے نہیں آیا۔ لیکن اگر یہ حکمت اور معرفت جو مردہ دلوں کے لئے آبِ حیات کا حکم رکھتی ہے دوسری جگہ سے نہیں مل سکتی تو تمہارے پاس اس جرم کا کوئی عذر نہیں کہ تم نے اس کے سر چشمہ سے انکار کیا جو آسمان پر کھولا گیا ہے۔‘‘ ( ازالہ اوہام۔ روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 104)
آپ مزید فرماتے ہیں۔’’جو شخص چاہے کہ ہم اس سے پیار کریں اور ہماری دعائیں نیازمندی اور سوز سے اس کے حق میں آسمان پر جائیں وہ ہمیں اس بات کا یقین دلا دے کہ وہ خادمِ دین ہونے کی صلاحیت رکھتاہے۔‘‘ (ملفوظات جلد اوّل صفحہ 311)
اللہ تعالیٰ آپ سب کو اس کی توفیق دے اور ہمیشہ دل و جان سے فدا ہوتے ہوئے دین کی خدمت پر کمربستہ رہنے کی توفیق دے ۔ آمین
(سہ ماہی رسالہ مریم۔ شمارہ ا۔ جنوری تا مارچ 2012ء۔ صفحہ 1 تا 3)