واقفین نو کی تعلیم و تربیت

خطابات برموقع جلسہ ہائے سالانہ بابت وقف نو

خطاب جامعہ احمدیہ کینیڈا بتاریخ 30 جون 2004 ء

نوجوانی کی عبادت ہی اعلیٰ درجہ کی عبادت ہوتی ہے
۔۔۔ ان ملکوں میں آزادی کی فضا ہے۔ جوانی کی عمر میں کسی نہ کسی قسم کیTemptation (بدی کی طرف میلان) ہوجاتی ہے،آپ نے اس سے بچنا ہے۔ آپ نے استغفار اور اللہ تعالیٰ کی عبادت پر زوردینا ہے۔ نوجوانی کی عبادت ہی اعلیٰ درجہ کی عبادت ہوتی ہے۔ تہجد کی عادت ڈالیں۔
۔۔۔ قادیان میں جب مدرسہ احمدیہ شروع ہوا تو ایک دفعہ رپورٹ ہوئی کہ مدرسہ میں طلباءنماز کے لئے نہیں اٹھتے۔ چونکہ مجلس میں ذکر ہوا تھا اس لئے ناظر صاحب تعلیم نے کہا کہ مَیں صبح چیک کرنے آؤں گا۔ جو طالبعلم جاگ رہا ہوگا اورجان بوجھ کر نہیں اٹھ رہا ہوگا اس کا پتہ چل جائے گا۔ کیونکہ جو شخص سویا ہوا ہو اس کے پاؤں کا انگوٹھا ہل رہا ہوتا ہے۔وہ اگلی صبح گئے تو کئی طلباءکے انگوٹھے ہل رہے تھے۔ آپ کے انگوٹھے تو نہیں ہلنے چاہیئں۔ اگر نماز میں ذوق پیدا ہوجائے توپھر دوسری باتوں کی طرف سے توجہ ہٹ جاتی ہے۔پھر قرآن کریم کی تلاوت باقاعدگی سے ہونی چاہیے۔ آپ ابھی سے قرآن کریم پر غور اور تدبرکرنے کی عادت بنالیں۔ ایسے نکات نکالیں جو نئے ہوں۔ سکول میں آپ نے سائنس پڑھی ہے اس کی روشنی میں دیکھیں کہ ہم نے اسلام کی تشریح کیسے کرنی ہے۔ مگر ایسا ہم نے حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کے دیے ہوئے دائرہ کے اندر رہتے ہوئے کرنا ہے۔پھر حضرت مسیح موعودعلیہ لسلام کی کتب کا پڑھنا ضروری ہے۔ نصاب کے طور پر تو آپ کچھ کتابیں پڑھتے ہی ہیں۔نصاب کی کتب کے علاوہ حضرت مسیح موعودؑ کی دوسری کتب بھی پڑھنی چاہئیں۔ آپ یہ نہ سمجھیں کہ مطالعہ ختم ہوجاتا ہے،یہ تو ہمیشہ زندگی بھر جاری رہتا ہے۔

 

خدمتِ دین کے لئے صحت ضروری ہے
حضور نے فرمایا کہ یہ تو علمیActivitiesتھیں۔ گیمز(Games)کی طرف بھی توجہ کرنی چاہیے۔ یہ نہیں کہ صرف مذہبی تعلیم حاصل کرنے والے کی سنجیدہ شکل ہی بن جائے۔ جبGameکا وقت آئے تو پورا وقت اسے دیں۔ تھکاوٹ وغیرہ کے بہانے سے اسے ترک نہ کریں۔ ویسے آپ کی صحتیں اللہ تعالیٰ کے فضل سے اچھی ہیں۔ یادرکھیں دین کی خدمت کے لئے صحت ضروری ہے۔ اس لئے Games اورExerciseکریں۔ اس لئے نہیں کہ جامعہ نے کہا ہے بلکہ اپنی خوشی سے کریں۔

 

استاد کا احترام کریں
اساتذہ کی آپ نے تعریف کی ہے،یادرکھیں کہ استادکی عزت بہت ضروری ہے۔ کسی سے ایک لفظ بھی پڑھا ہو تو وہ استادبن جاتا ہے۔

یہ چند بنیادی چیزیں ہیں۔ اللہ تعالیٰ سے لَو لگائیں۔ قرآن اور حدیث اور کتب حضرت مسیح موعودؑ کے مطالعہ کی عادت ڈالیں۔ اپنی صحت کا خیال رکھیں اور اساتذہ کی عزت کریں۔ آپ اگلی کلاسوں کے لئے نمونہ ہیں۔ یہ نہ ہو کہ جماعت کی بدنامی کا باعث بنیں۔ مجھے امید ہے کہ آپ حقیقی رنگ میں اسلام کے مبلغ اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی فوج کے ایسے سپاہی بنیں گے جو مثالی رنگ رکھتے ہوں۔

 

(الفضل انٹرنیشنل23تا29جولائی2004ء۔جلد 11 شمارہ 30۔ صفحہ 9)

خطاب برموقع جلسہ سالانہ یوکے 30 جولائی 2005ء

احمدی عورت کا مقام اور ذمہ داری


۔۔ احمدی عورت کا مقام اور ذمہ داری انتہائی اہم ہے کیونکہ احمدیت کی آئندہ نسل کی پرورش آپ کی گود میں ہو رہی ہے یا ہونے والی ہے۔ اللہ تعالیٰ آپ کو اس مقام کو سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے تا کہ آپ اور آپ کی نسلیں اس طرز عمل کی مصداق نہ بنیں جو کھیل کود میں مصروف ہوکر نبی کو اکیلا چھوڑنے والے ہوں۔ بلکہ ہر وقت اس سودے اور تجارت کی تلاش میں رہیں کہ جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ وہ اس کھیل کود، خواہشات اور تمہاری خواہشات کے مقابلہ میں بہت اچھا ہے۔ بلکہ یہی ہے جس سے تم اس دنیا میں بھی جنت حاصل کرنے والے ہو گے اور آئندہ زندگی میں بھی۔ پس یہ سوچ ہے جو ہر احمدی کو رکھنی چاہیئے اور احمدی عورتوں کو خاص طور پر میں زور دے کر اس لئے کہہ رہا ہوں کہ جیسا کہ میں نے کہا آپ صرف اپنی ذمہ دار ہی نہیں بلکہ آپ آئندہ نسلوں کی بھی ذمہ دار ہیں۔ خاوندوں کے گھروں کی نگران ہونے کی حیثیت سے آپ صرف اپنی زینتوں کو چھپانے والی اور ان کی حفاظت کرنے کی ذمہ دار نہیں ہیں بلکہ مستقبل کے جو باپ اور مائیں بننے والے ہیں انہوں نے بھی وہی رنگ اختیار کرنا ہے جو آپ نے اختیار کیا ہوا ہے، جسکے مطابق آپ اپنی زندگی بسر کر رہی ہیں۔ اسلئے آپ اگلی نسلوں کی زینتوں کی بھی ذمہ دار ہیں۔


خاص طور پر واقفینِ نو آپ کے پاس جماعت کی امانت ہے
۔۔۔ پھر دوسری بات جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جنت میں جانے کی ضمانت کے طور پر فرمائی ہے وہ یہ ہے فرمایا جب تم وعدہ کرو تو وفا کرو، اسے پورا کرو۔ پس مومن کا وعدہ ایسا ہی ہے جیسا کہ اس نے وہ کام کر کے دکھا دیا ہو اور کام کر دیا ہو۔ پھر فرمایا جب تمہارے پاس امانت رکھی جائے تو امانت رکھوانے والا اسے مانگے تو اسے دے دیا کرو پھر ٹال مٹول سے کام نہ لیا کرو۔ یہ امانت کا مضمون بھی بہت وسیع مضمون ہے۔ اس وقت تو اس کی تفصیل نہیں بتائی جا سکتی لیکن بہرحال میں صرف اتنا بتا دیتا ہوں کہ احمدیت کی آئندہ نسلیں جو آپ کی گودوں میں پل رہی ہیں اور خاص طور پر واقفینِ نو، یہ آپ کے پاس جماعت کی امانت ہے۔ پس ان امانتوں کو بھی آپ نے اس طرح جماعت کو لوٹانا ہے جس طرح جماعت نے آپ سے توقع کی ہے، جس طرح خلیفۂ وقت نے آپ سے توقع کی ہے۔

 

(الفضل انٹرنیشنل ۔ 11 مئی 2007ء۔ جلد 14 شمارہ 19۔ صفحہ 4، 8)

خطاب برموقع اجلاس لجنہ اماء اللہ کیرالہ بتاریخ 26 نومبر 2008 ء

واقفینِ نو کی ایسی تربیت کریں کہ ان کو خدا تعالیٰ سے ایک خاص لگاؤ ہو

۔۔۔ آج بھی اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ جب وقفِ نو کی تحریک ہوئی تو دنیا میں احمدی خواتین نے اپنی اولادوں کو وقفِ نو کے لئے پیش کیا اور اب تک کرتی چلی جا رہی ہیں۔ اور ان شاء اللہ تعالیٰ یہی وقفِ نو کی جو فوج ہے امید ہے احمدیت کے لئے ایک اہم کردار ادا کرنے والی بنے گی۔ پس قربانیاں کرتے چلے جانا اور اپنی عبادتوں کے معیار بلند کرتے چلے جانا ہر احمدی عورت کا فرض ہے اور اللہ تعالیٰ اس کی جزا بھی دیتا ہے۔ اور اس کے پھل انشاء اللہ تعالیٰ ہم اس دنیا میں بھی حاصل کریں گے اور آخرت میں بھی حاصل کریں گے۔
۔۔۔ لیکن یہ وقف پیش کرنے کے بعد ان کی ذمہ داری ختم نہیں ہو گئی بلکہ یہاں ان کی تربیت کا ایک نیا دَور شروع ہو گیا ہے۔ انہوں نے خاص طور پر اپنے واقفینِ نو بچوں کی تربیت کر کے، ویسے تو ہر بچے کی تربیت کرنا عورت کا فرض ہے۔ جیسا کہ میں نے کہا خدا تعالیٰ نے فرمایا اپنی اولاد کو قتل نہ کرو اور قتل نہ کرنے سے یہ مراد ہے کہ اُن کی اتنی بُری تربیت نہ کرو کہ وہ خراب ہو جائیں اور اپنے بد انجام کو پہنچیں۔ لیکن خاص طور پر واقفینِ نو کو جو آپ جماعت کو تحفہ پیش کر رہی ہیں ان کی خاص طور پر ایسی تربیت کریں کہ ان کو خدا تعالیٰ سے ایک خاص لگاؤ ہو اور دین کی طرف رغبت اور دنیا کی طرف سے بے رغبتی ہو۔

(الفضل انٹرنیشنل ۔ 26 دسمبر 2008ء۔جلد 15 شمارہ 52۔ صفحہ 7)

خطاب برموقع جلسہ سالانہ جرمنی 15 اگست 2009ء

وقفِ نو بچے کو خاص طور پر جماعت کی خدمت کے لئے تیار کرنا ہے
۔۔۔ احمدی بچے اپنے ماں باپ کے پاس جماعت کی امانت ہیں چاہے وقفِ نو ہیں یا نہیں۔ وقفِ نو بچے کو خاص طور پر جماعت کی خدمت کے لئے تیار کرنا ہی ہے اور ان کے ذہن میں ڈالنا ہی ہے کہ تم نے جماعت کا خادم بننا ہے۔ لیکن غیر واقفِ نو بچہ بھی اسی طرح اہم ہے جس طرح وقفِ نو۔ چونکہ جماعت کی ترقی پوری جماعت کی ترقی سے وابستہ ہے۔ بعض دفعہ وہ لوگ جو وقف نہیں وہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے واقف سے زیادہ خدمت کر رہے ہوتے ہیں۔ تبلیغی میدان میں ان کی کوشش اور نتائج غیر معمولی ہوتے ہیں اور علمی میدان میں اہم کردار ادا کر رہے ہوتے ہیں۔ پس ان امانتوں کی حفاظت اور ان کی بہترین تربیت کرنا یہ بھی ماں باپ کے فرائض میں داخل ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بہترین تحفہ جو والدین اپنے بچے کے لئے دے سکتے ہیں وہ ان کی بہترین تربیت ہے۔ ۔۔

(الفضل انٹرنیشنل ۔ 18 ستمبر 2009ء۔جلد 16 شمارہ 38۔ صفحہ 11)

خطاب برموقع سالانہ اجتماع لجنہ اماء اللہ یوکے 3 اکتوبر 2010ء

جو واقفاتِ نو ہیں اپنے وقفِ نو کا حق ادا کرنے کی کوشش کریں
۔۔۔ آج جبکہ اسلام پر دنیا کے ہر کونے سے حملہ ہو رہا ہے۔ اور بدقسمتی سے مسلمان کہلانے والے خود بھی زمانے کے امام کی دشمنی کر کے ان حملوں کو ہَوا دے رہے ہیں۔ ہمیں ایک امّ عمّارہ نہیں بلکہ ہزاروں امّ عمّارہ کی ضرورت ہے جنہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم  کی ذات اور اسلام کی حفاظت کرنی ہے۔ پس نئے ذرائع ابلاغ، الیکٹرانک ذرائع کو استعمال کرنا آجکل کی نوجوان نسل کو زیادہ آتا ہے۔ پس نوجوان نسل سے بھی مَیں کہتا ہوں کہ آگے آئیں اور اس جہاد میں اتر جائیں۔ ذاتی خواہشات کو پسِ پشت ڈال دیں۔ جو واقفاتِ نو ہیں اپنے وقفِ نو کا حق ادا کرنے کی کوشش کریں۔ جو واقفاتِ نو نہیں ہیں وہ اپنے ایک احمدی اور سچا مسلمان ہونے کا حق ادا کریں۔ دین سیکھیں اور دین کو پھیلائیں۔ اپنی ذاتی خواہشات کو بالکل پس پشت کر دیں۔ مخالفین کے اعتراضات کوئی نئے نہیں ہیں۔ آج بھی وہی پرانے اعتراض ہیں جو ہمیشہ سے ہوتے چلے آئے ہیں۔ الفاظ کے ردّوبدل کے ساتھ یہ پیش کر دیتے ہیں۔ اور ان سب کے جواب حضرت مسیح موعودؑ نے دئیے ہوئے ہیں۔ پس ہماری عورتوں اور لڑکیوں کو چاہیئے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی کتب یا اقتباسات جن کا انگلش میں ترجمہ میسر ہے، جن کو اردو پڑھنی نہیں آتی وہ انگلش میں پڑھیں۔ اور کوشش کریں کہ اس کے علاوہ بھی علم حاصل کریں اور ان اعتراضات کے جوابات دیں جو آج اسلام پر اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات پر ہو رہے ہیں۔ اور دشمن کے خلاف ننگی تلوار بن کر کھڑی ہو جائیں۔
۔۔۔ ہر عورت اور ہر لڑکی یہ سمجھے کہ آج اسلام اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی حفاظت کی ذمہ داری صرف اور صرف میری ہے۔ اور مَیں نے اپنی تمام تر صلاحیتوں اور استعدادوں کے ساتھ اس حفاظت کا حق ادا کرنے کی بھرپور کوشش کرنی ہے۔ اپنے علم اور روحانیّت میں اضافہ کرنا ہے اور اس وقت تک چین سے نہیں بیٹھنا جب تک اسلام کا جھنڈا تمام دنیا پر نہ گاڑ لوں۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس کی توفیق عطا فرمائے۔

(الفضل انٹرنیشنل 22 جولائی 2011ء۔ جلد 18 شمارہ 29-30۔ صفحہ 30)

خطاب برموقع اجتماع لجنہ اماء اللہ برطانیہ بتاریخ 14 اکتوبر 2012ء

رشتوں کے بارہ میں انمول ہدایات
حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ۔ کچھ عرصہ ہوا کالج کی ایک سٹوڈنٹ ہمارے گھر آئی اور اس نے مجھے ایک رقعہ دیا جس میں لکھا تھا کہ مَیں دین کی خدمت کے لئے اپنی زندگی وقف کرنا چاہتی ہوں۔ حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ مَیں نے کہا کہ بی بی اس وقت ہمارے پاس لڑکیوں کے زندگی وقف کرنے کا کوئی انتظام نہیں ہے۔ کیونکہ واقفِ زندگی کو تبلیغ کے لئے گھر سے باہر رہنا پڑتا ہے بلکہ بعض دفعہ اسے مُلک سے باہر بھی جانا پڑتا ہے اور لڑکیاں اکیلی باہر نہیں جا سکتیں۔ ہاں اگر تم زندگی وقف کرنا چاہتی ہو تو کسی وقف نوجوان سے شادی کر لو۔ وہ خاموش ہو کے چلی گئی۔ حضرت مصلح موعود ؓ فرماتے ہیں میری چھوٹی بیوی کی ایک کلاس فیلو تھی، ان کو یہ بات معلوم ہوئی تو وہ کہنے لگی کہ مَیں نے اس سے پہلے کی نیّت کی ہوئی تھی کہ مَیں اپنی زندگی دین کے لئے وقف کروں گی لیکن اس نے پہل کر لی۔ پھر اللہ تعالیٰ نے ایسے سامان کئے کہ اس کی شادی ایک غیرملکی واقفِ زندگی نوجوان سے ہو گئی ۔ اب دیکھو نیک نیّتی کیسا اچھا پھل لاتی ہے۔
پس ہماری بچیوں کو بھی یہی کوشش کرنی چاہیئے کہ دین دیکھیں، دیندار بنیں اور لڑکوں کو بھی یہی کوشش کرنی چاہیئےکہ دیندار لڑکیاں تلاش کریں۔ اور خاص طور پر بعض دفعہ مَیں نے دیکھا ہے واقفِ زندگی لڑکوں کے رشتے آتے ہیں تو انکار ہو جاتے ہیں۔ حالانکہ واقفِ زندگی لڑکوں سے لڑکیوں کو اپنے رشتے منظور کرنے کی طرف توجہ دینی چاہیئے۔ اگر اللہ تعالیٰ کی مرضی ہو تو بجائے اس کے کہ بغیر سوچے سمجھے جواب دے دیا جائے دعا کر کے فیصلہ ہونا چاہیئے۔ ‘‘

( الفضل انٹرنیشنل ۔ 22 فروری 2013ء۔ جلد 20 شمارہ 08۔ صفحہ 2)

خطاب برموقع جلسہ سالانہ جرمنی بتاریخ 29 جون 2013ء

وقف کے بعد بچوں کی تربیت بھی والدین کا کام ہے
’’۔۔۔پھر اولاد ہے، یہ ایک نعمت ہے۔ اولاد سے محروم لوگ اس کے لئے دعائیں بھی کرواتے ہیں اور خود بھی دعائیں کرتے ہیں ، علاج بھی کرواتے ہیں اور اس علاج کے لئے کسی خرچ کی بھی پرواہ نہیں کرتے۔ لیکن جب اولاد خدا کے مقابلے پر اور دین کے مقابلے پر کھڑی ہو جائے تو یہ اولاد نعمت کی بجائے تکلیف کا باعث بن جاتی ہے، اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کا موجب بن جاتی ہے۔ اس لئے بچے کی پیدائش سے پہلے بھی اور بعد میں بھی نیک صالح اولاد کی ہمیشہ دعا کرتے رہنا چاہیئے۔ یہ احمدی عورتوں پر، احمدی ماں باپ پر اللہ تعالیٰ کا احسان ہے کہ ایک نظام کے تحت ان کو اپنی اولادیں دین کی خدمت کے لئے پیش کرنے کا موقع میسر ہے۔ جنہوں نے پیش کر دئیے ان کو اب مَیں کہتا ہوں کہ ان کی تربیت کریں۔ جن ماؤں نے بڑی قربانی کر کے اپنے بچوں کو دین کی خاطر پیش کر کے وقفِ نو میں شامل کیا ہے ان کی تربیت کرنا بھی ان کا کام ہے اور وہ تربیت اس وقت تک نہیں ہو سکتی جب تک ماں باپ کے اپنے پاک نمونے قائم نہیں ہونگے ۔ جن کو اللہ تعالیٰ آئندہ اولاد دے اور اولاد سے نوازے وہ بھی دعا کریں اور کوشش بھی کریں کہ اللہ تعالیٰ انہیں یعنی ان کی اولاد کو دین سے وابستہ رکھے اور دین کا خادم بنائے۔ دین کو دنیا پر مقدم رکھنے والی اولاد ہو۔ وہ ماں باپ کے لئے ان کی زندگی میں بھی اور ان کے مرنے کے بعد بھی دعا کرنے والی ہو۔ پس جب ایسی اولاد ہو تو ایسی اولاد ماں باپ کی مغفرت اور رضوان کا باعث بن جاتی ہے۔ ‘‘

( الفضل انٹرنیشنل 18 اکتوبر 2013ء۔ جلد 20 شمارہ 42۔ صفحہ 9)