خطبات جمعہ بابت وقف نو
تحریک وقف نو کے آغاز سے ہی ہزاروں خوش قسمت والدین کو اپنے بچے خدا تعالیٰ کے حضور وقف کرنے کی سعادت حاصل ہو رہی ہے اور مزید خوش قسمتی یہ کہ ان بچوں کی تعلیم و تربیت کے سلسلہ میں خلفائے وقت نے قدم قدم پر زرّیں نصائح سے بھی نوازا۔ اس کتاب میں اس تحریک کے آغاز سے اب تک حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ اور حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی اپنے خطبات جمعہ، خطابات، وقف نو کلاسز اور مختلف میٹنگز میں واقفین و واقفات نو کی تعلیم اور تربیت کے سلسلہ میں فرمودہ بیش قیمت ہدایات کو اکٹھا کیا گیا ہے۔اللہ کرے کہ تمام واقفین و واقفات نو خلیفۂ وقت کی ہدایات کے عین مطابق اپنے آپ کو مستقبل کے عظیم کاموں کے لئے تیار کر سکیں اور خدا تعالیٰ انکے والدین اور شعبہ وقف نو کے عہدیداران کو بھی توفیق عطا فرمائے کہ وہ ان کی تعلیم و تربیت کا پورا پورا حق ادا کر سکیں۔
پیارے آقا سیدنا و امامنا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے فرمودہ مبارک الفاظ میں دعا ہے کہ ’’اللہ تعالیٰ تمام اُن والدین میں جنہوں نے اپنے بچے وقفِ نو کیلئے پیش کئے، اس رنگ میں بچوں کی تربیت اور دعا کرنے کیطرف توجہ پیدا فرمائےجو حقیقت میں انکو واقفینِ نو بنانے کا حقدار بنانے والی ہوں۔ اور یہ بچے والدین کے لئے آنکھوں کی ٹھنڈک ہوں۔ بچوں کو بھی اپنے ماں باپ اور اپنے عہدوں کو پورا کرنے کیطرف توجہ دینی چاہیئے۔ اللہ تعالیٰ انکو توفیق بھی عطا فرمائے اور وہ حقیقت میں اُس گروہ میں شامل ہوجائیں جن کا کام صرف اور صرف دین کی اشاعت ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ انکو توفیق عطا فرمائے۔ آمین‘‘(الفضل انٹرنیشنل 8 فروری 2013ء۔ جلد 20 شمارہ 6۔ صفحہ 9)
نیشنل سیکریٹری وقفِ نو جماعت احمدیہ جرمنی
۔۔۔ مَیں نے آپ سے گزشتہ خطبے میں یہ ذکر کیا تھا کہ مَیں ایک تحریک جماعت کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں جسکا اس مضمون سے تعلق ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ محبت کے نتیجے میں انسان تحائف پیش کرتا ہے اور قرآن کریم نے ہر چیز جو خدا کی راہ میں پیش کی جاتی ہے اسکے ساتھ محبت کی شرط لگا دی ہے بلکہ نیکی کی تعریف میں محبت کے تحفے کو بطور شرط کے داخل فرمادیا۔ فرمایا لَنْ تَـنَالُوا الْـبِرَّ حَـتّٰی تُـنْـفِـقُـوْا مِمَّا تُحِبُّـوْنَ ط کہ تم نیکی کی گرد کو بھی نہیں پا سکتے نیکی کی باتیں کرتے ہو تمہیں پتا کیا ہے کہ نیکی کیا ہے؟ تم نیکی کی گرد کو بھی نہیں پا سکو گے اگر یہ راز جان لو کہ خدا کے راستے میں وہ خرچ کرو جس سے تمہیں محبت ہے۔ اپنی محبوب چیز وں کو خدا کی راہ میں پیش کرنا سیکھو پھر تم کہہ سکتے ہو کہ ہاں ہم نے نیکی کا مفہوم سمجھ لیا ہے۔ تو وہاں بھی محبت ہی کا مضمون جاری ہے۔
۔۔۔ اسلام نے جس طرح اس محبت کی تعلیم کو انسانی زندگی کے ہر جزو میں داخل کر دیا ہے اس تفصیل کے ساتھ آپ کو کسی اور مذہب میں محبت کے فلسفے کا بیان نہیں ملے گا فرمایا لَنْ تَـنَالُوا الْـبِرَّ حَـتّٰی تُـنْـفِـقُـوْا مِـمَّا تُـحِبُّـوْنَ ط تم نیکی کو جانتے ہی نہیں تمہیں پتا ہی کیا ہے نیکی کیا ہوتی ہے؟ اگر یہ بات سیکھو تو خدا کی راہ میں سب سے اچھی چیز سب سے پیاری چیز قربان کرنا شروع کر دو۔ یا خدا کی راہ میں اپنی سب سے پیاری چیز دینے کی تمنا اگر تمہارے دل میں پیدا نہیں ہوتی تو تم نیکی کو نہیں جانتے۔
اس کسوٹی پر جب ہم انبیاء کو پرکھتے ہیں اور خصوصاً حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے حالات پر نظر ڈالتے ہیں تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں یہ چیز درجۂ کمال کو پہنچی ہوئی دکھائی دیتی ہے۔ بہت سے انسان ایسے ہیں جو محبت کرتے ہیں سمجھتے ہیں کہ ہمیں اچھی چیز پیش کرنی چاہیئے اور پھر سوچتے ہیں اور متردّد رہتے ہیں یہ پیش کروں یا وہ پیش کروں، یہ پیش کروں کہ وہ پیش کروں۔ چنانچہ صوفیاء کے بھی بہت سے دلچسپ واقعات اس میں ملتے ہیں اور عام دنیا میں محبت کرنے والوں کے بھی بہت سے واقعات ملتے ہیں کہ ایک خیال آیا یہ مجھے چیز سب سے زیادہ پیاری ہے پھر یہ خیال آیا کہ نہیں یہ زیادہ پیاری ہے پھر خیال آیا کہ وہ زیادہ پیاری ہے اور پھر آکر وہی پیش کر دی۔
چنانچہ ہمایوں کے متعلق بھی بابر نے جب یہ سوچا کہ ہمایوں کی زندگی بچانے کےلئے مَیں خدا کے سامنے اپنی کوئی پیاری چیز پیش کروں تو کہتے ہیں کہ بابر اس کے گرد گھومتا رہا اور اس نے سوچا کہ مَیں یہ ہیرا جو بہت پیارا ہے یہ دے دوں۔ اسے خیال آیا یہ ہیرا کیا چیز ہے مَیں یہ دے دوں۔ پھر خیال آیا کہ پوری سلطنت مجھے بہت پیاری ہے، یہ پوری سلطنت دے دیتا ہوں اور پھر سوچتا رہا۔ پھر آخر اس کو خیال آیا اُس کے نفس نے اُس کو بتایا کہ تمہیں تو اپنی جان سب سے زیادہ پیاری ہے ۔ اس وقت اس نے عہد کیا اور خدا سے دعا کی کہ اے خدا! واقعی اب مَیں سمجھ گیا ہوں کہ مجھے سب سے زیادہ پیاری میری جان ہے۔ میری جان لے لے اور میرے بیٹے کی جان بچالے۔ تاریخ میں لکھا ہے کہ واقعتا اس وقت کے بعد ہمایوں کی صحت سدھرنے لگی اور بابر کی صحت بگڑنے لگی۔ تو لوگ یہ سوچتے رہتے ہیں کہ کیا چیز پیاری ہے اور کیا کم پیاری ہے۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ نہیں سوچا بلکہ اپنا سب کچھ پیش کر دیا اپنا سونا، جاگنا ، اٹھنا ، بیٹھنا۔ چونکہ امرِ واقعہ یہ ہے کہ انسان کو اپنی ہر چیز پیاری ہوتی ہے اور جب وہ زیادہ پیاری چیز دیتا ہے تو اس کے دل میں اطمینان رہ جاتا ہے کہ کچھ کم مَیں نے اپنے لئے بھی روک لی ہے۔ اس سے کم جب پیاری دے دیتا ہے تو پھر اس کو کچھ نہ کچھ اپنے ہاتھ میں بھی دکھائی دیتا ہےاور وہ پھر اس کے بعد اس سے سب سے زیادہ پیار ہو جاتا ہے۔ جو چیز پیچھے ہٹتی چلی جاتی ہے وہ زیادہ پیاری ہوتی چلی جا رہی ہوتی ہے۔ کسی ماں کا سب سے لاڈلا بچہ مر جائے تو دوسرے بچے سے پہلے سے بڑھ کر پیار ہو جاتا ہے اور یہ مضمون انسانی فطرت کے ہر پہلو پر حاوی ہے۔ تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ سَودا نہیں کیا کہ اے خدا مَیں نے اپنی سب سے پیاری چیز جب پیش کر دی یعنی اپنی جان دے دی اس لئے اب باقی چیزیں میری رہ گئیں۔ لیکن فرمایا قُـلْ اِنَّ صَـلَاتِیْ وَ نُـسُـکِیْ وَ مَـحْـیَایَ وَ مَـمَـاتِیْ لِـلّٰـہِ رَبِّ الْـعٰـلَـمِـیْنَ اے محمدؐ! تو محبت کرنا سکھا ان غلاموں کو۔ یہ تیرے غلام بن چکے ہیں مگر نہیں جانتے کس طرح مجھ سے محبت کی جائے۔ تُو محبت کے راز بتا ان کو۔ ان سے پتا چلتا ہے کہ خدا کا حکم نہ ہوتا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم درپردہ عشق کے راز نہ بتاتے کسی کو۔ یہ بھی ایک عجیب حسین پہلو ہے جو میری نظر میں ابھرا ہےاور بے ساختہ دل اور فریفتہ ہوگیا۔ بعض جگہ حکماً خدا تعالیٰ نے اپنے راز ونیاز کی باتیں بنی نوع انسان کو بتانے پر پابند فرما دیا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو۔ ورنہ نہ بتاتے تو لوگوں کو پتا نہ چلتا کہ اتنا حسین ہے اس شان کا نبی جو اسقدر منکسر المزاج ہو۔ اس کی زندگی کا ایک نمایاں پہلو یہ ہوتا ہے کہ وہ اپنے حسن پر پردے ڈالتا چلا جاتا ہے اور اپنی کمزوریوں کو چھپاتا نہیں۔ اور یہی بنیادی فرق ہے مادہ پرست اور خدا پرست میں۔ مادہ پرست اپنی کمزوریوں پر پردے ڈالتا چلا جاتا ہے اور اپنے معمولی سے حسن کو بھی اچھالتا اور دکھاتا اور اس کی نشو و نما کرتا ہے اور پبلسٹی اس کی زندگی کے ہر شعبے کا ایک جزوِ لاینفک بن جاتی ہے۔ توخدا تعالیٰ نے حکماً رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو پابند فرمایا کہ تیری بعض خوبیاں جو میری نظر میں ہیں تیرے غلاموں کا بھی حق ہے کہ انکو پتہ چلے اس لئے کہ تا کہ وہ تمہاری پیروی کر کے مجھ تک پہنچنا سیکھ جائیں۔ ان میں سے ایک یہ تھا کہ اپنا سب کچھ دیدے چنانچہ انبیاؑ کی یہ سنّت ہے کہ وہ اپنا سب کچھ دینے کی خاطر یہ سوچتے سوچتے کہ ہم اَور کیا دیں اَور کیا دیں اپنی اولادیں بھی پیش کرتے ہیں۔ بعض دفعہ ابھی اولاد پیدا بھی نہیں ہوتی کہ وہ پیش کر رہے ہوتے ہیں۔ ابرار کی بھی یہ سنت ہے انبیاؑءکے علاوہ ۔ جیسے حضرت مریم ؑ کی والدہ نے یہ التجا کی خدا سے : رَبِّ اِ نِّیْ نَذَرْتُ لَکَ مَا فِیْ بَـطْنِیْ مُـحَرَّرًا فَـتَـقَـبَّلْ مِنِّیْ ج اِنَّکَ اَنْتَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْـمُ o کہ اے میرے رب! جو کچھ میرے پیٹ میں ہے میں تیرے لئے پیش کر رہی ہوں۔ مجھے نہیں پتہ کیا چیز ہے لڑکی ہے کہ لڑکا ہے اچھا ہے یا بُرا ہے۔ مگر جو کچھ ہے میں تمہیں دے رہی ہوں فَـتَـقَـبَّلْ مِنِّیْ مجھ سے قبول فرما۔ اِنَّـکَ اَنْـتَ السَّمِیْعُ الْعَـلِیْـمُ تُو بہت ہی سننے والا اور جاننے والا ہے یعنی سنتا ہے اور علم رکھتا ہے۔ اس مضمون کا الگ تعلق ہے اس لئے اس کی تفصیل میں جانے کی ضرورت نہیں ہے۔ بہر حال یہ دعا حضرت مریم کی والدہ جو آل عمران سے تھیں کی خدا تعالیٰ کو ایسی پسندآئی کہ اسے قرآن کریم میں محفوظ کر لیا۔ اسی طرح حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دعا اپنی اولاد کے متعلق اور دوسرے انبیاءکی دعائیں اپنی اولاد کے متعلق یہ ساری قرآن میں محفوظ فرمائیں۔ بعض جگہ آپ کو ظاہر طور پر وقف کا مضمون نظر نہیں آئے گا جیسا کہ یہاں آیا ہے مُـحَرَّرًا اے خدا میں تیری راہ میں اس بچے کو وقف کرتی ہوں۔ لیکن بسا اوقات آپ کو یہ دعا نظر آئے گی کہ اے خدا! جو نعمت تو نے مجھے دی ہے وہ میری اولاد کو بھی دے اور ان میں بھی انعام جاری فرما۔ حضرت ابراہیم ؑ نے اس رنگ میں دعا کی۔ لیکن حقیقت میں اگر آپ غور کریں تو جو انعام مانگا جا رہا ہے وہ وقفِ کامل ہے۔ کامل وقف کے سوا نبوت ہو نہیں سکتی اور سب سے زیادہ چنانچہ بنی نوع انسان سے آزاد یعنی محرّر اور خدا کی غلامی میں جکڑا جانے والا نبی ہوتا ہے۔
تو امرِ واقعہ یہ ہے کہ جب کوئی شخص یہ دعا کرتا ہے کہ میری اولاد میں نبوت کو جاری فرما تو اس دعا کا حقیقی معنی یہ ہے کہ میری اولاد کو ہمیشہ میری طرح غلام در غلام در غلام بناتا چلا جا۔ اپنی محبت میں اور اپنی اطاعت میں جکڑتا چلا جا۔ اتنا کامل طور پر جکڑکہ ان میں کوئی بھی آزادی کا پہلو نہ رہے۔ تو محرراً کے مقابل دنیا سے آزاد کر کے مَیں تیرے سپرد کرتی ہوں۔ یہ مضمون اور بھی زیادہ بالا ہے وقف کا کہ میری اولاد کو تو اپنی غلامی میں جکڑ لے اور ان کا کوئی پہلو بھی آزاد نہ رہنے دے۔
بہر حال یہ بھی ایک پہلو ہے کہ جو کچھ تھا وہ تو دیا خدا کی راہ میں لیکن جو ابھی ہاتھ میں نہیں آیا وہ بھی پیش کرنے کی تمنارکھتے تھے۔ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جو چلہ کشی کی تھی وہ بھی اسی مضمون کے تحت آتی ہے۔ آپ چالیس دن یہ گریہ و زاری کرتے رہے دن رات کہ اے خدا! مجھے اولاد دے اور وہ دے جو تیری غلام ہو جائے میری طرف سے ایک تحفہ ہو تیرے حضور۔
اگلی صدی کے استقبال کے متعلق ایک نہایت مبارک تحریک
پس مَیں نے یہ سوچا کہ ساری جماعت کو مَیں اِس بات پر آمادہ کروں کہ اگلی صدی میں داخل ہونے سے پہلے جہاں ہم روحانی اولاد بنانے کی کوشش کر رہے ہیں دعوت الی اللہ کے ذریعہ وہاں اپنے آئندہ ہونے والے بچوں کو خدا کی راہ میں ابھی سے وقف کر دیں اور یہ دعا مانگیں کہ اے خدا! ہمیں ایک بیٹا دے لیکن اگر تیرے نزدیک بیٹی ہی ہونا مقدر ہے تو ہماری بیٹی ہی تیرے حضور پیش ہے۔ مَا فِیْ بَـطْنِیْ جو کچھ بھی میرے بطن میں ہے۔ یہ مائیں دعائیں کریں اور والد بھی ابراہیمی دعائیں کریں کہ اے خدا! ہمارے بچوں کو اپنے لئے چن لے۔ اِن کو اپنے لئے خاص کر لے۔ تیرے ہو کر رہ جائیں۔ اور آئندہ صدی میں ایک عظیم الشّان واقفین بچوں کی فوج ساری دنیا سے اس طرح داخل ہو رہی ہو کہ وہ دنیا سے آزاد ہو رہی ہو اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خدا کی غلام بن کے اس صدی میں داخل ہو رہی ہو۔ چھوٹے چھوٹے بچے ہم خدا کے حضور تحفہ کے طور پر پیش کر رہے ہوں ۔
اور اس وقف کی شدید ضرورت ہے۔ آئندہ سوسالوں میں جس کثرت سے اسلام نے ہر جگہ پھیلنا ہے وہاں تربیت یافتہ غلام چاہیئں جو محمد رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خدا کے غلام ہوں ۔ واقفین زندگی چاہیئں کثرت کے ساتھ اور ہر طبقہ زندگی سے واقفین زندگی چاہیئں۔ ہر ملک سے واقفین زندگی چاہیئں۔
اس سے پہلے بھی ہم تحریک کرتے رہے ہیں ۔ بہت کوشش کرتے رہے ہیں لیکن بالعموم بعض خاص طبقوں نے عملاً اپنے آپ کو وقفِ زندگی سے مستثنیٰ سمجھا ہے۔ عملاً جو واقفین سلسلہ کو ملتے رہے ہیں وہ زندگی کے ہر طبقے سے نہیں آئے بعض بہت صاحبِ حیثیت لوگوں نے بھی اپنے بچے پیش کئے لیکن بالعموم دنیا کی نظر میں جس طبقے کو بہت زیادہ عزت سے نہیں دیکھا جاتا درمیانے درجہ کا جو طبقہ ہے غریبانہ اُس میں سے بچے پیش ہوتے رہے ہیں۔ اس طبقہ سے واقفین زندگی کا آنا ان واقفین زندگی کی عزت بڑھانے کا موجب ہے عزت گرانے کا موجب نہیں۔ لیکن دوسرے طبقوں سے نہ آنا ان طبقوں کی عزت گرانے کا ضرور موجب ہے۔ پس میں اس پہلو سے مضمون بیان کر رہا ہوں کہ کسی کو ہر گز کوئی یہ غلط فہمی سے نہ سمجھے کہ نعوذ باللہ من ذالک جماعت محروم رہ جائے گی اور جماعت کی عزت میں کمی آئے گی اگر ظاہری عزت والے اپنے بچے وقف نہ کریں ۔ یہ بتانا چاہتاہوں کہ ان کی عزتیں باقی نہیں رہیں گی۔ جو بظاہر دنیا میں معزز ہیں خدا کے نزدیک وہ اپنے آپ کو آئندہ ذلیل کرتے چلے جائیں گے اگر انہوں نے خدا کے حضور اپنے بچے پیش کرنے کا گر نہ سیکھا اور یقین نہ کر لیا۔ انبیاءکے بچوں سے زیادہ اور کوئی دنیا میں معزز نہیں ہو سکتے انہوں نے اس عاجزی سے وقف کئے ہیں، اس طرح گریہ و زاری کے ساتھ دعائیں کرتے ہوئے اور روتے ہوئے وقف کئے ہیں کہ انسان حیران رہ جاتا ہے اُن کو دیکھ کر۔
اگلی صدی میں واقفین زندگی کی شدید ضرورت ہے کہ جماعت کے ہر طبقہ سے لکھوکھہا کی تعداد میں واقفین زندگی اس صدی کے ساتھ ہم دراصل خدا کے حضور تحفہ پیش کر رہے ہوں گے لیکن استعمال تو اس صدی کے لوگوں نے کرنا ہے بہرحال۔ تو یہ تحفہ ہم اس صدی کو دینے والے ہیں اس لئے جن کو بھی توفیق ہے وہ اس تحفے کے لئے بھی تیار ہو جائیں۔
ہو سکتا ہے اس نیّت سے اس نذر کی برکت سے بعض ایسے خاندان جن میں اولاد نہیں پیدا ہو رہی اور ایسے میا ں بیوی جو کسی وجہ سے محروم ہیں اللہ تعالیٰ اس قربانی کی روح کو قبول فرماتے ہوئے ان کو بھی اولاد دیدے۔ خدا تعالیٰ اس سے پہلے یہ کر چکا ہے۔ جو انبیاءاولاد کی دعائیں مانگتے ہیں وقف کی خاطر مانگتے ہیں تو بعض دفعہ بڑھاپے میں بھی ان کو اولاد ہو جاتی ہے۔ایسی صورت میں ہو جاتی ہے کہ بیوی بانجھ اور خاوند بھی۔ حضرت زکریا ؑ کو دیکھیں کس شان کی دعا کی ۔ یہ عرض کرتے ہیں کہ اے خدا! میں تو بوڑھا ہو گیا ہوں میرا سر بھڑک اٹھا ہے۔ بڑھاپے کے شعلوں سے ہڈیاں تک جل گئی ہیں اور میری بیوی بانجھ ہے عاقر ہے بچہ پیدا کرنے کی صلاحیت ہی کوئی نہیں۔ لیکن میری یہ تمنّا ہے کہ میں تیری راہ میں ایک بچہ پیش کروں میری یہ تمنّا قبول فرما وَ لَمْ اَکُنْ م بِدُعَآ ئِکَ رَبِّ شَقِـیًّا اے میرے رب! مَیں تیرے حضور یہ دعا کرتے کرتے کبھی بھی مایوس نہیں ہوا۔ کبھی کسی دعا سے بھی تیرے حضور مایوس نہیں ہوا ۔ شَقِـیًّا کا لفظ حیرت انگیز فصاحت و بلاغت رکھتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اے خدا میں ایسا بد بخت تو نہیں کہ تیرے حضور دعا کر رہا ہوں اور مایوس ہو جاؤں اور تھک جاؤں ۔ اس عظمت کی اس درد کی دعا تھی کہ اسی وقت دعا کی حالت میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہم نے تجھے یحییٰ کی خوشخبری دی ۔ خود اس کا نام رکھااس میں بھی عظیم الشان خدا کے پیار کا اظہار ہے ۔ عجیب کتاب ہے قرآن کریم ایسی ایسی پیار کی ادائیں سکھاتی ہے کہ آدمی حیران رہ جاتا ہے۔ آپ کے ہاں بچہ پیدا ہوتا ہے ۔ آپ سوچتے ہیں کس سے نام رکھوائیں اور اسی جذبہ سے جو للّٰہی محبت جماعت احمدیہ کو ہر خلیفۂ وقت سے ہوتی ہے بعض لوگ بلکہ بڑی کثرت سے لوگ مجھے لکھتے ہیں تو اللہ تعالیٰ نے پیشتر اس کے کہ حضرت زکریاؑ کہتے ہیں میں اس کا کیا نام رکھوں یا سوچتے کہ میں کیا نام رکھوں خوشخبری کے ساتھ ہی فرمایا اِسْـمُہٗ یَـحْییٰ ہم ر کھ رہے ہیں نام۔ یہ پیار حضرت زکریاؑ سے تھا یہ حضرت زکریاؑ کی دعا سے پیار تھا۔
اگلی صدی میں خدا کے حضور پیش کیا جانے والا تحفہ
پس اس رنگ میں آپ اگلی صدی میں جو خدا کے حضور جو تحفے بھیجنے والے ہیں یا مسلسل بھیج رہے ہیں ۔ مسلسل احمدی اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ بے شمار چندے دے رہے ہیں۔ مالی قربانیاں کر رہے ہیں ، وقت کی قربانیاں کر رہے ہیں۔ واقفین زندگی ہیں۔ ایک تحفہ جو مستقبل کا تحفہ ہے وہ باقی رہ گیا تھا۔ مجھے خدا نے یہ توجہ دلائی کہ مَیں آپ کو بتا دوں کہ آئندہ دو سال کے اندر یہ عہد کر لیں جس کو بھی جو اولاد نصیب ہو گی وہ خدا کے حضور پیش کر دے اور اگر آج کچھ مائیں حاملہ ہیں تو وہ بھی اس تحریک میں اگر پہلے شامل نہیں ہو سکی تھیں تو اب ہو جائیں ۔ یہ بھی عہد کریں لیکن ماں باپ کو مل کر عہد کرنا ہوگا دونوں کو اکٹھے فیصلہ کرنا چاہیئے تا کہ اس سلسلہ میں پھر یک جہتی پیدا ہو۔ اولاد کی تربیت میں اور بچپن ہی سے ان کی اعلیٰ تربیت کرنی شروع کر دیں اور اعلیٰ تربیت کے ساتھ ان کو بچپن ہی سے اس بات پر آمادہ کرنا شروع کریں کہ تم ایک عظیم مقصد کے لئے ایک عظیم الشان وقت میں پیدا ہوئے ہو جبکہ غلبۂ اسلام کی ایک صدی غلبۂ اسلام کی دوسری صدی سے مل گئی ہے۔ اس سنگم پر تمہاری پیدائش ہوئی ہے اور اس نیّت اور دعا کے ساتھ ہم نے تجھ کو مانگا تھا خدا سے کہ اے خدا! تو آئندہ نسلوں کی تربیت کے لئے ان کو عظیم الشان مجاہد بنا۔ اگر اس طرح دعائیں کرتے ہوئے لوگ اپنے آئندہ بچوں کو وقف کریں گے تو مجھے یقین ہے کہ ایک بہت ہی حسین اور بہت ہی پیاری نسل ہماری آنکھوں کے سامنے دیکھتے دیکھتے اپنے آپ کو خدا کی راہ میں قربان کرنے کے لئے تیار ہو جائے گی۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
(خطبات طاہر ۔ سن اشاعت 2007ء۔ناشر طاہر فاؤنڈیشن قادیان انڈیا۔جلد 6۔ صفحہ 243 تا 250)
دنیا میں مختلف پیغمبر آئے۔ بنیادی طور پر ان کا ایک ہی پیغام تھا یعنی خدا کا پیغام بندوں کے نام۔ لیکن جس شان کے ساتھ وہ پیغام حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نے پہنچایا اس شان سے کوئی اور پہنچا نہیں سکا اور جس عظمت اور قدر اور قربانی کی روح کے ساتھ آپ کا پیغام قبول کیا گیا۔ تاریخ انبیاءمیں اس عظمت اور قدر اور قربانی کی روح کے ساتھ کسی اور نبی کا پیغام قبول نہیں کیا گیا۔ اس لئے پیغام پہنچانا کافی نہیں۔ کس رنگ میں اور کس جذبے کے ساتھ ، کس خلوص کے ساتھ،کس درجہ محبت اور پیار کے ساتھ دعائیں کرتے ہوئے پیغام پہنچایا جاتا ہے، یہ وہ چیزیں ہیں جو پیغام کی قبولیت یا عدم قبولیت کا فیصلہ کیاکرتی ہیں۔
تحریک وقفِ نو کی معیاد میں توسیع
اس لئے میری خواہش یہ تھی کہ کم سے کم پانچ ہزار بچے اگلی صدی کے واقفینِ نو کے طور پر ہم خدا کے حضور پیش کریں ۔ اس تعداد کو پورا کرنے میں ابھی کافی سفر باقی ہے۔ بعض دوست یہ لکھ رہے ہیں کہ جہاں تک ان کا تاثر تھا یا مَیں نے شروع میں خطبے میں بات کی تھی اس کاواقعتہً یہی نتیجہ نکلتا ہو گا کہ جو اس صدی سے پہلے پہلے بچے پیدا ہو جائیں گے وہ وقفِ نومیں لئے جائیں گے اور اس کے بعد یہ سلسلہ بند ہو جائے گا۔ لیکن جس طرح بعض دوستوں کے خطوط سے پتہ چل رہا ہے وہ خواہش رکھتے ہیں۔ لیکن یہ سمجھ کر کہ اب وقت نہیں رہا وہ اس خواہش کو پایہ تکمیل تک نہیں پہنچا سکتے۔ ان کےلئے اور مزید تما م دنیا کی جماعتوں کے لئے جن تک ابھی یہ پیغام ہی نہیں پہنچا۔ میں یہ اعلان کرتا ہوں کہ وقفِ نو میں شمولیت کےلئے مزید دو سال کا عرصہ بڑھایا جاتا ہے اور فی الحال یہ عرصہ دو سال کےلئے بڑھایا جارہا ہے تاکہ خواہشمند دوست اس پہلی تحریک میں شامل ہو جائیں ورنہ یہ تحریک تو بار بار ہوتی ہی رہے گی۔ لیکن خصوصاً وہ تاریخی تحریک جس میں اگلی صدی کےلئے واقفین بچوں کی پہلی فوج تیار ہو رہی ہے اس کا عرصہ آئندہ دو سال تک بڑھایا جا رہا ہے۔ اس عرصے میں جماعتیں کوشش کر لیں اور جس حد تک بھی ممکن ہو، یہ فوج پانچ ہزاری تو ضرور ہو جائے۔ اس سے بڑھ جائے تو بہت ہی اچھاہے۔
خدا کے حضور بچے کوپیش کرنا ایک بہت ہی اہم واقعہ ہے
بہت سے والدین مجھے لکھ رہے ہیں کہ ان بچوں کے متعلق ہمیں کرناکیاہے؟ تو جیسا کہ میں نے بیا ن کیا تھا اسکے دو حصّے ہیں اوّل یہ کہ جماعت کی انتظامیہ نے کیا کرنا ہے اور دوسرا یہ کہ بچوں کے والدین نے کیا کرنا ہے؟ جہاں تک انتظامیہ کا تعلق ہے اسکے متعلق وقتاً فوقتاً میں ہدایات دیتا رہا ہوں اور جو جو نئے خیال میرے دل میں آئیں یا بعض دوست مشورے کے طور پر لکھیں انکو بھی اس منصوبے میں شامل کر لیا جاتا ہے۔ لیکن جہاں تک والدین کا تعلق ہے آج میں اس ذمہ داری سے متعلق کچھ باتیں کرنی چاہتا ہوں۔
خدا کے حضور بچے کوپیش کرنا ایک بہت ہی اہم واقعہ ہے۔ یہ کوئی معمولی بات نہیں ہے اورآپ یاد رکھیں کہ وہ لوگ جوخلوص اور پیار کے ساتھ قربانیاں دیا کرتے ہیں وہ اپنے پیارکی نسبت سے ان قربانیوں کو سجا کر پیش کیاکرتے ہیں۔ قربانیاں اور تحفے دراصل ایک ہی ذیل میں آتے ہیں۔ آپ بازار سے شاپنگ کرتے ہیں۔ عام چیز جو گھر کےلئے لیتے ہیں اسے باقاعدہ خوبصورت کاغذوں میں لپیٹ کر اور فیتوں سے باندھ کر سجا کر آپ کو پیش نہیں کیا جاتا ۔ لیکن جب آپ یہ کہتے ہیں کہ یہ ہم نے تحفہ لینا ہے تو پھر دکاندار بڑے اہتمام سے اسکو سجا کر پیش کرتا ہے۔ پس قربانیاں تحفوں کا رنگ رکھتی ہیں اور ان کے ساتھ سجاوٹ ضروری ہے۔ آپ نے دیکھا ہوگا بعض لوگ تو مینڈھوں اور بکروں کو بھی خوب سجاتے ہیں اور بعض تو ان کو زیور پہنا کر پھر قربان گاہوں کی طرف لے کر جاتے ہیں، پھولوں کے ہار پہناتے ہیں اور کئی قسم کی سجاوٹیں کرتے ہیں۔ انسانی قربانی کی سجاوٹیں اور طرح کی ہوتی ہیں۔ انسانی زندگی کی سجاوٹ تقویٰ سے ہوتی ہے اور اللہ تعالیٰ کے پیار اور اسکی محبت کے نتیجہ میں انسانی روح بن ٹھن کر تیار ہو ا کرتی ہے۔ پس پیشتر اس کے کہ یہ بچے اتنے بڑے ہوں کہ جماعت کے سپرد کئے جائیں ان ماں باپ کی بہت ذمہ داری ہے کہ وہ ان قربانیوں کو اس طرح تیار کریں کہ ان کے دل کی حسرتیں پوری ہوں۔ جس شان کے ساتھ وہ خدا کے حضور ایک غیر معمولی تحفہ پیش کرنے کی تمنا رکھتے ہیں وہ تمنائیں پوری ہوں۔
اس سے پہلے مختلف ادوار میں جو واقفین جماعت کے سامنے پیش کئے جاتے رہے انکی تاریخ پر نظر رکھتے ہوئے میں سمجھتا ہوں کہ کئی قسم کے واقفین ہیں۔ کچھ تو وہ تھے جنہوں نے بڑی عمروں میں ایسی حالت میں اپنے آپ کو خود پیش کیا کہ خوش قسمتی کے ساتھ ان کی اپنی تربیت بہت اچھی ہوئی تھی اور وقف نہ بھی کرتے تب بھی وہ وقف کی روح رکھنے والے لوگ تھے۔ وہ صحابہ ؓکی اولاد یا اوّل تا بعین کی اولاد تھے۔ انہوں نے اچھے ماحول میں اچھی پرورش پائی اور وہ خدا تعالیٰ کے فضل کے ساتھ اچھی عادات سے سجے ہوئے لوگ تھے۔ واقفین کا یہ گروہ خدا تعالیٰ کے فضل سے ہر پہلو سے زندگی کے ہر شعبہ میں نہایت کامیاب رہا۔
پھر ایک ایسا دور آیا جب بچے وقف کرنے شروع کئے گئے یعنی والدین نے اپنی اولاد کو خود وقف کرنا چاہا۔ اس دور میں مختلف قسم کے واقفین ہمارے سامنے آئے ہیں۔ بہت سے وہ ہیں جن کے متعلق والدین سمجھتے ہیں کہ جب ہم ان کو جماعت کے سپرد کریں گے تو وہ خود ہی انکی تربیت کریں گے اور اس عرصہ میں انہوں نے ان پر نظر نہیں رکھی۔ پس جب وہ جامعہ احمدیہ میں پیش ہوتے ہیں تو بالکل ایسے Raw Material یعنی ایسے خام مال کے طور پر پیش ہوتے ہیں جس کے اندر مختلف قسم کی بعض ملاوٹیں بھی شامل ہوچکی ہوتی ہیں۔ان کو صاف کرنا ایک کارے دارد ہوا کرتاہے۔ ان کو وقف کی روح کے مطابق ڈھالنا بعض دفعہ مشکل بلکہ محال ہو جایا کرتا ہے اور بعض بدعادتیں وہ ساتھ لےکر آتے ہیں۔ جماعت تو ایسا سوچ بھی نہیں سکتی۔ لیکن امرِ واقعہ یہ ہے کہ بعض لڑکوں کو جامعہ میں چوری کے نتیجہ میں وقف سے فارغ کیا گیا ہے۔ کسی کو جھوٹ کے نتیجہ میں وقف سے فارغ کیا گیا ہے۔ اب یہ باتیں ایسی ہیں کہ جنکے متعلق تصور بھی نہیں کیا جاسکتاکہ اچھے نیک صالح احمدی میں پائی جائیں،کجایہ کہ وہ واقفین زندگی میں پائی جائیں۔ لیکن معلوم یہی ہوتا ہے کہ والدین نے پیش تو کردیا لیکن تربیت کی طرف توجہ نہ کی یا اتنی دیر کے بعد ان کو وقف کا خیال آیا کہ اس وقت تربیت کا وقت باقی نہیں رہا تھا۔ بعض والدین سے تو یہ بھی پتہ چلا کہ انہوں نے اس وجہ سے بچہ وقف کیا تھا کہ عادتیں نہایت بگڑی ہوئی تھیں اور وہ سمجھتے تھے کہ اس طرح تو ٹھیک نہیں ہوتا۔ وقف کردو تو خود ہی جماعت سنبھالے گی اور ٹھیک کرے گی۔ جس طرح پرانے زمانے میں بعض دفعہ بگڑے ہوئے بچوں کے متعلق کہتے تھے۔ اچھا ان کو تھانےداربنوادیں گے۔ تو جماعت میں چونکہ نیکی کی روح ہے اس لئے ان کو تھانےداری کا تو خیال نہیں آتا لیکن واقفِ زندگی بنانے کا خیال آجاتا ہے۔ حالانکہ تھانیداری سے تو ایسے بچوں کا تعلق ہو سکتا ہے، وقف کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہو سکتا۔ یہ لوگ بہت بعید کی بات سوچتے ہیں۔ تھانیداری والا تو لطیفہ ہے لیکن یہ تو درد ناک واقعہ ہے۔ وہ تو ایک ہنسنے والی کہاوت کے طور پر مشہور ہے لیکن یہ تو زندگی کا ایک بہت بڑا المیہ ہے کہ خدا کے حضور پیش کرنے کےلئے آپ کو بس گندہ بچہ ہی نظرآیا ہے ناکارہ محض بچہ نظر آیا ہے جو ایسی گندی عادتیں لےکر پَلا ہے کہ آپ اس کوٹھیک نہیں کرسکتے۔
اس لئے بچوں کی یہ جو تازہ کھیپ آنے والی ہے اس میں ہمارے پاس خدا کے فضل سے بہت سا وقت ہے۔ اور اگر اب ہم انکی پرورش اور تربیت سے غافل رہے تو خدا کے حضور مجرم ٹھہریں گے اور پھر ہر گز یہ نہیں کہا جاسکتا کہ اتفاقاً یہ واقعات ہوگئے ہیں ۔ اسلئے والدین کو چاہیے کہ ان بچوں کے اوپر سب سے پہلے خود گہری نظر رکھیں اور جیسا کہ میں بیان کروں گا،بعض تربیتی امور کی طرف خصوصیت سے توجہ دیں اور اگر خدانخواستہ وہ سمجھتے ہوں کہ بچہ اپنی افتادِ طبع کے لحاظ سے وقف کا اہل نہیں ہے تو ان کو دیانتداری اور تقویٰ کے ساتھ جماعت کو مطلع کرنا چاہیے کہ میں نے تو اپنی صاف نیّت سے خدا کے حضور ایک تحفہ پیش کرنا چاہا تھا مگر بدقسمتی سے اس بچے میں یہ یہ باتیں ہیں۔ اگر ان کے باوجود جماعت اس کو لینے کے لئے تیار ہے تو میں حاضر ہوں، ورنہ اس وقف کو منسوخ کر دیا جائے۔ پس اس طریق پر بڑی سنجیدگی کے ساتھ اب ہمیں آئندہ ان واقفینِ نو کی تربیت کرنی ہے۔
واقفینِ نو کی صفات
جہاں تک اخلاقِ حسنہ کا تعلق ہے اس سلسلہ میں جو صفات جماعت میں نظر آنی چاہئیں وہی صفات واقفین میں بھی نظر آنی چاہئیں بلکہ اُن میں وہ بدرجۂ اولیٰ نظر آنی چاہئیں۔ ان صفاتِ حسنہ یا اخلاق سے متعلق میں مختلف خطبات میں آپ کے سامنے مختلف پروگرام رکھتا رہا ہوں۔ ان سب کو ان بچوں کی تربیت میں خصوصیت سے پیش نظر رکھیں۔
سچ سے محبت اور جھوٹ سے نفرت
خلاصۃً ہر واقفِ زندگی بچہ جو وقفِ نو میں شامل ہے بچپن سے ہی اس کو سچ سے محبت اور جھوٹ سے نفرت ہونی چاہیے اور یہ نفرت اس کو گویا ماں کے دودھ میں ملنی چاہیے۔ جس طرح Radiation کسی چیز کے اندر سرایت کرتی ہے اس طرح پرورش کرنے والی باپ کی بانہوں میں سچائی اس بچہ کے دل میں ڈوبنی چاہیے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ والدین کو پہلے سے بہت بڑھ کر سچا ہونا پڑے گا۔ ضروری نہیں ہے کہ سب واقفین زندگی کے والدین سچائی کے اس اعلیٰ معیار پر قائم ہوں جو اعلیٰ درجہ کے مومنوں کے لئے ضروری ہے۔ اس لئے اب ان بچوں کی خاطر ان کو اپنی تربیت کی طرف بھی توجہ کرنی ہوگی اور پہلے سے کہیں زیادہ احتیاط کے ساتھ گھر میں گفتگو کا انداز اپنانا ہوگا اور احتیاط کرنی ہوگی کہ لغو باتوں کے طور پر یا مذاق کے طور پر بھی وہ آئندہ جھوٹ نہیں بولیں گے ۔کیونکہ یہ خدا کی مقدّس امانت اب آپ کے گھر میں پل رہی ہے اور اس مقدس امانت کے کچھ تقاضے ہیں جن کو بہرحال آپ نے پورا کرنا ہے۔ اس لئے ایسے گھروں کے ماحول سچائی کے لحاظ سے نہایت صاف ستھرے اور پاکیزہ ہو جانے چاہئیں۔ قناعت کے متعلق مَیں نے کہا تھا، اس کا واقفین سے بڑا گہرا تعلق ہے۔ بچپن ہی سے ان بچوں کو قانع بنانا چاہیے اور حرص و ہوا سے بے رغبتی پیدا کرنی چاہیے۔ عقل اور فہم کیساتھ اگر والدین شروع سے تربیت کریں تو ایسا ہونا کوئی مشکل کام نہیں ہے۔ غرض دیانت اور امانت کے اعلیٰ مقام تک ان بچوں کو پہنچانا ضروری ہے۔
مزاج میں شگفتگی
علاوہ ازیں بچپن سے ایسے بچوں کے مزاج میں شگفتگی پیدا کرنی چاہیے۔ ترش رُوئی وقف کے ساتھ پہلو بہ پہلو نہیں چل سکتی۔ ترش رُو واقفین زندگی ہمیشہ جماعت میں مسائل پیدا کیا کرتے ہیں اور بعض دفعہ خطرناک فتنے بھی پیدا کر دیا کرتے ہیں۔ اس لئے خوش مزاجی اور اس کے ساتھ تحمل یعنی کسی کی بات کو برداشت کرنا، یہ دونوں صفات واقفین بچوں میں بہت ضروری ہیں۔ مذاق یعنی مزاح اچھی چیز ہے لیکن مزاح کے اندر پاکیزگی ہونی چاہیے اور مزاح کی پاکیزگی کئی طرح سے ہو سکتی ہے۔ لیکن میرے ذہن میں اس وقت خاص طور پر دو باتیں ہیں۔ ایک تو یہ کہ گندے لطائف کے ذریعہ اپنے یا غیروں کے دل بہلانے کی عادت نہیں ہونی چاہیے اور دوسرے یہ کہ اس میں لطافت ہو۔ مذاق اور مزاح کے لئے ہم لطافت کا لفظ بھی استعمال کرتے ہیں یعنی اس کو لطیفہ کہتے ہیں۔ لطیفہ کا مطلب ہی یہ ہے کہ یہ بہت ہی نفیس چیز ہے۔ ہر قسم کی کرختگی اور بھونڈا پن لطافت سے تعلق نہیں رکھتا بلکہ کثافت سے تعلق رکھتا ہے۔ چنانچہ ہندوستان کی اعلیٰ تہذیب میں جب بھی ایسے خاندانوں میں جہاں اچھی روایات ہیں کوئی بچہ ایسا لطیفہ بیان کرتا تھا جو بھونڈا ہو تو اسے کہا جاتا تھا کہ یہ لطیفہ نہیں ہے۔ یہ کثیفہ ہے۔ یہ تو بھانڈ پن ہے۔ تو بھانڈپن اور اچھے مزاح میں بڑا فرق ہے۔ اس لئے جو مزاح ہمیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہؓ کی زندگی میں کہیں کہیں نظر آتا ہے۔ کیونکہ اکثر وہ مزاح کے واقعات اب محفوظ نہیں ہیں۔ اس میں پاکیزگی پائی جاتی ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام اور آپؑ کے صحابہ کی زندگی میں بھی مزاح نظر آتا ہے اور حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓ کی طبیعت میں بھی بڑا مزاح تھا لیکن اس مزاح کے ساتھ دونوں قسم کی پاکیزگی تھی۔ لیکن بعض ایسے دوستوں کو بھی میں نے دیکھا ہے جنہوں نے مزاح سے یہ رخصت تو حاصل کر لی کہ مزاح میں کبھی وقت گزار لینا کوئی بری بات نہیں ہے لیکن وہ یہ فرق نہیں کر سکے کہ مزاح کے ساتھ پاکیزگی ضروری ہے۔ چنانچہ وہ بعض نہایت گندے اور بھونڈے لطیفے بھی اپنی مجلسوں میں بیان کرتے رہے اور بعض لوگوں نے اس سے سمجھ لیا کہ کوئی فرق نہیں پڑتا۔ حالانکہ بہت فرق پڑتا ہے۔ اپنے گھر میں اچھے مزاح کو جاری کریں، قائم کریں۔ لیکن برے مزاح کے خلاف بچوں کے دل میں بچپن سے ہی نفرت اور کراہت پیدا کریں ۔یہ بظاہر چھوٹی سی بات ہے اور اس پر میں نے اتنا وقت لیا ہے لیکن مَیں جانتا ہوں کہ انسانی زندگی میں خصوصاً وہ زندگی جو تکلیفوں سے تعلق رکھتی ہو ،جو ذمہ داریوں سے تعلق رکھتی ہو اور جس میں کئی قسم کے اعصابی تناؤ ہوں وہاں مزاح بعض دفعہ بہت ہی اہم کردار ادا کرتا ہے اور انسانی ذہن اور انسانی نفسیات کی حفاظت کرتا ہے۔
قناعت کے بعد پھر غِنا کا مقام آتا ہے
غِنا کے متعلق مَیں پہلے بیان کر چکا ہوں۔ قناعت کے بعد پھر غِنا کا مقام آتا ہے اور غِنا کے نتیجہ میں جہاں ایک طرف امیر سے حسد پیدا نہیں ہوتا وہاں غریب سے شفقت ضرور پیدا ہوتی ہے۔ غِنا کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ غریب کی ضرورت سے انسان غنی ہو جائے۔ انسان اپنی ضرورت سے غیر کی ضرورت کی خاطر غنی ہوتا ہے۔ اسلامی غِنا میں یہ ایک خاص پہلو ہے جسے نظر انداز نہیں کرنا چاہیے۔ اس لئے واقفین بچے ایسے ہونے چاہئیں جو غریب کی تکلیف سے غنی نہ بنیں لیکن امیر کی امارت سے غنی ہو جائیں اور کسی کو اچھا دیکھ کر انہیں تکلیف نہ پہنچے لیکن کسی کو تکلیف میں دیکھ کر وہ ضرور تکلیف محسوس کریں۔
قرآن کریم کی تعلیم
جہاں تک ان کی تعلیم کا تعلق ہے جامعہ کی تعلیم کا زمانہ تو بعد میں آئے گا لیکن ابتداءہی سے ایسے بچوں کو قرآن کریم کی تعلیم کی طرف سنجیدگی سے متوجہ کرنا چاہیے اور اس سلسلہ میں انشاءاللہ یقیناً نظامِ جماعت بھی ضرور کچھ پروگرام بنائے گا۔ ایسی صورت میں والدین نظامِ جماعت سے رابطہ رکھیں اور جب بچے اس عمر میں پہنچیں کہ جہاں وہ قرآن کریم اور دینی باتیں پڑھنے کے لائق ہو سکیں تو اپنے علاقے کے نظام سے یا براہِ راست مرکز کو لکھ کر ان سے معلوم کریں کہ اب ہم کس طرح ان کو اعلیٰ درجہ کی قرآن خوانی سکھا سکتے ہیں اور پھر قرآن کے مطالب سکھا سکتے ہیں۔ کیونکہ قاری دو قسم کے ہوا کرتے ہیں۔ ایک تو وہ جو اچھی تلاوت کرتے ہیں اور ان کی آواز میں ایک کشش پائی جاتی ہے اور تجوید کے لحاظ سے وہ درست ادائیگی کرتے ہیں۔ لیکن محض پرکشش آواز سے تلاوت میں جان نہیں پڑا کرتی۔ ایسے قاری اگر قرآن کریم کے معنی نہ جانتے ہوں تو وہ تلاوت کا بت تو بنا دیتے ہیں، تلاوت کے زندہ پیکر نہیں بنا سکتے۔ لیکن وہ قاری جو سمجھ کر تلاوت کرتے ہیں اور تلاوت کے اس مضمون کے نتیجہ میں ان کے دل پگھل رہے ہوتے ہیں، ان کے دل میں خدا کی محبت کے جذبات اُٹھ رہے ہوتے ہیں، ان کی تلاوت میں ایک ایسی بات پیدا ہو جاتی ہے جو اصل رُوح ہے تلاوت کی۔ تو ایسے گھروں میں جہاں واقفین زندگی ہیں وہاں تلاوت کے اس پہلو پر بہت زور دینا چاہیے۔ خواہ تھوڑا پڑھایا جائے لیکن ترجمہ کے ساتھ۔ مطالب کے بیان کے ساتھ پڑھایا جائے اور بچے کو یہ عادت ڈالی جائے کہ جو کچھ بھی وہ تلاوت کرتا ہے وہ سمجھ کر کرتا ہے۔ ایک تو روزمرہ کی صبح کی تلاوت ہے۔ اس میں تو ہو سکتا ہے کہ بغیر سمجھ کے بھی ایک لمبے عرصہ تک آپ کو اسے قرآن کریم پڑھانا ہی ہوگا لیکن ساتھ ساتھ اس کا ترجمہ سکھانے اور مطالب کی طرف متوجہ کرنے کا پروگرام بھی جاری رہنا چاہیے نماز کی پابندی اور نماز کے جو لوازمات ہیں ان کے متعلق بچپن سے تعلیم دینا اور سکھانا، یہ بھی جامعہ میں آ کر سیکھنے والی باتیں نہیں۔ اس سے بہت پہلے گھروں میں بچوں کو اپنے ماں باپ کی تربیت کے نیچے یہ باتیں آ جانی چاہئیں۔
واقفینِ نو بچوں کی علمی بنیاد وسیع ہونی چاہیئے
اس کے علاوہ تعلیم میں وسعت پیدا کرنے کی طرف توجہ کرنی چاہیے اور دینی تعلیم میں وسعت پیدا کرنے کا ایک طریق یہ ہے کہ مرکزی اخبار و رسائل کا مطالعہ کرتا رہے۔ بدقسمتی سے اس وقت بعض ممالک ایسے ہیں جہاں مقامی اخبار نہیں ہیں اور بعض زبانیں ایسی ہیں جن میں مقامی اخبار نہیں ہیں۔ لیکن ابھی ہمارے پاس وقت ہے اور گزشتہ چند سالوں میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعتوں میں اپنے اپنے اخبار جاری کرنے کے رجحان بڑھ چکے ہیں۔ تو ساری جماعت کی انتظامیہ کو یہ بات پیش نظر رکھنی چاہیے کہ جب آئندہ دو تین سال میں یہ بچے سمجھنے کے لائق ہو جائیں یا چار پانچ سال تک سمجھ لیں تو اس وقت واقفینِ نو کے لئے بعض مستقل پروگرام، بعض مستقل فیچر آپ کے رسالوں اور اخباروں میں شائع ہوتے رہنے چاہئیں کہ وقفِ نو کیا ہے؟ ہم ان سے کیا توقع رکھتے ہیں؟ اور بجائے اس کے کہ اکٹھا ایک دفعہ ایسا پروگرام دے دیا جائے جو کچھ عرصہ کے بعد بھول جائے، یہ اخبارات چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں تربیتی پروگرام پیش کیا کریں اور جب ایک حصّہ رائج ہو جائے تو پھر دوسرے کی طرف متوجہ ہوں، پھر تیسرے کی طرف متوجہ ہوں۔ واقفین بچوں کی علمی بنیاد وسیع ہونی چاہیے۔ عام طور پر دینی علماءمیں یہی کمزوری دکھائی دیتی ہے کہ دین کے علم کے لحاظ سے تو اُن کا علم کافی وسیع اور گہرا بھی ہوتا ہے لیکن دین کے دائرہ سے باہر دیگر دنیا کے دائروں میں وہ بالکل لاعلم ہوتے ہیں۔ علم کی اس کمی نے اسلام کو شدید نقصان پہنچایا ہے۔ وہ وجوہات جو مذاہب کے زوال کا موجب بنتی ہیں اُن میں سے یہ ایک بہت ہی اہم وجہ ہے۔ اس لئے جماعت احمدیہ کو اس سے سبق سیکھنا چاہیے اور علم کی وسیع بنیاد پر قائم دینی علم کو فروغ دینا چاہیے۔ یعنی پہلے بنیاد عام دنیاوی علم کی وسیع ہو۔ پھر اُس پر دینی علم کا پیوند لگے تو بہت ہی خوبصورت اور بابرکت ایک شجرۂ طیبہ پیدا ہو سکتا ہے۔ تو اس لحاظ سے بچپن ہی سے ان واقفین بچوں کو جنرل نالج بڑھانے کی طرف متوجہ کرنا چاہیے۔ آپ خود متوجہ ہوں تو ان کا علم آپ ہی آپ بڑھے گا۔ یعنی ماں باپ متوجہ ہوں اور بچوں کے لئے ایسے رسائل، ایسے اخبارات لگوایا کریں ایسی کتابیں پڑھنے کی ان کو عادت ڈالیں جس کے نتیجہ میں ان کا علم وسیع ہو اور جب وہ سکول میں جائیں تو ایسے مضامین کا انتخاب ہو جس سے سائنس کے متعلق بھی کچھ واقفیت ہو۔ عام دنیا کے جو آرٹس کے سیکولر مضامین ہیں مثلاً معیشت، اقتصادیات، فلسفہ، نفسیات،حساب، تجارت وغیرہ ایسے جتنے بھی متفرق امور ہیں ان سب میں سے کچھ نہ کچھ علم بچے کو ضرور ہونا چاہیے۔ علاوہ ازیں پڑھنے کی عادت ڈالنی چاہیے کیونکہ سکولوں میں تو اتنا زیادہ انسان کے پاس اختیار نہیں ہوا کرتا۔ یعنی بچہ پانچ مضمون، چھ مضمون، سات مضمون ر کھ لے گا، بعض دس بھی ر کھ لیتے ہیں لیکن اس سے آگے نہیں جا سکتے۔ اس لئے ضروری ہے کہ ایسے بچوں کو اپنے تدریسی مطالعہ کے علاوہ مطالعہ کی عادت ڈالنی چاہیے۔ اب یہ چیزیں ایسی ہیں جو ہمارے واقفین زندگی بچوں کے والدین میں سے اکثر کے بس کی نہیں۔ میں جانتا ہوں کہ بہت سے بیچارے ایسے ہیں، افریقہ میں بھی اور ایشیا، یورپ اور امریکہ میں بھی جن کے اندر یہ استطاعت نہیں ہے کہ اس پروگرام کو وہ واقعةً عملی طور پر اپنے بچوں میں رائج کر سکیں۔ اس لئے یہ جتنی باتیں ہیں تحریکِ جدید کے متعلقہ شعبہ کو یہ نوٹ کرنی چاہئیں اور اس خطبہ میں جو نکات ہیں ان کو آئندہ جماعت تک اس رنگ میں پہنچانے کا انتظام کرنا چاہیے کہ والدین کی اپنی کم علمی اور اپنی استطاعت کی کمی بچوں کی اعلیٰ تعلیم کی راہ میں روک نہ بن سکے۔ چنانچہ بعض جگہوں پر ایسے بچوں کی تربیت کا انتظام شروع ہی سے جماعت کو کرنا پڑے گا۔ بعض جگہ ذیلی تنظیموں سے استفادے کئے جا سکتے ہیں، مگر یہ بعد کی باتیں ہیں۔ اس وقت تو جو ذہن میں چند باتیں آ رہی ہیں وہ میں آپ کو سمجھا رہا ہوں کہ ہمیں کس قسم کے واقفین بچے چاہئیں۔
منضبط رویہ اپنانے کی تربیت
ایسے واقفین بچے چاہئیں جن کو شروع ہی سے اپنے غصے کو ضبط کرنے کی عادت ہونی چاہیے، جن کو اپنے سے کم علم کو حقارت سے نہیں دیکھنا چاہیے، جن کو یہ حوصلہ ہو کہ وہ مخالفانہ بات سنیں اور تحمل کا ثبوت دیں۔ جب ان سے کوئی بات پوچھی جائے تو تحمل کا ایک یہ بھی تقاضا ہے کہ ایک دم منہ سے کوئی بات نہ نکالیں بلکہ کچھ غور کر کے جواب دیں۔ یہ ساری ایسی باتیں ہیں جو بچپن ہی سے طبیعتوں میں اور عادتوں میں رائج کرنی پڑتی ہیں۔ اگر بچپن سے یہ عادتیں پختہ نہ ہوں تو بڑے ہو کر بعض دفعہ ایک انسان علم کے ایک بہت بلند معیار تک پہنچنے کے باوجود بھی ان عام سادہ سادہ باتوں سے محروم رہ جاتا ہے۔ عام طور پر دیکھا گیا ہے کہ جب کسی سے کوئی سوال کیا جاتا ہے تو فوراً جواب دیتا ہے خواہ اس بات کا پتہ ہو یا نہ ہو۔ پھر بعض دفعہ یہ بھی دیکھا جاتا ہے کہ ایک بات پوچھی اور جس شخص سے پوچھی گئی ہے اس کے علم میں یہ تو ہے کہ یہ بات ہونے والی تھی لیکن یہ علم میں نہیں ہے کہ ہو چکی ہے۔ اس کے باوجود بسا اوقات وہ کہہ دیتا ہے کہ ہاں ہو چکی ہے۔ واقفین زندگی کے اندر یہ چیز بہت بڑی خرابی پیدا کر سکتی ہے۔ میں نے اپنے انتظامی تجربہ میں بارہا دیکھا ہے کہ اس قسم کی خبروں سے بعض دفعہ بہت سخت نقصان پہنچ جاتا ہے۔ مثلاً لنگر خانے میں مَیں ناظم ہوتا تھا توفون پر پوچھا کہ اتنے ہزار روٹی پک چکی ہے؟ تو جواب ملا کہ جی ہاں پک چکی ہے۔ اس پر تسلی ہو گئی۔ جب وہاں پہنچا تو پتہ لگا کہ ابھی کئی ہزار کی کمی ہے۔ میں نے کہا آپ نے یہ کیا ظلم کیا ہے۔ یہ جھوٹ بولا، غلط بیانی کی اور اس سے بڑا نقصان پہنچا ہے۔ کہنے لگے کہ نہیں جی۔ جب مَیں نے بات کی تھی اس سے آدھا گھنٹہ پہلے اتنے ہزار ہو چکی تھی تو آدھے گھنٹے میں اتنی تو ضرور بننی چاہیے تھی۔ یہ فارمولا تو ٹھیک ہے۔ لیکن واقعاتی دنیا میں فارمولے تو نہیں چلا کرتے۔ واقعةً ایسی صورت میں یہ بات نکلی کہ وہاں کچھ خرابی پیدا ہو گئی۔ مزدوروں کی آپس میں کوئی لڑائی ہو گئی، گیس بند ہو گئی۔ کئی قسم کی خرابیاں ایسی پیدا ہو جاتی تھیں تو جس آدھے گھنٹے میں اُس نے کئی ہزار کا حساب لگایا ہوا تھا وہ آدھا گھنٹہ کام ہی نہیں ہو رہا تھا۔ تو یہ عادت عام ہے۔ میں نے اپنے وسیع تجربے میں دیکھا ہے کہ ایشیا میں خصوصیت کے ساتھ یہ عادت بہت زیادہ پائی جاتی ہے کہ ایک چیز کا اندازہ لگا کر اس کو واقعات کے طور پر بیان کر دیتے ہیں اور واقفین زندگی میں بھی یہ عادت آ جاتی ہے۔ یعنی جو پہلے سے واقفین آئے ہوئے ہیں ان کی رپورٹوں میں بھی بعض دفعہ ایسے نقص نکلتے ہیں جس کی وجہ سے جماعت کو نقصان پہنچتا ہے۔ اس لئے اس بات کی بچپن سے عادت ڈالنی چاہیے کہ جتنا علم ہے اس کو علم کے طور پر بیان کریں۔ جتنا اندازہ ہے اس کو اندازے کے طور پر بیان کریں اور اگر بچپن میں آپ نے یہ عادت نہ ڈالی تو بڑے ہو کر پھر دوبارہ بڑی عمر میں اسے رائج کرنا بہت مشکل کام ہوا کرتا ہے کیونکہ ایسی باتیں انسان بغیر سوچے کرتاہے۔ عادت کا مطلب ہی یہ ہے کہ خودبخود منہ سے ایک بات نکلتی ہے اور یہ بے احتیاطی بعض دفعہ پھر انسان کو جھوٹ کی طرف بھی لے جاتی ہے اور بڑی مشکل صورتِ حال پیدا کر دیتی ہے۔ کیونکہ ایسے لوگوں میں سے بہت سے مَیں نے ایسے دیکھے ہیں کہ جب ان سے پوچھا جائے کہ آپ نے یہ کیوں کیا؟ تو بجائے اس کے کہ وہ صاف صاف بیان کریں کہ ہم سے غلطی ہو گئی، ہم نے اندازہ لگایا تھا، وہ اپنی پہلی غلطی کو چھپانے کے لئے دوسری دفعہ پھر جھوٹ بولتے ہیں اور کوئی ایسا عُذر تلاش کرتے ہیں جس کی کوئی حقیقت نہیں ہوتی۔ جب اس عُذر کو پکڑیں تو پھر ایک اور جُھوٹ بولتے ہیں۔ خجالت الگ، شرمندگی الگ، سب دنیا ان پر ہنس رہی ہوتی ہے اور وہ بیچارے جھوٹ پر جھوٹ بول کر اپنی عزت بچانے کی کوشش کر رہے ہوتے ہیں۔ یہ چیزیں بچپن سے شروع ہوتی ہیں۔ چھوٹے چھوٹے بچے جب کسی بات پر گھر میں پکڑے جاتے ہیں کہ آپ نے یہ کہا تھا یہ نہیں ہوا، اس وقت وہ ایسی حرکتیں کرتے ہیں اور ماں باپ اُس کا نوٹس نہیں لیتے۔ اس کے نتیجہ میں مزاج بگڑ جاتے ہیں اور پھر بعض دفعہ ایسے بگڑتے ہیں کہ ٹھیک ہو ہی نہیں سکتے۔ عادتاً وہ یہ کام شروع کر دیتے ہیں۔ یعنی جھوٹ نہیں ہوا کرتا، عادت ہے کہ تخمینے یا اندازے کو حقیقت بنا کر پیش کر دیا جاتا ہے۔ تو ایسے واقفین اگر جامعہ میں آ جائیں گے تو جامعہ میں تو کوئی ایسا جادو نہیں ہے کہ پرانے بگڑے ہوئے رنگ اچانک درست ہو جائیں۔ ایسے رنگ درست ہوا کرتے ہیں غیر معمولی اندرونی انقلابات کے ذریعہ۔وہ ایک الگ مضمون ہے۔ ہم ایسے انقلابات کے امکانات کو رد نہیں کر سکتے لیکن یہ دستورعام نہیں ہے۔ اس لئے ہم جب حکمت کے ساتھ اپنی زندگی کے پروگرام بناتے ہیں تو اتفاقات پر نہیں بنایا کرتے بلکہ دستورعام پر بنایا کرتے ہیں۔ پس اس پہلو سے بچوں کو بہت گہری تربیت دینے کی ضرورت ہے۔
مالی امور میں خصوصی احتیاط کی تعلیم
پھر عمومی تعلیم میں واقفین بچوں کی بنیاد وسیع کرنے کی خاطر جو ٹائپ سیکھ سکتے ہیں ان کو ٹائپ سکھانا چاہیے۔ اکاؤنٹس رکھنے کی تربیت دینی چاہیے دیانت پر جیسا کہ میں نے کہا تھا بہت زور ہونا چاہیے۔ اموال میں خیانت کی جو کمزوری ہے یہ بہت ہی بھیانک ہو جاتی ہے اگر واقفین زندگی میں پائی جائے۔ اس کے بعض دفعہ نہایت ہی خطرناک نتائج نکلتے ہیں۔ وہ جماعت جو خالصةً طوعی چندوں پر چل رہی ہے اس میں دیانت کو اتنی غیر معمولی اہمیت حاصل ہے۔ گویا دیانت کا ہماری شہ رگ کی حفاظت سے تعلق ہے۔ سارا مالی نظام جو جماعت احمدیہ کا جاری ہے وہ اعتماد اور دیانت کی وجہ سے جاری ہے۔ اگر خدانخواستہ جماعت میں یہ احساس پیدا ہو گیا کہ واقفین زندگی اور سلسلہ کے شعبہ اموال میں کام کرنے والے خود بددیانت ہیں تو ان کو چندے دینے کی جو توفیق نصیب ہوتی ہے اس توفیق کا گلا گھونٹا جائے گا۔ لوگ چاہیں گے بھی تو پھر بھی انکو واقعةً چندہ دینے کی توفیق نہیں ملے گی۔ اسلئے واقفین کو خصوصیت کے ساتھ مالی لحاظ سے بہت ہی درست ہونا چاہیے اور اس لحاظ سے اکاؤنٹس کا بھی ایک گہرا تعلق ہے۔ جو لوگ اکاؤنٹس نہیں ر کھ سکتے ان سے بعض دفعہ مالی غلطیاں ہو جاتی ہیں اور دیکھنے والا سمجھتا ہے کہ بددیانتی ہوئی ہے اور بعض دفعہ مالی غلطیوں کے نتیجہ میں وہ لوگ جن کو اکاؤنٹس کا طریقہ نہ آتا ہو بددیانتی کرتے ہیں اور افسر متعلقہ اس میں ذمہ دار ہو جاتا ہے۔ وہ لوگ جو اموال پر مقرر ہیں خدا تعالیٰ کے فضل سے ان کا مالی لحاظ سے دیانت کا معیار جماعت احمدیہ میں اتنا بلند ہے کہ دنیا کی کوئی جماعت بھی اس کا مقابلہ نہیں کر سکتی۔ لیکن خرابیاں پھر بھی دکھائی دیتی ہیں۔ عمداً بددیانتی کی مثالیں تو بہت شاذ ہیں یعنی انگلیوں پر گنی جا سکتی ہیں۔ لیکن ایسے واقعات کی مثالیں بہت سی ہیں (یعنی بہت سی سے مراد یہ ہے کہ مقابلةً بہت ہیں) کہ جن میں ایک شخص کو حساب رکھنا نہیں آتا، ایک شخص کو یہ نہیں پتہ کہ میں دستخط کرنے لگا ہوں تو اس کے نتیجہ میں میری کیا ذمہ داری ہے؟ مجھے کیا دیکھنا چاہیے؟ جس کو جمع تفریق نہیں آتی اس بیچارے کے نیچے بعض دفعہ بددیانتیاں ہو جاتی ہیں اور بعد میں پھر الزام اس پر لگتے ہیں اور بعض دفعہ تحقیق کے نتیجہ میں وہ بری بھی ہو جاتا ہے۔
بعض دفعہ معاملہ اُلجھا ہی رہتا ہے۔ پھر ہمیشہ ابہام باقی رہ جاتا ہے کہ پتہ نہیں بددیانت تھا یا نہیں۔ اس لئے اکاؤنٹس کے متعلق تمام واقفین بچوں کو شروع سے ہی تربیت دینی چاہیے۔ تبھی میں نے حساب کا ذکر کیا تھا کہ ان کا حساب بھی اچھا ہو اور ان کو بچپن سے تربیت دی جائے کہ کس طرح اموال کا حساب رکھا جاتا ہے۔ روزمرہ سودے کے ذریعہ سے ہی ان کو یہ تربیت دی جا سکتی ہے اور پھر سودا اگر ان کے ذریعے کبھی منگوایا جائے تو اس سے ان کی دیانتداری کی نوک پلک مزید درست کی جا سکتی ہے۔ مثلاً بعض بچوں سے ماں باپ سودا منگواتے ہیں تو وہ چند پیسے جو بچتے ہیں وہ جیب میں ر کھ لیتے ہیں، بددیانتی کے طور پر نہیں اُن کے ماں باپ کا مال ہے اور یہ سمجھتے ہوئے کہ یہ پیسے کیا واپس کرنے ہیں۔ وہ وقت ہے تربیت کرنے کا۔ اس وقت ان کو کہنا چاہیے کہ سودا منگوانے میں اگر ایک دھیلا، ایک دمڑی بھی باقی بچی ہو تو واپس کرنی چاہیے۔ پھر چاہے دھیلے کی بجائے دس روپے مانگو، اسکا کوئی حرج نہیں ۔ لیکن بغیر بتائے کے جو دھیلا جیب میں ڈالا جاتا ہے کہ یہ بچ گیا تھا، اس کا کیا واپس کرنا تھا۔ اس نے آئندہ بدیانتی کے بیج بو دئیے ہیں، آئندہ بے احتیاطیوں کے بیج بو دیئے ہیں ۔ تو قومیں جو بگڑتی اور بنتی ہیں وہ دراصل گھروں میں ہی بگڑتی اور بنتی ہیں۔ ماں باپ اگر باریک نظر سے اپنے بچوں کی تربیت کررہے ہوں تو وہ عظیم مستقبل کی تعمیر کر رہے ہوتے ہیں یعنی بڑی شاندار قومیں انکے گھروں میں تخلیق پاتی ہیں۔ لیکن یہ چھوٹی چھوٹی بے احتیاطیاں بڑے بڑے عظیم اور بعض دفعہ سنگین نتائج پر منتج ہو جایا کرتی ہیں ۔ پس مالی لحاظ سے واقفین بچوں کو تقویٰ کی باریک راہیں سکھائیں۔ یہ جتنی باتیں میں کہہ رہا ہوں ان سب کا اصل میں تقویٰ سے تعلق ہے۔ تو تقویٰ کی کچھ موٹی راہیں ہیں جو عام لوگوں کو آتی ہیں ۔ کچھ مزید باریک ہیں اور واقفین کو ہمیں نہایت لطیف رنگ میں تقویٰ کی تربیت دینی چاہیے۔
نظامِ جماعت کی اطاعت
اسکے علاوہ واقفین بچوں میں سخت جانی کی عادت ڈالنا، نظامِ جماعت کی اطاعت کی بچپن سے عادت ڈالنا، اطفال الاحمدیہ سے وابستہ کرنا، ناصرات سے وابستہ کرنا، خدام الاحمدیہ سے وابستہ کرنا بھی بہت ضروری ہے۔ انصاراللہ کی ذمہ داری تو بعد میں آئے گی لیکن15سال کی عمر تک، خدام کی حد تک تو آپ تربیت کر سکتے ہیں۔ خدام کی حد تک اگر تربیت ہو جائے تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے پھر انصار کی عمر میں بگڑنے کا امکان شاذ کے طور پر ہی کوئی ہوگا۔ ورنہ جتنی لمبی نالی سے گولی چلائی جائے اتنی دیر تک سیدھی رہتی ہے۔ خدام کی حد تک اگر تربیت کی نالی لمبی ہو جائے تو خدا کے فضل سے پھر موت تک وہ انسان سیدھا ہی چلے گا ۔ الاماشاءاﷲ۔ تو اس پہلو سے بہت ضروری ہے کہ نظام کا احترام سکھایا جائے۔ پھرا پنے گھروں میں کبھی ایسی بات نہیں کرنی چاہیے جس سے نظامِ جماعت کی تخفیف ہوتی ہو یا کسی عہد ےدار کے خلاف شکوہ ہو۔ وہ شکوہ اگر سچا بھی ہے پھر بھی اگر آپ نے اپنے گھر میں کیا تو آپ کے بچے ہمیشہ کےلئے اس سے زخمی ہو جائیں گے۔ آپ تو شکوہ کرنے کے باوجود اپنے ایمان کی حفاظت کر سکتے ہیں لیکن آپ کے بچے زیادہ گہرا زخم محسوس کریں گے۔ یہ ایسا زخم ہوا کرتا ہے کہ جس کو لگتا ہے اسکو کم لگتاہے۔ جو قریب کا دیکھنے والا ہے اس کو زیادہ لگتا ہے۔ اس لئے اکثر وہ لوگ جو نظامِ جماعت پر تبصرے کرنے میں بے احتیاطی کرتے ہیں انکی اولادوں کو کم و بیش ضرور نقصان پہنچتاہے اور بعض ہمیشہ کے لئے ضائع ہو جاتی ہیں۔ واقفین بچوں کو نہ صرف اس لحاظ سے بتانا چاہیے بلکہ یہ بھی سمجھانا چاہیے کہ اگر تمہیں کسی سے کو ئی شکایت ہے خواہ تمہاری توقعات اس کے متعلق کتنی عظیم کیوں نہ ہوں، اس کے نتیجہ میں تمہیں اپنے نفس کو ضائع نہیں کرنا چاہیے۔ اگر کوئی امیر جما عت ہے اور اس سے ہر انسان کو توقع ہے کہ یہ کرے اور وہ کرے اور کسی توقع کواس سے ٹھوکر لگ جاتی ہے تو واقفین زندگی کےلئے یہ بہت ضروری ہے کہ ان کو یہ خاص طور پر سمجھایا جائے کہ اس ٹھوکر کے نتیجہ میں تمہیں ہلاک نہیں ہونا چاہیے۔ یہ بھی اسی قسم کے زخم والی بات ہے جس کا مَیں نے ذکر کیا ہے۔ یعنی دراصل ٹھوکر تو کھاتاہے کوئی عہدیدار اور لحد میں اتر جاتا ہے دیکھنے والا۔ وہ تو ٹھوکر کھا کر پھر بھی اپنے دین کی حفاظت کرلیتاہے۔ اپنی غلطی پر انسان استغفار کرتا ہے اور سنبھل جاتا ہے وہ اکثر ہلاک نہیں ہو جایا کرتاسوائے اس کے کہ بعض خاص غلطیاں ایسی ہوں۔ لیکن جن کا مزاج ٹھوکر کھانیوالا ہے وہ ان غلطیوں کو دیکھ کر بعض دفعہ ہلاک ہی ہو جایا کرتے ہیں، دین سے ہی متنفر ہو جایا کرتے ہیں اور پھر جراثیم پھیلانے والے بن جاتے ہیں۔ مجلسوں میں بیٹھ کر جہاں دوستوں میں تذکرے ہوتے ہیں وہاں کہہ دیا۔ جی فلاں صاحب نے تو یہ کیا تھا اور فلاں صاحب نے یہ کیا تھا۔ اس طرح وہ ساری قوم کی ہلاکت کا موجب بن جاتے ہیں۔ تو بچوں کو پہلے تو اس بلا سے محفوظ رکھیں۔ پھر جب ذرا بڑی عمر کے ہوں تو ان کو سمجھائیں کہ اصل محبت تو خدا اور اُسکے دین سے ہے۔ کوئی ایسی بات نہیں کرنی چاہیے جس سے خدائی جماعت کو نقصان پہنچتا ہو۔ آپکو اگر کسی کی ذات سے تکلیف پہنچی ہے یا نقصان پہنچا ہے تو اسکا ہرگز یہ نتیجہ نہیں نکلتا کہ آپکو حق ہے کہ اپنے ماحول، اپنے دوستوں، اپنے بچوں اور اپنی اولاد کے ایمانوں کو بھی آپ زخمی کرنا شروع کر دیں۔ اپنا زخم حوصلے کے ساتھ اپنے تک رکھیں اور اس کے اندر مال کے جو ذرائع باقاعدہ خدا تعالیٰ نے مہیا فرمائے ہیں ان کو اختیار کریں لیکن لوگوں میں ایسی باتیں کرنے سے پرہیز کریں۔
آئندہ صدی کی عظیم لیڈر شپ کا اہل بنانے والی تربیت
آج بھی جماعت میں ایسی باتیں ہو رہی ہیں اور ایسے واقعات میری نظر میں آتے رہتے ہیں۔ مثلاً ایک شخص کو کوئی تکلیف پہنچی ہے اور اس نے بعض مخلصین کے سامنے وہ باتیں بیان کیں۔ وہ باتیں اگرچہ سچی تھیں لیکن اس نے یہ نہیں سوچا کہ ان مخلصین کے ایمان کو کتنا بڑا نقصان پہنچ سکتا ہے۔ بعض واقفین زندگی نے بھی ایسی حرکتیں کیں۔ ان کو انتظامیہ سے یا تبشیر سے شکوہ ہوا۔ غیر ملکوں کے نَو احمدی مخلصین بیچارے ساری عمر بڑے اخلاص کے ساتھ جماعت سے تعلق رکھتے تھے۔ ان کو اپنا ہمدرد بنانے کی خاطر، یہ بتانے کے لئے کہ دیکھیں جی ہمارے ساتھ یہ ہوا ہے، وہ قصے بیان کرنے شروع کئے۔ خود تو اس طرح بچ کے واپس اپنے ملک میں چلے گئے اور پیچھے کئی زخمی رُوحیں چھوڑ گئے۔ ان کا گناہ کس کے سر پہ ہوگا؟ یہ بھی ابھی طے نہیں ہوا کہ انتظامیہ کی غلطی تھی بھی یا نہیں اور جہاں تک میں نے جائزہ لیا، غلطی انتظامیہ کی نہیں تھی۔ بدظنّی سے سارا سلسلہ شروع ہوا لیکن اگر غلطی ہوتی بھی تب بھی کسی کا یہ حق نہیں ہے کہ اپنی تکلیف کی وجہ سے دوسروں کے ایمان ضائع کرے۔ پس سچا وفادار وہ ہوا کرتا ہے جو خدا تعالیٰ کی جماعت پر نظر رکھے۔ اس کی صحت پر نظر رکھے۔ پیار کا وہی ثبوت سچا ہے جو حضرت سلیمان علیہ السلام نے تجویز کیا تھا اور اس سے زیادہ بہتر قابل اعتماد اور کوئی بات نہیں۔ آپ نے سنا ہے، بارہا مجھ سے بھی سنا ہے، پہلے بھی سنتے رہے ہیں کہ ایک دفعہ حضرت سلیمان ؑ کی عدالت میں دو دعویدار ماؤں کا جھگڑا پہنچا جن کے پاس ایک ہی بچہ تھا ۔کبھی ایک گھسیٹ کر اپنی طرف لے جاتی تھی، کبھی دوسری گھسیٹ کر اپنی طرف لے جاتی تھی اور دونوں روتی اور شور مچاتی تھیں کہ یہ میرا بچہ ہے۔ کسی صاحبِ فہم کو سمجھ نہیں آئی کہ اس مسئلہ کو کیسے طے کیا جائے۔ چنانچہ حضرت سلیمان علیہ السلام کی عدالت میں یہ مسئلہ پیش کیا گیا تو آپ ؑ نے فرمایا کہ یہ طے کرنا تو بڑا مشکل ہے کہ یہ کس کا بچہ ہے۔ اگر ایک کا بچہ ہوا اور دوسری کو دے دیا گیا تو بڑا ظلم ہوگا۔ اس لئے کیوں نہ اس بچے کو دو ٹکڑے کر دیا جائے اور ایک ٹکڑا ایک کو دے دیا جائے اور دوسرا ٹکڑا دوسری کو دے دیا جائے تاکہ ناانصافی نہ ہو۔ چنانچہ انہوں نے جلاّد سے کہا کہ آؤ اس بچے کو عین بیچ سے نصف سے دو ٹکڑے کر کے ایک، ایک کو دے دو اور دوسرا، دوسری کو دے دو۔ جو ماں تھی وہ روتی چیختی ہوئی بچے پر گر پڑی کہ میرے ٹکڑے کردو اور یہ بچہ اس کو دے دو۔ لیکن خدا کے لئے اس بچہ کو کوئی گزند نہ پہنچے۔ اس وقت حضرت سلیمان علیہ السلام نے فرمایا کہ یہ بچہ اِس کا ہے۔ پس جو خدا کی خاطر جماعت سے محبت رکھتا ہے، کیسے ممکن ہے کہ وہ جماعت کو ٹکڑے ہونے دے اور ایسی باتیں برداشت کر جائے کہ جس کے نتیجہ میں کسی کے ایمان کو گزند پہنچتا ہو۔ وہ اپنی جان پر سب وبال لے لے گا اور یہی اُس کی سچائی کی علامت ہے۔ لیکن اپنی تکلیف کو دوسرے کی رُوح کو زخمی کرنے کے لئے استعمال نہیں کرے گا، واقفین میں اس تربیت کی غیر معمولی ضرورت ہے۔ کیونکہ یہ ایک دفعہ واقعہ نہیں ہوا، دو دفعہ نہیں ہوا۔ بیسیوں مرتبہ پہلے ہو چکا ہے اور اس کے نتیجہ میں بعض دفعہ بڑے فتنے پیدا ہوئے ہیں۔ ایک شخص سمجھتا ہے کہ مَیں نے خوب چالاکی کی ہے خوب انتقام لیا ہے۔ اس طرح تحریکِ جدید نے مجھ سے کیا اور اس طرح پھر مَیں نے اس کا جواب دیا۔ اب دیکھ لو میرے پیچھے کتنا بڑا گروہ ہے اور یہ نہیں سوچا کہ وہ گروہ اُس کے پیچھے نہیں، وہ شیطان کے پیچھے تھا۔ وہ بجائے متقیوں کا امام بننے کے منافقین کا امام بن گیا ہے اور اپنے آپ کو بھی ہلاک کیا ہے اور اپنے پیچھے چلنے والوں کو بھی ہلاک کیا۔ پس یہ چھوٹی چھوٹی باتیں سہی لیکن غیر معمولی نتائج پیدا کرنے والی باتیں ہیں۔ آپ بچپن سے ہی اپنے واقفینِ نو کو یہ باتیں سمجھائیں اور پیار و محبت سے ان کی تربیت کریں تاکہ وہ آئندہ صدی کی عظیم لیڈر شپ کے اہل بن سکیں۔
واقفین بچوں کو وفا سکھائیں
اور بہت سی باتوں میں سے ایک اہم بات جو میں آخر پر کہنا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ واقفین بچوں کو وفا سکھائیں۔ وقفِ زندگی کا وفا سے بہت گہرا تعلق ہے۔ وہ واقفِ زندگی جو وفا کے ساتھ آخری سانس تک اپنے وقف کے ساتھ نہیں چمٹتا وہ جب الگ ہوتا ہے تو خواہ جماعت اس کو سزا دے یا نہ دے وہ اپنی روح پر غداری کا داغ لگا لیتا ہے اور یہ بہت بڑا داغ ہے۔ اس لئے آپ نے جو فیصلہ کیا ہے اپنے بچوں کو وقف کرنے کا، یہ بہت بڑا فیصلہ ہے۔ اس فیصلے کے نتیجہ میں یا تو یہ بچے عظیم اولیاءبنیں گے یا پھر عام حال سے بھی جاتے رہیں گے اور ان کو شدید نقصان پہنچنے کا بھی احتمال ہے۔ جتنی بلندی ہو اتنا ہی بلندی سے گرنے کا خطرہ بھی تو بڑھ جایا کرتا ہے۔ اس لئے بہت احتیاط سے ان کی تربیت کریں اور ان کو وفا کے سبق دیں اور بار بار دیں۔ بعض دفعہ ایسے واقفین جو وقف چھوڑتے ہیں وہ اپنی طرف سے چالاکی سے چھوڑتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ اب ہم جماعت کی حد سے باہر نکل گئے، اب ہم آزاد ہو گئے، اب ہمارا کچھ نہیں کیا جا سکتا۔ یہ چالاکی تو ہوتی ہے لیکن عقل نہیں ہوتی۔ وہ چالاکی سے اپنا نقصان کرنے والے ہوتے ہیں۔ ابھی کچھ عرصہ پہلے میرے سامنے ایک ایسے واقفِ زندگی کا معاملہ آیا جس کی ایسے ملک میں تقرری تھی کہ اگر وہاں ایک معین عرصہ تک وہ رہے تو وہاں کی نیشنیلٹی کا حق دار بن جاتا تھا۔ بعض وجوہات سے میں نے اس کا تبادلہ ضروری سمجھا۔ چنانچہ جب میں نے اس کا تبادلہ کیا تو چھ یا سات ماہ ابھی اس مدت میں باقی تھے جس کے بعد وہ نیشنیلٹی کا حقدار بنتا تھا۔ تو اس کے بڑے لجاجت کے اور محبت اور خلوص کے خط آنے شروع ہوئے کہ مجھے یہاں قیام کی کچھ مزید مہلت دی جائے۔ میں نے وہ مہلت دے دی۔ بعض صاحب فہم لوگوں نے یہ سمجھا کہ وہ مجھے بیوقوف بنا گیا ہے۔ چنانچہ انہوں نے لکھا کہ جناب یہ تو آپ کے ساتھ چالاکی کر گیا ہے اور یہ تو چاہتا ہے کہ عرصہ پورا ہو اور پھر وقف سے آزاد ہو جائے، پھر اس کو پرواہ کوئی نہ رہے۔ میں نے ان کو بتایا یا لکھا کہ مجھے سب پتہ ہے۔ آپ کیا سمجھتے ہیں کہ میرے علم میں نہیں کہ یہ کیوں ایسا کر رہا ہے۔ لیکن وہ میرے ساتھ چالاکی نہیں کر رہا۔ وہ اپنے نفس کے ساتھ چالاکی کر رہا ہے۔ وہ ان لوگوں میں سے ہے جن کے متعلق قرآن کریم فرماتا ہے یُـخٰـدِعُـوْنَ اللّٰہَ وَالَّـذِیْـنَ اٰمَـنُوْا ج وَمَا یَـخْـدَعُـوْنَ اِلَّآ اَنْــفُسَھُـمْ اس لئے مَیں اسکی ڈور ڈھیلی چھوڑ رہا ہوں تاکہ یہ جو مجھے ظن ہے اور آپکو بھی ہے یہ کہیں بدظنی نہ ہو۔ اگر وہ اس قسم کا ہے جیسا آپ سمجھ رہے ہیں اور جیسا مجھے بھی گمان ہے تو پھر وقف میں رہنے کے لائق نہیں ہے۔ بدظنی کے نتیجہ میں یعنی اس ظن کے نتیجہ میں جو بدظنی بھی ہو سکتی ہے بجائے اسکے کہ ہم اسکو بدلتے پھریں اور اسکو بچاتے پھریں اسکو موقع ملنا چاہیے۔ چنانچہ وہ حیران رہ گیا کہ مَیں نے اسکو اجازت دے دی ہے۔ پھر اسنے کہا اب مزید اتنا عرصہ مل جائے تو اتنا روپیہ بھی مجھے مل جائے گا۔ مَیں نے کہا بیشک تم وہ بھی لے لو اور جب وہ واپس گیا تو اسکے بعد وہی ہوا جو ہونا تھا۔ کیسی بے وقوفوں والی چالاکی ہے۔ بظاہر سمجھ کی وہ بات جو تقویٰ سے خالی ہوا کرتی ہے اسکو ہم عام دنیا میں چالاکی کہتے ہیں۔ پس اپنے بچوں کو سطحی چالاکیوں سے بھی بچائیں۔
بعض بچے شوخیاں کرتے ہیں اور چالاکیاں کرتے ہیں اور ان کو عادت پڑ جاتی ہے۔ وہ دین میں بھی پھر ایسی شوخیوں اور چالاکیوں سے کام لیتے رہتے ہیں اور اس کے نتیجہ میں بعض دفعہ ان شوخیوں کی تیزی خود ان کے نفس کو ہلاک کر دیتی ہے۔ اس لئے وقف کا معاملہ بہت اہم ہے۔ واقفین بچوں کو یہ سمجھائیں کہ خدا کے ساتھ ایک عہد ہے جو ہم نے تو بڑے خلوص کے ساتھ کیا ہے۔ لیکن اگر تم اس بات کے متحمل نہیں ہو تو تمہیں اجازت ہے کہ تم واپس چلے جاؤ۔ ایک گیٹ اور بھی آئے گا جب یہ بچے بلوغت کے قریب پہنچ رہے ہوں گے۔ اس وقت دوبارہ جماعت ان سے پوچھے گی کہ وقف میں رہنا چاہتے ہو یا نہیں چاہتے۔ ایک دفعہ امریکہ میں ڈزنی لینڈ میں جانے کا اتفاق ہوا۔ وہاں ایک Ride ایسی تھی جس میں بہت ہی زیادہ خوفناک موڑ آتے تھے اور اس کی رفتار بھی تیز تھی اور اچانک بڑی تیزی کے ساتھ مڑتی تھی، تو کمزور دل والوں کو اس سے خطرہ تھا کہ ممکن ہے کسی کا دل ہی نہ بیٹھ جائے۔ چنانچہ انہوں نے وارننگ لگائی ہوئی تھیں کہ اب بھی واپس جا سکتے ہو، اب بھی واپس جا سکتے ہو اور پھر آخری وارننگ تھی سرخ رنگ میں کہ اب یہ آخری ہے، اب واپس نہیں جا سکو گے۔ تو وہ بھی ایک گیٹ جماعت میں آنے والا ہے جب ان بچوں سے جو آج وقف ہوئے ہیں ان سے پوچھا جائے گا کہ اب یہ آخری دروازہ ہے، پھر تم واپس نہیں جا سکتے۔ اگر زندگی کا سودا کرنے کی ہمت ہے، اگر اس بات کی توفیق ہے کہ اپنا سب کچھ خدا کے حضور پیش کردو اور پھر کبھی واپس نہ لو، پھر تم آگے آؤ ورنہ تم اُلٹے قدموں واپس مڑ جاؤ۔ تو اس دروازے میں داخلے کے لئے آج سے ان کو تیار کریں۔ وقف وہی ہے جس پر آدمی وفا کے ساتھ تادمِ آخر قائم رہتا ہے۔ ہر قسم کے زخموں کے باوجود انسان گھسٹتا ہوا بھی اسی راہ پر بڑھتا ہے۔ واپس نہیں مڑا کرتا۔ ایسے وقف کے لئے اپنی آئندہ نسلوں کو تیار کریں۔ اللہ آپ کے ساتھ ہو۔ اللہ ہمیں توفیق عطا فرمائے کہ ہم واقفین کی ایک ایسی فوج خدا کی راہ میں پیش کریں جو ہر قسم کے ان ہتھیاروں سے مزین ہو جو خدا کی راہ میں جہاد کرنے کے لئے ضروری ہوا کرتے ہیں اور پھر اُن پر ان کو کامل دسترس ہو۔آمین
(خطبات طاہر۔ سن اشاعت 2007ء۔ناشر طاہر فاؤنڈیشن قادیان انڈیا۔ جلد 8 ۔صفحہ 83 تا 100)
کہانیوں سے ان کی تربیت کریں
مثلاً بچے کہانیاں بھی پسند کرتے ہیں اور ایک عمر میں جا کر ان کو ناولز کے مطالعہ سے بھی دور نہیں رکھنا چاہیے۔ لیکن بعض قسم کی لغو کہانیاں جو انسانی طبیعت پر گندے اور گہرے بداثرات چھوڑ جاتی ہیں ان سے ان کو بچانا چاہیے خواہ نمونے کے طور پر ایک آدھ کہانی انہیں پڑھا بھی دی جائے۔ بعض بچے (Detective Stories) یعنی جاسوسی کہانیوں میں زیادہ دلچسپی لیتے ہیں لیکن اگر انہیں اسی قسم کی لغو جاسوسی کہانیاں پڑھائی جائیں جیسے آج کل پاکستان میں رائج ہیں اور بعض مصنّف بچوں میں غیر معمولی شہرت اختیار کر چکے ہیں جاسوسی کہانیوں کے مصنّف کے طور پر تو بجائے اس کے کہ ان کا ذہن تیز ہو، ان کی استدلال کی طاقتیں صیقل ہو جائیں اور زیادہ پہلے سے بڑھ کر ان میں استدلال کی قوت چمکے وہ ایسے جاہلانہ جاسوسی تصورات میں مبتلا ہو جائیں گے کہ جس کا نتیجہ عقل کے ماؤف ہونے کے سوا اور کچھ نہیں نکل سکتا۔ شرلک ہومز کو تمام دنیا میں جو غیر معمولی عظمت حاصل ہوئی ہے وہ بھی تو جاسوسی ناول لکھنے والا انسان تھا لیکن اس کی جاسوسی کہانیاں دنیا کی اتنی زبانوں میں ترجمہ ہوئی ہیں کہ آج تک کسی دوسرے مصنف کی اس طرز کی کہانیاں دوسری زبانوں میں اس طرح ترجمہ نہیں کی گئیں۔ جس طرح شیکسپئر کے نام پر انگریز قوم کو فخر ہے۔ اسی طرح اس جاسوسی ناول نگار کے نام پر بھی انگریز قوم فخر کرتی ہے۔ یہ محض اس لئے ہے کہ اس کے استدلال میں معقولیت تھی اگرچہ کہانیاں فرضی تھیں۔ اس لئے اس قسم کی جاسوسی کہانیاں بچوں کو ضرور پڑھائی جائیں جن سے استدلال کی قوتیں تیز ہوں۔ لیکن احمقانہ جاسوسی کہانیاں تو استدلال کی قوتوں کو پہلے سے تیز کرنے کی بجائے ماؤف کرتی ہیں۔ اسی طرح ایک رواج ہندوستان میں اور پاکستان میں آجکل بہت بڑھ رہا ہے اور وہ بچوں کو دیومالائی کہانیاں پڑھانے کا رواج ہے اور ہندوستان کی دیومالائی کہانیوں میں اس قسم کے لغو تصورات بکثرت ملتے ہیں جو بچے کو بھوتوں اور جادو کا قائل کریں۔ اس قسم کے تصورات اس کے دل میں جاگزیں کریں کہ گویا سانپ ایک عمر میں جا کر اس قابل ہو جاتا ہے کہ دنیا کے ہرجانور کا روپ دھار لے اور اسی طرح جادوگرنیاں اور ڈائنیں انسانی زندگی میں ایک گہرا کردار ادا کرتی ہیں۔ یہ سارے فرضی قصے اگر بڑا پڑھے تو جانتا ہے کہ یہ محض دل بہلاوے کی من گھڑت کہانیاں ہیں لیکن جب بچہ پڑھتا ہے تو ہمیشہ کے لئے اس کے دل پہ بعض اثرات قائم ہو جاتے ہیں۔ جو بچہ ایک دفعہ ان کہانیوں کے اثر سے ڈرپوک ہو جائے اور اندھیرے اور انہونی چیزوں سے خوف کھانے لگے پھر تمام عمر اس کی یہ کمزوری دور نہیں کی جا سکتی۔ بعض لوگ بچپن کے خوف اپنے بڑھاپے تک لے جاتے ہیں۔ اس لئے کہانیوں میں بھی ایسی کہانیوں کو ترجیح دینا ضروری ہے جن سے کردار میں عظمت پیدا ہو، حقیقت پسندی پیدا ہو، بہادری پیدا ہو۔ دیگر انسانی اخلاق میں سے بعض نمایاں کر کے پیش کئے گئے ہوں۔ ایسی کہانیاں خواہ جانوروں کی زبان میں بھی پیش کی جائیں وہ نقصان کی بجائے فائدہ ہی دیتی ہیں۔ عربی کہانیاں لکھنے والوں میں یہ رجحان پایا جاتا تھا کہ وہ جانوروں کی کہانیوں کی صورت میں بہت سے اخلاقی سبق دیتے تھے اور الف لیلیٰ کے جو قصے تمام دنیا میں مشہور ہوئے ہیں ان میں اگرچہ بعض بہت گندی کہانیاں بھی شامل ہیں لیکن ان کے پس پردہ روح یہی تھی کہ مختلف قصوں کے ذریعہ بعض انسانی اخلاق کو نمایاں طور پر پیش کیا جائے۔ مثلاً یہ قصہ کہ ایک بادشاہ نے اپنی ملکہ کو ایک کتے کی طرح باندھ کر ایک جگہ رکھا ہوا تھا اور جانوروں کی طرح اس سے سلوک کیا جا رہا تھا اور کتے کو بڑے اہتمام کے ساتھ معزز انسانوں کی طرح محلات میں بٹھایا گیا تھا اور اس کی خدمت پر نوکر مامور تھے۔ یہ قصہ ظاہر ہے کہ بالکل فرضی ہے لیکن جو اعلیٰ خلق پیش کرنا مقصود تھا وہ یہ تھا کہ کتا مالک کا وفادار تھا اور ملکہ دغا باز اور احسان فراموش تھی۔ پس ایسی کہانیاں پڑھ کر بچہ کبھی یہ سبق نہیں لیتا کہ بیوی پر ظلم کرنا چاہیے بلکہ یہ سبق لیتا ہے کہ انسان کو دوسرے انسان کا وفادار اور احسان مند رہنا چاہیے۔ اسی طرح مولانا روم کی مثنوی بعض کہانیاں ایسی بھی پیش کرتی ہے جو پڑھ کر بعض انسان سمجھتے ہیں کہ یہ کیسے مولانا ہیں جو اتنی گندی کہانیاں بھی اپنی مثنوی میں شامل کئے ہوئے ہیں جن کو پڑھ کر انسان یہ سمجھتا ہے کہ ان کی ساری توجہ جنسیات کی طرف ہے اور اس کے باہر یہ سوچ بھی نہیں سکتے۔ چنانچہ ایک دفعہ لاہور کے ایک معزز غیر احمدی سیاستدان نے مجھے مولانا روم کی مثنوی پیش کی جس میں جگہ جگہ نشان لگائے ہوئے تھے اور ساتھ یہ کہا کہ آپ لوگ کہتے ہیں کہ یہ بزرگ انسان تھا یہ اتنا بڑا مرتبہ تھا، ایسا بڑا فلسفی تھا، ایسا صوفی تھا۔ لیکن یہ واقعات آپ پڑھیں اور مجھے بتائیں کہ کوئی شریف انسان یہ برداشت کرے گا کہ اس کی بہو بیٹیاں ان کہانیوں کو پڑھیں۔ چنانچہ جب میں نے ان حصّوں کو خصوصیت سے پڑھا تو یہ معلوم ہوا کہ نتیجہ نکالنے میں اس دوست نے غلطی کی ہے۔ یہ کہانیاں جنسیات سے ہی تعلق رکھتی تھیں لیکن ان کا آخری نتیجہ ایسا تھا کہ انسان کو جنسی بے راہ روی سے سخت متنفر کر دیتا تھا اور انجام ایسا تھا جس سے جنسی جذبات کو انگیخت ہونے کی بجائے پاکیزگی کی طرف انسانی ذہن مائل ہوتا تھا۔ پس یہ تو اس وقت میرا مقصد نہیں کہ تفصیل سے لٹریچر کی مختلف قسموں پرتبصرہ کروں۔ یہ چند مثالیں اس لئے آپ کے سامنے ر کھ رہا ہوں کہ اپنے بچوں کو جو کچھ آپ پڑھاتے ہیں اس کے متعلق خوب متنبہ رہیں کہ اگر غلط لٹریچر بچپن میں پڑھایا گیا تو اس کے بداثرات بعض موت تک ساتھ چمٹے رہتے ہیں اور اگر اچھا لٹریچر پڑھایا جائے تو اس کے نیک اثرات بھی بہت ہی شاندار نتائج پیدا کرتے ہیں اور بعض انسانوں کی زندگیاں سنوار دیا کرتے ہیں۔
جہاں تک زبانوں کا تعلق ہے سب سے زیادہ زور شروع ہی سے عربی زبان پر دینا چاہیے۔ کیونکہ ایک مبلغ عربی کے گہرے مطالعہ کے بغیر اور اس کے باریک در باریک مفاہیم کو سمجھے بغیر قرآن کریم اور احادیث نبویہ سے پوری طرح استفادہ نہیں کر سکتا۔ اس لئے بچپن ہی سے عربی زبان کے لئے بنیاد قائم کرنی چاہیے اور جہاں ذرائع میسر ہوں اس کی بول چال کی تربیت بھی دینی چاہیے۔ قادیان اور ربوہ میں ایک زمانے میں جب ہم طالبعلم تھے عربی زبان کی طرف توجہ تھی لیکن بول چال کا محاورہ نہیں سکھایا جاتا تھا یعنی توجہ سے نہیں سکھایا جاتا تھا۔ اس لئے اس کا بھی ایک نقصان بعد میں سامنے آیا۔ آج کل جو رواج ہے کہ بول چال سکھائی جا رہی ہے لیکن زبان کے گہرے معانی کی طرف پوری توجہ نہیں کی جاتی۔ اس لئے بہت سے عرب بھی ایسے ہیں اور تجارت کی غرض سے عربی سیکھنے والے بھی ایسے ہیں جو زبان بولنا تو سیکھ گئے ہیں لیکن عربی کی گہرائی سے ناواقف ہیں اور اس کی گرائمر پر عبور نہیں ہے۔ پس اپنی واقفین نسلوں کو ان دونوں پہلوؤں سے متوازن تعلیم دیں۔
عربی کے بعد اردو بھی بہت اہمیت رکھتی ہے
عربی کے بعد اردو بھی بہت اہمیت رکھتی ہے کیونکہ آنحضرت ﷺ کی کامل غلامی میں اس زمانے کا جو امام بنایا گیا ہے اس کا اکثر لٹریچر اردو میں ہے۔ احمدیہ لٹریچر چونکہ خالصةً قرآن اور حدیث کی تفسیر میں ہے اس لئے عرب پڑھنے والے بھی جب آپ کے عربی لٹریچر کا مطالعہ کرتے ہیں تو حیران رہ جاتے ہیں کہ قرآن اور حدیث پر ایک ایسی گہری معرفت اس انسان کو حاصل ہے کہ جو اِن لوگوں کے وہم و گمان میں بھی نہیں آ سکتی تھی جو مادری لحاظ سے عربی زبان سیکھنے اور بولنے والے ہیں۔ چنانچہ ہمارے عربی مجلہ’’ الـتّـقویٰ‘‘ میں حضرت اقدس مسیح موعود ؑ کے جو اقتباسات شائع ہوتے ہیں ان کو پڑھ کر بعض غیر احمدی عرب علماءکے ایسے عظیم الشان تحسین کے خط ملے ہیں کہ انسان حیران رہ جاتا ہے۔ بعض ان میں سے مفتیوں کے بیٹے ہیں۔ اس عظمت کے آدمیوں کے بیٹے ہیں جن کو دین پر عبور ہے اور دین میں معروف مفتی ہیں۔ ان کا نام لینا یہاں مناسب نہیں لیکن انہوں نے مجھے خط لکھا کہ ہم تو حیران رہ گئے ہیں دیکھ کر اور بعض عربوں نے کہا کہ ایسی خوبصورت زبان ہے، ایسی دلکش عربی زبان ہے حضرت مسیح موعود ؑ کی۔ ایک شخص نے کہا ۔مَیں بہت شوقین ہوں عربی لٹریچر کا مگر آج تک اس عظمت کا لکھنے والا مَیں نے کوئی عربی نہیں دیکھا۔ پس عربی کے ساتھ ساتھ حضرت مسیح موعود ؑکے اردو لٹریچر کا مطالعہ بھی ضروری ہے اور بچوں کو اتنے معیار کی اردو سکھانی ضروری ہے کہ وہ حضرت مسیح موعود ؑ کے اردو لٹریچر سے براہ راست فائدہ اٹھا سکیں۔ جہاں تک دنیا کی دیگر زبانوں کا تعلق ہے خدا تعالیٰ کے فضل سے اب دنیا کے اکثر اہم ممالک میں ایسی احمدی نسلیں تیار ہو رہی ہیں جو مقامی زبان نہایت شستگی کے ساتھ اہل زبان کی طرح بولتی ہیں اور یہاں ہالینڈ میں بھی ایسے بچوں کی کمی نہیں ہے جو باہر سے آنے کے باوجود ہالینڈ کی زبان ہالینڈ کے باشندوں کی طرح نہایت شستگی اور صفائی سے بولنے والے ہیں۔ لیکن افسوس یہ ہے کہ ان کا اردو کا معیار ویسا نہیں رہا۔ چنانچہ بعض بچوں سے جب مَیں نے پوچھا تو معلوم ہوا کہ ہالینڈش زبان میں تو وہ بہت ترقی کر چکے ہیں لیکن اردو زبان پر عبور خاصا قابل توجہ ہے یعنی عبور حاصل نہیں ہے اور معیار خاصا قابل توجہ ہے۔ پس آئندہ اپنی واقفین نسلوں کو کم از کم تین زبانوں کا ماہر بنانا ہوگا۔ عربی، اردو اور مقامی زبان۔ پھر ہمیں انشاءاللہ آئندہ صدی کے لئے دیگر ممالک میں احمدیت یعنی حقیقی اسلام کی تعلیم پیش کرنے والے بہت اچھے مبلغین مہیا ہو جائیں گے۔
واقفین بچوں کے اخلاق پر خصوصیت سے توجہ کی ضرورت ہے
آئندہ جماعت کی ضروریات میں بعض انسانی خلق سے تعلق رکھنے والی ضروریات ہیں جن کا مَیں نے پہلے بھی ذکر کیا تھا اور اب دوبارہ اس پہلو پر زور دینا چاہتا ہوں۔ پس واقفین بچوں کے اخلاق پر خصوصیت سے توجہ کی ضرورت ہے۔ انہیں خوش اخلاق بنانا چاہیے۔ ایک تو اخلاق کا لفظ ہے جو زیادہ گہرے خصائل سے تعلق رکھتا ہے۔ اسکے متعلق مَیں پہلے کئی دفعہ بات کر چکا ہوں۔ لیکن ایک اخلاق کا معنی عرف عام میں انسان کی میل جول کی اس صلاحیت کو کہتے ہیں جس سے وہ دشمن کم بناتا ہے اور دوست زیادہ۔ کوئی بدمزاج انسان اچھا واقفِ زندگی ثابت نہیں ہو سکتا اور کوئی خشک مزاج انسان ملاّں تو کہلا سکتا ہے، صحیح معنوں میں روحانی انسان نہیں بن سکتا۔
ایک دفعہ ایک واقفِ زندگی کے متعلق ایک جگہ سے شکایتیں ملیں کہ یہ بدخلق ہے اور ترش روئی سے لوگوں سے سلوک کرتا ہے۔ جب میں نے اسے سمجھانے کی کوشش کی تو اس نے یہ جواب دیا کہ سب جھوٹ بولتے ہیں۔ میں تو بالکل درست اور صحیح چل رہا ہوں اور انکی خرابیاں ہیں۔ جب توجہ دلاتا ہوں تو پھر آگے سے غصہ کرتے ہیں۔ مَیں نے ان سے کہا کہ خرابیوں کی طرف تو سب سے زیادہ توجہ حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نے دلائی تھی اور جتنی دوری اس دنیا کے لوگوں کی آپ سے تھی اسکا ہزارواں حصّہ بھی جماعت احمدیہ کے نوجوان آپ سے فاصلے پر نہیں کھڑے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کامل طور پر معصوم تھے اور آپ خود اپنے اندر کچھ خرابیاں رکھتے ہیں ۔ جن سے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مخاطب تھے وہ تمام برائیوں کی آماجگاہ تھے۔ مگر یہ نوجوان تو کئی پہلوؤں سے سلجھے ہوئے ،منجھے ہوئے اور باہر کی دنیا کے جوانوں سے سینکڑوں گنا بہتر ہیں ۔ پھر کیا وجہ ہے کہ آپ جب نصیحت کریں تو وہ بد کتے ہیں اور متنفر ہوتے ہیں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جب نصیحت فرماتے تھے وہ آپؐ کے عاشق ہو جایا کرتے تھے۔ دوسرے مَیں نے ان سے کہا کہ ایک آدھ شکایت تو ہر مبلغ کے متعلق ، ہر ایسے شخص کے متعلق آہی جاتی ہے جو کسی کام پر مامور ہو۔ ہر شخص کو وہ راضی نہیں کر سکتا۔ کچھ لوگ ضرور ناراض ہو جایا کرتے ہیں لیکن ایک شخص کے متعلق شکایتوں کا تانتا لگ جائے تو اس پر غالب کا یہ شعر اطلاق پاتا ہے۔
سختی سہی کلام میں لیکن نہ اس قدر
کی جس سے بات اس نے شکایت ضرور کی۔
بچوں کو خوش اخلاق بنائیں
پس اپنے بچوں کو خوش اخلاق ان معنوں میں بنائیں کہ میٹھے بول بول سکتے ہوں۔ لوگوں کو پیار سے جیت سکتے ہوں۔ غیروں اور دشمنوں کے دلوں میں راہ پاسکتے ہوں۔ اعلیٰ سوسائٹی میں سرایت کرسکتے ہوں۔ کیونکہ اسکے بغیر نہ تربیت ہو سکتی، نہ تبلیغ ممکن ہے۔ بعض مبلغین کو اللہ تعالیٰ نے یہ صلاحیت عطا فرمائی ہے۔ اسلئے اپنے ملک کے بڑے سے بڑے لوگوں سے جب وہ ملتے ہیں تو تھوڑی سی ملاقات میں وہ انکے گرویدہ ہو جاتے ہیں اور اسکے نتیجے میں خدا تعالیٰ کے فضل سے تبلیغ کی عظیم الشان راہیں کھل جاتی ہیں۔
واقفاتِ نو کے لئے ہدایات
جہاں تک بچیوں کا تعلق ہے اس سلسلے میں بھی بارہا ماں باپ سوال کرتے ہیں کہ ہم انہیں کیا بنائیں ؟وہ تمام باتیں جو مردوں کے متعلق یا لڑکوں کے متعلق میں نے بیان کی ہیں وہ ان پر بھی اطلاق پاتی ہیں۔ لیکن اسکے علاوہ انہیں گھر گرہستی کی اعلیٰ تعلیم دینی بہت ضروری ہے اور گھریلو اقتصادیات سکھانا ضروری ہے۔ کیونکہ بعید نہیں کہ وہ واقفین بچیاں واقفین کے ساتھ ہی بیاہی جائیں۔ جب مَیں کہتا ہوں کہ بعید نہیں تو مراد یہ ہےکہ آپکی دلی خواہش یہی ہونی چاہیے کہ واقفین بچیاں واقفین سے ہی بیاہی جائیں ورنہ غیر واقفین کے ساتھ ان کی زندگی مشکل گزرے گی اور مزاج میں بعض دفعہ ایسی دوری ہو سکتی ہے کہ ایک واقفِ زندگی بچی کا اپنے غیر واقف خاوند کے ساتھ مذہب میں اسکی کم دلچسپی کی وجہ سے گزارانہ ہو اور واقفین کے ساتھ شادی کے نتیجے میں بعض دوسرے مسائل اسکو درپیش ہوسکتے ہیں۔ اگر وہ امیر گھرانے کی بچی ہے۔ اسکی پرورش نازو نعم میں ہے اور اعلیٰ معیار کی زندگی گزار رہی ہے تو جب تک شروع ہی سے اسے اس بات کے لئے ذہنی طور پر آمادہ نہ کیا جائے کہ وہ سادہ، سخت زندگی اور مشقت کی زندگی برداشت کر سکے اور یہ سلیقہ نہ سکھایا جائے کہ تھوڑے پر بھی انسان راضی ہو سکتا ہے اور تھوڑے پر بھی سلیقے کے ساتھ انسان زندہ رہ سکتا ہے۔ پس ایسی لڑکیاں جن کو بچپن سے مطالبوں کی عادت ہوتی ہے وہ جب واقفین زندگی کے گھروں میں جاتی ہیں تو انکے لئے بھی جہنم پیداکرتی ہیں اور اپنے لئے بھی۔ مطالبے میں فی ذاتہ ٖکوئی نقص نہیں لیکن اگر مطالبہ توفیق سے بڑھ کر ہو تو پھر خواہ خاوند سے ہو یا ماں باپ سے یا دوستوں سے تو زندگی کو اجیرن بنا دیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس معاملے میں ہمیں کیا خوبصورت سبق دیا جب فرمایا۔ لَا یُکَلِّفُ اللّٰہُ نَــفْسًااِلَّا وُسْعَھَا کہ خدا کسی کی توفیق سے بڑھ کر اس سے مطالبہ نہیں کرتا۔ تو بندوں کا کیا حق ہے کہ توفیق سے بڑھ کر مطالبے کریں۔ پس واقفین زندگی کی بیویوں کیلئے یا واقفین زندگی لڑکیوں کے لئے ضروری ہے کہ یہ سلیقہ سیکھیں کہ کسی سے اسکی توفیق سے بڑھ کر نہ توقع رکھیں، نہ مطالبہ کریں اور قناعت کے ساتھ کم پر راضی رہنا سیکھ لیں۔ اس ضمن میں ایک اہم بات جو بتانی چاہتا ہوں کہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے واقفین کی تحریک کے ساتھ ایک یہ بھی تحریک فرمائی کہ امیر گھروں کے بچوں کے باقی افراد کو یہ قربانی کرنی چاہیے کہ اسکے وقف کی وجہ سے اسکے لئے خصوصیت کے ساتھ کچھ مالی مراعات مہیا کریں اور یہ سمجھیں کہ جتنامالی لحاظ سے ہم اسکو بے نیاز بنائیں گے اتنا بہتر رنگ میں وہ قومی ذمہ داریوں کی امانت کا حق ادا کر سکے گا۔ اس نصیحت کا اطلاق صرف امیر گھرانوں پر نہیں بلکہ غریب گھرانوں پر بھی ہوتا ہے۔ ہر واقفِ زندگی گھر کو یعنی ہر گھر جس میں کوئی واقفِ زندگی ہے آج ہی سے یہ فیصلہ کر لینا چاہیے کہ خدا ہمیں جس پر رکھے گا ہم اپنے واقفِ زندگی تعلق والے کو اس سے کم معیار پر نہیں رہنے دیں گے۔ یعنی جماعت سے مطالبے کی بجائے بھائی اور بہنیں یا ماں باپ اگر زندہ ہوں اور توفیق رکھتے ہوں یا دیگر قریبی مل کر یہ ایسا نظام بنائیں گے کہ واقفِ زندگی بچہ اپنے زندگی کے معیار میں اپنے گھر والوں کے ماحول اور انکے معیا رسے کم تر نہ رہے۔ چنانچہ ایسے بچے جب زندگی کی دوڑ میں حصّہ لیتے ہیں تو کسی قسم کے(Inferiority Complex)یعنی احساسِ کمتری کا شکار نہیں رہتے اور امانت کا حق زیادہ بہتر ادا کرسکتے ہیں ۔ جہاں تک بچیوں کی تعلیم کا تعلق ہے اس میں خصوصیت کے ساتھ تعلیم دینے کی تعلیم دلانا یعنی ایجوکیشن کی انسڑکشن جسےBachelor Degree in Education غالباً کہا جاتا ہے یا جو بھی اسکا نام ہے۔ مطلب یہ ہے کہ انکو استانیاں بننے کی ٹریننگ دلوانا، خواہ انکو استانی بنانا ہو یا نہ بنانا ہو انکے لئے مفید ہو سکتا ہے۔ اسی طرح لیڈی ڈاکٹر ز کی جماعت کو خدمت کے میدان میں بہت ضرورت ہے۔ پھر کمپیوٹر سپیشلسٹ کی ضرورت ہے اور ٹائپسٹ کی ضرورت ہے اور یہ سارے کام عورتیں مرد وں کے ملے جلے بغیر ، سوائے ڈاکٹری کے، باقی سارے کام عمدگی سے سرانجام دے سکتی ہیں۔ پھر زبانوں کا ماہر بھی انکو بنایا جائے یعنی لٹریری (Literary) نقطۂ نگاہ سے، ادبی نقطۂ نگاہ سے انکو زبانوں کا چوٹی کا ماہر بنانا چاہیے تاکہ یہ جماعت کی تصنیفی خدمات کرسکیں۔ ا س طرح اگر ہم سب اپنی آئندہ واقفین نسلوں کی نگہداشت کریں اور انکی پرورش کریں انکو بہترین واقف بنانے میں مل کر جماعتی لحاظ سے اور انفرادی لحاظ سے سعی کریں تو میں امید رکھتا ہوں کہ آئندہ صدی کے اوپر جماعتِ احمدیہ کی اس صدی کی نسلوں کا ایک ایسا احسان ہو گا کہ جسے وہ ہمیشہ جذبہ تشکّر اور دعاؤں کے ساتھ یاد کریں گے ۔
سب سے زیادہ زور تربیت میں دعا پر ہونا چاہیے
آخر پر یہ بتانا ضروری ہے کہ سب سے زیادہ زور تربیت میں دعا پر ہونا چاہیے۔ ان بچوں کے لئے ہمیشہ دردمندانہ دعائیں کرنا اور ان بچوں کو دعا کرنا سکھانا اور دعا کرنے کی تربیت دینا تاکہ بچپن ہی سے یہ اپنے ربّ سے ایک ذاتی گہرا تعلق قائم کر لیں اور اس تعلق کے پھل کھانے شروع کر دیں۔ جو بچہ دعا کے ذریعے اپنے رب کے احسانات کا مشاہدہ کرنے لگتا ہے وہ بچپن ہی سے ایک ایسی روحانی شخصیت حاصل کرلیتا ہے جس کا مربی ہمیشہ خدا بنارہتا ہے اور دن بدن اسکے اندر وہ تقدّس پیدا ہونا شروع ہو جاتا ہے جو خدا کے سچے تعلق کے بغیر پیدا نہیں ہو سکتا اور دنیا کی کوئی تعلیم اورکوئی تربیت وہ اندرونی تقدس انسان کو نہیں بخش سکتی جو خدا تعالیٰ کی معرفت اور اسکے پیار اسکی محبت کے نتیجے میں نصیب ہوتا ہے۔ پس ان بچوں کی تربیت میں دعاؤں سے بہت زیادہ کام لیں۔ خود انکے لئے دعا کریں اور انکو دعا کرنے والے بچے بنائیں۔ میں امید رکھتا ہوں کہ ان ذرائع کو اختیار کرکے ان شاءاللہ تعالیٰ جماعت کے سپرد کرنے سے پہلے پہلے ہی یہ بچے ہر قسم کے حسن سے آراستہ ہو چکے ہوں گے اور ایسے ماں باپ بڑی خوشی کے ساتھ اور کامل اطمینان کے ساتھ ایک ایسی قربانی خدا کے حضور پیش کر رہے ہوں گے جسے انہوں نے اپنی توفیق کے مطابق خوب سجا کر اور بنا کر خدا کے حضور پیش کیا ہو گا۔ اللہ تعالیٰ ہمیں ان اعلیٰ تقاضوں کو پورا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین
(خطبات طاہر۔ سن اشاعت 2007ء۔ناشر طاہر فاؤنڈیشن قادیان انڈیا۔ جلد 8 ۔صفحہ 101 تا 110)
وہ مخلصین، وہ سعادت مند احمدی جنہوں نے توفیق پائی کہ اگلی صدی کے لئے اپنے بچے ہدیتاً اسلام کو پیش کریں وہ بارہا مجھ سے پوچھتے ہیں کہ ہم ان کی تربیت کس طرح کریں؟ ان کو سمجھانے کے لئے، ان کو طریقے سکھانے کے لئے، ان کی مزید راہنمائی کے لئے باقاعدہ شعبہ قائم کر دیا گیا ہے اور تحریکِ جدید کو مَیں نے سمجھا دیا ہے کہ کس قسم کا لٹریچر تیار ہو، کس قسم کی تربیتی نصائح ہونی چاہیئں ماں باپ کو۔ بچوں کو تو وہ کریں گے۔ ہم نے تو ماں باپ کو ابھی کرنی ہیں اور کیا راہنمائی ہونی چاہیئے۔ وہ اس کے مطابق انشاءاللہ جلد کام شروع کر دیں گے۔ ان کو یہ بھی سمجھایا کہ ان بچوں کے لئے اس کے دوسرے قدم کے اوپر لٹریچر تیار کرنا ہے اور مختلف زبانوں میں تیار کرنا ہے تا کہ شروع سے ہی جس رنگ میں ہم تربیت کرنا چاہتے ہیں ان کے گھروں میں وہ تربیت شروع ہو جائے۔
واقفاتِ نو کے لئے خدمت کے میدان
اس ضمن میں مَیں نے یہ نصیحت کی تھی کہ جن واقفینِ نو کی پیش کش کرنے والوں کے ہاں بیٹیاں پیدا ہوئیں ان کو کیا سکھائیں؟بیٹیوں کے لئے وہ سہولت نہیں جو بیٹوں کے لئے ہو سکتی ہے کہ میدان میں جہاں مرضی انکو پھینک دو۔ ان کے اپنے کچھ حفاظت کے تقاضے ہیں ، کچھ ان کے اپنے نوعی تقاضے ہیں جن کے پیش نظر ہم ان سے اس طرح کام نہیں لے سکتے جس طرح ہر واقفِ زندگی مرد سے کام لے سکتے ہیں۔ اس لئے ان کو میں نے یہ کہا تھا کہ ایسی بچیوں کو تعلیم کے میدان میں آگے لائیں۔ علمی کام سکھائیں اور علم تو بڑھانا ہی ہے لیکن علم سکھانے کا نظام جو ہے جس کو بی ایڈ یا ایم ایڈ جو کہا جاتاہے، ایسی ڈگریاں جن میں تعلیم دینے کا سلیقہ سکھایا جاتا ہے ان میں ان کو داخل کریں، آئندہ بڑے ہو کر۔ لیکن ابھی ان کی تربیت اس رنگ میں شروع کریں ۔
پھر ڈاکٹروں کی ضرورت ہے۔ خواتین ڈاکٹروں کو خداتعالیٰ اگر توفیق دے تو وہ بہت بڑی خدمت کر سکتی ہیں اور بہت گہرا اثر چھوڑ سکتی ہیں اور اس رستے سے پھر وہ اسلام کا پیغام دینے میں بھی دوسروں پر فوقیت رکھتی ہیں۔ اس لئے احمدی خواتین کو ڈاکٹر بن کر اپنی زندگیاں پیش کرنی چاہیئں یا ان بچوں کو ڈاکٹر بنایا جائے جو خداتعالیٰ کے فضل سے وقفِ نو میں پیدا ہوئی ہیں۔
اس طرح مَیں نے زبانوں کا کہا تھا اور جن زبانوں کی ہمیں ضرورت پڑنے والی ہے اس میں روسی اور چینی دو زبانیں خصوصیت کے ساتھ اہمیت رکھتی ہیں۔ جماعت احمدیہ میں جن زبانوں میں کمی ہے ان میں ایک سپینش ہے مثلاً ، اس کی طرف توجہ شروع کر دی گئی ہے خدا کے فضل سے۔ فرانسیسی میں ہمارے بہت سے فرنچ سپیکنگ افریقن ممالک ہیں جہاں کثرت سے اچھی فرانسیسی بولنے والے مہیا ہو سکتے ہیں اور ہو رہے ہیں خدا کے فضل سے۔ لیکن چینی زبان میں اور روسی زبان میں ہم بہت کمی محسوس کرتے ہیں۔ اسی طرح اٹالین میں بھی کمی ہے مگر سب سے بڑی ضرورت اس وقت اور عظیم ضرورت چینی اور روسی زبان جاننے والے احمدیوں کی ہے اس لئے جہاں نوجوان جن کو یہ سہولت حاصل ہو تعلیمی اداروں میں اس طرف توجہ کر سکیں ان کو بھی میری یہی نصیحت ہے کہ وہ توجہ کریں لیکن یہ جو نئے پیدا ہونے والے بچے ہیں ایسے ملکوں میں جہاں چینی اور روسی زبان سکھانے کی سہولتیں موجود ہیں ان کو بچپن سے ان کوسکھانا چاہیئے اور ان کی ایمبیسی سے رابطہ کر کے اگر کچھ کیسٹس وغیرہ مہیا کی جا سکیں ، ویڈیو مہیا کی جا سکیں ، بچوں کے چھوٹے چھوٹے رسالے کہانیوں کی کتابیں وغیرہ یہ مہیا کی جائیں تو بہت بچپن سے اگر زبان سکھائی جائے تو وہ اتنے گہرے نقش دماغ پر قائم کر دیتی ہے کہ اس کے بعد بچے اہل زبان کی طرح بول سکتے ہیں ۔ اور بڑی عمر میں سیکھی ہوئی زبان خواہ آپ کتنی محنت کریں وہ اہل زبان جیسی زبان نہیں بنتی۔ طوعی اور فطری طور پر جو ذہن سوچتا ہے وہ بچپن سے اگر سیکھی ہوئی زبان ہے تو وہ سوچ اسکی بے ساختہ ہوتی ہے، قدرتی اورطوعی ہوتی ہے۔ لیکن اگر بعد میں زبان سیکھی جائے تو سوچ پہ کچھ نہ کچھ قدغن رہتی ہے کچھ نہ کچھ پابندیاں رہتی ہیں۔ اور پھونک پھونک کر قدم آگے بڑھانا پڑتا ہے۔ بعض لوگ نسبتاً تیز بھی بڑھاتے ہیں بعض آہستہ ۔ مگر جو طبعی فطرتی روانی ہے وہ پیدا نہیں ہو سکتی۔ اس لئے زبان بنانے کے لئے بہت بچپن سے زبان سکھانی پڑتی ہے۔ اگر پنگھوڑوں میں زبان سکھائی جائے تو یہ بھی بہت اچھا ہے، بلکہ سب سے اچھا ہے۔ایسی اگر دائی مل جائے نرس مل جائے، اور جو توفیق ر کھ سکتے ہیں نرسوں کے رکھنے کی وہ رکھیں۔ جو چینی نرس ہو تو بچوں کو بچپن گود میں کھلاتے کھلاتے ہی چینی زبان سکھا سکتی ہے، روسی زبان جاننے والی اہل زبان کوئی عورت مل جائے تو بچے اس کے سپرد کئے جا سکتے ہیں۔ یہ تو باتیں حسب توفیق ہوں گی مگر جن کو توفیق ہے ان کو چاہیئے کہ وہ بہت بچپن سے اپنے بچوں کو چینی اور روسی زبان سکھانے کی کوشش کریں ۔ اس سلسلے میں کوئی پابندی نہیں لگاتا کہ ہمیں سَو کی ضرورت ہے یا ہزار کی ضرورت ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ یہ اتنی بڑی قومیں ہیں اور ان کو اتنی عظمت حاصل ہے اس وقت دنیا میں کہ اگر یہ دونوں قومیں مثلاً دنیاوی لحاظ سے اکٹھی ہو جائیں تو ساری دنیا میں طاقت کا توازن بگڑ جائے یعنی ان کے حق میں ہو جائے اور باقی دنیا کے خلاف ہو جائے اور بہت سی بڑی بڑی سیاسی تبدیلیاں پیدا ہو جائیں۔ ان کا اس وقت الگ الگ ہونا ہی بعض قوموں کے لئے خوش قسمتی ہے اور وہ زبردستی بھی دخل اندازی کر کے اس خوش قسمتی کو بڑھانے کی کوشش کرتے ہیں۔ اور بعض دفعہ غلطیاں کرتے ہیں اور اُلٹے نتیجے نکلتے ہیں۔ مگر جہاں تک ہمارا تعلق ہے ہمیں ان کے لڑنے یا نہ لڑنے ، دشمنی یا دوستی سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ اسلام دونوں کے لئے برابر ہے اور ہم نے جو اسلام کا پیغام پہنچانا ہے اس کے لئے ہمیں زبان دانوں کی ضرورت ہے۔ ہر قسم کے زبان دانوں کی ضرورت ہے جو تحریری کی مشق بھی رکھتے ہوں ، بولنے کی مشق بھی رکھتے ہوں ، ترجموں کی طاقت بھی رکھتے ہوں ، تصنیف کی صلاحیت بھی رکھتے ہوں۔ اس لئے جتنے بھی ہوں کم ہوں گے۔ یعنی ایک ارب کے لگ بھگ یا اس سے زائد اب چین کی آبادی ہے اور روس اور روسی زبان جاننے والوں کی آبادی بھی بہت وسیع ہے۔ مجھے اس وقت پوری طرح یاد تو نہیں لیکن پچاس کروڑ سے زائد ہوں گے جو روسی زبان جاننے والے لوگ ہیں یا بولنے والے۔ اس لئے اگر سارے واقفین بھی یہ زبان سیکھ لیں تو وہ کوئی زیادہ نہیں ہو گا۔ مردوں کو بھی سکھائیں اور بچوں کو بھی سکھائیں لیکن بیٹیوں کو خصوصیت سے ۔کیونکہ علمی کام میں ہمیں واقفین بیٹیاں بہت کام آسکتی ہیں۔ انہوں نے میدان میں بھی جانا ہوگالیکن وہ تصانیف کریں گی وہ گھر بیٹھے ہر قسم کی خدمت کے کام اس طرح کر سکتی ہیں کہ اپنے خاوندوں سے ان کو الگ نہ ہونا پڑے۔ اسلئے انکو ایسے کام سکھانے کی خصوصیت سے ضرورت ہے۔ بچوں کو تو ہم سنبھال لیں گے ہم انکو کسی جامعہ میں داخل کریں گے ، کسی خاص ملک میں ان کا تعین ہو گاتو اس زبان کا ان کو ماہر بنانے کی کوشش کی جائے گی۔ لیکن بچیوں پر ہمارا ایسا اختیار نہیں ہو سکتا نہ مناسب ہے نہ اسلام اس کی اجازت دیتا ہے کہ اسطرح بچپن میں انکو الگ کر کے پوری طرح جماعتی نظام کے تابع کیا جائے۔ اسلئے والدین کا دخل بچیوں پر لازماً جاری رہے گا یا بعد میں انکے خاوندوں کا۔ اس لئے وہ زبانیں سیکھ لیں تو گھر بیٹھے بڑی آرام سے خدمت کر سکتی ہیں۔اور جب زبانیں سیکھیں تو جس وقت ان کے اندر صلاحیت پیدا ہو ان کو پھر ان زبانوں میں ٹائپ کرنا بھی سکھایا جائے اور ان زبانوں کا لٹریچر ان کو پڑھایا جائے۔ یہ نہ سمجھیں کہ زبان بولنا چالنا کافی ہوتا ہے یا لکھنے پڑھنے کا سلیقہ آجائے تو یہ کافی ہے۔ لٹریچر جتنا زیادہ پڑھا جائے اتنا ہی زیادہ زبان میں وسعت پیدا ہوتی ہے۔ اسلئے پھر کثرت کیساتھ انکو رشین کلاسیکل ناول پڑھانے پڑیں گے۔ رشین کلاسیکل مضامین، کلاسیکل شعراء، ماڈرن شعراء، اور یہی حال چینی زبان میں بھی ہو گا تاکہ بچپن سے ہی انکا علمی ذخیرہ اتنا وسیع ہو جائے کہ بڑی سہولت کیساتھ، فطری رو کیساتھ از خود علمی کاموں میں آگے بڑھتے چلے جائیں۔ میں امید رکھتا ہوں کہ واقفین زندگی اس پیغام کو اچھی طرح ذہن نشین کریں گے.
بچپن میں کردار بنائے جاتے ہیں
اور آخری بات یہی ہے پھر بھی کہ اس کے ساتھ ان کی عظمت و کردار کے لئے ابھی سے کوشش شروع کر دیں ۔ بچپن میں کردار بنائے جاتے ہیں دراصل ۔ اگر تاخیر ہو جائے تو بہت محنت کرنی پڑتی ہے ۔ محاورہ ہے کہ لوہا گرم ہو تو اس کو موڑ لینا چاہیئے۔ لیکن یہ جو بچپن کا لوہا ہے یہ خدا تعالیٰ ایک لمبے عرصے تک نرم ہی رکھتا ہے اور اس نرمی کی حالت میں اس پر جو نقوش آپ قائم کر دیتے ہیں وہ دائمی ہو جایا کرتے ہیں ۔ اس لئے یہ وقت ہے تربیت کا ۔ اور تربیت کے مضمون میں یہ بات یاد رکھیں کہ ماں باپ جتنی زبانی تربیت کریں اگر ان کا کردار ان کے قول کے مطابق نہیں تو بچے کمزوری کو لیں گے اور مضبوط پہلو کو چھوڑ دیں گے۔ یہ دو نسلوں کے رابطے کے وقت ایک ایسا اصول ہے جس کو بھلانے کے نتیجے میں قومیں ہلاک ہو سکتی ہیں اور یاد رکھنے کے نتیجے میں ترقی بھی کر سکتی ہیں۔ ایک نسل اگلی نسل پر جو اثر چھوڑا کرتی ہے اس میں عموماً یہ اصول کارفرما ہوتا ہے کہ بچے ماں باپ کی کمزوریوں کو پکڑنے میں تیزی کرتے ہیں اور ان کی باتوں کی طرف کم توجہ کرتے ہیں۔ اگر باتیں عظیم کردار کی ہوں گی اور بیچ میں سے کمزوری ہو تو بچہ بیچ کی کمزوری کو پکڑے گا۔ اس لئے یاد رکھیں کہ بچوں کی تربیت کے لئے آپ کو اپنی تربیت ضرور کرنی ہو گی۔ ان بچوں کو آپ یہ نہیں کہہ سکتے کہ بچو! تم سچ بولا کرو تم نے مبلغ بننا ہے، تم بد دیانتی نہ کیا کرو تم نے مبلغ بننا ہے، تم غیبت نہ کیا کرو، تم لڑا جھگڑا نہ کرو۔ اور یہ باتیں کرنے کے بعد پھر ماں باپ ایسا لڑیں جھگڑیں ، پھر ایسی مغلظات بکیں ایک دوسرے کے خلاف، ایسی بے عزتیاں کریں کہ وہ کہیں کہ بچے کو تو ہم نے نصیحت کر دی اب ہم اپنی زندگی بسر کر رہے ہیں۔ یہ نہیں ہو سکتا جو ان کی اپنی زندگی ہے وہی بچے کی زندگی ہے۔ جو فرضی زندگی انہوں نے بنائی ہوئی ہے کہ یہ کرو! بچے کو کوڑی کی بھی اس کی پرواہ نہیں۔ ایسے ماں باپ جو جھوٹ بولتے ہیں وہ لا کھ بچوں کو کہیں کہ جب تم جھوٹ بولتے ہو تو بڑی تکلیف ہوتی ہے ، تم خدا کے لئے سچ بولا کرو، سچائی میں زندگی ہے۔ بچہ کہتاہے کہ ٹھیک ہے یہ بات لیکن اندر سے وہ یہ سمجھتا ہے کہ ماں باپ جھوٹے ہیں اور وہ ضرور جھوٹ بولتا ہے۔ اس لئے دو نسلوں کے جوڑ کے وقت یہ اصول کارفرما ہوتا ہے اور اس کو نظر انداز کرنے کے نتیجے میں آپس میں خلا پیدا ہو جاتے ہیں۔ جن یورپین ممالک میں میں نے سفر کئے ہیں ہر ایک یہ شکایت کرتا ہے کہ ہماری نسل اور اگلی نسل کے درمیان ایک خلا پیدا ہو گیا ہے اور میں ان کو سمجھانے کی کوشش کرتا ہوں کہ یہ خلا تم نے پیدا کیا ہے۔ تم نے زبانی طور پر ان کو اعلیٰ اخلاق سکھانے کی کوشش کی، تم نے زبانی طور پر ان کو اعلیٰ کردار سمجھانے کی کوشش کی۔ تم نے کہا کہ اس طرح خلط ملط نوجوانوں سے ٹھیک نہیں ، اس طرح تمہیں یہ حرکتیں کرنا مناسب نہیں ہیں ۔ لیکن تمہاری زندگیوں میں اندرونی طور پر انہوں نے یہی باتیں دیکھیں جن کے اوپر کچھ ملمع تھا ، کچھ دکھاوے کی چادریں پہنچائی گئیں تھیں ۔ اور درحقیقت یہ بچے جانتے تھے اور یہ سمجھتے تھے کہ تم خود ان چیزوںمیں زیادہ دلچسپی لیتے ہو۔ اس لئے وہ وہ بنے ہیں جو تمہاری اندرونی تصویر تھی ۔ اور تم جو خلا محسوس کر رہے ہو اپنی بیرونی تصویر سے محسوس کر رہے ہو۔ وہ تصویر جو تم دیکھنا چاہتے تھے ان میں جو تمہارے تصور کی دنیا تھی تمہارے عمل کی دنیا بن گئی۔ لیکن تمہارے تصور کی دنیا کی کوئی تعبیر نہیں پیدا ہوئی اس لئے تم بظاہر اس کو خلا سمجھ رہے ہوحالانکہ یہ تسلسل ہے۔ برائیوں کا تسلسل ہے جسکی چوٹیاں بلند تر ہوتی چلی جا رہی ہیں۔ یا اگر گہرائی کی اصطلاحوں میں باتیں کریں تو قعر مذلت کی طرف بڑھتی چلی جا رہی ہیں ۔ تو جماعت احمدیہ کو اگلی نسلوں کے کردار کی تعمیر میں اس اصول کو ہمیشہ یاد رکھنا ہو گا ورنہ وہ ہمیشہ دھوکا میں مبتلا رہیں گے اور اگلی نسلوں سے ان کا اختیار جاتا رہے گاوہ ان کی باتیں نہیں مانیں گے۔ خصوصاً واقفینِ نو بچوں پر بہت گہری ذمہ داریاں ہیں ۔ یہ پانچ ہزار یا زائد بچے جتنے بھی اس دَور میں پیش ہوئے ہیں انہوں نے اگلی دنیا سنبھالی ہے، اگلی نسلوں کی تربیت کرنی ہے، نئے قوموں کے چیلنجوں کا سامنا کرنا ہے اور اسلام کی نمائندگی کرتے ہوئے بڑے بڑے مقابلے کرنے ہیں بڑے بڑے معرکے سَر کرنے ہیں۔ آپ اگر اس مضمون کو بھول کر عام غفلت کی حالت میں اپنی سابقہ زندگی بسر کرتے چلے جائیں گے تو آئندہ پیدا ہونے والے واقفین پر آپ کے بد اثرات مرتب ہو جائیں گے۔ اور پھر جماعت جتنا بھی کوشش کرے گی ان کی ایسی اصلاح نہیں کر سکتی۔ میں نے دیکھا ہے جامعہ میں جو بدعادتوں والے بچے آتے ہیں لا کھ زور ماریں ان کی بد عادتیں کچھ نہ کچھ مدھم پڑ جاتی ہیں مٹتی نہیں ۔ بد عادت کو مٹانا بہت مشکل کام ہے ہاں اندرونی طور پر بعض لوگوں میں ایک دم تقویٰ کی حالت پیدا ہو جاتی ہے، خدا کا خوف پیدا ہو جاتا ہے تو پھر اس اندرونی طاقت کے ذریعے خدا تعالیٰ کے فضل سے اپنی ساری بدیوں کو اتار پھینکتے ہیں لیکن اس کو انقلاب کہا جاتا ہے ۔ میں اس وقت ایسے انقلاب کی بات نہیں کر رہا۔ میں تربیت کے اصولوں کی بات کر رہا ہوں۔ جہاں تک تربیت کا تعلق ہے آپ نے اگر یہ واقفین اچھی حالت میں، سلجھی ہوئی طبیعتوں کے ساتھ جماعت کے سامنے پیش کئے تو انشاءاللہ تعالیٰ اس جوہرِ قابل سے بہت عظیم انقلابات برپا ہوں گے اور جماعت ان سے بڑے بڑے عظیم فوائد حاصل کر سکے گی۔ لیکن اگر معمولی کجیوں والے بھی آئے تو بعض دفعہ وہ کجیاں پھر بڑھنی شروع ہو جاتی ہیں ۔ بعض دیواروں میں رخنے پڑتے ہیں وہ سطحی ہوتے ہیں اور انجینئر دیکھتے ہیں کہ کوئی خطرے کی بات نہیں۔ مگر بعض گہرے ہوتے ہیں اور وہ وقت کے ساتھ پھٹنے شروع ہوجاتے ہیں اور پھر چھتیں بھی ان کی وجہ سے گر جاتی ہیں ۔ تو بنیادی اخلاقی کمزوریاں ان گہرے رخنوں کے مشابہ ہوا کرتی ہیں ان کو اگر ایک دفعہ آپ نے پیدا ہونے دیا تو آئندہ نسلوں کی چھتیں گرا دیں گے۔ اس لئے خدا کا خوف کرتے ہوئے، استغفار کرتے ہوئے اس مضمون کو خوب اچھی طرح ذہن نشین کریں تا کہ آپ کی یہ پاکیزہ تبدیلی اگلی نسلوں کی اصلاح اور انکی روحانی ترقی کے لئے کھاد کا کام دے اور بنیادوں کا کام دے جس پر عظیم عمارتیں تعمیر ہوں گی۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے ۔آمین
(خطبات طاہر۔ سن اشاعت 2007ء۔ناشر طاہر فاؤنڈیشن قادیان انڈیا۔ جلد 8 ۔صفحہ 600 تا 606)
جو واقفینِ نو کی فوج ہے اس پر آئندہ بیس سال تک بہت بڑی بڑی ذمے داریاں پڑنے والی ہے۔ اور اس پہلو سے میں جماعت کے اس حصے کو نصیحت کرتا ہوں جس کو خدا تعالیٰ نے وقفِ نو میں شمولیت کی توفیق عطا فرمائی کہ وہ تحریکِ جدید کی ہدایات کے مطابق اپنے بچوں کی تیاری میں پہلے سے زیادہ بڑھ کر سنجیدہ ہو جائیں اور بہت کوشش کر کے ان واقفین کو خدا تعالیٰ کی راہ میں عظیم الشان کام کرنے کے لئے تیار کرنا شروع کریں۔ بچے تیار کرنا خدا کی خاطر، اس سے بہت زیادہ اہمیت رکھتا ہے جتنا عید پر قربانی کے لئے لوگ جانور تیار کرتے ہیں اور میں نے دیکھا ہے کہ ہمارے مُلک میں تو یہ رواج ہے کہ بعض لوگ دوسری نیکیاں کچھ کریں یا نہ کریں ، نماز پڑھیں یا نہ پڑھیں لیکن عید کی قربانی کے لئے مینڈھا بڑے پیار سے پالتے ہیں اور بہت بہت اس پر خرچ کرتے ہیں۔ بعض دفعہ ایسے مزدور بھی ہیں جو اپنے بچوں کا پیٹ پوری طرح پال نہیں سکتے لیکن اپنے مینڈھے کو چنے ضرور کھلائیں گے کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ یہ خدا کی راہ میں قربان کرنے کے لئے پیش کرنا ہے اور پھر اسے سجاتے ہیں اور اس پر کئی قسم کے زیور ڈالتے ہیں، پھول چڑھاتے ہیں، اس کو مختلف رنگ میں رنگ دیتے ہیں اور جب قربانی کے لئے لے کر جاتے ہیں تو بہت ہی سجا کر جس طرح دلہن جا رہی ہو اس طرح وہ سجا کر لے جاتے ہیں۔
یہ بچے قربانی کے مینڈھے سے بہت زیادہ عظمت رکھتے ہیں اور ان کے ماں باپ کو اس سے بہت زیادہ محبت سے ان کو خدا کے حضور پیش کرنا چاہئے جتنی محبت سے خدا کی راہ میں بکرا ذبح کرنے والا اس کی تیاری کرتا ہے یا مینڈھے کی تیاری کرتا ہے ۔ ان کا زیور کیا ہے وہ تقویٰ ہے۔ تقویٰ ہی سے یہ سجائے جائیں گے اس لئے سب سے زیادہ اہمیت اس بات کی ہے کہ ان واقفینِ نو کو بچپن ہی سے متقی بنائیں اور ان کے ماحول کو پاک اور صاف رکھیں۔ ان کے سامنے ایسی حرکتیں نہ کریں جن کے نتیجے میں ان کے دل دین سے ہٹ کر دنیا کی طرف مائل ہونے لگ جائیں ۔ پوری توجہ ان پر اس طرح دیں جس طرح ایک بہت عزیز چیز کو ایک بہت عظیم مقصد کے لئے تیار کیا جا رہا ہو۔ اور اس طرح ان کے دل میں تقویٰ بھر دیں کہ پھر یہ آپ کے ہاتھ میں کھیلنے کی بجائے براہ راست خدا کے ہاتھ میں کھیلنے لگیں اور جس طرح ایک چیز دوسرے کے سپرد کر دی جاتی ہے۔ تقویٰ ایک ایسی چیز ہے جس کے ذریعے آپ یہ بچے شروع ہی سے خدا کے سپرد کر سکتے ہیں اور درمیان کے سارے واسطے اور سارے مراحل ہٹ جائیں گے۔ رسمی طور پر تحریکِ جدید سے بھی واسطہ رہے گا اور نظامِ جماعت سے بھی واسطہ رہے گامگر فی الحقیقت بچپن ہی سے جو بچے آپ خدا کی گود میں لا ڈالیں خدا خود ان کو سنبھالتا ہے اور خود ہی ان کا انتظام فرماتا ہے خود ہی ان کی نگہداشت کرتا ہے جس طرح کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کی خدا نے نگہداشت فرمائی آپ لکھتے ہیں۔
ابتدا سے تیرے ہی سایہ میں میرے دن کٹے
گود میں تیری رہا میں مثلِ طفلِ شیر خوار
آپ ؑنے یقیناً بڑی وسیع نظر سے اور گہری نظر سے اپنے ماضی کا مطالعہ کیا ہوگا تب جا کر اس شعر کا مضمون آپؑ کے دل سے ہوَیدا ہوا ہے ظاہر ہوا ہے۔ آپؑ نے غور کیا ہو گا بچپن میں دودھ پیتے کے زمانے تک بھی جہاں تک یادداشت جاتی ہو کہ ابتداءہی سے خدا کا پیار دل میں تھا، خد اکا تعلق دل میں تھا، ہر بات میں خدا حفاظت فرما رہا تھا، ہر قدم پر اللہ تعالیٰ راہنمائی فرما رہا تھااور جس طرح طفل شیر خوار ماں کی گود میں ہوتا ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة السلام عرض کرتے ہیں کہ اے خدا میں تو ہمیشہ تیری گود میں رہاپس ان بچوں کو خدا کی گود میں دے دیں ۔ کیونکہ ذمے داریاں بہت بڑی ہیں اور کام بہت زیادہ ہیں۔ ہماری تعداد کوئی بھی حیثیت نہیں رکھتی ان قوموں کے مقابل پر جن کو ہم نے اسلام کے لئے فتح کرنا ہے۔ ہماری عقلیں ہمارے علوم ہماری دنیاوی طاقتیں ان قوموں کی عقلیں اور علوم اور دنیاوی طاقتوں کے مقابل پر کوئی بھی حیثیت نہیں رکھتیں جن کو ہم نے خدا کے لئے فتح کرنا ہے۔
اپنے واقفین کے وجود کو خد اکے سپرد کر دیں
پس ایک ہی راہ ہے اور صرف ایک ہی راہ ہے کہ ہم اپنے وجود کو اور اپنی واقفین کے وجود کو خدا کے سپرد کر دیں اور خد اکے ہاتھوں میں کھیلنے لگیں۔ امر واقعہ یہ ہے کہ کوئی چیز خواہ کیسی بھی کمزور کیوں نہ ہو اگر وہ طاقتور کے ہاتھ میں ہو توحیرت انگیز کام دکھاتی ہے ۔ کوئی چیز کیسی ہی بے عقل کیوں نہ ہو اگر صاحبِ فہم و عقل کے ہاتھ میں ہو تو اس سے عظیم الشان کام لئے جا سکتے ہیں ۔ ہم تو محض مہرے ہیں اور اس حیثیت کو ہمیشہ سمجھنا اور ہمیشہ پیش نظر رکھنا احمدی کے لئے ضروری ہے۔ آپ نے دیکھا نہیں شطرنج کھیلنے والے ان مہروں سے کھیلتے ہیں جن میں اتنی بھی طاقت نہیں ہوتی کہ ایک گھر سے اٹھ کر دوسرے گھر تک جا سکیں۔ عقل کا کیا سوال شعور کا ادنی ٰاحساس بھی موجود نہیں ہوتا کہ وہ یہ معلوم کریں کہ کس گھر میں جانا ہماری بقاءکے لئے ضروری ہے اور کس گھر میں جانا شکست کا اعلان ہو گا۔ بے جان بے طاقت مہرے جو ہِل بھی نہیں سکتے ، سوچ بھی نہیں سکتے اور ایک صاحبِ فہم اچھا شاطر شطرنج کا ماہر اُن کو اِس طرح چلاتا ہے کہ بڑے سے بڑے عقل والوں کو بھی شکست دے دیتا ہے اور شکست اور فتح کا فیصلہ ان بے جان مہروں کی بساط پر ہو رہا ہوتا ہے جو نہ طاقت رکھتے ہیں نہ عقل رکھتے ہیں۔ پس خدا کے عظیم کام بھی اسی طرح چلتے ہیں۔ ہم ان بے جان مہروں کی طرح ہیں۔ ہمارے سامنے بھی کچھ مہرے ہیں لیکن ان مہروں کی طاقت شیطان کے ہاتھ میں ہے، بے خداؤں کے ہاتھ میں ہے اور کچھ مہرے ایسے بھی ہیں جو خود خدا سمجھ رہے ہیں اپنے آپ کو، اور خود چلتے ہیں اور خود سوچنے کی بھی طاقت رکھتے ہیں۔ اس کے مقابل پر ہم وہ بے جان مہرے ہیں جن میں نہ کوئی طاقت ہے نہ کوئی دماغ ہے مگر ہم اپنے خدا کے ہاتھ میں ہیں یہ احساس انکساری جو سچا ہے جس میں کوئی ایسی بات نہیں جو انکساری کی خاطر گرا کر پیش کی گئی ہو۔ امرِ واقعہ ہے کہ دنیا کے مقابل پر ہماری حیثیت اس سے زیادہ نہیں ہے۔ ہاں خدا اگر چاہے اور وہ ہم سے کام لینا شروع کرے اور ہم اپنے آپ کو اس کے سپرد کر دیں تو یہ شطرنج کی بازی یقیناً اسلام کے حق میں جیتی جائے گی کوئی دنیا کی طاقت اس بازی کو الٹا نہیں سکتی۔ اسلام کے خلاف اس پہلو سے ان بچوں کی تیاری کی ضرورت ہے۔ ان کو خدا کے سپرد کریں اور جہاں تک تحریکِ جدید کا ان پر نظر رکھنے کا تعلق ہے جیسا کہ مَیں نے پہلے بیان کیا تھا ان کو مَیں نے ہدایت دی ہے وہ تیاری بھی کر رہے ہیں۔ مجھے صرف ڈر یہ ہے کہ اس تیاری میں دیر نہ کر دیں یہ سمجھتے ہوئے کہ ابھی تو چھوٹے بچے ہیں ابھی انہوں نے بڑے ہونا ہے۔ حالانکہ بچپن ہی سے بچوں کو سنبھالیں گے تو سنبھالے جائیں گے جب غلط روش پر بڑے ہو گئے تو اس غلط روش کو بعد میں درست کرنا بہت ہی محنت کا اور جان جوکھوں کا کام بن جاتا ہے۔ یہ وقت ہے کہ یہ نرم نرم کونپلیں ہیں اس وقت ان کو جس ڈھب پر چاہیں یہ چل سکتے ہیں۔ اِس وقت اِن کی طرف توجہ کریں اور اِس وقت اِن کو سنبھالیں اور ساری دنیا میں ہر واقفِ نو کی زندگی پر جماعت کے نظام کی نظر رہنی چاہیئے اور اِن کے والدین سے رابطے ہونے چاہیئں اور ان کو پتہ ہونا چاہیئے کہ ہم ایک زندہ نظام کے ساتھ ہیں جس کے ذریعے خدا کی تقدیر کارفرماہے۔ یہ احساس بہت ضروری ہے یہ احساس تبھی پیدا ہو گا جب تحریکِ جدید کا مرکزی نظام ان لوگوں سے فعال اور زندہ رابطے رکھے گا اور خبریں لے گا کہ بتاؤ! اس بچے کا کیا حال ہے جو تم نے خدا کے سپرد کیا ہے۔ کتنی بڑی ذمہ داری ہے کہ تمہارے گھر میں خدا کا ایک مہمان ہے ویسے تو ہم خدا کے ہیں لیکن ایسا مہمان ہے جس کو تم خدا کے لئے تیار کر رہے ہو ۔ کیا سوچ رہے ہو ۔ کس طرح ان کی پرورش کر رہے ہو ۔ ہمیں بتایا کرو ہمیں اس کے حالات سے باخبر رکھو اس کی صحت سے باخبر رکھو اس کے چال ڈھال، اس کے انداز سے باخبر رکھو اور باقاعدہ ان کو ہدایتیں دیں کہ ہم چاہتے ہیں کہ تم اس بچے سے یہ کام لو اور اس بچے سے یہ کام لو۔
بچپن میں مختلف زبانیں سیکھنے کی اہمیت
اس ضمن میں مَیں سمجھتا ہوں کہ وہ بچے خصوصیت سے جو مغربی دنیا میں وقف ہیں ان کو اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ دوسری دنیا کے بچوں کے مقابل پر یہ بہت زیادہ سہولت حاصل ہے کہ وہ مختلف زبانیں سیکھ سکیں۔ زبانیں سیکھنا بہت مشکل کام ہے اور بچپن ہی سے شروع ہونا چاہیئے۔ اور زبانیں سکھانا بھی بہت مشکل کام اور بڑے بڑے ماہرین کی ضرورت ہے جنہوں نے زندگیاں اس کام کے لئے وقف کر رکھی ہوں اور بڑی بڑی وسیع تحقیقات میں وہی نہیں بلکہ ان کے بہت سے ساتھی بھی ایک لمبا عرصہ تک مصروف رہے ہوں۔ ایسی سہولتیں مغرب کے ترقی یافتہ ممالک میں میسر ہیں۔ اس پہلو سے تحریکِ جدید کو چاہیئے کہ مشرقی یورپ اور اشتراکی دنیا کے ان ممالک کے لئے جہاں عموماً مغربی زبانیں بولی جاتی ہیں اور پھر چین کے لئے اور دوسرے کوریا ، شمالی کوریا اور ویت نام وغیرہ کے لئے جہاں مشرقی زبانیں بولی جاتی ہیں معین طور پر بچوں کو ابھی سے نشان لگا دیں جس کو انگریزی میں ear markکرنا کہتے ہیں اور اگر فی الحال ان کی نظر میں دس کی ضرورت ہے تو بیس یا تیس تیار کریں۔ اب یہ تو اعداد و شمار دیکھ کر فیصلہ ہو گا کہ کس مُلک کے لئے کتنے بچے تیار کئے جا سکتے ہیں لیکن ابھی سے یہ کام کرنے کی ضرورت ہے۔ مثلاً اگر پولینڈ کے لئے ہم نے کچھ بچے تیار کرنے ہیں تو ایسے ممالک سے جہاں پولش زبان سیکھنے کی سہولت ہے واقفین بچے لینے چاہیئں۔ جرمنی میں اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ جماعت کافی تعداد میں موجود ہے۔ اور جرمنی کی جماعت چونکہ اللہ کے فضل سے قربانی میں بھی بہت پیش پیش ہے وہاں ایک بڑے تعداد ایسے جوڑوں کی ہے جنہوں نے اپنے بچے وقف کئے ہیں اور ابھی بھی کر رہے ہیں تو وہاں سے بچوں سے جو کسی خاص زبان سیکھنے کی سہولت رکھتے ہوں وہی کام لینے چاہیئں جو ان کے مناسب حال ہیں۔ اس پہلو سے اور بھی بہت سی ایسی زبانیں ہیں جن کا جرمنی سے تعلق ہے اور جرمن قوم ان سے پرانے تاریخی روابط رکھتی ہے۔ پھر انگلستان میں بھی بہت سے زبانوں کے سیکھنے کا انتظام ہے یہاں بھی کچھ بچے خاص زبانوں کے لئے تیار کئے جا سکتے ہیں۔شمالی یورپ میں سکینڈے نیویا میں بھی بعض خاص زبانوں کے سیکھنے کا انتظام باقی جگہوں سے زیادہ ہے وہاں خصوصیت سے بعض گھروں بعض خاص ملکوں کے لئے تیار کئے جا سکتے ہیں۔ غرضیکہ یہ ایک ایسا کام ہے جس کو عمومی نظر سے دیکھ کر فیصلہ نہیں کیا جا سکتا۔ تفصیلی نظر سے سب بچوں پر نظر ڈالتے ہوئے لڑکوں اور لڑکیوں پر یہ فیصلہ کرنا ہو گا کہ ہم نے فلاں ملک کے لئے دس یا بیس یا تیس واقفین زندگی تیار کرنے ہیں ۔ ان میں سے اتنی لڑکیاں ہونگی جو علمی کاموں میں گھربیٹھے خدمت دین کر سکتی ہوں انکو اس خاص طرز سے تیار کرنا ہوگا اتنے لڑکے ہونگے جن کو ہم نے ان میدانوں میں جھونکنا ہے اللہ تعالیٰ کے فضل اور رحم کے ساتھ۔ پھر انکو صرف وہی زبان نہیں چاہیئے جس زبان کے لئے ان کو تیار کیا جارہا ہے بلکہ اردو زبان کی بھی شدید ضرورت ہو گی تا کہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کا لٹریچر خود اردو میں پڑھ سکیں۔ عربی زبان کی بنیادی حیثیت ہے کیونکہ قرآن کریم اور احادیث نبویہ عربی میں ہیں عربی زبان بھی سکھانے کی ضرورت پڑے گی۔ پس تین زبانیں تو کم از کم ہیں۔ یعنی اسکے علاوہ کوئی زبان سیکھے تو چاہے سیکھے لیکن تین زبانوں سے کم کا تو کوئی سوال ہی نہیں۔ اسلئے یہ بھی بتانا ہو گا کہ جہاں تم پولش سیکھ رہے ہو، یا ہنگرین سیکھ رہے ہو، چیکو سلواکین سیکھ رہے ہو یا رومانین سیکھ رہے ہو یا البانین سیکھ رہے ہو ساتھ ساتھ لازماً تمہیں اردو اور عربی بھی سیکھنی ہو گی اور اسکے بھی جہاں تک میرا علم ہے ان ممالک میں انتظامات موجود ہیں۔ اگر نہیں ہیں تو تحریکِ جدید کو تو مَیں آغاز ہی سے یہ نصیحت کر رہا ہوں کہ اردو اور عربی سکھانے کے لئے ویڈیو کیسٹس تیار کریں اور آسان طریق پر ایسی ویڈیو تیار کرے جن کا جماعت کے لٹریچر سے تعلق ہو اور اسلامی اصطلاحیں اس میں استعمال ہوتی ہوں۔ کیونکہ اگر ہم بازار سے بنی بنائی زبانیں سیکھنے کی ویڈیوز لیں یا آوڈیو کیسٹس لیں تو جو زبان اس میں سکھائی جاتی ہے وہ اکثر ہمارے کام کی نہیں ہے۔ اس میں تو وہ یہ بتائیں گے کہ porkکس طرح مانگا جائے گا اور شراب کس طرح مانگی جائے گی اور ہوٹل میں کس طرح جا کر ٹھہرنا ہے۔ اور ناچ گانے کے گھروں کی تلاش کس طرح کرنی ہے۔ روز مرّہ کی اپنی زندگی کے مطابق انہوں نے زبان بنائی ہوئی ہے۔ اس زبان سے ہمارے بچوں کو تبلیغ کرنی کیسے آسکتی ہے۔ اسلئے زبان کا ڈھانچہ تو سیکھ سکتے ہیں لیکن اس زبان کو معنی خیز الفاظ سے بھرنے کا کام لازماً جماعت کو خود کرنا ہو گا اور وہ ایک خاص منصوبے کے مطابق ہو گا۔ تو دیر ہو رہی ہے اب یہ بچے کھیلنے لگ گئے ہیں انکی بعض دفعہ تصویریں آتی ہیں تو پتا چلتا ہے کہ جو چار سال پہلے بچہ پیدا ہوا تھا جو وقفِ زندگی تھا اور وہ باتیں کرتا دوڑتا پھرتا اور انکے ماں باپ بڑی محبت کے ساتھ انکی تصویریں بھجواتے اور بعض دفعہ وہ اپنے ہاتھ سے چھوٹے موٹے خط بھی لکھتے ہیں ۔ مجھے بعض ایسے بھی خط لکھتے ہیں کہ شروع سے آخر تک صرف لکیریں ڈالی ہوتی ہیں اور بچہ سمجھ رہا ہوتا ہے کہ مَیں نے خط لکھا ہے مگر اس خط کا بڑا مزا آتا ہے کیونکہ ایک واقفِ زندگی کو شروع سے ہی خلیفۂ وقت سے محبت پیدا کرنے کا یہ بھی ایک گر ہے۔ اس کے دل میں محبت ڈالنے کا ذاتی تعلق پیدا ہو جائے۔ بہرحال یہ کام تو ہو رہے ہیں لیکن جلدی اس بات کی ہے کہ انکو سنبھالنے کے لئے جو ٹھوس تیاری ہونی چاہیئے اس میں مجھے ڈر ہے کہ ہم پیچھے رہ رہے ہیں۔ اسلئے اس کام کی طرف توجہ ہونی چاہیئے اور جب تک تحریکِ جدید معین طور پر واقفین زندگی کو مطلع نہیں کرتی کہ تم نے یہ کام کرنے ہیں ۔ دو کام تو ان کو پتا ہی ہیں۔ دو نہیں تین۔ اوّل تقویٰ کی بات مَیں نے کی ہے بچپن سے انکے دل میں تقویٰ پیدا کریں اور خدا کی محبت پیدا کریں اور دو زبانیں جو سیکھنی ہیں عربی اور اردو، وہ تو سب پر قدر مشترک ہیں اس میں کوئی تفریق نہیں کوئی امتیاز نہیں ۔ ہر احمدی واقفِ نو عربی بھی سیکھے گا اور اردو بھی سیکھے گا اس پہلو سے جہاں جہاں انتظامات ہو سکتے ہیں وہاں وہاں وہ انتظامات کریں اور تیاری شروع کر دیں۔
(خطبات طاہر۔ سن اشاعت 2007ء۔ناشر طاہر فاؤنڈیشن قادیان انڈیا۔ جلد 8 ۔ صفحہ 776 تا 782)
……….آج اس مسیح موعودؑ کو ماننے والی ماؤں اور باپوں نے خلیفۂ وقت کی تحریک پر انبیاءاور ابرار کی سنّت پر عمل کرتے ہوئے مسیح موعودؑ کی فوج میں داخل کرنے کے لئے اپنے بچوں کو پیدائش سے پہلے پیش کیا اور کرتے چلے جارہے ہیں۔اس بارہ میں حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ؒ فرماتے ہیں کہ جیسے حضرت مریم ؑ کی والدہ نے یہ التجا کی خداسے رَبِّ اِنِّی ْ نَـذَرْتُ لَکَ مَا فِیْ بَـطْنِیْ مُـحَرَّ رًا فَـتَـقَبـَّلْ مِنِّیْ ج اِنَّکَ اَنْـتَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْـمُ کہ اے میرے ر بّ! جو کچھ بھی میرے پیٹ میں ہے میں تیرے لئے پیش کررہی ہوں۔مجھے نہیں پتہ کیا چیز ہے ۔لڑکی ہے کہ لڑکا ہے ۔ا چھا ہے یا بُراہے ۔مگر جو کچھ ہے مَیں تمہیں دے رہی ہوں۔ فَـتَـقَبـَّلْ مِنِّیْ مجھ سے قبول فرما۔ اِنَّکَ اَنْـتَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْـمُ توبہت ہی سننے والا اور جاننے والاہے۔ یہ دعا خداتعالیٰ کو ایسی پسند آئی کہ اسے قرآن کریم میں آئند ہ نسلوں کے لئے محفوظ کرلیا۔اسی طرح حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دعا اپنی اولاد کے متعلق اوردوسرے انبیاءکی دعائیں اپنی اولاد کے متعلق، یہ ساری قرآن کریم میں محفوظ ہیں ۔بعض جگہ آپ کو ظاہر طور پر وقف کا مضمون نظر آئے گا اوربعض جگہ نہیں آئے گا جیسا کہ یہاں آیا مُـحَرَّرًا اے خدا ! میں تیری پناہ میں اس بچے کووقف کرتی ہوں ۔لیکن بسا اوقات آپ کو یہ دعا نظر آئے گی کہ اے خدا! جونعمت تونے مجھے دی ہے ،وہ میری اولاد کوبھی دے اور ان میں بھی انعام جاری فرما….پھر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جو چلّہ کشی کی تھی وہ بھی اسی مضمون کے تحت آتی ہے۔آپ چالیس دن یہ گریہ وزاری کرتے رہے دن رات کہ اے خدا! مجھے اولاد دے اوروہ دے جوتیری غلام ہوجائے،میری طرف سے ایک تحفہ ہوتیرے حضور۔ تویہ ہے سنّتِ انبیاء،سنّتِ ابرار۔اوراس زمانہ میں اسی سنت پر عمل کرتے ہوئے یہ ہے احمدی ماؤں اور باپوں کا عمل ،خوبصورت عمل، جواپنے بچوں کوقربان کرنے کے لئے پیش کررہے ہیں، جہاد میں حصّہ لے رہے ہیں لیکن علمی اورقلمی جہاد میں ۔ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی فوج میں داخل ہوکر۔ اوران شاءاللہ تعالیٰ یہی لوگ فتح یاب ہوں گے جن میں خلافت اورنظام قائم ہے۔ اسکے علاوہ اور کوئی دوسرا طریق کامیاب ہونے والا نہیں ۔جسطرح دکھاوے کی نمازوں میں ہلاکت ہے اسی طرح اس دکھاوے کے جہادمیں بھی سوائے ہلاکت کے اور کچھ نہیں ملے گا۔ لیکن جن ماؤں اورجن باپوں نے قربانی سے سرشارہوکر ،اس جذبہ سے سرشار ہوکر ،اپنے بچوں کوخدمتِ اسلام کے لئے پیش کیا ہے ان پر کچھ ذمہ داریاں بھی عائد ہوتی ہیں کیونکہ کچھ عرصہ بھی اگر توجہ نہ دلائی جائے تو بعض دفعہ والدین اپنی ذمہ داریوں کوبھول جاتے ہیں اس لئے گوکہ شعبہ وقفِ نو تو جہ دلاتارہتا ہے لیکن پھر بھی مَیں نے محسوس کیا کہ کچھ اس بارہ میں عرض کیا جائے ۔ اس ضمن میں ایک اہم بات جو ذہن میں رکھنے کی ضرورت ہے حضرت خلیفة المسیح الرابع رحمہ اللہ علیہ کے الفاظ میں مَیں پیش کرتاہوں۔ فرمایا:-
’’اگر ہم اِن واقفینِ نو کی پرورش اور تربیت سے غافل رہے تو خدا کے حضور مجرم ٹھہریں گے۔ اور پھر ہرگز یہ نہیں کہا جاسکتا کہ اتفا قاً یہ واقعات ہوگئے ہیں۔ اس لئے والدین کوچاہیے کہ اِن بچوں کے اوپر سب سے پہلے خود گہر ی نظر رکھیں اوراگر خدانخوستہ وہ سمجھتے ہوں کہ بچہ اپنی افتاد طبع کے لحاظ سے وقف کا اہل نہیں ہے تو ان کو دیانتداری اورتقویٰ کے ساتھ جماعت کو مطلع کرناچاہیے کہ مَیں نے تواپنی صاف نیّت سے خدا کے حضور ایک تحفہ پیش کرنا چاہا تھا مگر بد قسمتی سے اِس بچے میں یہ یہ باتیں ہیں۔ اگر اِن کے باوجود جماعت اس کے لینے کے لئے تیار ہے تو میں حاضر ہوں ورنہ اس وقف کو منسوخ کردیاجائے۔‘‘
والدین نے تو اپنے بچوں کو قربانی کے لئے پیش کردیا۔جماعت نے ان کی صحیح تربیت اوراٹھان کے لئے پروگرام بھی بنائے ہیں لیکن بچہ نظامِ جماعت کی تربیت میں تو ہفتہ میں چند گھنٹے ہی رہتاہے۔ ان چند گھنٹوں میں اس کی تربیت کا حق ادا تونہیں ہوسکتا اس لئے یہ بہر حال ماں باپ کی ذمہ داری ہے کہ اس کی تربیت پر توجہ دیں ۔اوراس کے ساتھ پیدائش سے پہلے جس خلوص اوردعا کے ساتھ بچے کو پیش کیاتھا اس دعا کا سلسلہ مستقلاً جاری رکھیں یہاں تک کہ بچہ ایک مفید وجود بن کر نظامِ جماعت میں سمویاجائے۔بلکہ اس کے بعد بھی زندگی کی آخری سانس تک ان کے لئے دعا کرتے رہنا چاہیے کیونکہ بگڑتے پتہ نہیں لگتا ۔اس لئے ہمیشہ انجام بخیر کی اوراس وقف کو آخر تک نبھانے کی طرف والدین کوبھی دعا کرتے رہنا چاہیے ۔
واقفینِ نو میں وفا کا مادہ پیدا کریں
چند باتیں جو تربیت کے لئے ضروری ہیں اب مَیں آگے واقفینِ نو بچوں کی تربیت کے لئے جووالدین کوکرنا چاہیے اوریہ ضروری ہے پیش کرتاہوں۔اس میں سب سے اہم بات وفا کامعاملہ ہے جس کے بغیر کوئی قربانی ،قربانی نہیں کہلاسکتی ۔ اس بارہ میں حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ؒ کے الفاظ میں چند باتیں کہوں گا۔ آپ نے والدین کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ ’’ واقفین بچوں کو وفا سکھائیں۔ وقفِ زندگی کا وفا سے بہت گہرا تعلق ہے۔ وہ واقفِ زندگی جو وفا کے ساتھ آخری سانس تک اپنے وقف کے ساتھ نہیں چمٹتا وہ جب الگ ہوتا ہے تو خواہ جماعت اس کو سزا دے یا نہ دے وہ اپنی روح پر غدّاری کا داغ لگا لیتا ہے اور یہ بہت بڑا داغ ہے۔ اس لئے آپ نے جو فیصلہ کیا ہے اپنے بچوں کو وقف کرنے کا، یہ بہت بڑا فیصلہ ہے۔ اس فیصلے کے نتیجہ میں یا تو یہ بچے عظیم اولیاءبنیں گے یا پھر عام حال سے بھی جاتے رہیں گے اور ان کو شدید نقصان پہنچنے کا بھی احتمال ہے۔ جتنی بلندی ہو اتنا ہی بلندی سے گرنے کا خطرہ بھی تو بڑھ جایا کرتا ہے۔ اس لئے بہت احتیاط سے ان کی تربیت کریں اور ان کو وفا کے سبق دیں اور بار بار دیں۔۔۔ بعض بچے شوخیاں کرتے ہیں اور چالاکیاں کرتے ہیں اور ان کو عادت پڑ جاتی ہے۔ وہ دین میں بھی پھر ایسی شوخیوں اور چالاکیوں سے کام لیتے رہتے ہیں اور اس کے نتیجہ میں بعض دفعہ ان شوخیوں کی تیزی خود ان کے نفس کو ہلاک کر دیتی ہے۔ اس لئے وقف کا معاملہ بہت اہم ہے۔ واقفین بچوں کو یہ سمجھائیں کہ خدا کے ساتھ ایک عہد ہے جو ہم نے تو بڑے خلوص کے ساتھ کیا ہے۔ لیکن اگر تم اس بات کے متحمل نہیں ہو تو تمہیں اجازت ہے کہ تم واپس چلے جاؤ۔ ایک گیٹ اور بھی آئے گا جب یہ بچے بلوغت کے قریب پہنچ رہے ہوں گے۔ اسوقت دوبارہ جماعت ان سے پوچھے گی کہ وقف میں رہنا چاہتے ہو یا نہیں چاہتے۔۔۔۔ وقف وہی ہے جس پر آدمی وفا کے ساتھ تادمِ آخر قائم رہتا ہے۔ ہر قسم کے زخموں کے باوجود انسان گھسٹتا ہوا بھی اسی راہ پر بڑھتا ہے۔ واپس نہیں مڑا کرتا۔‘‘
بچوں کو پانچ وقت نمازوں کی عادت ڈالیں
….اس کے علاوہ ایک اوراہم بات اوریہ بھی میرے نزدیک انتہائی اہم باتوں میں سے ایک ہے بلکہ سب سے اہم بات ہے کہ بچوں کو پانچ وقت نمازوں کی عادت ڈالیں ۔کیونکہ جس دین میں عبادت نہیں وہ دین نہیں ۔اسکی عادت بھی بچوں کوڈالنی چاہیے اوراس کے لئے سب سے بڑا والدین کا اپنا نمونہ ہے ۔ اگر خود وہ نمازی ہوں گے تو بچے بھی نمازی بنیں گے ۔ نہیں تو صرف انکی کھوکھلی نصیحتوں کابچوں پر کوئی اثر نہیں ہوگا۔
حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ’’بچپن سے تربیت کی ضرورت پڑتی ہے ،اچانک بچوں میں یہ عادت نہیں پڑا کرتی۔ اس کا طریقہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ سمجھایا ہے کہ سات سال کی عمر سے اس کو ساتھ نماز پڑھانا شروع کریں اورپیار سے ایسا کریں ۔کوئی سختی کرنے کی ضرورت نہیں،کوئی مارنے کی ضرورت نہیں ،محبت اور پیار سے اس کو پڑھاؤ ، اس کوعادت پڑجاتی ہے۔ دراصل جوماں باپ نمازیں پڑھنے والے ہوں ان کے سات سال سے چھوٹی عمر کے بچے بھی نماز پڑھنے لگ جاتے ہیں ۔ہم نے تو گھروں میں دیکھا ہے اپنے نواسوں وغیرہ کو بالکل چھوٹی عمر کے ڈیڑھ ڈیڑھ ، دودوسال کی عمر کے ساتھ آکے تونیّت کرلیتے ہیں اور نماز کے لئے کھڑے ہوجاتے ہیں ۔اس لئے کہ ان کو اچھا لگتا ہے دیکھنے میں، خداکے حضور اٹھنا ،بیٹھنا،جھکنا ان کو پیار ا لگتا ہے اور وہ ساتھ کھڑے ہوجاتے ہیں ۔مگر وہ نماز نہیں، محض ایک نقل ہے جو اچھی نقل ہے ۔ لیکن جب سات سال کی عمر تک پہنچ جائے تو پھر اس کو باقاعدہ نماز کی تربیت دو ۔اس کو بتاؤ کہ وضو کرنا ہے ،اس طرح کھڑے ہوناہے ،قیام وقعود ،سجدہ وغیرہ سب اسکو سمجھاؤ۔ اس کے بعد وہ بچہ اگردس سال کی عمر تک ، پیار ومحبت سے سیکھتارہے ، پھر دس اوربارہ کے درمیان اس پر کچھ سختی بے شک کرو۔کیونکہ و ہ کھلنڈری عمر ایسی ہے کہ اس میں کچھ معمولی سزا، کچھ سخت الفاظ کہنا یہ ضروری ہواکرتاہے بچوں کی تربیت کے لئے ۔تو جب وہ بلوغ کو پہنچ جائے ،بارہ سال کی عمر کو پہنچ جائے پھر اس پر کوئی سختی کی اجازت نہیں ۔پھر اس کا معاملہ اللہ کا معاملہ ہے اور جیسا چاہے وہ اس کے ساتھ سلوک فرمائے۔‘‘
توانسانی تربیت کادائرہ یہ سات سال سے لے کر بلکہ جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے پہلے سے بھی شروع ہوجاتاہے ،بارہ سا ل کی یعنی بلوغت کی عمر تک پھیلاہواہے ۔اس کے بعد بھی تربیت تو جاری رہتی ہے مگر و ہ اَوررنگ ہے ، انسا ن اپنی اولاد کاذمہ دار بارہ سا ل کی یعنی بلوغت کی عمر تک ہے ۔
کھاناکھانے کے آداب ضرورسکھانے چاہئیں
بعض چھوٹی چھوٹی باتیں ہیں جو کہنے میں چھوٹی ہیں لیکن اخلاق سنوارنے کے لحاظ سے انتہائی ضروری ہیں مثلاً کھاناکھانے کے آداب ہیں یہ ضرورسکھاناچاہیے ۔اب یہ ایسی بات ہے جو گھر میں صرف ماں باپ ہی کرسکتے ہیں یا ایسے سکول اور کالجز جہاں ہوسٹل ہوں اور بڑی کڑی نگرانی ہووہاں یہ آداب بچوں کوسکھائے جاتے ہیں لیکن عموماً ایک بہت بڑی تیسری دنیا کے سکولوں کی تعدادایسی ہے جہاں ان باتوں پراس طرح عمل نہیں ہوتا اس لئے بہر حال یہ ماں باپ کا ہی فرض بنتا ہے ۔
لیکن یہاں میں ضمناً یہ ذکر کرنا چاہوں گا ۔ ربوہ کی ایک مثال ہے مدرستہ الحفظ کی جہاں پانچویں کلاس پاس کرنے کے بعد بچے داخل ہوتے ہیں۔ مختلف گھروں سے،مختلف خاندانوں سے،مختلف ماحول سے، دیہاتوں سے،شہروں سے بچے آتے ہیں لیکن وہاں میں نے دیکھا ہے کہ ان کی تربیت ماشاءاللہ ایسی اچھی ہے اوران کی ایسی اعلیٰ نگرانی ہوتی ہے اور ان کو ایسے اچھے اخلاق سکھائے گئے ہیں حفظ قرآن کے ساتھ ساتھ ۔اتنے سلجھے ہوئے طریق سے بچے کھانا کھاتے ہیں کہ حیرت ہوتی ہے ۔ باوجود مختلف قسم کے بچوں کے ماحول کے کہ مثلاً یہی ہے کہ بسم اللہ پڑھ کے کھائیں۔اپنے سامنے سے کھائیں ،ڈِش میں سے سالن اگر اپنی پلیٹ میں ڈالنا ہے تو اتنی مقدار میں ڈالیں جوکھایاجائے ۔دوبارہ ضرورت ہوتو دوبارہ ڈال دیاجائے ۔ دائیں ہاتھ سے کھانا کھانا ہے ۔کھانا ختم کرنے کے بعد کی دعا ۔تویہ چھوٹی چھوٹی چیزیں ہیں۔تو بہرحال بچپن سے ہی وقفِ نو بچوں کو تو خصوصاً اورعموماً ہرایک کو سکھانی چاہئیں۔ توبہرحال یہ جومدرستہ الحفظ کی مَیں نے مثال دی ہے اللہ کرے کہ یہ سلسلہ جوانہوں نے تربیت کاشروع کیا ہے جاری رہے اوروالدین بھی اپنے بچوں کی اسی نہج پر تربیت کریں ۔
پھر یہ ہے کہ بعض بچوں کو بچپن میں عادت ہوتی ہے اور یہ ایسی چھوٹی سی بات ہے کہ بعض دفعہ والدین اس پر نظر ہی نہیں رکھتے کہ کھانا کھانے کے بعد گندے ہاتھوں کے ساتھ بچے مختلف چیزوں پرہاتھ لگادیتے ہیں اسے بھی ہلکے سے پیارسے سمجھائیں ۔تویہ ایسی عادتیں ہیں جو بچپن میں ختم کی جاسکتی ہیں اور بڑے ہوکر یہ اعلیٰ اخلاق میں شمار ہوجاتی ہیں ۔
واقفِ نوکو سچ سے محبت اورجھوٹ سے نفرت ہونی چاہیے
حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ؒ بچوں میں اخلاق حسنہ کی آبیاری کی اہمیت کے بارہ میں فرماتے ہیں کہ :-
”ہر وقفِ زندگی بچہ جووقفِ نو میں شامل ہے بچپن سے ہی اس کو سچ سے محبت اورجھوٹ سے نفرت ہونی چاہیے ۔اور یہ نفرت اس کو گویا ماں کے دودھ سے ملنی چاہیے ۔جس طرح ریڈی ایشن کسی چیز کے اندر سرایت کرتی ہے ،اس طرح پرورش کرنے والے باپ کی بانہوں میں سچائی اس بچے کے دل میں ڈوبنی چاہیے ۔اس کا مطلب یہ ہے کہ والدین کو پہلے سے بڑھ کرسچاہونا پڑے گا ۔واقفینِ نوبچوں کے والدین کو یہ نوٹ کرنے والی بات ہے کہ والد ین کوپہلے سے بڑھ کرسچا ہونا پڑے گا ۔ضروری نہیں کہ سب واقفین زندگی کے والدین سچائی کے اس اعلیٰ معیار پرقائم ہوں جواعلیٰ درجہ کے مومنوں کے لئے ضروری ہے۔ اس لئے اب ان بچوں کی خاطر ان کواپنی تربیت کی طرف بھی توجہ کرنی ہوگی۔اورپہلے سے کہیں زیادہ احتیاط کے ساتھ گھر میں گفتگو کا انداز اپنانا ہوگا اوراحتیاط کرنی ہوگی کہ لغو باتوں کے طور پر، مذاق کے طورپر بھی وہ آئند ہ جھوٹ نہیں بولیں گے۔ کیونکہ یہ خدا کی مقدس امانت اب آپ کے گھر میں پل رہی ہے اوراس مقدس امانت کے کچھ تقاضے ہیں جن کو بہر حال آپ نے پورا کرنا ہے۔ اس لئے ایسے گھروں کے ماحول سچائی کے لحاظ سے نہایت صاف ستھرے اورپاکیزہ ہوجانے چاہئیں “۔
واقفین بچوں کو قانع بنانا چاہیے
پھر آپؒ فرماتے ہیں کہ ’’قناعت کے متعلق مَیں نے کہا تھا اس کا واقفین سے بڑا گہر ا تعلق ہے ۔بچپن ہی سے ان بچوں کو قانع بنانا چاہیے اورحرص وہوا سے بے رغبتی پیداکرنی چاہیے ۔عقل اورفہم کے ساتھ اگر والدین شروع سے تربیت کریں تو ایسا ہوناکوئی مشکل کام نہیں ہے ۔غرض دیانت اورامانت کے اعلیٰ مقام تک ان بچوں کو پہنچاناضروری ہے۔ علاوہ ازیں بچپن سے ایسے بچوں کے مزاج میں شگفتگی پیدا کرنی چاہیے۔ ترش روئی وقف کے ساتھ پہلوبہ پہلو نہیں چل سکتی۔ترش رُو واقفین زندگی ہمیشہ جماعت میں مسائل پید ا کیا کرتے ہیں اور بعض دفعہ خطرناک فتنے بھی پیدا کردیا کرتے ہیں ۔اس لئے خوش مزاجی اوراس کے ساتھ تحمل یعنی کسی کی بات کو برداشت کرنا یہ دونوں صفات واقفین بچوں میں بہت ضروری ہیں۔ اس کے علاوہ واقفین بچوں میں سخت جانی کی عادت ڈالنا، نظام ِ جماعت کی اطاعت کی بچپن سے عادت ڈالنا ، اطفال الاحمدیہ سے وابستہ کرنا،ناصرات سے وابستہ کرنا، خدام الاحمدیہ سے وابستہ کرنا بھی بہت ضروری ہے‘‘
اب یہ ایسی چیزیں ہیں بعض واقفینِ نوبچے سمجھتے ہیں کہ صرف ہماری علیحدہ کوئی تنظیم ہے۔ جو جماعت کی باقاعدہ ذیلی تنظیمیں ہیں ان کاحصّہ ہیں واقفینِ نوبچے بھی۔
پھر بچپن سے ہی کردار بنانے کی طرف توجہ دلاتے ہوئے حضور رحمہ اللہ فرماتے ہیں۔مَیں اس لئے حوالے حضور کے بھی ساتھ دے رہاہوں کہ یہ تحریک ایک بہت بڑی تحریک تھی جو حضور رحمہ اللہ تعالیٰ نے جاری فرمائی ۔اور اس کے فوائد تو اب سامنے نظر آناشروع ہو گئے ہیں اور آئندہ زمانوں میں انشاءاللہ آپ دیکھیں گے کہ کس کثرت سے اور بڑے پیمانہ پر اس کے فوائد نظرآئیں گے ۔ان شاءاللہ
والدین کو اپنا کردار قول و فعل کے مطابق کرنا ہوگا
فرمایاکہ ’’بچپن میں کردار بنائے جاتے ہیں ۔دراصل اگرتاخیرہوجائے تو بہت محنت کرنی پڑتی ہے۔ محاورہ ہے کہ گرم لوہا ہوتواسکوموڑلینا چاہیے ۔لیکن یہ بچپن کالوہاہے کہ خداتعالیٰ ایک لمبے عرصہ تک نرم ہی رکھتا ہے اوراس نرمی کی حالت میں اس پر جو نقوش آپ قائم کردیتے ہیں وہ دائمی ہوجایاکرتے ہیں ۔ اسلئے وقت ہے تربیت کا اورتربیت کے مضمون میں یہ بات یاد رکھیں کہ ماں باپ جتنی چاہیں زبانی تربیت کریں اگر انکا کردار انکے قول کے مطابق نہیں تو بچے کمزوری کولے لیں گے اور مضبوط پہلو کو چھوڑ دیں گے
یہاں پھر والدین کے لئے لمحہ فکریہ ہے۔ یہ دونسلوں کے رابطے کے وقت ایک ایسا اصول ہے جسکو بھلانے کے نتیجہ میں قومیں بھی ہلاک ہوسکتی ہیں اور یادرکھنے کے نتیجہ میں ترقی بھی کرسکتی ہیں۔ ایک نسل اگلی نسل پر جواثر چھوڑاکرتی ہے اس میں عموما ًیہ اصول کارفرماہوتاہے کہ بچے ماں باپ کی کمزوریوں کو پکڑنے میں تیز ی کرتے ہیں اورانکی باتوں کیطرف کم توجہ کرتے ہیں ۔اگر باتیں عظیم کردار کی ہوں اور بیچ میں سے کمزوری ہوتو بچہ بیچ کی کمزوری کوپکڑے گا ۔اسلئے یاد رکھیں کہ بچوں کی تربیت کے لئے آپکو اپنی تربیت ضروری کرنی ہوگی ۔ان بچوں کوآپ یہ نہیں کہہ سکتے کہ بچو!تم سچ بولا کرو،تم نے مبلغ بننا ہے۔تم بددیانتی نہ کیا کرو،تم نے مبلغ بننا ہے ۔ تم غیبت نہ کیا کرو،تم لڑا نہ کرو،تم جھگڑا نہ کیا کرو کیونکہ تم وقف ہواور یہ باتیں کرنے کے بعد فرمایاکہ پھر ماں باپ ایسالڑیں، جھگڑیں،پھر ایسی مغلظّات بکیں ایک دوسرے کے خلاف،ایسی بے عزّتیاں کریں کہ وہ کہیں بچے کو توہم نے نصیحت کردی اب ہم اپنی زندگی بسر کررہے ہیں، یہ نہیں ہوسکتا ۔جواُنکی اپنی زندگی ہے وہی بچے کی زندگی ہے ۔ جوفرضی زندگی انہوں نے بنائی ہوئی ہے کہ یہ کرو ،بچے کوکوڑی کی بھی اُسکی پروانہیں ۔ ایسے ماں باپ جوجھوٹ بولتے ہیں وہ لا کھ بچوں کو کہیں کہ جب تم جھوٹ بولتے ہوتوبڑی تکلیف ہوتی ہے ،تم خدا کیلئے سچ بولا کرو،سچائی میں زندگی ہے ۔بچہ کہتاہے کہ ٹھیک ہے یہ بات لیکن اندر سے وہ سمجھتا ہے کہ ماں باپ جھوٹے ہیں اور وہ ضرور جھوٹ بولتاہے ۔اسلئے دو نسلوں کے جوڑ کے وقت یہ اصول کارفرماہوتاہے اوراسکونظر انداز کرنے کے نتیجہ میں آپس میں خلاپیداہو جاتے ہیں ۔ ‘‘
تو واقفینِ نو بچوں کے والدین کواس سے اپنی اہمیت کااندازہ بھی ہوگیا ہوگا کہ اپنی تربیت کی طرف کس طرح توجہ دینی چاہیے۔ پھر جیسا کہ میں نے ذکرکیا ہے حضور کے الفاظ میں۔ اپنے گھر کے ماحول کو ایسا پرسکون اورمحبت بھر ا بنائیں کہ بچے فارغ وقت گھر سے باہر گزارنے کے بجائے ماں باپ کی صحبت میں گزارنا پسند کریں۔ ایک دوستانہ ماحول ہو۔ بچے کھل کرماں باپ سے سوال بھی کریں اورادب کے دائرہ میں رہتے ہوئے ہر قسم کی باتیں کرسکیں ۔ اس لئے ماں باپ دونوں کو بہر حال قربانی دینی پڑے گی۔جوعہداپنے ربّ سے والدین نے باندھا ہے اس عہد کو پورا کرنے کے لئے بہرحال والدین نے بھی قربانی دینی ہے۔ اوریہ آپ پہلے بھی سن چکے ہیں اورحضور نے یہی نصیحت فرمائی ہے والدین کو بھی۔ میَں بھی یہی کہتا ہوں۔بعض دفعہ بعض والدین اپنے حقوق توچھوڑتے نہیں بلکہ ناجائز غصب کرنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن زوریہ ہوتاہے کہ چونکہ ہمارے بچے وقفِ نومیں ہیں اس لئے ہم نے اگرکوئی غلطی کربھی لی ہے تو ہم سے نرمی کا سلوک کیا جائے ۔یہ تو نہیں ہوسکتا۔
پھر یہ بات واضح کروں کہ کسی بھی قسم کی برائی دل میں تب راہ پاتی ہے جب اسکے اچھے یا بُرے ہونے کی تمیز اٹھ جائے۔بعض دفعہ ظاہراً ہر قسم کی نیکی ایک شخص کررہاہوتا ہے۔ نمازیں بھی پڑھ رہاہے ،مسجد جارہاہے ، لوگوں سے اخلاق سے بھی پیش آرہا ہے لیکن نظامِ جماعت کے کسی فرد سے کسی وجہ سے ہلکا سا شکوہ بھی پیدا ہوجائے یا اپنی مرضی کا کوئی فیصلہ نہ ہوتو پہلے اس عہدیدار کے خلاف دل میں ایک رنجش پیدا ہوتی ہے ۔پھر نظام کے بارہ میں کہیں ہلکا ساکوئی فقرہ کہہ دیا ، اس عہدیدارکیوجہ سے پھر گھر میں بچوں کے سامنے بیوی سے یا کسی اورعزیز سے کوئی بات کرلی تواسطرح اس ماحول میں بچوں کے ذہنوں سے بھی نظام کااحترام اٹھ جاتاہے ۔اس احترام کوقائم کرنے کیلئے بہرحال بہت احتیاط کی ضرورت ہے ۔
واقفینِ نوکو نظام کااحترام سکھایاجائے
حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کے الفاظ میں یہ نصیحت آپ تک پہنچاتاہوں :-
”بہت ضروری ہے کہ( واقفینِ نوکو ) نظام کااحترام سکھایاجائے ۔پھر اپنے گھروں میں کبھی ایسی بات نہیں کرنی چاہیے جس سے نظامِ جماعت کی تخفیف ہوتی ہو یا کسی عہد یدار کے خلاف شکوہ ہو۔وہ شکوہ اگر سچا بھی ہے پھر بھی اگر آپ نے اپنے گھر میں کیا تو آپ کے بچے ہمیشہ کے لئے اس سے زخمی ہو جائیں گے۔ آپ توشکوہ کرنے کے باوجود اپنے ایمان کی حفاظت کرسکتے ہیں لیکن آپ کے بچے زیادہ گہرا زخم محسوس کریں گے ۔یہ ایسا زخم ہواکرتا ہے جس کو لگتاہے اس کو کم لگتا ہے ، جو قریب کا دیکھنے والاہے اس کو زیادہ لگتاہے۔ اس لئے اکثر وہ لوگ جو نظامِ جماعت پر تبصرے کرنے میں بے احتیاطی کرتے ہیں ان کی اولادوں کو کم وبیش ضرور نقصان پہنچتا ہے ۔اور بعض ہمیشہ کے لئے ضائع ہوجاتی ہیں ۔
واقفین بچوں کو سمجھاناچاہیے کہ اگرتمہیں کسی سے کوئی شکایت ہے ،خواہ تمہاری توقعات اس کے متعلق کتنی ہی عظیم کیوں نہ ہوں، اس کے نتیجہ میں تمہیں اپنے نفس کوضائع نہیں کرنا چاہیے ان کو سمجھائیں کہ اصل محبت توخدا اوراس کے دین سے ہے۔کوئی ایسی بات نہیں کرنی چاہیے جس سے خدائی جماعت کونقصان پہنچتا ہو۔آپ کواگر کسی کی ذات سے تکلیف پہنچی ہے یا نقصان پہنچا ہے تو اس کا ہرگز یہ نتیجہ نہیں نکلتا کہ آپ کو حق ہے کہ اپنے ماحول ،اپنے دوستوں ،اپنے بچوں اوراپنی اولاد کے ایمانوں کوبھی آپ زخمی کرنا شروع کریں۔ اپنے زخم حوصلے کے ساتھ اپنے تک رکھیں اوراس کے اندمال کے جو ذرائع باقاعدہ خداتعالیٰ نے مہیا فرمائے ہیں ان کو اختیار کریں ۔“
اپنے بچوں میں اللہ تعالیٰ کا خوف پیداکریں
پھر ایک عام بات ہے جس کی طرف والدین کوتوجہ دینی ہوگی۔وہ ہے اپنے بچوں میں اللہ تعالیٰ کا خوف پیداکریں ۔انہیں متقی بنائیں ۔اور یہ اس وقت تک نہیں ہوسکتا جب تک والدین خود متقی نہ ہوں یا متقی بننے کی کوشش نہ کریں ۔کیونکہ جب تک عمل نہیں کریں گے منہ کی باتوں کا کوئی اثرنہیں ہوتا۔اگر بچہ دیکھ رہاہے کہ میرے ماں باپ اپنے ہمسایوں کے حقوق ادا نہیں کررہے ،اپنے بھائیوں کے حقوق غصب کررہے ہیں۔ ذراذراسی بات پرمیاں بیوی میں،ماں باپ میں ناچاقی اورجھگڑے شروع ہورہے ہیں ۔تو پھر بچوں کی تربیت اور ان میں تقویٰ پیدا کرنا بہت مشکل ہوجائے گا اس لئے بچوں کی تربیت کی خاطر ہمیں بھی اپنی اصلاح کی بہت ضرورت ہے ۔بچوں میں تقویٰ کس طرح پیدا کیاجائے۔
اس سلسلہ میں حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ فرماتے ہیں ’’واقفینِ نوبچوں کو بچپن ہی سے متقی بنائیں اوران کے ماحول کوپاک اورصاف رکھیں۔انکے ساتھ ایسی حرکتیں نہ کریں جن کی وجہ سے ان کے دل دین سے ہٹ کردنیا کی طرف مائل ہونے لگ جائیں۔ پوری توجہ ان پراس طرح دیں جس طرح ایک بہت ہی عزیز چیز کوایک بہت ہی عظیم مقصد کے لئے تیار کیاجارہا ہواوراس طرح ان کے دل تقویٰ سے بھر جائیں پھر یہ آپکے ہاتھ میں کھیلنے کے بجائے خدا کے ہاتھ میں کھیلنے لگیں اورجس طرح ایک چیز دوسرے کے سپرد کردی جاتی ہے تقویٰ ایک ایسی چیز ہے جس کے ذریعہ آپ یہ بچے شروع ہی سے خدا کے سپر د کرسکتے ہیں اور درمیان کے سارے واسطے ،سارے مراحل ہٹ جائیں گے ۔رسمی طور پر تحریکِ جدید سے بھی واسطہ رہے گا یعنی وکالت وقفِ نو سے ۔ اورنظامِ جماعت سے بھی واسطہ رہے گا۔ مگرفی الحقیقت بچپن ہی سے جو بچے آپ خداکی گود میں لاڈالیں خدا اُنکو سنبھالتاہے ،خودہی اُن کاا نتظام فرماتاہے۔ خودہی اُن کی نگہداشت کرتاہے ۔جس طرح کہ حضرت مسیح موعود ؑ کی خدانے نگہداشت فرمائی۔آپ لکھتے ہیں :-
ابتدا سے تیرے ہی سایہ میں میرے دن کٹے
گود میں تیری رہا مَیں مثلِ طفلِ شیرخوار
پس ایک ہی راہ ہے اور صرف ایک راہ ہے کہ ہم اپنے وجود کواوراپنے واقفین کے وجود کوخدا کے سپرد کریں اورخداکے ہاتھوں میں کھیلنے لگیں ۔‘‘
وقفِ زندگی سے فی زمانہ بڑی کوئی اور چیز نہیں
پھر بچوں میں یہ احساس بھی پیدا کریں کہ تم واقفِ زندگی ہواور فی زمانہ اس سے بڑی کوئی اور چیز نہیں۔ اپنے اندر قناعت پیداکرو ، نیکی کے معاملہ میں ضروراپنے سے بڑے کودیکھو اورآگے بڑھنے کی کوشش کرو۔ لیکن دنیاوی دولت یا کسی کی امارت تمہیں متأثر نہ کرے بلکہ اس معاملہ میں اپنے سے کمتر کو دیکھو اور خوش ہوکہ اللہ تعالیٰ نے تمہیں دین کی خدمت کی توفیق دی ہے ۔اوراس دولت سے مالامال کیاہے۔کسی سے کوئی توقع نہ رکھو۔ ہر چیز اپنے پیارے خداسے مانگو۔ ایک بڑی تعد اد ایسے واقفینِ نو بچوں کی ہے جو ماشاءاللہ بلوغت کی عمر کو پہنچ گئے ہیں ۔ انکو خود بھی اب ان باتوں کیطرف توجہ دینی چاہیے۔
ضمناً یہ بات بھی کردوں کہ حضور رحمہ اللہ نے بھی ایک دفعہ اظہار فرمایاتھا کہ واقفینِ نوبچوں کی ایک بہت بڑی تعد اد جوہے ان کی تربیت ایسے رنگ میں کرنی چاہیے اوران کے ذہن میں یہ ڈالنا چاہیے کہ انہیں مبلغ بننا ہے ۔اورآئندہ زمانے میں جوضرورت پیش آنی ہے مبلغین کی بہت بڑی تعد اد کی ضرورت ہے اس لئے اس نہج پرتربیت کریں کہ بچوں کوپتہ ہوکہ اکثریت ان کی تبلیغ کے میدان میں جانے والی ہے اوراس لحاظ سے ان کی تربیت ہونی چاہیے ۔
(الفضل انٹرنیشنل 22تا 28اگست 2003ء۔جلد 10 شمارہ 34 صفحہ 5 تا 8)
……………… وہ واقفینِ نو جو شعور کی عمر کو پہنچ چکے ہیں اور جن کا زبانیں سیکھنے کی طرف رجحان بھی ہے اور صلاحیت بھی ہے۔ خاص طور پر لڑکیاں۔ وہ انگریزی، عربی، اردو اور ملکی زبان جو سیکھ رہی ہیں جب سیکھیں تو اس میں اتنا عبور حاصل کر لیں، (میں نے دیکھا ہے کہ زیادہ تر لڑکیوں میں زبانیں سیکھنے کی صلاحیت ہوتی ہے) کہ جماعت کی کتب اور لٹریچر وغیرہ کا ترجمہ کرنے کے قابل ہو سکیں تبھی ہم ہر جگہ نفوذ کر سکتے ہیں۔….
…. واقفینِ نو بچے جو تیار ہو رہے ہیں، توجہ ہونی چاہیے تاکہ خاص طور پر ہر زبان کے ماہرین کی ایک ٹیم تیار ہو جائے۔ بہت سے بچے ایسے ہیں جو اب یونیورسٹی لیول تک پہنچ چکے ہیں، وہ خود بھی اس طرف توجہ کریں جیسا کہ مَیں نے کہا اور جو ملکی شعبہ واقفینِ نو کا ہے وہ بھی ایسے بچوں کی لسٹیں بنائیں اور پھر ہر سال یہ فہرستیں تازہ ہوتی رہیں کیونکہ ہر سال اس میں نئے بچے شامل ہوتے چلے جائیں گے۔ ایک عمر کو پہنچنے والے ہوں گے۔
واقفینِ نو مختلف شعبوں میں آئیں
اور صر ف اسی شعبے میں نہیں بلکہ ہر شعبے میں عموماً جو ہمیں موٹے موٹے شعبے جن میں ہمیں فوراً واقفین زندگی کی ضرورت ہے وہ ہیں مبلغین، پھر ڈاکٹر ہیں، پھر ٹیچرہیں، پھر اب کمپیوٹر سائنس کے ماہرین کی بھی ضرورت پڑ رہی ہے۔ پھر وکیل ہیں، پھر انجینئر ہیں، زبانوں کے ماہرین کا مَیں نے پہلے کہہ دیا ہے پھر ان کے آگے مختلف شعبہ جات بن جاتے ہیں، پھر اس کے علاوہ کچھ اور شعبے ہیں۔ تو جو تو مبلغین بن رہے ہیں ان کا تو پتہ چل جاتا ہے کہ جامعہ میں جانا ہے اور جامعہ میں جانا چاہتے ہیں اس لئے فکر نہیں ہوتی پتہ لگ جائے گا۔ لیکن جو دوسرے شعبوں میں یا پیشوں میں جا رہے ہوں ان میں سے اکثر کا پتہ ہی نہیں لگتا۔ اب دَوروں کے دوران مختلف جگہوں پر مَیں نے پوچھا ہے تو ابھی تک یا تو بچوں نے ذہن ہی نہیں بنایا ہو ا۔ سولہ سترہ سال کی عمر کو پہنچ کے بھی، یا پھر کسی ایسے شعبے کا نام لیتے ہیں جس کی فوری طور پر جماعت کو شاید ضرورت بھی نہیں ہے۔ مثلاً کوئی کہتا ہے کہ میں نے پائلٹ بننا ہے ۔پھر بعض لوگ کہتے ہیں کہ ہمیں تو کھیلوں سے دلچسپی ہے، کرکٹر بننا ہے یا فٹ بال کا پلیئر بننا ہے۔ یہ تو پیشے واقفینِ نو کے لئے نہیں ہیں۔ صرف اس لئے کہ بچوں کی صحیح طرح کونسلنگ ہی نہیں ہو رہی ان کی رہنمائی نہیں ہو رہی، اور اس وجہ سے ان کو کچھ سمجھ ہی نہیں آ رہی کہ ان کا مستقبل کیا ہے۔ تو ماں باپ بھی صرف وقف کرکے بیٹھ نہ جائیں بلکہ بچوں کو مستقل سمجھاتے رہیں۔ میں یہی مختلف جگہوں پر ماں باپ کو کہتا رہا ہوں کہ اپنے بچوں کو سمجھاتے رہیں کہ تم وقفِ نو ہو، ہم نے تم کو وقف کیا ہے تم نے جماعت کی خدمت کرنی ہے اور جماعت کا ایک مفید حصّہ بننا ہے اس لئے کوئی ایسا پیشہ اختیار کرو جس سے تم جماعت کا مفید وجود بن سکو۔ پھر ایسے بچے بھی ملے ہیں کہ بڑی عمر کے ہونے کے باوجود ان کو یہ نہیں پتہ کہ وہ واقفِ نو ہیں اور وقفِ نو ہوتی کیا چیز ہے۔ ماں باپ کہتے ہیں کہ وقفِ نو میں ہیں۔ پھر بعض یہ کہتے ہیں کہ ماں باپ نے وقف کیا ہے لیکن ہم کچھ اور کرنا چاہتے ہیں تو جب ایسی فہرستیں تیار ہوں گی سامنے آ رہی ہوں گی، ہر ملک میں جب تیار ہو رہی ہوں گی تو ہمیں پتہ لگ جائے گا کہ کتنے ایسے ہیں جو بڑے ہوکر جھڑ رہے ہیں اور کتنے ایسے ہیں اور کس ملک میں ایسے ہیں جہاں سے ہمیں مبلغ ملیں گے اور کتنے ایسے ہیں جن میں سے ہمیں ڈاکٹر ملیں گے، کتنے انجینئر ملیں گے یا ٹیچر ملیں گے وغیرہ پھر جو ڈاکٹر بنتے ہیں ان کی ڈاکٹری کے شعبے میں بھی دلچسپیاں ہر ایک کی الگ ہوتی ہیں تو اس دلچسپی کے مطابق بھی ان کی رہنمائی کی جا سکتی ہے۔ اس کے لئے بھی ملکوں کو مرکز سے پوچھنا ہو گا تاکہ ضرورت کے مطابق ان کو بتایا جائے۔ بعض دفعہ ہوتا ہے کہ کسی نے ڈاکٹر بننا ہے۔ صرف ایک شعبے میں دلچسپی نہیں ہوتی، دو تین میں ہوتی ہے تو ضرورت کے مطابق رہنمائی کی جا سکتی ہے کہ فلاں شعبے میں جانا ہے تو اب تو اس عمر کو دوسری تیسری کھیپ پہنچ چکی ہے شاید چوتھی بھی پہنچ رہی ہو جہاں مستقبل کے بارے میں سوچا جا سکتا ہے۔ تو اس لئے ہر سال باقاعدہ اس کے مطابق نئے سرے سے فہرستیں بنتی رہنی چاہئیں، نئے جو شامل ہونے والے ہیں ان کو شامل کیا جانا چاہیے، جو جھڑنے والے ہیں ان کو علیحدہ کیا جانا چاہیے۔ اس لحاظ سے اب شعبہ وقفِ نو کو کام کرنا ہو گا۔
پھر جو پڑھ رہے ہیں ان کے بارے میں بھی علم ہونا چاہیے کہ ان میں درمیانے درجے کے کتنے ہیں اور یہ کیا کیا پیشے اختیار کر سکتے ہیں، ان کو کیا کام دئیے جا سکتے ہیں اور جیسا کہ مَیں نے کہا اس کام کو اب بڑے وسیع پیمانے پر دنیا میں ہر جگہ کرنے کی ضرورت ہے۔ اور واقفینِ نو کے شعبے کو مَیں کہوں گا کہ یہ فہرستیں کم از کم ایسے بچے جو پندرہ سال سے اوپر کے ہیں ان کی تیار کر لیں اور تین چار مہینے میں اس طرز پر فہرست تیار ہونی چاہیے۔ کیونکہ میرے خیال میں مَیں نے جو جائزہ لیا ہے جو رپورٹ کے اصل حقائق ہیں، زمینی حقائق جسے کہتے ہیں وہ ذرا مختلف ہیں اس لئے ہمیں حقیقت پسندی کی طرف آنا ہو گا۔
ہر ملک میں رہنمائی کے شعبہ کو فعال کریں
کچھ شعبہ جات تو مَیں نے گنوا دئیے ہیں تو یہ ہی نہ سمجھیں کہ انکے علاوہ کوئی شعبہ اختیار نہیں کیا جا سکتا یا ہمیں ضرورت نہیں ہے۔بعض ایسے بچے ہوتے ہیں جو بڑے ٹیلینٹڈ (Talented)ہوتے ہیں، غیر معمولی ذہین ہوتے ہیں ریسرچ کے میدان میں نکلتے ہیں جس میں سائنس کے مضامین بھی آتے ہیں، تاریخ کے مضامین بھی ہیں یا اور مختلف ہیں تو ایسے بچوں کو بھی ہمیں گائیڈ کرنا ہو گا وہی بات ہے جو مَیں نے کہی کہ ہر ملک میں کونسلنگ یا رہنمائی وغیرہ کے شعبہ کو فعال کرنا ہو گا۔ اور جیسا کہ مَیں نے کہا تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ماننے والوں کے ساتھ تو اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ وہ علم و معرفت میں کمال حاصل کریں گے تو اس کمال کے لئے کوشش بھی کرنی ہوگی۔ پھر انشاءاللہ تعالیٰ، اللہ تعالیٰ کے فضل بھی ہونگے۔ بہرحال بچوں کی رہنمائی ضروری ہے چند ایک ایسے ہوتے ہیں جو اپنے شوق کی وجہ سے اپنے راستے کا تعین کر لیتے ہیں، عموماً ایک بہت بڑی اکثریت کو گا ئیڈ کرنا ہو گا اور جیسا کہ مَیں نے کہا گہرائی میں جا کر سارا جائزہ لینا ہو گا۔….
واقفینِ نو کے والدین بھی علوم سیکھیں
….تو ہم نے واقفینِ نو بچوں کو پڑھا کے نئے نئے علوم سکھا کے پھر دنیا کے منہ دلائل سے بند کرنے ہیں۔ اور اس تعلیم کو سامنے رکھتے ہوئے جو حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام نے ہمیں اصل قرآن کا علم اور معرفت دی ہے، اللہ کرے کہ واقفینِ نو کی یہ جدید فوج اور علوم جدیدہ سے لیس فوج جلد تیار ہو جائے۔ پھر واقفینِ نو بچوں کی تربیت کے لئے خصوصاً اور تمام احمدی بچوں کی تربیت کے لئے بھی عموماً ہماری خواتین کو بھی اپنے علم میں اضافے کے ساتھ ساتھ اپنے بچوں کو بھی وقت دینے کی طرف توجہ دینی چاہیے۔ اور اس کی بہت زیادہ ضرورت ہے۔ اجلاسوں میں اجتماعوں میں، جلسوں میں آ کر جو سیکھا جاتا ہے وہیں چھوڑ کر چلے نہ جایا کریں، یہ تو بالکل جہالت کی بات ہو گی کہ جو کچھ سیکھا ہے وہ وہیں چھوڑ دیا جائے۔ تو عورتیں اس طرف بہت توجہ دیں اور اپنے بچوں کی طرف بھی خاص طور پر توجہ دیں۔ کیونکہ مَیں نے دیکھا ہے کہ جن واقفینِ نو یا عمومی طور پر بچوں کی مائیں بچوں کی طرف توجہ دیتی ہیں اور خود بھی کچھ دینی علم رکھتی ہیں انکے بچوں کے جواب اور وقفِ نو کے بارے میں دلچسپی بھی بالکل مختلف انداز میں ہوتے ہیں اس لئے مائیں اپنے علم کو بھی بڑھائیں او رپھر اس علم سے اپنے بچوں کو بھی فائدہ پہنچائیں۔ لیکن اس سے یہ مطلب نہیں ہے کہ باپوں کی ذمہ داریاں ختم ہو گئی ہیں یا اب باپ اس سے بالکل فارغ ہو گئے ہیں یہ خاوندوں کی اور مردوں کی ذمہ داری بھی ہے کہ ایک تو وہ اپنے عملی نمونے سے تقویٰ اور علم کا ماحول پیدا کریں پھر عورتوں اور بچوں کی دینی تعلیم کی طرف خود بھی توجہ دیں ۔ کیونکہ اگر مردوں کا اپنا ماحول نہیں ہے، گھروں میں وہ پاکیزہ ماحول نہیں ہے، تقویٰ پر چلنے کا ماحول نہیں تو اس کا اثر بہرحال عورتوں پر بھی ہو گا اور بچوں پر بھی ہو گا ۔ اگر مرد چاہیں تو پھر عورتوں میں چاہے وہ بڑی عمر کی بھی ہو جائیں تعلیم کی طرف شوق پیدا کر سکتے ہیں کچھ نہ کچھ رغبت دلا سکتے ہیں۔ کم از کم اتنا ہو سکتا ہے کہ وہ بچوں کی تربیت کی طرف توجہ دیں۔ اس لئے جماعت کے ہر طبقے کو اس طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ مرد بھی عورتیں بھی۔ کیونکہ مردوں کی دلچسپی سے ہی پھر عورتوں کی دلچسپی بھی بڑھے گی اوراگر عورتوں کی ہر قسم کی تعلیم کے بارے میں دلچسپی ہو گی تو پھر بچوں میں بھی دلچسپی بڑھے گی۔ ان کوبھی احساس پیدا ہو گا کہ ہم کچھ مختلف ہیں دوسرے لوگوں سے۔ ہمارے کچھ مقاصد ہیں جو اعلیٰ مقاصد ہیں۔ اور اگر یہ سب کچھ پیدا ہو گا تو تبھی ہم دنیا کی اصلاح کرنے کے دعوے میں سچے ثابت ہو سکتے ہیں۔ ورنہ دنیا کی اصلاح کیا کرنی ہے۔ اگر ہم خود توجہ نہیں کریں گے توہماری اپنی اولادیں بھی ہماری دینی تعلیم سے عاری ہوتی چلی جائیں گی۔ کیونکہ تجربہ میں یہ بات آ چکی ہے کہ کئی ایسے احمدی خاندان جن کی آگے نسلیں احمدیت سے ہٹ گئیں صرف اسی وجہ سے کہ ان کی عورتیں دینی تعلیم سے بالکل لاعلم تھیں۔ اور جب مرد فوت ہو گئے تو آہستہ آہستہ وہ خاندان یا ان کی اولادیں پرے ہٹتے چلے گئے کیونکہ عورتوں کو دین کا کچھ علم ہی نہیں تھا، تو اس طرف بہت توجہ کی ضرورت ہے۔ عورتوں کو بھی اور مردوں کو بھی اکٹھے ہو کر کوشش کرنی ہو گی تاکہ ہم اپنی اگلی نسل کو بچا سکیں۔….
(الفضل انٹرنیشنل2تا8جولائی2004ء۔جلد 11 شمارہ 27۔ صفحہ 8 تا 9)
……………… پھر دنیا میں ہر جگہ جماعتی عہدیداروں کی ایک یہ بھی ذمہ داری ہے کہ مبلغین یا جتنے واقفین زندگی ہیں ان کا ادب اور احترام اپنے دل میں بھی پیدا کیا جائے اور لوگوں کے دلوں میں بھی۔ ان کی عزت کرنا اور کروانا ، ان کی ضروریات کا خیال رکھنا ، حسب گنجائش اور توفیق ان کے لئے سہولتیں مہیا کرنا، یہ جماعت کا اور عہدیداران کا کام ہے تاکہ ان کے کام میں یکسوئی رہے۔ وہ اپنے کام کو بہتر طریقے سے کر سکیں۔ وہ بغیر کسی پریشانی کے اپنے فرائض کی ادائیگی کرسکیں۔ اگر مربیان کو عزت کا مقام نہیں دیں گے تو آئندہ نسلوں میں پھر آپ کو واقفین زندگی اورمربیان تلاش کرنے بھی مشکل ہو جائیں گے۔ یہ اللہ تعالیٰ کا احسان ہے کہ حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کی جاری کردہ واقفینِ نو کی تحریک کے تحت بہت سے واقفینِ نو بچے وقف کے میدان میں آ رہے ہیں۔ لیکن جتنا جائز ہ مَیں نے لیا ہے میرے خیال میں جتنے مبلغین کی ضرورت ہے اتنے اس میدان میں نہیں آ رہے دوسری فیلڈز (Fields)میں جا رہے ہیں۔بہرحال جب مربی کو مقام دیا جائے گا، گھروں میں ان کا نام عزت و احترام سے لیا جائے گا، ان کی خدمات کو سراہاجائے گا تو یقینًا ان ذکروں سے گھر میں بچوں میں بھی شوق پیدا ہوگا کہ ہم وقف کر کے مربی بنیں۔ تو اس لحاظ سے بھی عہدیداران کو خیال کرنا چاہیے۔ چھوٹے موٹے اختلافات کو ایشو (Issue) نہیں بنا لینا چاہیے جس سے دونوں طرف بے چینی پھیلنے کا اندیشہ ہو۔
لیکن واقفین زندگی اور مربیان سے بھی مَیں یہ کہتا ہوں کہ دنیا چاہے آپ کے مقام کو سمجھے یا نہ سمجھے لیکن اللہ کی راہ میں قربانی کا جو آپ نے عہد کیا ہے اور پھر اس کو نیک نیّتی سے خدا کی خاطر نبھا رہے ہیں تو دنیا کے لوگوں کی ذرا بھی پرواہ نہ کریں۔ چاہے اپنوں کے چرکے ہوں یا غیروں کے چرکے ہوں جو بھی لگتے ہیں ان پر خدا کے آگے جھکیں ۔ آپ جماعتی نظام میں تعلیم و تربیت کے لئے ،دنیا کواسلام کا پیغام پہنچانے کے لئے، خلیفۂ وقت کے نمائندے ہیں۔ یہ آپ کی بہت بڑی ذمہ داری ہے۔ خلیفۂ وقت نے بہت سی ایسی باتوں پر آپ پر انحصار کیا ہوتا ہے جن پر بعض فیصلے ہوتے ہیں۔ اس لئے اس ذمہ داری کا احساس کرتے ہوئے ہر دنیاوی اونچ نیچ کو دل سے نکال دیں اور یکسوئی سے وہ کام سر انجام دیں جو آپ کے سپرد کئے گئے ہیں۔ اگر خدا تعالیٰ کی خاطر یہ چرکے برداشت کرتے رہیں گے تو اللہ تعالیٰ خود ہی آپ کی سہولت کےلئے سامان بھی پیدا فرماتا رہے گا۔ ذہنی کوفت کو دورکرنے کے لئے سامان بھی فرماتا رہے گا۔ مربیان کے گھروں میں بھی عہدیداروں کے رویوں کے متعلق بچوں کے سامنے کبھی باتیں نہیں ہونی چاہئیں۔ اپنی بیویوں کو بھی سمجھائیں کہ واقفِ زندگی کی بیوی بھی وقفِ زندگی کی طرح ہی ہوتی ہے یا ہونی چاہیے یا یہ سوچ رکھنی چاہیے۔ اس لئے ہر بات صبر اور حوصلے سے برداشت کرنی ہے۔ اور صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کے حضور گِڑگڑانا ہے ، اس کے حضور جھکنا ہے۔ ان شاءاللہ تعالیٰ ضر ور اللہ تعالیٰ اپنا فضل فرمائے گا۔
(الفضل انٹرنیشنل 14 جنوری 2005ء۔ جلد 12 شمارہ 02۔ صفحہ 7 تا 8)
……………… ۔۔’’ الزام تراشیاں اور بچوں کے بیان اور بچوں کے سامنے ماں کے متعلق باتیں، جو انتہائی نامناسب ہوتی ہیں، بچوں کے اخلاق بھی تباہ کر رہی ہوتی ہیں۔ ایسے مرد اپنی اَناؤں کی خاطر بچوں کو آگ میں دھکیل رہے ہوتے ہیں اور بعض مردوں کی دینی غیرت بھی اس طرح مر جاتی ہے کہ ان غلط حرکتوں کی وجہ سے اگر ان کے خلاف کاروائی ہوتی ہے اور اخراج از نظامِ جماعت ہو گیا تو تب بھی اُن کو کوئی پرواہ نہیں ہوتی۔ اپنی اَنا کی خاطر دین چھوڑ بیٹھتے ہیں۔
وقفِ نو کے حوالے سے یہاں ضمنا مَیں یہ بھی ذکر کر دوں کہ اگر ان کا بچہ واقفِ نو ہو تو والدین کے اخراج کی صورت میں اس کا بھی وقف ختم ہو جاتا ہے۔ اس لئے جماعتیں ایسی صورت میں جہاں جہاں بھی ایسا ہے خود جائزہ لیا کریں۔ پاکستان میں تو وکالت وقفِ نو اس بات کا ریکارڈ رکھتی ہے لیکن باقی ملکوں میں بھی امیر جماعت اور سیکریٹریان وقفِ نو کا کام ہے کہ اس چیز کا خیال رکھیں۔ اور پھر معافی کی صورت میں ہر بچے کا انفرادی معاملہ خلیفۂ وقت کے سامنے علیحدہ پیش ہوتا ہے کہ آیا اس کا دوبارہ وقف بحال کرنا ہے کہ نہیں؟ اس لئے ریکارڈ رکھنا بھی ضروری ہے۔‘‘
(الفضل انٹرنیشنل ۔ یکم دسمبر 2006ء۔جلد 13 شمارہ 48۔ صفحہ 8)
……….. یہ تمام انتظامات جو جلسہ سالانہ کے تھے اور ہوتے ہیں یہ ہم سب جانتے ہیں کہ والنٹیئرز کے ہوتے ہیں، ان سے مختلف شعبہ جات میں کام لیا جاتا ہے۔ پینتیس چالیس شعبہ جات مردوں میں تھے اور اتنے ہی عورتوں میں۔ جن میں کام کرنے والے افسران صیغہ جات بھی ہوتے ہیں، نائبین بھی ہوتے ہیں، منتظمین بھی ہوتے ہیں، معاونین بھی ہوتے ہیں اور کام کا بہت بڑا حصّہ معاونین نے سنبھالا ہوتا ہے۔ گو افسر پالیسی بنا کر دے دیتے ہیں لیکن معاونین کام کرنے والے ہوتے ہیں جن میں بچے بھی ہیں، بچیاں بھی ہیں، نوجوان بھی، چھوٹی عمر کے بھی ہیں۔ ان شعبہ جات میں کچھ تو ظاہری شعبہ جات ہیں سب جانتے ہیں۔ ایک شعبہ ترجمانی کا بھی ہے جو مختلف زبانوں میں ترجمہ کر رہے ہوتے ہیں۔ تقریباً اس دفعہ جلسہ پر اڑھائی ہزار لوگوں کے لئے مختلف زبانوں میں ترجمے کا کام ہو رہا تھا۔ اس حوالے سے مَیں واقفینِ نو بچوں کو بھی کہنا چاہتا ہوں، خاص طور پر بچیاں کہ زبانیں سیکھنے کی طرف توجہ کریں کیونکہ آئندہ یہ ضرورت بڑھتی جائے گی انشاء اللہ تعالیٰ۔ اور اس ضرورت کو پورا کرنے کے لئے ہمیں مستقل اپنے واقفین چاہیئں اور وہ واقفینِ نو میں سے ہی پورے ہو سکتے ہیں۔
(الفضل انٹرنیشنل ۔ 22 اگست 2008ء۔جلد 15 شمارہ 34۔ صفحہ 7)
……….. ۔۔۔ یہاں مَیں اس سلسلہ میں یہ بھی کہنا چاہتا ہوں کہ سپین کے جو واقفینِ نو بچے ہیں ان میں سے ایک تعداد جو یہاں کے پلے بڑھے ہیں، جن کو سپینش زبان بھی اچھی طرح آتی ہے اور جو نوجوانی میں قدم رکھ رہے ہیں، وہ اپنے آپ کو جامعہ میں جانے کے لئے بھی پیش کریں تا کہ یہاں بھی اور دنیا کی اور مختلف جگہوں میں بھی جہاں سپینش بولی جاتی ہے اس زبان کو جاننے والے مبلغین کی جو کمی ہے اسے پورا کیا جا سکے اور ہم ان تک پیغام پہنچانے کا حق ادا کر سکیں یا کم از کم کوشش کر سکیں۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ ’’ہمیں ایسے آدمیوں کی ضرورت ہے جو نہ صرف زبانی بلکہ عملی طور پر کچھ کر کے دکھانیوالے ہوں۔ علمیت کا زبانی دعویٰ کسی کام کا نہیں۔ ایسے ہوں کہ نخوت اور تکبر سے بکلی پاک ہوں‘‘ پھر آپ ؑ فرماتے ہیں کہ ’’تبلیغی سلسلہ کے واسطے دَوروں کی ضرورت ہے، مگر ایسے لائق آدمی مل جاویں کہ وہ اپنی زندگی اس راہ میں وقف کر دیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ بھی اشاعتِ اسلام کے واسطے دور دراز ممالک میں جایا کرتے تھے۔‘‘ (ملفوظات جلد 5 صفحہ 682)
یہاں رہنے والے جو ہیں وہی اس چیز سے آ گاہ ہو سکتے ہیں۔ پس اللہ تعالیٰ نے جو وقفِ نو کی سکیم کے تحت والدین کو اولاد وقف کرنے کی توفیق عطا فرمائی ہے۔ اب اس نہج پر بچپن سے ہی انکی تربیت کرنا بھی والدین کا کام ہے۔ ایسی تربیت کریں کہ وہ جامعہ کیلئے اپنے آپ کو پیش کریں۔ یہاں کی زبان اور طرزِ زندگی سے بھی واقفیت حاصل کرنے کی کوشش کریں۔ جماعت کا تبلیغ کا کام کوئی چند سال کا یا دو چار ، دس سال کا کام نہیں ہے۔ یہ تو ہمیشہ جاری رہنا ہے۔ پس جہاں فوری طور پر ہنگامی بنیادوں پر تبلیغ کے پروگرام بنیں وہاں لمبے عرصہ پر حاوی اور گہری سوچ و بچار کے بعد وسیع پروگرام بھی بنیں۔ پس اسکے لئے ہمیں خالص ہو کر کوشش کرنیکی ضرورت ہو گی۔
(الفضل انٹرنیشنل 30 اپریل 2010ء۔ جلد 17شمارہ 18۔ صفحہ 7 تا 8)
وَ لْتَکُنْ مِّنْکُمْ اُمَّـۃٌ یَّدْعُـوْنَ اِلَی الْـخَیْـرِ وَ یَاْمُـرُوْنَ بِالْمَعْـرُوْفِ وَ یَنْـھَوْنَ عَنِ الْمُـنْکَرِط وَ اُوْلٰٓئِکَ ھُـمُ الْمُفْلِـحُوْنَ ۔ وَ مَا کَانَ الْمُـؤمِنُوْنَ لِیَنْفِرُوْا کَـآ فَّۃً ط فَلَوْ لَا نَفَـرَ مِنْ کُلِّ فِرْقَـۃٍ مِّـنْھُـمْ طَآئِـفَۃٌ لِّیَـتَـفَـقَّـھُوْا فِی الـدِّیْنِ وَ لِیُـنْذِرُوْا قَـوْمَھُـمْ اِذَا رَجَعُـوْٓا اِلَـیْھِـمْ لَعَلَّھُـمْ یَـحْذَرُوْنَ
جیسا کہ ان آیات سے ظاہر ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جماعت کے ہر فرد کا ہمہ وقت تبلیغی اور تربیتی کاموں میں مصروف رہنا ممکن نہیں۔ اس لئے ایک گروہ ہو جو خاص طور پر یہ کام سر انجام دے۔ باوجود اس کے کہ ایک دوسری جگہ امت کے ہر فرد کی یہ ذمہ داری لگائی گئی ہے کہ وہ نیکیوں کے پھیلانے، برائیوں سے روکنے اور دعوتِ الی اللہ کا فرض ادا کرے۔ لیکن پھر بھی یہ فرمایا ہے کہ کیونکہ یہ جو نظامِ دنیا ہے اس کو چلانا بھی ضروری ہے، اس لئے جو اس میں مصروف ہوں گے وہ بھی ہمہ وقت، وقت نہیں دے سکتے۔ پھر ہر ایک کا مزاج بھی ایسا نہیں ہوتا کہ وہ تبلیغی اور تربیتی کام احسن رنگ میں سر انجام دے سکے۔ پھر تمام کے تمام امت کے افراد دین کا وہ فہم اور ادراک بھی حاصل نہیں کر سکتے جو ایک مبلغ اور مربی کے لئے ضروری ہے۔ اور پھر یہ بھی کہ تمام لوگوں کو خاص توجہ کے ساتھ ٹریننگ بھی نہیں دی جا سکتی۔ اس لئے گروہ ہونا چاہیئے جو پوری توجہ سے دین سیکھے۔ اللہ تعالیٰ کے احکامات، اوامر و نواہی سے واقفیت حاصل کرے۔ ان کی گہری حکمت سیکھے اور پھر پھیلائے۔ ماشاء اللہ جماعت میں ایسے بھی بہت سے افراد ہیں جو اپنے ذوق اور شوق کی وجہ سے دنیاوی تعلیم کے علاوہ بھی دینی علم کا کافی ادراک رکھتے ہیں۔ لیکن بعض دفعہ، بلکہ اکثر دفعہ ان کی دوسری مصروفیات ایسی ہو جاتی ہیں جو مستقل طور پر وقت دینے میں آڑے آتی ہیں۔
بہر حال اللہ فرماتا ہے کہ دین کے کام کے لئے واقفِ زندگی کا ایک گروہ ہونا چاہیئے اور پھر کیونکہ اسلام ایک عالمگیر مذہب ہے اس لئے ہر فرقے میں سے یعنی ہر گروہ میں سے، ہر طبقے میں سے، لوگوں کے ہر حصے میں سے متفرق قسم کے لوگوں میں سے یہ ایک گروہ ہونا چاہیئے۔ اور پھر مزید وسعت پیدا کریں تو فرمایا کہ ہر قوم میں سے ایسے لوگ ہوں جو دین سیکھیں اور آگے سکھائیں۔ ہر قوم اور ہر گروہ اور ہر طبقے کے مزاج، نفسیات اور طریق مختلف ہوتے ہیں۔ اس کے مطابق تبلیغ کا طریق اختیار کیا جائے۔ اس طرح تبلیغ کرنی بھی آسان رہے گی اور تربیت بھی آسان رہے گی۔ بہرحال یہ رہنمائی اللہ تعالیٰ نے فرمائی کہ مومنوں کا ایک گروہ ہو جو تبلیغی اور تربیتی کام سر انجام دے اور پھر یہ کہ ہر قوم اور ہر طبقے کے لوگوں میں سے ہو تا کہ اس کام میں سہولت پیدا ہو سکے۔ پس جماعت احمدیہ میں اس اصول کے تحت دین کی خاطر زندگی وقف کرنے کا نظام قائم ہے۔ اور جیسا کہ مَیں نے کہا مختلف قوموں اور طبقوں کے لوگ اللہ تعالیٰ کے فضل سے اب اس نظام کا حصّہ بن چکے ہیں اور بن رہے ہیں۔ اور جیسا کہ مَیں نے کہا جماعتی ضروریات بڑھنے کے ساتھ ساتھ اس تعداد میں اضافے کی بھی ضرورت ہے اور یہ ضرورت آئندہ بڑھتی بھی چلی جائے گی۔ فی الحال صرف موجودہ وقت میں ضرورت نہیں ہے بلکہ آئندہ اس ضرورت نے مزید بڑھنا ہے۔
تحریک وقفِ نو کی بنیاد
حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ نے اس ضرورت کو بھانپتے ہوئے اللہ تعالیٰ سے رہنمائی پا کر واقفینِ نو کی سکیم شروع فرمائی تھی اور اس کی بنیادی ا ینٹ ہی تقویٰ پر رکھتے ہوئے والدین کو یہ تحریک فرمائی تھی کہ بجائے اس کے کہ بچے بڑے ہوکر اپنی زندگیاں وقف کریں اور اپنے آپ کو پیش کریں والدین دین کا درد رکھتے ہوئے اور تقویٰ پر قائم ہوتے ہوئے اپنے بچوں کو ان کی پیدائش سے پہلے دین کی راہ میں وقف کرنے کے لئے پیش کریں۔ اور حضرت مریم ؑکی والدہ کی طرح یہ اعلان کریں کہ رَبِّ اِنِّی نَذَرْتُ لَکَ مَا فِی بَـطْنِیْ مُـحَرَّرًا فَـتَـقَبـَّلْ مِنِّیْ کہ اے میرے رب جو کچھ میرے پیٹ میں ہے اسے مَیں نے تیری نذر کرتے ہوئے آزاد کردیایعنی دین کے کام کے لئے پیش کر دیا اور دنیاوی دھندوں سے آزاد کر دیاپس مجھ سے یہ قبول کر لے۔ پس جب خاص طور پر مائیں اس دعا کے ساتھ اپنے بچے جماعت کو پیش کرتی ہیں، خلیفۂ وقت کے سامنے پیش کرتی ہیں اور کریں گی، تو ان کی بہت بڑی ذمہ داری بن جاتی ہے کہ پھر ان بچوں کی تربیت اس طرح کریں کہ وہ اپنی زندگیاں خدا کی راہ میں اس وقف کا حق ادا کرتے ہوئے گذارنے کے لئے پیش کریں۔ پورا عرصۂ حمل ان کے لئے دعا ہو کہ اللہ تعالیٰ اس بچے کو دین کا خادم بنائے، دنیاوی آلائشوں سے پاک رکھے، دنیا کی طرف رغبت نہ ہو بلکہ دین کے لئے خالص ہو جائیں یہ لوگ۔ پھر پیدائش کے بعد بچے کی تعلیم و تربیت اس نہج پر ہو کہ اُس بچے کو ہر وقت یہ پیش نظر رہے اُ س کو بھی یہ باور کروایا جائے کہ میں واقفِ زندگی ہوں اور میں نے دنیاوی جھمیلوں میں پڑنے کے بجائے اللہ تعالیٰ کے دین کی خدمت میں زندگی گذارنی ہے۔ جب اس طرح ابتداءسے ہی تربیت ہو گی تو نوجوانی میں قدم رکھ کر بچہ خود اپنے آپ کو پیش کرے گا اور خالص ہو کر دین کی خدمت کے لئے پیش کرنے کی کوشش کرے گا۔
والدین کی ذمہ داری
پس والدین کو ہمیشہ یاد رکھنا چاہیئے کہ بچے کو وقف کے لئے تیار کرنا، اس کی تعلیم و تربیت پر توجہ دینا والدین کا کام ہے تا کہ خوبصورت اور ثمر آور پودا بناکر جماعت اور خلیفۂ وقت کو خدا تعالیٰ کے دین کی خدمت کے لئے پیش کیا جائے۔ یہ جو بعض لوگوں کا خیال ہے کہ ہمارا بچہ وقفِ نو ہے اس لئے ابتداءسے اس کو جماعت سنبھال لے یہ بالکل غلط سوچ ہے۔ جماعت تعلیم و تربیت کے لئے رہنمائی تو ضرور کرتی ہے اور کرنی چاہیئے اس کے لئے ربوہ میں وکالت وقفِ نو بھی قائم ہے، قادیان میں نظارت تعلیم کے تحت وقفِ نو کا شعبہ قائم ہے۔ یہاں لندن میں مرکزی طور پر براہ راست خلیفۂ وقت کی نگرانی میں اس شعبے کا کام ہو رہا ہے۔ جماعتوں میں سیکریٹریانِ وقفِ نو کی ذمہ داری ہے کہ بچوں کی تعلیم و تربیت، کونسلنگ اور گائڈنس وغیرہ کریں اور ان کو جماعت کا ایک فعال حصّہ بنانے کی کوشش کریں اور اس میں اپنا بھی فعال کردار ادا کریں۔ لیکن ان سب کے باوجود والدین کی بہت بڑی ذمہ داری ہے۔
شعبہ وقفِ نو کی ذمہ داری
بہرحال جیسا کہ مَیں نے کہا کہ جماعت کی بڑھتی ہوئی ضروریات کے پیش نظر وقفِ نو کی سکیم کا اجراءہوا تھا اور یہ ایک انتہائی اہم اور آئندہ جماعتی ضروریات کوپورا کرنے والی سکیم ہے جس میں علاوہ مربیان ومبلغین کےمستقبل میں مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے واقفین زندگی کی ضرورت ہو گی۔ پس والدین اور وقفِ نو کے شعبے کو اس ذمہ داری میں اپنا کردار ادا کرنے کی بھر پور کوشش کرنی چاہیئے۔ اکثر جگہ دیکھا گیا ہے کہ سیکریٹریان وقفِ نو اس طرح فعال نہیں جس طرح ان کو ہونا چاہیئے۔ پس وہ فعال ہوں تا کہ یہ بچے جب میدانِ عمل میں آئیں تو میدان میں آ کر قوموں کو، اپنے لوگو ں کو تباہی کے گڑھے میں گرنے سے بچانے کا اہم کردار ادا کر سکیں اور فلاح پانے والے گروہ میں خود بھی شامل ہوں اور نہ صرف خود فلاح پانے والے بنیں بلکہ دنیا کی فلاح اور بقا کا باعث بنیں۔
بیشک والدین کا بھی یہ کام ہے کہ اپنے ہر بچے کی تربیت کریں اور کوئی احمدی بچہ بھی ضائع ہونا جماعت برداشت نہیں کر سکتی۔ یہ سب جماعت اور قوم کی امانت ہیں لیکن واقفینِ نو بچوں کے ذہن میں بچپن سے ہی ڈالا جائے کہ تمہیں ہم نے اللہ تعالیٰ کے راستے میں وقف کیا ہے۔ صرف وقفِ نو کا ٹائٹل مل جانا ہی کافی نہیں بلکہ تمہاری تربیت، تمہاری تعلیم، تمہارا اٹھنا بیٹھنا، تمہارا بات چیت کرنا، تمہارا لوگوں سے ملنا جلنا تمہیں دوسروں سے ممتاز کرے گا۔ یہ عادتیں پھر عمر کے ساتھ ساتھ پختہ ہوں اور کوئی انگلی کبھی تمہاری کردار کشی کرتے ہوئے نہ اٹھے۔
واقفینِ نو کا سلیبس
پھر واقفینِ نو کا سلیبس ہے جوجماعت نے، مرکز نے بنایا ہوا ہے۔ اس سے آگاہ کرنا اسے پڑھانا ماں باپ اور نظام دونوں کا کام ہے تا کہ تفقّہ فی الدّین میں بچپن سے ہی رجحان ہو اور اس میں ہر آنے والے دن میں بہتری آتی رہے۔ تبھی ہم آئندہ آنے والے چیلنجوں کا مقابلہ کر سکتے ہیں۔ تبھی ہم دنیا کی دین کو سمجھنے کی ضرورت کو بروقت پورا کر سکتے ہیں اور پھر یہ بھی یاد رکھنا چاہیئے کہ بچے میں خود دین سیکھنے کی لگن ہو۔ اگر یہ ہو گا تو پھر ہی صحیح فہم و ادراک بھی حاصل کرنے کی توجہ ہو گی ورنہ مجبوری کا سیکھنا اور مجبوری کا وقف یہ فائدہ مند اور کارآمد نہیں ہو سکتا۔
تفقّہ فی الدین کی ضرورت
حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ ایسے لوگ ہونے چاہیئں جو تفقّہ فی الدّین کریں یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جو دین سکھایا ہے اس میں تفقّہ کر سکیں۔ پس ہمارے واقفِ زندگی اور خاص طور پر وہ جو دین سیکھ کر اپنی زندگیاں وقف کرنا چاہتے ہیں یا واقفینِ نو جو دنیا کے مختلف جامعات میں پڑھ رہے ہیں، انہیں ہمیشہ یاد رکھنا چاہیئے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جو دین سکھایا ہے وہ سیکھنا ہے۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا دین سکھایا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارے سامنے جو دین پیش کیا اور جس کا نمونہ قائم فرمایا اس کے بارہ میں حضرت عائشہ ؓ کا یہ بیان ہمارے لئے راہ عمل ہے کہ کَانَ خُلُقُہٗ الْقُرْآن کہ آپ کا خلق قرآن تھا ( مسند احمد بن حنبل جلد 8) آپصلی اللہ علیہ وسلم کا دین قرآن کریم کے ہر حکم کو سمجھ کر اس پر عمل کرنا اور اسے پھیلانا تھا۔ پس آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ پر چلنے کا تو ہر مومن کو حکم ہے لیکن وہ لوگ جو تفقّہ فی الدّین کرنے والے ہیں، جو دین کو سمجھنے اور سیکھنے کا دعویٰ کرنے والے ہیں جو عام مومنین سے بڑھ کر خیر کی طرف بلانے والے ہیں، جن سے یہ توقع کی جاتی ہے کہ وہ دوسروں کی نسبت بہت زیادہ نیکیوں کا حکم دینے والے اور برائیوں سے روکنے والے ہیں ان کو کس قدر اس اسوہ پر عمل کرنے کی ضرورت ہے۔ پس جو واقفین زندگی ہیں ان کو اپنا جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ اگر ہمارا یہ دعویٰ ہے کہ قرآن ایک مکمل شرعی کتاب ہے تو پھر تفقّہ فی الدّین کرنے والے اس بات کے سب سے زیادہ ذمہ دار ہیں کہ اپنی زندگیوں کو اس تعلیم کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کریں تا کہ اپنی ذمہ داریاں صحیح طور پر ادا کر سکیں۔ اپنے نمونے قائم کر کے خدا تعالیٰ کی طرف بلانے والے ہوں۔ احسن رنگ میں تبلیغ اور تربیت کا فریضہ سرانجام دینے والے ہوں۔
واقفین زندگی کی خصوصیات
علم اور عمل میں مطابقت
اب میں آپ کے سامنے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی خواہش رکھتا ہوں کہ آپؑ کیا چاہتے ہیں کہ کس قسم کے واقفین زندگی ہونے چاہیئں۔ آپؑ فرماتے ہیں: ’’ہمیں ایسے آدمیوں کی ضرورت ہے جو نہ صرف زبانی بلکہ عملی طور سے کچھ کر کے دکھانے والے ہوں۔ علمیت کا زبانی دعویٰ کسی کام کا نہیں ۔‘‘
پس میں یہاں تمام مبلغین اور جو دنیا کے مختلف جامعہ احمدیہ میں پڑھ رہے ہیں، ان پڑھنے والوں سے بھی یہ کہنا چاہتا ہوں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے اس ارشاد کو ہمیشہ پیشِ نظر رکھیں، ہمیشہ اپنے جائزے لیتے رہیں کہ ہمارے علم اور عمل میں مطابقت ہے یا نہیں۔ وعظ تو ہم کر رہے ہوں کہ نمازوں میں سستی گناہ ہے اور خود نمازوں میں سستی ہو۔ خاص طور پر طلباء جامعہ احمدیہ جو ہیں ان کو یاد رکھنا چاہیئے۔ بعض عملی میدان میں آئے ہوئے بھی سستی کر جاتے ہیں ان کو بھی یاد رکھنا چاہیئے۔ دوسروں کو تو ہم یہ کہہ رہے ہوں کہ بد رسومات جو مختلف جگہوں پر ہوتی ہیں، مثلاً شادی بیاہ پر ہوتی ہیں ، یہ بدعات ہیں اور خلیفۂ وقت اور نظامِ جماعت ان کی اجازت نہیں دیتا۔ دین ان کی اجازت نہیں دیتا، حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نےسختی سے ان کو ردّ فرمایا ہے۔ اللہ اور رسول ان کو ردّ کرتے ہیں۔ لیکن اپنے بچوں یا اپنے عزیزوں کی شادیوں میں ان باتوں کا خیال نہ رہے یا ایسی شادیوں میں شامل ہو جائیں جن میں یہ بد رسومات کی جا رہی ہوں اور وہاں بیٹھے رہیں اور نہ انکو سمجھائیں اور نہ اٹھ کر آئیں تو یہ چیزیں غلط ہیں۔ پس اگر دین کا علم سیکھا ہے تو اس لئے کہ عالم باعمل بنیں اور بننے کی کوشش کریں۔
نخوت اور تکبر سے بکلی پاک ہوں
پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا کہ واقفِ زندگی ایسے ہونے چاہیئں کہ نخوت اور تکبر سے بکلی پاک ہوں۔ اب ہر واقفِ زندگی جائزہ لے جو میدان عمل میں ہیں یا مختلف جگہوں پر کام کر رہے ہیں اور وہ بھی جو جامعات میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں اور جب ہمیں جائزے لینے کی یہ عادت پڑے تو پھر ایک تبدیلی بھی پیدا ہو گی ان شا ء اللہ تعالیٰ۔
اس سال کینیڈا کے جامعہ احمدیہ سے بھی واقفینِ نو کی اور مربیان کی، مبلغین کی پہلی کھیپ نکل رہی ہے اور انشاء اللہ تعالیٰ باقی جگہوں سے بھی واقفینِ نو میں سے نکلنی شروع ہو جائے گی۔ بلکہ پاکستان میں تو ہو سکتا ہے کہ کچھ واقفینِ نو مربیان بن بھی چکے ہوں۔تو ہمیشہ یہ یاد رکھیں کہ عاجزی اور انکساری ایک مبلغ کا خاصہ ہونا چاہیئے لیکن وقار قائم رکھنا بھی ضروری ہے۔
کتب حضرت مسیح موعود ؑ کا کثرت سے مطالعہ
پھر آپؑ نے واقفین زندگی کو ہدایت دیتے ہوئے فرمایا کہ ’’ ہماری کتابوں کا کثرت سے مطالعہ کرنےسے ان کی علمیت کامل درجے تک پہنچی ہوئی ہو۔‘‘ پس یہ نہیں فرمایا کہ پہنچائیں۔ اتنا مطالعہ کریں کہ علمیت کامل درجے تک پہنچی ہوئی ہو۔ پس حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی کتب کا مطالعہ جامعہ میں پڑھنے کے دوران بھی اور میدان عمل میں بھی انتہائی ضروری ہے۔ کیونکہ یہی اس زمانے میں صحیح اسلامی تعلیم کی طرف رہنمائی کرتی ہے۔
قناعت شعار
پھر آپؑ نے فرمایا کہ’’ قناعت شعار ہونا بھی ایک مبلغ اور مربی کے لئے ضروری ہے‘‘۔ اور اس قناعت شعاری کے بارہ میں جو معیار آپؑ نے مقرر فرمایا وہ یہ ہے کہ آپؑ فرماتے ہیں کہ’’ اگر ہماری منشاء کے مطابق قناعت شعار نہ ہوں، تب تک پورےاختیار بھی نہیں دے سکتے۔‘‘ یعنی جو قناعت شعار ہو گا اسی کو اس تبلیغ کا وقفِ زندگی کے کاموں کا اختیار دیا جا سکتا ہے۔ اور منشاء کیا ہے؟ فرمایا کہ ’’ آنحضرت ﷺ کے صحابہ ایسے قانع اور جفا کش تھے کہ بعض اوقات صرف درختوں کے پتوں پر ہی گذارہ کر لیتے تھے‘‘
اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی دعا اور خواہش کو پورا فرماتے ہوئے ایسے بزرگ مبلغین اپنے فضل سے عطا فرمائے ہیں جن کی قناعت قابل رشک تھی۔ آج مبلغین کو سہولتیں بھی ہیں لیکن ایک وقت ایسا تھا جب سہولتیں نہیں تھیں۔ جماعت کے مالی حالات بھی اب اچھے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہر ممکن خیال رکھنے کی کوشش بھی کی جاتی ہے۔ گو بعض جگہ اب بھی تنگی اور مشکلات کا سامنا ہے لیکن جب دین کے لئے ہر قسم کی قربانی کے لئے اپنے آپ کو پیش کر دیا تو ان مشکلات کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی اور نہ ہونی چاہیئے۔ آج اللہ تعالیٰ کے فضل سے ربوہ اور قادیان کے علاوہ دنیا کے بعض مغربی ممالک میں بھی مثلاً یوکے میں، جرمنی میں، کینیڈا میں جامعات قائم ہیں اورجیسا کہ میں نے کہا کہ کینیڈاکے جامعہ سے اس سال مربیان کی پہلی کھیپ فارغ ہو رہی ہے جو میدان عمل میں آئیں گے۔ اسی طرح انڈونیشیا اور افریقہ کے بعض ممالک میں بھی جامعہ احمدیہ قائم ہیں۔ جہاں تک افریقہ اور انڈونیشیا وغیرہ کے جامعات کا تعلق ہے وہ تو وہیں کے رہنے والے طلباء ہیں جو عموماً وہیں تعینات بھی ہوتے ہیں۔ اپنے ملکوں کے حالات میں گذارہ کرنے والے ہیں۔ لیکن مغربی ممالک میں جو طلباء اب میدان عمل میں آرہے ہیں اور انشاء اللہ آئیں گے انہیں یاد رکھنا چاہیئے کہ بحیثیت واقفِ زندگی انہیں جہاں بھی بھیجا جائے انہوں نے تعمیل کرنی ہے اور جانا چاہیئے۔ یہی وقف کی روح ہے۔ اور ضروری نہیں ہے کہ ان کو یورپ میں لگایا جائے۔ ہو سکتا ہے کہ یہاں رہنے والے ادھر افریقہ میں بھیجے جائیں تو افریقہ کے سخت موسم سے پریشان ہو جائیں۔ لیکن جب اللہ تعالیٰ کی خاطر وقف کر دیا تو پھر سختی کے لئے بھی تیار رہنا چاہیئے۔ جیسا کہ میں نے کہا اب سہولتیں بھی ہیں اور شروع میں جو مبلغین میدان عمل میں باہر گئے تھے ان کو بڑی دقتوں کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ ان مبلغین کے بعض واقعات مَیں نے لئے ہیں تاکہ آپ کو احساس ہو کہ کس طرح وہ قربانی دیتے رہے اور کن حالات میں وہ گذارہ کرتے رہے ہیں۔
ہمارے ایک مبلغ تھے حضرت سید شاہ محمد صاحب۔ انہوں نے اپنا واقعہ یہ بیان کیا ہے کہ میں تو متواتر اٹھارہ سال انڈونیشیا میں کام کرتا رہا اور اللہ کے فضل سے مَیں نے کبھی کسی کے آگے دست سوال دراز نہیں کیا۔ اپنا پورا وقار رکھا۔ بہت معمولی الاؤنس پر گذارہ ہوتا تھا۔ مشکل سے شاید دو وقت کی روٹی چلتی ہو۔ اپنی ہر حاجت کے لئے اپنے رب کا دروازہ کھٹکھٹاتا رہا اور وہ میری حاجت روائی کرتا رہا۔ کہتے ہیں جب اٹھارہ سال بعد میری واپسی ہوئی تو مَیں بڑا خوش تھا۔ بحری جہاز کے ذریعے سے پاکستان کے لئے روانہ ہوا۔ اور کہتے ہیں کہ میرے پاس ایک پرانی اچکن تھی اور دو ایک شلوار قمیض کے دھلے ہوئے جوڑے تھے اور کچھ نہیں تھا۔ کہتے ہیں مَیں بحری جہاز پر سفر کر رہا تھا۔ ہوائی جہاز کا تو اس وقت تصور ہی نہیں تھا۔ راستے میں مجھے خیال آیا کہ مَیں اتنے عرصے کے بعد ملک واپس جا رہا ہوں اور میرے پاس نئے کپڑے بھی نہیں ہیں جنہیں پہن کر مَیں ربوہ کے ریلوے اسٹیشن پر اتروں گا۔ اس وقت مبلغین کراچی آیا کرتے تھے پھر وہاں سے ٹرین پر ربوہ پہنچتے تھے۔ تو کہتے ہیں کہ مَیں انہیں خیالات میں تھا اور دعاؤں میں لگا ہوا تھا کہ میرے دل میں خیال آیا کہ مجھے دل میں بھی اس قسم کی خواہش نہیں کرنی چاہیئے تھی۔ یہ وقف کی روح کے خلاف ہے۔ کہتے ہیں کہ مَیں نے اس پر بڑی توبہ استغفار کی۔ اور پھر چند دن بعد جہاز سنگاپور میں پورٹ پر رکا۔ کہتے ہیں میں جہاز کے عرشے پہ کھڑا، ڈیک پہ کھڑا نظارہ کر رہا تھا کہ مَیں نے ایک شخص کو ایک گٹھڑی اٹھائے ہوئے جہاز پر چڑھتے دیکھا۔ وہ سیدھا جہاز کے کپتان کے پاس آیا اور اس سے کچھ پوچھنے لگا۔ کپتان نے اسے میرے پاس بھیج دیا۔ وہ مجھے گلے ملا۔ بغلگیر ہو گیا اور کہا کہ وہ احمدی ہے اور درزی کا کام کرتا ہے۔ اس نے بتایا کہ جب الفضل میں مَیں نے پڑھا کہ آپ آ رہے ہیں اور رستے میں سنگاپور رُکیں گے تو مجھے خواہش پیدا ہوئی کہ مَیں آپ کے لئے کوئی تحفہ پیش کروں۔ اور آپ کی تصویریں میں نے دیکھی ہوئی تھیں، قدکاٹھ کا اندازہ تھا میں نے آپ کے لئے کپڑوں کے دو جوڑے سیئے ہیں اور ایک اچکن اور ایک پگڑی تیاری کی ہے۔ درزی ہوں اور یہی کچھ پیش کر سکتا ہوں۔ آپ اسے قبول کریں۔ تو حضرت شاہ صاحب کہتے ہیں کہ یہ سن کر میری آنکھوں میں آنسو آگئے کہ کس طرح میرے خدا نے میری خواہش کو پورا کرنے کے لئے ایک احمدی کے دل میں تحریک کی جسے میں نہیں جانتا تھا اور نہ وہ مجھے جانتا تھا۔ وہ مبلغین کو، مربیان کو نصیحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ اگر مبلغ صرف آستانۂ الہیٰ پر جھکا رہے اور کسی کے سامنے دست سوال دراز نہ کرے تو اللہ تعالیٰ غیب سے اس کیلئے سامان مہیا کر دیتا ہے۔ اور اللہ تعالیٰ واقفین زندگی سے، صرف مبلغین نہیں، ہر واقفِ زندگی سے یہ سلوک کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے میدانِ عمل میں آج بھی یہ نظارے دیکھتے ہیں۔
پھر مولانا غلام احمد صاحب فرخ کے بارہ میں ان کے ایک بیٹے نے لکھا کہ یہ بھی جماعت کی طرف سے ایک بڑا عرصہ باہر مبلغ رہے ہیں۔ جب واپس آئے تو حیدرآباد میں ان کی تعیناتی ہوئی۔ وہاں جماعت کی طرف سے ایک چھوٹا سا مکان مل گیا اور اس کی بھی کافی خستہ حالت تھی۔ کیونکہ یہ لمبا عرصہ باہر رہے تھے اس لئے ہم اس بات پر خوش تھے کہ ہمارے والد اب تو ہمارے ساتھ رہیں گے۔ لیکن مکان کی حالت کو دیکھ کر ایک دن ان کے چھوٹے بھائی نے حضرت مولانا غلام احمد صاحب فرخ کو اپنی سمجھ کے مطابق کہہ دیا کہ اباجان جماعت کو درخواست کریں کہ مکان کی مرمّت کروا دیں۔ حضرت مولانا فرخ صاحب تو صرف اپنے وقف کو نبھانا جانتے تھے۔ ان کو تو ان چیزوں سے کوئی غرض نہیں تھی۔ انہوں نے بڑی محبت سے سارے بہن بھائیوں کو پاس بٹھایا اور بڑے طریقے سے، بڑی حکمت سے، بڑی دانائی سے واقفین کے گذر اوقات میں سادگی اور بودوباش میں عاجزی اور انکساری کو پیش کیا۔ انہوں نے یہ فرمایا کہ ہر خواہش کو دبانا اور ہر مطالبے سے اجتناب برتنا بھی وقفِ زندگی کا نصب العین ہے۔ میری دلی تمنا ہے کہ تم سب میرا سہارا بنو۔ قدم قدم پر زندگی کی تلخیوں کو قبول کر کے اللہ تعالیٰ کو خوش کرو۔ بچوں کو یہ نصیحت کی۔
پھر مولانا غلام احمد فرخ صاحب کے یہ بیٹے کہتے ہیں کہ ایک دفعہ ہمارے پاس آئے۔ اس وقت یہ فوج میں میجر تھے جب ریٹائرڈ ہوئے تھے۔ بچے اچھی جگہ پر کاموں پر لگے ہوئے تھے۔ تو ہماری بچوں کی یہ خواہش تھی کہ ہم آپ کی کچھ خدمت کریں اور آپ ریٹائرمنٹ لے لیں۔ ہم نے اپنے والد کے سامنے اس خواہش کا اظہار کیا تو انہوں نے کہا کہ تمہیں کل جواب دوں گا۔ اور ہم سب اس جواب سے بڑے خوش ہوئے اور اطمینان ہوا کہ شاید مان جائیں۔ کل یہی جواب ہو گا کہ اچھا ٹھیک ہے میں تم لوگوں کے پاس آ جاتا ہوں۔ لیکن کہتے ہیں ہماری خوشی بھی عارضی ثابت ہوئی۔ آپ نے ہمیں اپنے پاس بٹھایا اور فرمایا میں ایک انتہائی عاجز انسان ہوں۔ تم لوگوں نے جو بات کل مجھے کہی تھی اس نے کل کا مجھے جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے۔ خدا کے لئے دوبارہ مجھے یہ بات نہ کہنا۔ میں نے اپنے اللہ سے حلفا یہ عہد کیا ہوا ہے کہ وقفِ زندگی کا ہر سانس بحیثیت واقفِ زندگی بسر کروں گا۔ یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ مجھے اس دنیا سے واپس بلا لے۔ ڈرتا ہوں کہ تمہاری ان باتوں سے میں تجدید ِعہد میں لغزش نہ کھا جاؤں۔ اس لئے دوبارہ تم لوگوں سے کہتا ہوں کہ آج کے بعد مجھ سے کبھی اِسطرح نہ کہنا۔ یہ کہہ کر آپ کھڑے ہو گئے اور کہا ہمیشہ دعا کرتے رہنا کہ میں اللہ تعالیٰ کے حضور کئے ہوئے اپنے عہد پر پورا اتروں۔ پس یہ لوگ تھے جنہوں نے وقفِ زندگی کا اور قناعت کا حق ادا کیا۔
سفر کے شدائد اٹھا سکیں
پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ایک واقفِ زندگی کے لئے فرماتے ہیں کہ ’’ سفر کے شدائد اٹھا سکیں‘‘
سفر کی جو مشکلیں اور صعوبتیں اور شدّتیں ہیں ان کو برداشت کر سکیں۔ گاؤں گاؤں پھر کر لوگوں کو ہماری بعثت کی اطلاع دیں۔ شروع میں ہمارے جو مبلغین افریقہ گئے ہیں اور ہندوستان میں بھی جو مبلغین تبلیغ کرتے تھے وہ سفر کی شدّت برداشت کیا کرتے تھے۔ سفر کی سہولتیں تو تھیں نہیں اور زادِ راہ بھی اتنا نہیں ہوتا تھا کہ جو سہولتیں میسر ہیں ان کا استعمال کر سکیں۔ اتنے پیسے نہیں ہوتے تھے۔ اور پھر نہ صرف یہ کہ سفر کی صعوبتیں برداشت کرتے تھے بلکہ مخالفتوں کا بھی ہندوستان میں بھی، باہر بھی اور افریقہ میں بھی سامنا کرنا پڑتا تھا۔
مولانانذیر احمد علی صاحب کے کئی ایسے واقعات ہیں جب انہیں گاؤں والوں نے دھتکار دیا اور انہوں نے راتیں باہر جنگل میں گزاریں۔ ساری ساری رات مچھروں میں بیٹھے رہے۔ وہاں افریقہ میں مچھر بھی بڑے خطرناک ہوتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے آج افریقہ میں جماعت کی جو نیک نامی ہے اور جو ترقی ہے وہ انہی بزرگوں کی قربانیوں کا نتیجہ ہے۔ ان کا ایک واقعہ بیان کرتا ہوں۔
مولانا محمد صدیق صاحب امرتسری جو خود بھی ایک دفعہ مولوی نذیر احمد علی صاحب کے ساتھ تھے، بیان کرتے ہیں کہ جنگ عظیم دوم کے دوران 1940ء میں ایک روز حضرت مولانانذیر احمد علی صاحب اور خاکسار (مولوی صدیق صاحب) نے سیرالیون کے قاصری نامی ایک تجارتی قصبے میں تبلیغ کے لئے پروگرام بنایا۔ وہ فری ٹاؤن سے چالیس میل دور تھا اور دریا کے دوسرے کنارے پر تھا اور کشتی کے ذریعے وہاں جانا پڑتا تھا۔ حضرت مولانانذیر احمد علی صاحب پہلے بھی وہاں اسلام کا پیغام پہنچا چکے تھے۔ اور اس تبلیغ کی وجہ سے مخالفت بڑھ گئی تھی۔ کہتے ہیں ہمارا یہ دوسرا دورہ تھا۔ اکثر وہاں کے لوگ فولانی قبیلے کے ہیں جنہیں اپنے اسلام پر بڑا ناز ہے کہ ہم مسلمان ہیں اور صحیح مسلمان ہیں۔ اپنا تعلق نسل کے لحاظ سے عرب لوگوں سے ظاہر کرتے ہیں۔ بہرحال یہ لوگ وہاں گئے۔ ان فولانیوں نے اور مسلمانوں نے جھوٹی من گھڑت باتیں لوگوں میں پھیلا دی تھیں اس کی وجہ سے وہاں لوگوں نے یہ عہد کر لیا تھا کہ اگر ہم دوبارہ آئے تو ہمیں وہاں ٹھہرنے کیلئے جگہ نہیں دیں گے۔ اور یہ کہتے ہیں کہ ہمارا مقصد تو صرف تبلیغِ اسلام تھا۔ احمدیت کا پیغام پہنچانا، اسلام کا پیغام پہنچانا تھا اور اس کی حقیقی روح سے آ گاہ کرنا تھا۔ غیر مسلموں اور عیسائیوں کو باقاعدہ تبلیغ کرنا تھا۔ اس لئے ہم نے یہی فیصلہ کیا کہ وہاں جا کر چند دن رہ کر اپنے متعلق جو غلط فہمیاں پیدا کی گئی ہیں ان کو دُور کرنے کی کوشش کریں۔ بہرحال وہ کہتے ہیں کہ ہم بذریعہ کشتی روانہ ہوئے اور مغرب کے وقت وہاں قاصری گاؤں میں پہنچ گئے۔ چند دن ٹھہرنے کا پروگرام تھا اور لیکچروں کا انتظام کرنا تھا۔ کہتے ہیں جب ہم کشتی سے اترے تو سیدھے چیف کے بنگلے میں گئے، کیونکہ چیف کو اس زمانے میں حکومت کی طرف سے مہمانوں کی مہمان نوازی کے لئے ایک گرانٹ ملا کرتی تھی۔ لیکن بہرحال ہمیں غلط طور پر بتایا گیا یا حقیقت تھی کہ چیف اپنے فارم پر گیا ہوا ہے اور وہ ابھی تک وہاں سے واپس نہیں آیا اور جو باقی ذمہ دار لوگ تھے وہ سب بڑی بے رخی اور مخالفت کا اظہار کر رہے تھے۔ بعض جو ان کے ہمدرد تھے وہ دوسروں کی مخالفت سے مرعوب ہو گئے تھے۔ اور کہتے ہیں کہ ہمیں کوئی بھی پوچھنے والا نہیں تھا۔ ہمارے ساتھ چند افریقن احمدی طالب علم تھے ان کو افریقن ہونے کی وجہ سے کہیں جگہ مل گئی اور وہ چلے گئے اور ہمارا سامان بھی ساتھ لے گئے۔ اور ہم وہیں گاؤں کے باہر جنگل میں پھر رہے تھے۔ بعض لبنانی تاجروں کے ساتھ رابطہ ہوا جن کی دکانیں وہیں دریا کے کنارے پر تھیں۔ بہرحال ایک لبنانی مسلمان جو تھا اس سے ہم نے کچھ عربی میں باتیں کیں۔ ہماری عربی سے متاثر ہوا اور اپنے ساتھ لے گیا اور وہاں تبلیغ شروع ہو گئی۔ اور اس نے پھر زور دے کر ہمیں رات کا کھانا بھی کھلایا ۔ لیکن رات کو ہم دس بجے لٹریچر وغیرہ کا ان سے وعدہ کر کے وہاں سے اٹھ کر آ گئے۔ نہ اس نے پوچھا ، نہ ہم نے بتا یا کہ ہمارے پاس تو رات کو ٹھہرنے کی کوئی جگہ نہیں۔ رات ہم پھر دریا کے کنارے آکر بیٹھ گئے اور وہ سارا علاقہ زہریلے سانپوں اور جنگلی جانوروں سے بھر اپڑا ہے۔ دریا کے کنارے مگر مچھ ہیں وہ بھی حملے کرتے رہتے تھے۔ اکثر وارداتیں ان کی ہوتی رہتی تھیں۔ لیکن اللہ نے اپنا فضل کیا۔ ان کو ہر جانور کے حملے سے محفوظ رکھا۔ ایسی حالت میں اب نیند تو آ نہیں سکتی تھی تو یہ لوگ گاؤں کے باہر ایک سرے سے دوسرے سرے تک ٹہلتے رہے۔ پھر کہتے ہیں کہ آدھی رات کو دریا کے کنارے ہم ریت پر بیٹھ گئے۔ قرآن کریم کے جو حصے ہمیں یاد تھے ایک دوسرے کو سنانے لگ گئے۔ پھر آیات کی تفسیر میں باتیں ہوتی رہیں۔ بہرحال یہ دینی باتیں ہوتی رہیں۔ پھر کچھ رات گذری تو حضرت مولانانذیر احمد علی صاحب نے ایک لمبی پر سوز دعا کرائی کہ اللہ تعالیٰ اس گاؤں والوں کو ہدایت دے اور اسلام کی اور احمدیت کی ترقی اور اپنے نیک مقاصد کے لئے دعائیں کیں۔ پھر اس کے بعد ٹہلنا شروع کیا۔ پھر یہ کہتے ہیں کہ تین بجے کے قریب ہم لوگ اٹھے اور گاؤں میں گئے کہ مسجد میں جا کر تہجد کی نماز پڑھیں۔ جب مسجد میں داخل ہوئے ہیں تو مسلمان کہلانے والوں کی مسجد کا یہ حال تھا کہ ایک دم اندھیرے میں عجیب قسم کی آوازیں آنا شروع ہوئیں اور تھوڑی دیر بعد وہاں مسجد سے بکریوں کا ریوڑ باہر نکلا۔ مسجد میں گند ڈالا ہوا تھا۔ کہتے ہیں ہم نے مسجد صاف کی اور پھر صفیں بچھا کر نماز پڑھنی شروع کی۔ فجر کی نماز کا وقت ہوا۔ پھر ہم دونوں نے باری باری اذان دی۔ اور اذان دینے سے لوگ ہماری طرف آنا شروع ہوئے، غیر مسلم بھی آنا شروع ہوئے۔ ان کے جو بڑے مسلمان لیڈر تھے وہ اس لئے آ گئے کہ کہیں یہ نہ ہو کہ رات جو کسی نے جگہ دے دی ہو اور انہوں نے ہماری مسجد پر قبضہ کر لیا ہو۔ خیر اس کے بعد ہم نے نماز پڑھی۔ وہ ہمیں نمازپڑھتے ہوئے دیکھتے رہے اور انہوں نے کہا کہ فرق تو کوئی نہیں ہے۔ یہ تو غلط مشہور ہوا ہے کہ ان کی اذان کا فرق ہے یا نماز میں فرق ہے۔ سوائے نماز کے کہ احمدی نماز ہاتھ باندھ کر پڑھ رہے تھے اور ان میں سے اکثریت کیونکہ وہاں مالکیوں کی ہے وہ ہاتھ چھوڑ کر نماز پڑھتے ہیں تو صرف یہ فرق ہے۔ بہرحال اتنا سا تعارف ہوا اور گاؤں والوں نے کوئی پذیرائی نہیں کی۔ مخالفت تو کم نہیں ہوئی۔ یہ شکر ہے کہ انہوں نے ان کو مسجد میں نماز پڑھنے سے روکا نہیں اور نماز پڑھ کے پھر یہ لوگ واپس آ گئے۔ تو ایسے حالات سے بھی گذرے لیکن بعد میں پھر اللہ تعالیٰ نے احمدیت کا وہاں نفوذ کیا اور احمدیت ان علاقوں میں پھیلی۔ تو یہ تفقہ فی الدین کا حقیقی اور عملی اظہار ہے جو ہمارے مبلغین نے کیا۔
پس ایک واقفِ زندگی کو اپنی خواہشات کی قربانی بھی دینی پڑتی ہے۔ شدائد سے بھی گذرنا پڑتا ہے۔ مشکلات کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے اور جیسا کہ مَیں نے کہا آج بھی بعض جگہ یہ نمونے ہمیں نظر آتے ہیں اور دیکھے ہیں۔ لیکن ہمارے نئے شامل ہونے والے مربیان بھی، مبلغین بھی اور واقفینِ نو کو بھی ان باتوں کو سامنے ر کھ کر اپنے میدان میں بھی اور تعلیم کے دوران بھی اس طرح کام کرنا چاہیئے اور اس سوچ کے ساتھ اپنے آپ کو تیار کرنا چاہیئے کہ یہ جذبہ ہے جو ہم نے لے کر میدان عمل میں جانا ہے۔ میرے سامنے جامعہ کے بہت سارے طلباء بیٹھے ہوئے ہیں۔ ابھی سے ہی یہ سوچنا شروع کر دیں کہ اس کے بغیر ہم دین کو پھیلا نہیں سکتے۔ اور اگر یہ نہیں ہو گا تو پھر میدانِ عمل میں سوائے گبھرا جانے کے اور کچھ نہیں ہو گا۔ اور بعض تو بدقسمتی سے یہ سُن کر ہی کہ بعض دفعہ ان کی ٹرانسفر کی گئی تو وقف ختم کر دیا اور وقف سے پیچھے ہٹ گئے۔ اس لئے ابھی سے اپنے آپ کو تیار کریں کہ ہمیں یہ سب قسم کی سختیاں برداشت کرنی ہیں۔ اور جامعہ میں پڑھنے والوں سے میں خاص طور پر یہ کہہ رہا ہوں کہ ابھی سے ان سختیوں کے بارے میں سوچ لیں۔ آج کل واقفینِ نو میں سے ایک بڑی تعداد (تعداد کے لحاظ سے تو ایک اچھی تعداد ہے لیکن واقفینِ نو کی نسبت کے لحاظ سے نہیں) جو مختلف ملکوں کے جامعہ احمدیہ میں پڑھ رہی ہے۔ انہیں ہمیشہ پہلے اپنے والدین کے عہد کو، پھر اپنے عہد کو اور اپنے بزرگوں کی قربانیوں کو اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی توقعات کو سامنے رکھنا چاہیئے، اور ان باتوں کو سامنے رکھتے ہوئے اللہ تعالیٰ سے کئے ہوئے عہد کو پورا کرنے کی بھرپور کوشش کرنی چاہیئے۔ یہ وفا کا مظاہرہ ہے جو ہر واقفِ زندگی کو اپنے سامنے رکھنا چاہیئے۔
عاجزی اور وقار
یہ بھی یاد رکھیں کہ مربی اور مبلغ کا ایک وقار ہے جیسا کہ پہلے بھی میں نے کہا، اس لئے عاجزی دکھائیں۔ بیشک عاجزی تو مبلغ کے لئے ضروری ہے لیکن وقار کا بھی خیال رکھنا ضروری ہے۔ اپنی ضرورت، اپنی خواہش کا اظہار کسی کے سامنے نہ کریں ۔ جیسا کہ حضرت مولوی صاحب نے بھی نصیحت کی ہے کہ اپنی ضروریات کو ہمیشہ خدا کے سامنے پیش کرو۔ اور یہ میرا اپنا ذاتی تجربہ بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ ضروریات پوری کرتا ہے۔ گھانا میں میدان میں رہا ہوں۔ بڑے مشکل حالات تھے۔ جو مانگنا ہے خدا تعالیٰ سے مانگیں۔ تنگی ترشی برداشت کر لیں، لیکن اپنے وقار کو کبھی نہ گرائیں۔ اور یہ باتیں صرف نئے آنے والوں کو نہیں کہہ رہا بلکہ پُرانوں کو بھی جو میدانِ عمل میں ہیں انہیں بھی اس بات کا خیال رکھنا چاہیئے۔ بعض دفعہ بھول جاتے ہیں یا بعض دفعہ دنیا داروں کو دیکھ کر خواہشات بڑھ جاتی ہیں۔ ہر مربی جماعت کی نظر میں، مرکز کی نظر میں، افرادِ جماعت کی نظر میں خلیفۂ وقت کا نمائندہ ہے۔ پس کوئی ایسی حرکت نہیں ہونی چاہیئے جس سے اس نمائندگی پر حرف آتا ہو۔ بعض دفعہ بیوی بچوں کی وجہ سے مجبور ہو کر بعض ضروریات کا اظہار ہو جاتا ہے۔ جماعت اپنے وسائل کے لحاظ سے حتی الامکان واقفِ زندگی کو سہولت دینے کی کوشش کرتی ہے اور کرنی چاہیئے۔ لیکن جس طرح دنیا میں معاشی بدحالی بڑھ رہی ہے، غریب ممالک میں خاص طور پر بُرا حال ہو جاتا ہے۔ باوجود کوشش کے مہنگائی کا مقابلہ مشکل ہو جاتا ہے۔ لیکن ایک مربی کا ایک واقفِ زندگی کا وقار اسی میں ہے کہ کسی کے سامنے اپنی مشکلات کا ذکر نہ کرے۔ جو رونا ہے خداتعالیٰ کے آگے روئیں، اسی سے مانگیں۔ میں نے پہلے جو بزرگوں کی مثالیں دی ہیں، آج بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے ایسی قربانیاں موجود ہیں۔ لیکن بعض بے صبرے بھی ہوتے ہیں۔ جیسا کہ مَیں نے کہا وقف بھی توڑ جاتے ہیں۔ دوسروں کو دیکھ کر جب اپنی خواہشات کو پھیلایا جائے تو پھر یہ حال ہو جاتا ہے۔ اس سے مشکلات مزید بڑھتی ہیں۔ جب آپ اپنے ہاتھ، خواہشات کو دوسروں پر نظر رکھتے ہوئے پھیلاتے ہیں تو یا وقف توڑ دیں گے یا پھر مقروض ہو جائیں گے۔ پس اپنی چادر میں رہنا ہی ایک واقفِ زندگی کا کام ہے۔ اور اس حوالے سے میں واقفین زندگی کی بیویوں کو بھی کہوں گا کہ وہ بھی اپنے اندر قناعت پیدا کریں اور اپنے خاوندوں سے کوئی ایسا مطالبہ نہ کریں جو پورا نہ ہو اور واقفِ زندگی کو ابتلا میں ڈال دے۔ پس جس عظیم کام کیلئے اور جس عظیم مجاہدے کے لئے واقفین زندگی خاص طور پر مبلغین اور مربیان نے اپنے آپ کو پیش کیا ہے، ان کی بیویوں کا بھی کام ہے کہ اس کام میں، اس مجاہدے میں ان کی معاون بنیں۔
ایک مبلغ اور مربی کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام کے اس ارشاد کو ہمیشہ سامنے رکھنا چاہیئے۔ مدرسہ احمدیہ کے اجراء کے وقت آپؑ نے فرمایا کہ ’’یہ مدرسہ اشاعتِ اسلام کا ایک ذریعہ بنے اور اس سے ایسے عالم اور زندگی وقف کرنے والے لڑکے نکلیں جو دنیا کی نوکریوں اور مقاصد کو چھوڑ کر خدمتِ دین کو اختیار کریں، جو عربی اور دینیات میں توغّل رکھتے ہوں‘‘
یعنی علوم حاصل کرنے اور سمجھنے کی اُن میں ایک لگن ہو۔ اللہ تعالیٰ ہمارے مربیان مبلغین کو ان باتوں کو سامنے رکھنے اورعمل کرنےکی توفیق عطا فرمائے۔
واقفینِ نو کے سلسلہ میں بعض انتظامی باتیں بھی ہیں جو کہنا چاہتا ہوں:
تعلیم کے سلسلہ میں مرکز سے اجازت
واقفینِ نو کی ایک بڑی تعداد ایسےلڑکوں اور لڑکیوں پر مشتمل ہے جو دینی علم حاصل کرنے کے لئے جامعہ میں داخل نہیں ہوتے اور مختلف میدانوں میں جاتے ہیں۔یہ بہت بڑی تعداد ہے۔ جماعت کو ایسے واقفین کی بھی ضرورت ہوتی ہے جو مختلف فیلڈز میں جائیں اور جماعت کی خدمت کریں۔ اس لئے پڑھائی کی ہر سٹیج پر واقفینِ نو کو مرکز سے مشورہ کرنا چاہیئے کہ اب یہاں پہنچ گئے ہیں ہم آگے کیا کریں۔۔۔ ہمارا یہ یہ ارادہ ہے کیا کرنا چاہیئے؟ اس وقت اللہ تعالیٰ کے فضل سے ساڑھے چودہ ہزار بچے اور بچیاں ہیں جو پندرہ سال سے اوپر ہو چکے ہیں ۔ کل تعداد تو چالیس ہزار ہے۔ ایک تو اس عمر میں ان کو خود وقف کے فارم پُر کرنے چاہیئں کہ وہ وقف قائم رکھنا چاہتے ہیں یا نہیں ۔ یہ ہوش کی عمر ہے۔ سوچ سمجھ کر فیصلہ کریں کہ وقف کو قائم رکھنا ہے یا وقف نہیں کرنا۔ پہلے ماں باپ نے وقف کیا تھا اب واقفِ زندگی بچے نے، وقفِ نو بچے نے خود کرنا ہے۔ اگر قائم رکھنا ہے تو مرکز کو اطلاع ہونی ضروری ہے ۔ اور پھر رہنمائی بھی لیں کہ ہمیں کیا کرنا چاہیئے۔ ہم جامعہ میں تو نہیں جا رہے ، یہ یہ ہمارے شوق ہیں ، تعلیم میں ہمیں یہ دلچسپی ہے تو آپ ہماری رہنمائی کریں کہ ہم کون سی تعلیم حاصل کریں۔ بیشک جیسا کہ مَیں نے کہا اپنا شوق بتائیں ، اپنی دلچسپی بتائیں لیکن اطلاع کرناضروری ہے اور مختلف وقتوں میں پھر انکی رہنمائی ہوتی رہے گی۔
جیسا کہ مَیں نے کہا کہ سیکریٹریانِ وقفِ نو کو بھی فعال ہونے کی ضرورت ہے اور اگر یہ فعال ہونگے تو اپنی متعلقہ جماعتوں کے واقفینِ نو بچوں سے معلومات لے کر مرکز کو اطلاع بھی کریں گے اور پھر مرکز یہ بتائے گا کہ کیا کام کرنا ہے کیا نہیں کرنا یا کیا آگے پڑھنا ہے یا پڑھائی مکمل کرنے کے بعد مرکز میں اپنی خدمات پیش کرنی ہیں۔ خود ہی فیصلہ کرنا واقفِ نو کا کام نہیں ہے، نہ ان کے والدین کا۔ اگر خود فیصلہ کرنا ہے تو پھر بھی بتا دیں کہ میں نے یہ فیصلہ کیا ہے اور اب میں وقفِ نو میں رہنا نہیں چاہتا تا کہ اس کو وقفِ نو کی لسٹ سے خارج کر دیا جائے۔
تعلیم مکمل کرنے کے بعد دوبارہ تجدید وقف
گو کہ اب تک یہی ہدایت ہے کہ پندرہ سال کے بعد جب اپنا وقف کا فارم فِل کر دیا تو پھر واپسی کا کوئی راستہ نہیں ہےلیکن اب میں یہ راستہ بھی کھول دیتا ہوں۔ تعلیم مکمل کر کے دوبارہ لکھیں اور یہ لکھوانا بھی سیکریٹریانِ وقفِ نو کا کام ہے۔ اور اس کی مرکز میں باقاعدہ اطلاع ہونی چاہیئے کہ ہم نے یہ تعلیم مکمل کر لی ہے اور اب ہم اپنا وقف جاری رکھنا چاہتے ہیں یا نہیں رکھنا چاہتے۔
واقفینِ نو کی تعلیمی صورت حال کے بارہ میں رپورٹ
پندرہ سال سے اوپرکی جو تعداد ہے اس کا تقریباً دس فیصد یعنی 1426 کے قریب مختلف ممالک کے جامعہ احمدیہ میں واقفینِ نو پڑھ رہے ہیں یعنی نوّے فیصد اپنی دوسری تعلیم حاصل کر رہے ہیں جو مختلف کالجوں اور یونیورسٹیوں میں پڑھ رہے ہیں یا پڑھائیاں چھوڑ بیٹھے ہیں یا کوئی پیشہ وارانہ تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ اس بارہ میں بھی باقاعدہ رپورٹ تیار ہونی چاہیئے۔ میرا نہیں خیال کہ نوّے فیصد کے بارے میں مرکز کو باقاعدہ آگاہ کیا گیا ہے کہ یہ واقفینِ نو بچے کیا کر رہے ہیں ۔ان کی رپورٹ تیار ہو۔ سیکریٹریانِ وقفِ نو سے مَیں کہہ رہا ہوں کہ ان کی رپورٹ تیار ہو اور یہ رپورٹ مرکز میں بھجوائیں۔
وقفِ نو سلیبس
اسی طرح واقفینِ نو کے لئے، چاہے وہ جامعہ میں پڑھ رہے ہیں یا نہیں پڑھ رہے یا کوئی دنیاوی تعلیم حاصل کر رہے ہیں ، دینی تعلیم حاصل کرنا بھی ضروری ہے۔ اور ان کے لئے بھی سلیبس بنایا گیا ہے۔ پہلے پندرہ سال کے بچوں کے لئے تھا اب انیس سال تک کے لئے بنایا گیا ہے۔ اس کو پڑھنا اور اس کا امتحان دینا بھی ضروری ہے اور یہ انیس سال والا بیس سال تک بھی ایکسٹینڈ کیا جا سکتا ہے۔ تو اس میں شامل ہونا اور اس میں واقفینِ نو کے سیکریٹریان کی یہ کوشش ہونی چاہیئے کہ سو فیصد شمولیت ہو، یہ بھی ضروری ہے اور پھر ان کے نتائج مرکز میں بھجوائے جائیں۔
مرکز کی ہدایات پر عمل
مختلف اوقات میں یہاں مرکز سے بھی شعبہ وقفِ نو سے ہدایات جاتی رہتی ہیں اُن کے بارہ میں بعض جماعتیں بلکہ اکثر جماعتیں جواب ہی نہیں دیتیں۔ ان کی یاد دہانی کے لئےگو کہ بعض باتیں پہلے بھی آ گئی ہیں لیکن جو سرکلر جاتے ہیں وہ مَیں دوبارہ آپ کے سامنے پیش کر دیتا ہوں۔
تحریک وقفِ نو میں شمولیت کا صحیح طریق
مثلاً ایک ہدایت یہ ہے کہ وقفِ نو میں شمولیت کے لئے لازمی ہے کہ ولادت سے قبل والدین خود تحریری طور پر خلیفۂ وقت کو درخواست دیں اور بعض دفعہ بعض لوگ بعد میں، پیدائش کے بعد درخواستیں بھیجتے ہیں کہ ہمیں بھول گیا تھا یا فلاں مجبوری ہو گئی تھی تو یہ ٹھیک نہیں ۔ شروع میں درخواست دینی ضروری ہے اور انہیں کا قبول کیا جاتا ہے جو پہلے درخواست دیتے ہیں اور یہی پہلے دن سے وقفِ نو کے شعبے کا اصول رہا ہے۔ یہاں صرف ایک بات کی مَیں وضاحت کر دوں کہ لوگ خط لکھتے ہیں وقفِ نو میں درخواست دیتے ہیں، اس میں اپنے بعض دوسرے مسائل بھی لکھ دیتے ہیں۔ اور کیونکہ یہ شعبے جنہوں نے جواب دینے ہیں مختلف ہیں۔ وقفِ نو کا جواب وقفِ نو کا شعبہ دے گا ۔ خط کے باقی حصے کا جواب دوسرے حصے نے دینا ہوتا ہے۔ اس لئے وہ عورتیں اور مرد جو اپنے بچوں کیلئے وقفِ نو کے لئے لکھتے ہیں اگر انہوں نے اپنے خطوط میں دوسرے مسائل لکھنے ہوں تو دوسرے خط میں علیحدہ لکھا کریں۔ پھر یہ کہ واقفینِ نو بچے بچی کے جو والدین ہیں خود یہ درخواست کریں۔ انکے رشتے داروں کی درخواستیں جو ہیں وہ منظور نہیں ہوں گی۔ دعا تو آپ نے اپنے بچوں کو وقف کرنے کےلئے کرنی ہے ، اسلئے درخواست بھی خود دینی ہو گی کیونکہ تربیت اور تعلیم اور دعا سب آپکی ذمہ داری ہے۔
اور پھر یہ ہے کہ بعض علاقوں میں افریقہ وغیرہ میں جہاں بعض دفعہ پوری طرح ہدایات پر عمل نہیں ہوتا۔ اوّل تو ان کا اپنے رجسٹروں میں ویسےنام لکھ لیا جاتا ہے کہ جی بچہ ہوا ان سے کہا وقفِ نو میں شامل کر لو وقفِ نو ہو گیا۔ جب تک مرکز کی طرف سے کسی کو وقفِ نو میں شامل ہونے کی کلیرنس نہیں ملتی کوئی بچہ وقفِ نو میں شامل نہیں ہو سکتا اور پیدائش کے بعد تو سوال ہی نہیں۔ اور اسی طرح جو گود میں لینے والے بچے ہیں اگر وہ اپنے عزیز رشتہ داروں کے ہیں تو اس کی بھی ولادت کے وقت سے پہلے اطلاع ہونی چاہیئے کہ بچہ وقفِ نو میں شامل کرنا ہے۔ اور بیشک گود آپ نے لیا ہو کسی بھی زید یا بکر نے لیکن ولدیت میں اسی کا نام لکھا جائے گا جس کا وہ حقیقی بچہ ہے۔
پھر پیدائش کے بعد یہ بھی لازمی ہے کہ والدین مرکزی ریکارڈ میں بچے کا اندراج کروائیں اور حوالہ نمبر درج کریں۔ والدین بعض دفعہ لمبا عرصہ اندراج نہیں کرواتے اور اس کے بعد پھر یاد دہانی کے باوجود اندراج نہیں کرواتے اور پھر کئی سالوں کے بعد یہ شکایتیں لے کر آ جاتے ہیں کہ ہمارے بچے کا ریکارڈ نہیں ہے تو یہ ذمہ داری بھی والدین کی ہے۔
تجدیدِ وقفِ نو
اسی طرح جب بچے پندرہ سال کی عمر کو پہنچ جائیں تو مقامی اور نیشنل سیکریٹریانِ وقفِ نو ان کے وقف کی تجدید کروائیں۔ پہلے بھی مَیں بتا چکا ہوں، بلکہ اب مَیں نے کہا ہے کہ جو یونیورسٹیوں ، کالجوں میں پڑھ رہے ہیں وہ پڑھائی مکمل کرنے کے بعد بھی تجدید کریں۔ کیونکہ اب اس ریکارڈ کو بہت زیادہ اَپ ڈیٹ کرنے کی ضرورت ہے اور اس کو باقاعدہ رکھنے کی ضرورت ہے۔اس کے بغیر ہم آگے اپنی جو بھی سکیم ہے، جماعت کی ضروریات ہیں، ان کا اندازہ ہی نہیں کر سکتے اور نہ ہی ہمیں ان کا یہ پتا لگ سکتا ہے کہ ہمیں کس کس شعبے میں کتنے لوگوں کی اب ضرورت ہے۔
تجنید وقفِ نو میں شامل نہ ہونے والے بچے
بعض دفعہ والدین کے لئے ایک بڑے صدمے والی بات ہوتی ہے کہ بچہ معذور پیدا ہوا ہے۔ ایسی صورت میں بھی وقفِ نو میں تو شامل نہیں ہوتا۔ گو یہ والدین کے لئے دوھرا صدمہ ہے ۔ اللہ تعالیٰ کوئی اوربہتر صورت کرے یاایسے والدین کو نعم البدل اولادعطا کرے۔
پھراسی طرح ایسے والدین جن کو کسی وجہ سے اخراج از جماعت کی تعزیر ہو جاتی ہے ،عموماً یہی ہوتا ہے کہ جماعت کی بات نہیں مانی یا کسی فیصلہ یا جماعتی روایات پر عمل نہیں کیا، تو ان بچوں کا نام بھی اس لئے فہرست میں سے خارج کر دیا جاتا ہے کہ جو والدین خود اپنے آپ کو اس معیار پر نہیں رکھنے والے کہ جہاں جماعت کی پوری اطاعت اور نظامِ جماعت کا احترام ہو تو وہ اپنے بچوں کی کیا تربیت کریں گے۔ اس لئے سیکریٹریانِ وقفِ نو بھی یہ نوٹ کر لیں کہ اگر ایسی کوئی بات ہو کسی کے بارے میں کوئی تعزیر ہو تو ایسے لوگوں کی بھی فوراً مرکزمیں اطلاع کریں۔ یہ سیکریٹریانِ وقفِ نو کا کام ہے۔
تعلیم مکمل کرنے کے بعد مرکز کو اطلاع
اور اسی طرح یہ تو مَیں پہلے ہی کہہ چکا ہوں کہ یونیورسٹیوں میں پڑھنا چاہیں تو بتا دیں اور پہلے اجازت لے لیں۔ اور جو یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کر چکے ہوں اور اپنا وقف میں رہنا بھی کنفرم کیا ہوا ہو تو ان کے لئے بھی لازمی ہے کہ وقتاً فوقتاً جماعت سے رابطہ رکھیں کہ اب ہم کام کر رہے ہیں، کام کرنے کا عرصہ اتنا ہو گیا ہے۔ فی الحال اکثریت کو اجازت دی جاتی ہے کہ اپنے کام جاری رکھو ۔ جب جماعت کو ضرورت ہو گی بُلا لے گی لیکن ان کا کام یہ ہے کہ ہر سال اس کی اطلاع دیتے رہیں۔ اسی طرح جو دوسرے پیشے کے لوگ ہیں جو اعلیٰ تعلیم تو حاصل نہیں کر سکے لیکن دوسرے پیشوں میں مختلف قسم کے skills ہیں ، ان میں Professions ہیں، ان میں چلے گئے ہیں تو ان کو بھی اپنے مکمل کرنے کے بعد ٹریننگ یا ڈپلومہ وغیرہ کی اطلاع کرنی چاہیئے۔
اللہ تعالیٰ ان سب واقفینِ نو اور تمام واقفاتِ نو کو جماعت کے لئے بھی مفید وجود بنائے اور ہمیں توفیق دے کہ ہم ان لوگوں کی جو جماعت کی امانت ہیں جو قوم کی امانت ہیں احسن رنگ میں تربیت بھی کر سکیں اور جماعت کے لئےایک مفید وجود بنانے میں ان کی مدد بھی کرنے والے ہوں ۔
(الفضل انٹرنیشنل 12 نومبر 2010ء۔جلد 17 شمارہ 46۔ صفحہ 5 تا 9)
اِذْ قَالَـتِ امْـرَاَتُ عِـمْـرٰنَ رَبِّ اِنِّیْ نَـذَرْتُ لَکَ مَا فِیْ بَـطْنـِیْ مُـحَرَّرًا فَـتَـقَـبَّلْ مِـنِّی ج اِنَّکَ اَنْـتَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْـمُ
فَـلَـمَّا بَـلَـغَ مَـعَـہُ السَّـعْیَ قَالَ یٰـبـُـنَیَّ اِنِّیْٓ اَرٰی فِی الْـمَـنَامِ اَنِّیْٓ اَذْبَـحُـکَ فَانْــظُرْ مَاذَا تَـرٰی ط قَالَ یٰٓــاَبَـتِ افْـعَلْ مَا تُــؤْمَــرُ ز سَـتَـجِدُنِیْٓ اِنْ شَـآ ءَ اللّٰہُ مِنَ الـصّٰـبِرِیْنَ
وَ لْـتَکُنْ مِّنْکُمْ اُمَّـۃٌ یَّـدْ عُـوْ نَ اِلَی الْـخَیـْرِ وَ یَـاْمُـرُوْنَ بِالْـمَـعْـرُوْفِ وَ یَـنْـھَـوْنَ عَنِ الْـمُـنْکَـرِ ط وَ اُولٰٓـئــِکَ ھُـمُ الْـمُـفْلِـحُـوْنَ
وَ مَا کَانَ الْـمُـؤْمِـنُـوْنِ لِـیَـنْـفِـرُوْا کَآفَّــۃً ط فَلَوْ لَا نَفَـرَ مِنْ کُلِّ فِرْقَـۃٍ مِّـنْــھُـمْ طَآئِــفَـۃٌ لِّـیَـتَـفَــقَّـھُـوْا فِی الـدِّیْنِ وَ لِـیُـنْـذِرُوْا قَوْمَـھُـمْ اِذَا رَجَـعُــوْٓا اِلَـیْــھِـمْ لَـعَلَّھُـمْ یَـحْذَرُوْنَ
ان آیات کا ترجمہ یہ ہے کہ: جب عمران کی ایک عورت نے کہا اے میرے ربّ! جو کچھ بھی میرے پیٹ میں ہے یقیناًوہ میں نے تیری نذر کردیا دنیا کے جھمیلوں سے آزاد کرتے ہوئے۔ پس تُو مجھ سے قبول کرلے۔ یقیناً تُو ہی بہت سننے والا (اور)بہت جاننے والا ہے۔
پس جب وہ اس کے ساتھ دوڑنے پھرنے کی عمر کو پہنچا اُس نے کہا اے میرے پیارے بیٹے! یقیناًمیں سوتے میں دیکھا کرتا ہوں کہ میں تجھے ذبح کررہا ہوں، پس غور کر تیری کیا رائے ہے؟ اس نے کہا اے میرے باپ! وہی کر جو تجھے حکم دیا جاتا ہے۔ یقیناًاگر اللہ چاہے گا تو مجھے تُو صبر کرنیوالوں میں سے پائے گا۔
اور چاہیے کہ تم میں سے ایک جماعت ہو۔ وہ بھلائی کی طرف بلاتے رہیں اور نیکی کی تعلیم دیں اور بدیوں سے روکیں۔ اور یہی ہیں وہ جو کامیاب ہونے والے ہیں۔
مومنوں کے لئے ممکن نہیں کہ وہ تمام کے تمام اکٹھے نکل کھڑے ہوں۔ پس ایساکیوں نہیں ہوتا کہ ان کے ہر فرقہ میں سے ایک گروہ نکل کھڑا ہو تا کہ وہ دین کا فہم حاصل کریں اور وہ اپنی قوم کو خبردار کریں جب وہ ان کی طرف واپس لوٹیں تاکہ شاید وہ (ہلاکت سے ) بچ جائیں۔
آیات میں پیش ہونے والے مضامین کا خلاصہ
یہ آیات سورۃ اٰلِ عمران، سورۃ الصّٰٓفّٰت اور سورۃ التوبہ کی آیات ہیں۔ ان آیات میں ماں کی خواہش، ماں باپ کی بچوں کی صحیح تربیت، بچو ں کے احساسِ قربانی کو اجاگر کرنا اور اس کے لئے تیار کرنا، وقفِ زندگی کی اہمیت اور کام، اور پھر یہ کہ یہ سب کچھ کرنے کا مقصد کیا ہے؟ یہ بیان کیا گیا ہے ۔
پہلی آیت جو سورہ آلِ عمران کی ہے۔ یہ 36 ویں آیت ہے۔ اس میں ایک ماں کا بچے کو دین کی خاطر وقف کرنے کی خواہش کا اظہار ہے۔ اور دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ اسکو قبول کرلے۔
پھر سورۃ الصّٰٓفّٰت کی آیت ہے 103۔جو اسکے بعد مَیں نے تلاوت کی ہے اس میں خداتعالیٰ کی خاطر قربانی کے لئے تیارکرنے کی خاطر باپ کا بیٹے کی تربیت کرنا اور بیٹے کا خدا تعالیٰ کی خاطر ہر قسم کی قربانی دینے کے لئے تیار ہونے کا ذکر ہے۔ باپ کی تربیت نے بیٹے کو خداتعالیٰ کی رضا کے ساتھ جوڑ دیا۔ اور بیٹے نےکہا کہ اے باپ تو ہر قسم کی قربانی کرنے میں مجھے ہمیشہ تیارپائے گااور نہ صرف تیار پائے گا بلکہ صبر واستقامت کے اعلیٰ نمونے قائم کرنے والا پائے گا۔
پھر سورہ آلِ عمران کی آیت 105 میں نے تلاوت کی جس میں نیکیوں کے پھیلانے اور پھیلاتے چلے جانے والے اور بدیوں سے روکنے والے گروہ کا ذکر ہے۔ کیونکہ یہی باتیں ہیں جو اللہ تعالیٰ کی رضا کا ذریعہ بن کرایک انسان کو کامیاب کرتی ہیں۔
پھر سورہ توبہ کی 122 ویں آیت ہے جو میں نے آخر میں تلاوت کی ہے۔ اس میں فرمایا کہ نیکی بدی کی پہچان کے لئے دین کا فہم حاصل کرنا ضروری ہے۔ اور دین کا فہم کیا ہے یہ شریعت اسلامی ہےیا قرآن کریم ہے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ وَ رَضِیْتُ لَکُمُ الْاِسْلَامَ دِیْنًا ط اور تمہارے لئے دین کے طور پر اسلام کو پسند کیا ہے۔ پس اللہ تعالیٰ کی پسند حاصل کرنے کے لئے قرآن کریم کو سمجھنے کی ضرورت ہے اور یہ سب کچھ کرنے کا مقصد کیا ہے وہ یہ بیان فرمایا کہ تا کہ تم دنیا کو ہلاکت سے بچانے والے بن سکو۔
احمدی والدین کی خصوصیت:
پس یہ وہ مضمون ہے جس کا حق ادا کرنے کے لئے اس زمانے میں اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعودؑ کے ذریعے سے جماعت احمدیہ کاقیام فرمایا۔ یہی وہ جماعت ہے جس میں بچے کی پیدائش سے پہلے ماؤں کی دعائیں بھی ہمیں صرف اس جذبے کے ساتھ نظر آتی ہیں اس جذبے کو لئے ہوئے نظر آتی ہیں کہ رَبِّ اِنِّی ْ نَـذَرْتُ لَکَ مَا فِیْ بَــطْنِیْ مُحـَـرَّرًا فَـتَـقَـبَّـلْ مِـنِّیْ اے میرے ربّ جو کچھ میرے پیٹ میں ہے تیری نذر کرتی ہوں آزاد کرتے ہوئے یعنی دنیا کے جھمیلوں سے آزاد کرتے ہوئے پس تو اسے قبول فرما۔
آج آپ نظر دوڑاکر دیکھ لیں سوائے جماعت احمدیہ کی ماؤں کے کوئی اس جذبے سے بچے کی پیدائش سے پہلے اپنے بچوں کو خدا تعا لیٰ کی راہ میں قربان کر نے کے لئے پیش کرنے کی دعا نہیں کرتی۔ کو ئی ماں آج احمدی ماں کے علاوہ ہمیں نہیں ملے گی جو یہ جذبہ رکھتی ہو۔ چاہے وہ ماں پاکستان کی رہنے والی ہے یا ہندوستان کی ہے یا ایشیا کے کسی ملک کی رہنے والی ہے یا افریقہ کی ہے، یورپ کی رہنے والی ہے یا امریکہ کی ہے، آسٹریلیا کی رہنے والی ہے یا جزائر کی ہے۔ جو اس ایک اہم مقصد کے لئے اپنے بچوں کو خلیفۂ وقت کو پیش کرکے پھر خدا تعالیٰ سے یہ دعا نہ کررہی ہو کہ اے اللہ تعالیٰ ہمارے یہ وقف قبول فرمالے۔ یہ دعا کرنے والی تمام دنیا میں صرف اور صرف احمدی عورت نظر آتی ہے۔ ان کو یہ فکر ہوتی ہے کہ خلیفۂ وقت کہیں ہماری درخواست کا انکا ر نہ کردے۔ اور یہ صورت کہیں اور پیدا ہو بھی نہیں سکتی۔ یہ جذبہ کہیں اور پیدا ہو بھی نہیں سکتا کیونکہ خلافت کے سائے تلے رہنے والی یہی ایک جماعت ہے جس کو خدا تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عاشق صادق کے ذریعے سے قائم فرمایا ہے۔
اور پھر اس پر بس نہیں جماعت احمدیہ میں ہی وہ باپ بھی ہیں جو اپنے بچوں کی اس نہج پہ تربیت کرتے ہیں کہ بچہ جوانی میں قدم ر کھ کر ہر قربانی کے لئے تیار ہوتا ہے اور خلیفۂ وقت کو لکھتا ہے کہ پہلا عہد میرے ماں باپ کا تھا دوسرا عہد اب میراہے۔ آپ جہاں چاہیں مجھے قربانی کے لئے بھیج دیں۔ آپ مجھے ہمیشہ صبر کرنے والوں او ر استقامت دکھانے والوں میں پائیں گے اور اپنے ماں باپ کے عہد سے پیچھے نہ ہٹنے والوں میں پائیں گے۔ یہ وہ بچے ہیں جو امّتِ محمدیہ کے باوفا فرد کہلانے والے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی امّت میں ہونے کا حق ادا کرنے والے ہیں۔ ماں باپ کی تربیت اور بچے کی نیک فطرت نے انہیں حقو ق اللہ کی ادائیگی کے بھی رموز سکھائے ہیں اور حقو ق العباد کی ادائیگی کے بھی معیار سکھائے ہیں۔ جنہیں دین کا فہم حاصل کرنے کا بھی شوق پیدا ہوا ہے اور اسے زندگی پرلاگو کرنے کی طرف توجہ بھی پیدا ہوئی ہے اور پھر اس کے ساتھ تبلیغ اسلام اور خدمت انسانیّت کے لئے ایک جوش اور جذبہ بھی پیدا ہوا ہے۔
تحریکِ وقفِ نو کے مقاصد:
ہمیشہ یاد رکھیں کہ زندہ قومیں اور ترقی کرنے والی جماعتیں ان احساسات ، ان خیالات، ان جذبوں اور ان عہد پورا کرنے کی پابندیوں کوکبھی مرنے نہیں دیتیں۔ ان جذبوں کو ترو تازہ رکھنے کے لئے ہمیشہ ان باتوں کی جگالی کرتی رہتی ہیں۔ اگر کہیں سستیاں پیدا ہورہی ہوں تو ان کو دور کرنے کے لئے لائحہ عمل بھی ترتیب دیتی ہیں اور خلافت کے منصب کا تو کام ہی یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کے حکم ذَکِّر پر عمل کرتے ہوئے وقتاً فوقتاً یاد دہانی کرواتا رہے تاکہ جماعت کی ترقی کی رفتار میں کبھی کمی نہ آئے۔ اللہ تعالیٰ کے پیغام کو دنیا میں پھیلانے کے لئے ایک کے بعد دوسرا گروہ تیار ہوتا چلاجائے۔ جس طرح مسلسل چلنے والی نہریں زمین کی ہَریالی کا باعث بنتی ہیں اسی طرح ایک کے بعد دوسرا دین کی خدمت کرنیوالا گروہ روحانی ہریالی کا باعث بنتا ہے۔ جن علاقوں میں کھیتوں میں ٹیوب ویلوں یا نہروں کے ذریعوں سے کاشت کی جاتی ہے وہاں کے زمیندار جانتے ہیں کہ اگر ایک کھیت کو پانی مکمل لگنے سے پہلے پانی کا بہاؤ ٹوٹ جائے، پیچھے سےبند ہوجائے ، تو پھر نئے سرے سے پورے کھیت کو پانی لگانا پڑتا ہے۔ اور پھر وقت بھی ضائع ہوتا ہےاور پانی بھی۔ اسی طرح اگر اصلاح اور ارشاد کے کام کے لئے مسلسل کو شش نہ ہو یا کو ششیں کرنے والے مہیا نہ ہوں تو پھر ٹوٹ ٹوٹ کر جو پانی پہنچتاہے، جو پیغام پہنچتا ہے، جو کوشش ہوتی ہے وہ سیرابی میں دیر کردیتی ہے۔ تربیتی اور تبلیغی کاموں میں روکیں پیدا ہوتی ہیں۔ پس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہر قوم میں سے ایسے گروہ ہر وقت تیار رہنے چاہئیں جو خدا تعالیٰ کے پیغام کو پہنچانے کے بہاؤ کو کبھی ٹوٹنے نہ دیں۔
پس اسلئے میں آج پھر اس بات کی یاددہانی کروارہا ہوں کہ حضرت خلیفۃ المسیح الربع ؒ نے وقفِ نو کی جو سکیم شروع فرمائی تھی تو اس امید پر اور اس دعا کیساتھ کہ دین کی خدمت کرنیوالوں کا گروہ ہر وقت مہیا ہو تا رہے گا، یہ پانی کا بہاؤ کبھی ٹوٹے گا نہیں ۔ جماعت کے لٹریچر کا ترجمہ کرنیوالے بھی جماعت کو مہیا ہوتے رہیں گے۔ تبلیغ اور تربیت کے کام چلانے والے بھی بڑی تعداد میں مہیا ہوتے رہیں گے۔ اور نظامِ جماعت کے چلانے کےدوسرے شعبوں کو بھی واقفین کے گروہ مہیا ہوتے رہیں گے۔ پس اس بات کو ہمیں ہمیشہ اپنے سامنے رکھنے کی ضرورت ہے۔
تربیتِ اولاد کے سلسلہ میں والدین کی ذمہ داریاں:
ماں باپ کو اپنے بچوں کو پیش کرنے کے بعد اپنے فرض سے فارغ نہیں ہو جانا چاہئے۔ بے شک بچوں کو واقفینِ نو میں پیش کرنے کا جذبہ قابلِ تعریف ہے۔ ہر سال ہزاروں بچوں کو واقفینِ نو میں پیش کرنیکی درخواستیں آتی ہیں لیکن ان درخواستوں کے پیش کرنے کے بعد ماں اور باپ دونوں کی ذمہ داریاں بڑھ جاتی ہیں۔ ان بچوں کو اس خاص مقصد کے لئے تیار کرنا جو دنیا کو ہلاکت سے بچانے کا مقصد ہے اس کی تیاری کے لئے سب سے پہلےماں باپ کو کوشش کرنی ہوگی۔ اپنا وقت دے کر، اپنے نمونے قائم کرکے، بچوں کو سب سے پہلے خدا تعالیٰ سے جوڑنا ہوگا۔ بچوں کو نظامِ جماعت کی اہمیت اور اس کے لئے ہر قربانی کے لئے تیار ہونے کے لئے بچپن سے ہی ایسی تربیت کرنی ہوگی کہ ان کی کوئی اور دوسری سوچ ہی نہ ہو۔ ہوش کی عمر میں آکر جب بچے واقفینِ نو اور جماعتی پروگراموں میں حصّہ لیں تو ان کے دماغوں میں یہ راسخ ہو کہ انہوں نے صرف اور صرف دین کی خدمت کے لئے اپنے آپکو پیش کرنا ہے۔ زیادہ سے زیادہ بچوں کے دماغ میں ڈالیں کہ تمہاری زندگی کا مقصد دین کی تعلیم حاصل کرنا ہے ۔ یہ جو واقفینِ نو بچے ہیں ان کے دماغوں میں یہ ڈالنے کی ضرورت ہے۔
جامعہ احمدیہ میں تعلیم حاصل کرنے کی اہمیت:
دین کی تعلیم کے لئے جو جماعتی دینی ادارے ہیں ان میں جانا ضروری ہے۔ جامعہ احمدیہ میں جانے والوں کی تعداد واقفینِ نو میں کافی زیادہ ہونی چاہیئے۔ لیکن جو اعدادو شمار میرے سامنے ہیں ان کے مطابق سوائے پاکستان کے تمام ملکوں میں یہ تعداد بہت تھوڑی ہے۔ پاکستان میں تو اللہ کے فضل سے اس وقت 1033 واقفینِ نو جامعہ احمدیہ میں پڑھ رہے ہیں ۔ اور انڈیا میں جو تعداد سامنے آئی ہے وہ 93ہے۔ یہ میرا خیال ہے کہ شاید اس میں شعبہ وقفِ نو کو غلطی لگی ہو۔ اس سے تو زیادہ ہونے چاہیئں۔ بہر حال اگر اس میں غلطی ہے تو انڈیا کا جو شعبہ ہے وہ اطلاع دے کہ اس وقت جامعہ احمدیہ میں ان کے واقفینِ نو میں سے کتنے طلباء پڑھ رہے ہیں۔ جرمنی میں 70 ہیں۔ یہ رپورٹ ہے پچھلے جون تک ہے۔ اب وہاں 80 سے زیادہ ہو چکے ہیں۔ یہ صرف جرمنی کے نہیں اس میں یورپ کے مختلف ممالک کے بچے بھی شامل ہیں ۔ کینیڈا کے جامعہ احمدیہ میں 55 ہیں۔ اب اس میں کچھ تھوڑی سی تعداد شایدبڑھ گئی ہو۔ اس میں امریکہ کے بھی شامل ہیں۔ یوکے کے جامعہ میں گزشتہ رپورٹ میں 120 تھے۔ شاید اسمیں دس پندرہ کی کچھ تعداد بڑھ گئی ہو ۔ یہاں بھی یورپ کے دوسرے ممالک سے بچے آتے ہیں۔ گھا نا میں 12 ہے۔ یہ شایدوہاں جو نیا جامعہ شاہد کروانےکیلئےشروع ہوا ہے اس کی تعداد انہوں نے دی ہے۔ اسیطرح بنگلہ دیش میں 23 ہیں اوریہ کل تعداد جو اب تک دفتر کے شعبے کے علم میں ہے وہ 1400ہے جبکہ واقفینِ نو لڑکوں کی تعداد تقریباً 28 ہزار کے قریب پہنچ چکی ہے
ہمارے سامنے تو تمام دنیا کا میدان ہے ایشیا، افریقہ، یورپ، امریکہ، آسٹریلیا، جزائر، ہر جگہ ہم نے پہنچنا ہے۔ ہر جگہ ، ہر برّ اعظم میں نہیں، ہر ملک میں نہیں، ہر شہر میں نہیں، بلکہ ہر قصبے میں، ہر گاؤں میں۔ دنیاکے ہر فرد تک اسلام کے خوبصورت پیغام کو پہنچانا ہے۔ اس کیلئے چند ایک مبلغین کام کو انجام نہیں دے سکتے۔
بچوں میں وقفِ نو ہونے کی جو خوشی ہوتی ہے بچپن میں تو اس کا اظہار بہت ہورہا ہوتا ہے لیکن اس یورپی معاشرے میں ماں باپ کی صحیح توجہ نہ ہونے کی وجہ سے، دنیاوی تعلیم سے متاثر ہوجانے کی وجہ سے یا اپنے دوستوں کی مجلسوں میں بیٹھنے کی وجہ سے جامعہ کے بجائے دوسرے مضامین پڑھنے کی طرف توجہ زیادہ ہوتی ہے۔ بعض بچپن میں تو کہتے ہیں جامعہ میں جانا ہے۔ لیکن جب جی سی ایس سی پاس کرتے ہیں، سیکنڈری اسکولز پاس کرتے ہیں تو پھر ترجیحات بدل جاتی ہیں۔ بعض بچے بے شک ایسے ہوتے ہیں جو خاص ذہن رکھتے ہیں ان کے رحجانات کا بچپن سے ہی پتا چل جاتا ہے۔ ان کو بعض مضامین میں غیر معمولی دلچسپی ہوتی ہے۔ مثلاً سائنس کے بعض مضامین ہیں۔ اور اس میں ان کا دماغ بھی خوب چلتا ہے۔ انکو یقیناًاس مضمون کو لینےاور ان مضامین کو پڑھنے کی طرف انکرج کرنا چاہیئے۔ لیکن اکثریت صرف بھیڑ چال کی وجہ سے سیکنڈری اسکولز کرنے کے بعد اپنے مضامین کا انتخاب کرتے ہیں۔ اکثر بچے جب مجھے ملتے ہیں ، مَیں ان سے پوچھتا ہوں تو دسویں ( یہاں year ten کہلاتا ہے۔ امریکہ، کینیڈا، آسٹریلیا وغیرہ میں گریڈ کہلاتا ہے) اور جی سی ایس سی تک انکے ذہن میں کچھ نہیں ہوتا۔ ذہن بنا ہی نہیں ہوتا کہ ہم نے کونسے مضامین لینے ہیں۔
واقفینِ نو بچوں کی عمدہ تربیت کے طریق:
پس اگر ماں باپ کی تربیت شروع میں ایسی ہو کہ بچے کے ذہن میں بیٹھ جائے کہ مَیں واقفِ نو ہوں اور جو کچھ میرا ہے وہ جماعت کا ہے تو پھر صحیح وقف کی روح کے ساتھ یہ بچے کام کر سکیں گے۔ اور مضامین کے چناؤ کے لئے بھی ان میں مرکز سے، جماعت سے رہنمائی لینے کی طرف توجہ پیدا ہوگی۔جیسا کہ مَیں نے کہا کہ اس وقت صرف جماعت احمدیہ میں ایسے ماں باپ ہیں جو ایک جذبے سے اپنے بچے وقف کرتے ہیں اور پھر ان کی تربیت بھی ایک جذبے اور درد سے کرتے ہیں کہ بچے جماعت کی خدمت کرنے والے اور وقف کی روح کو قائم کرنے والے ہوں۔ لیکن ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ اکثریت جو اپنے بچوں کو وقفِ نو میں بھیجتی ہے وہ پھر ان کی تربیت کی طرف بھی اس طرح خاص توجہ دیتی ہے۔ پس ماں باپ کو ، اُن ماں باپ کو جو اپنے بچوں کو وقفِ نو میں بھیجتے ہیں یہ جائز ے لینے ہونگے کہ وہ اِس تحفے کو جماعت کو دینے میں اپنا حق کس حد تک ادا کر رہے ہیں؟ کس حد تک اس تحفے کو سجانے کی کوشش کررہے ہیں؟ کس حد تک خوبصورت بنا کر جماعت کو پیش کرنے کی طرف توجہ دے رہے ہیں؟ وہ اپنے فرائض کس حد تک پورے کر رہے ہیں؟ ان ملکوں میں رہتے ہوئے جہاں ہر طرح کی آزادی ہے، خاص طور پر بہت توجہ اور نگرانی کی ضرورت ہے۔ اسی طرح ایشیا اور افریقہ کے غریب ملکوں میں بھی بچے کو وقف کرکے بے پرواہ نہ ہو جائیں۔ بلکہ ماں اور باپ دونوں کا فرض ہے کہ خاص کوشش کریں ۔
واقفینِ نو کو اپنی اہمیت اور ذمہ داریوں کا احساس :
واقفینِ نو بچوں کو بھی میں کہتا ہوں جو بارہ تیرہ سال کی عمر کو پہنچ چکے ہیں کہ وہ اپنے بارے میں سوچنا شروع کردیں۔ اپنی اہمیت پر غور کریں۔ صرف اس بات پر خوش نہ ہوجائیں کہ آپ وقفِ نو ہیں۔ اہمیت کا پتہ تب لگے گا جب اپنے مقصد کا پتہ لگے گا۔کہ کیا آپ نے حاصل کرناہے اس کی طرف توجہ پیدا ہوگی اور پندرہ سال کی عمر والے لڑکوں اور لڑکیوں کو تو اپنی اہمیت اور اپنی ذمہ داریوں کا بہت زیادہ احساس ہو جانا چاہیے۔
واقفینِ نو کو سات اہم باتوں کی طرف توجہ :
ان آیات میں صرف ماں باپ یا نظامِ جماعت کی خواہش یا ایک گروہ یا چند لوگوں کی خواہش اور ذمہ داری کا بیان نہیں ہوا بلکہ بچوں کو بھی توجہ دلائی گئی ہے۔
پہلی بات جو ہر وقفِ نو بچے میں پیدا ہو نی چاہیے وہ اس توجہ کی روشنی میں یہ بیان کررہا ہوں اور وہ ان آیات میں آئی ہے کہ اس کی ماں نے اس کی پیدائش سے پہلے ایک بہت بڑے مقصد کے لئے اسے پیش کرنے کی خواہش دل میں پیدا کی۔ پھر اس خواہش کے پورا ہونے کی بڑی عاجزی سےدعا بھی کی ۔ پس بچے کو اپنے ماں باپ کی، کیونکہ اس خواہش اور دعا میں بعد میں باپ بھی شامل ہو جاتا ہے، ان کی خواہش اور دعا کا احترام کرتے ہوئے اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کی نذر ہونے کا حقدار بنانے کی کوشش کرنی چاہیے۔ اور یہ تبھی ہوسکتا ہے جب اپنے دل ودماغ کو ، اپنے قول وفعل کو اللہ تعالیٰ کی رضا کے مطابق بنانے کی طرف توجہ ہو۔
دوسری بات یہ کہ ماں باپ کا آپ پر یہ بڑا احسان ہے اور یہ احسان کرنیکی وجہ سےان کےلئے یہ دعا ہو کہ اللہ تعالیٰ ان پر رحم فرمائے۔ آپ کی تربیت کے لئے ان کی طرف سے اٹھنے والے ہر قدم کی آپ کے دل میں اہمیت ہو۔ اور یہ احساس ہو کہ میرے ماں باپ اپنے عہد کو پورا کرنے کے لئے جو کوشش کررہے ہیں میں نے بھی اسکا حصّہ بننا ہے۔ انکی تربیت کو خوشدلی سے قبول کرنا ہے۔ اور اپنے ماں باپ کے عہد پر کبھی آنچ نہیں آنے دینی۔ دین کو دنیا پر مقدم رکھنے کے عہد کا سب سے زیادہ حق ایک واقفِ نوکا ہے اور واقفِ نو کو یہ احساس ہونا چاہیے کہ یہ عہد سب سے پہلے اور سب سے بڑھکر میں نے پورا کرنا ہے
تیسری بات یہ کہ خدا تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے ہر قربانی کے لئے صبر اور استقامت دکھانے کا عہد کرناہے۔ جیسے بھی کڑے حالات ہوں، سخت حالات ہوں، مَیں نے اپنے وقف کے عہد کو ہر صورت میں نبھانا ہے۔ کوئی دنیاوی لالچ کبھی میرے عہدِ وقف میں لغزش پیدا کرنے والا نہیں ہوسکتا۔ اب تو اللہ تعالیٰ کا جماعت پر بہت فضل اور احسان ہے۔ خلافتِ ثانیہ کے دَور میں تو بعض موقعوں پر بعض سالوں میں قادیان میں ایسے حالات بھی آئے اتنی مالی تنگی تھی کہ جماعتی کارکنان کو کئی کئی مہینے ان کا جو بنیادی گزارا الاؤنس مقرر تھا وہ بھی پورا نہیں دیا جاسکتا تھا۔ اسی طرح شروع میں ہجرت کے بعد ربوہ میں بھی ایسے حالات رہے ہیں۔ لیکن ان سب حالات کے باوجود کبھی اس زمانے کے واقفین زندگی نے شکوہ زبان پر لاتے ہوئے اپنے کام کا حرج نہیں ہونے دیا ۔ بلکہ یہ تو دُور کی باتیں ہیں ستّر اور اسّی کی دہائی میں افریقہ کے بعض ممالک میں بھی ایسے حالات رہے جو مشکل سے وہاں گزارا ہوتا تھا۔ جو الاؤنس جماعت کی طرف سے ملتا تھاو ہ زیادہ سے زیادہ پندرہ بیس دن میں ختم ہوجاتا تھا۔ مقامی واقفین تو جتنا الاؤنس انکو ملتا تھا اس میں شائد دن میں ایک وقت کھانا کھاسکتے ہوں ۔ لیکن انہوں نے اپنے عہدِ وقف کو ہمیشہ نبھایا اور تبلیغ کے کام میں کبھی حرج نہیں آنے دیا۔
چوتھی بات یہ کہ اپنے آپکو اُن لوگوں میں شامل کرنے کے احساس کو ابھارنا اور اس کیلئے کوشش کرنا جو نیکیوں کے پھیلانے والے اور برائیوں سے روکنے والے ہیں۔ اپنے اخلاق کے اعلیٰ نمونے قائم کرنا۔ جب ایسے اخلاق کے اعلیٰ نمونے قائم ہونگے ، نیکیاں سر زد ہو رہی ہونگی ، برائیوں سے اپنے آپکو بچا رہے ہونگے تو ایسے نمونے کی طرف لوگوں کی توجہ خود بخود پیدا ہوتی ہے۔ لوگوں کی آپ پر نظر پڑے گی تو پھر مزید اسکا موقع بھی ملے گا۔ پس یہ احساس اپنے اندر پیدا کرنا بہت ضروری ہے اور کوشش بھی ساتھ ہو۔
پانچویں بات یہ کہ نیکیوں اور برائیوں کی پہچان کے لئے قرآن اور حدیث کا فہم و ادراک حاصل کرنا۔ حضرت مسیح موعودؑ کی کتب اور ارشادات کو پڑھنا۔ اپنے دینی علم کو بڑھانے کے لئے ہر وقت کوشش کرنا۔ بے شک ایک بچہ جو جامعہ احمدیہ میں تعلیم حاصل کرتا ہے وہاں اسے دینی علم کی تعلیم دی جاتی ہے۔ لیکن وہاں سے پاس کرنے کے بعد یہ نہیں سمجھنا چاہیے کہ اب میرے علم کی انتہا ہو گئی بلکہ علم کو ہمیشہ بڑھاتے رہنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ ایک دفعہ کا تفقّہ فی الدّین اس وقت فائدہ رساں رہتاہے جب تک اس میں ساتھ ساتھ تازہ علم شامل ہوتا رہے۔ تازہ پانی اس میں ملتا رہے۔ اسی طرح جو جامعہ میں نہیں پڑھ رہے ان کو بھی مسلسل پڑھنے کی طرف توجہ ہونی چاہیے۔ یہ نہیں کہ جو واقفینِ نو دنیاوی تعلیم حاصل کررہے ہوں ان کو دینی تعلیم کی ضرورت نہیں ہے۔ جتنا لٹریچر میسر ہے انکو پڑھنے کی طرف توجہ دینی چاہیے۔ قرآن کریم کا ترجمہ اور تفسیرپڑھنے کی طرف توجہ ہونی چاہیے۔ حضرت مسیح موعودؑ کی جو جو کتب ان کی زبانوں میں ہیں انکو پڑھنے کیطرف توجہ ہونی چاہیے۔
چھٹی بات جس کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے اور جس کی طرف ایک واقفِ نو کو توجہ دینی چاہیے وہ عملی طور پر تبلیغ کے میدان میں کودنا ہے۔ اب بعض واقفاتِ نو کو یہ شکوہ ہوتا ہے کہ ہمارے لئے جامعہ نہیں ہے۔ یعنی ہم دینی علم حاصل نہیں کرسکتے۔ اگر اپنے طور پر جس طرح مَیں نے پہلے بتایا پڑھیں تو اپنے حلقے میں جو بھی ان کا دائرہ ہے اس میں تبلیغ کی طرف توجہ پیدا ہوگی ،موقع ملے گا۔ اس کے لئے جب تبلیغ کی طرف توجہ پیدا ہو گی اور موقعے ملیں گے تو پھر مزید تیاری کی طرف توجہ ہوگی اور اس طرح دینی علم بڑھانے کی طرف خود بخود توجہ پیدا ہوتی چلی جائے گی ۔ پس تبلیغ کا میدان ہر ایک کے لئے کھلا ہے اور اس میں ہر وقفِ نو کو کودنے کی ضرورت ہے۔ اور بڑھ چڑھ کر ہر وقفِ نو کو حصّہ لینا چاہیے۔ اور یہ سوچ کر حصّہ لینا چاہیے کہ مَیں نے اس وقت تک چین سے نہیں بیٹھنا جب تک دنیا آنحضرت ﷺ کے جھنڈے تلےنہیں آ جاتی۔ اور یہ احساس اور جوش ہی ہے جو دینی علم بڑھانے کی طرف بھی متوجہ رکھے گا اور تبلیغ کی طرف بھی توجہ رہے گی۔
ساتویں بات ہر واقفِ زندگی کو، واقفِ نو کو خاص طور پر ذہن میں رکھنی چاہیئے کہ وہ اس گروہ میں شامل ہے جنہوں نے دنیا کو ہلاکت سے بچانا ہے۔ اگر آپ کے پاس علم ہےاور آپ کو موقع بھی مل رہا ہے لیکن اگر دنیا کو ہلاکت سے بچانے کا سچا جذبہ نہیں ہے ، انسانیّت کو تباہی سے بچانے کا درد دل میں نہیں ہے تو ایک تڑپ کے ساتھ جو کوشش ہو سکتی ہے وہ نہیں ہو گی۔ اور برکت بھی ہو سکتا ہے اس میں اس طرح نہ پڑے۔ پس اللہ تعالیٰ کے پیغام کو پہنچانے کے لئے ہر درد مند دل کو اپنی کوششوں کے ساتھ دعاؤں کی طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ اور یہ درد سے نکلی ہوئی دعائیں ہیں جو ہمیں اپنے مقصد میں انشاء اللہ کامیاب کریں گی۔ اس لئے ہر ایک کو یاد رکھنا چاہیئے کہ ہماری دعاؤں کا دائرہ صرف اپنے تک محدود نہ ہو بلکہ اس کے دھارے ہمیں ہر طرف بہتے ہوئے دکھائی دیں۔ تا کہ کوئی انسان بھی اس فیض سے محروم نہ رہے جو خدا تعالیٰ نے آج ہمیں عطا فرمایا ہے۔ ویسے بھی یاد رکھنا چاہیئے کہ ہمارے مقاصد کا حصول بغیر دعاؤں ، ایسی دعاؤں جو سچے جذبے اور ہمدردی سے پُر ہوں ، کے بغیر نہیں ہو سکتا۔
پس یہ باتیں اور یہ سوچ ہے جو ایک حقیقی واقفِ نو اور واقفِ زندگی کی ہونی چاہیئے۔ اس کے بغیر کامیابی کی امید خوش فہمی ہے۔ ان باتوں کے بغیر صرف واقفِ نو اور واقفِ زندگی کا ٹائٹل ہے جو ایسے واقفینِ نو نے اپنے ساتھ لگایا ہوا ہے۔ اس سے زیادہ اس کی کچھ حیثیت نہیں۔ اور صرف ٹائٹل لینا تو ہمارا مقصد نہیں، نہ ان ماں باپ کا مقصد تھا جنہوں نے اپنے بچوں کو اس قربانی کے لئے پیش کیا۔ پس جیساکہ میں بیان کر آیا ہوں ماں باپ کے لئے بھی اور واقفینِ نو کے لئے بھی یہ ضروری ہے کہ اپنی ذمہ داری نبھائیں۔
واقفینِ نو کی زیادہ سے زیادہ تعداد کو جامعہ احمدیہ میں آنا چاہیئے
میں دوبارہ اس طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ دنیا میں دین کے پھیلانے کے لئے دینی علم کی ضرورت ہے اور یہ علم سب سے زیادہ ایسے ادارہ سے ہی مل سکتا ہے جس کا مقصد ہی دینی علم سکھانا ہو۔ اور یہ ادارہ جماعت احمدیہ میں ’’جامعہ احمدیہ‘‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ آج اللہ تعالیٰ کے فضل سے جیسا کہ میں نے بتایا کہ جامعات صرف پاکستان یا قادیان میں نہیں ہیں یہیں تک محدود نہیں بلکہ یوکے میں بھی ہے۔ جو میں نے کوائف پیش کئے ہیں ان سے پتا لگتا ہےکہ جرمنی میں بھی ہے، انڈونیشیا میں بھی ہے، کینیڈا میں بھی ہے اور غانا میں بھی ہے۔ جیسا کہ میں نے کہا وہاں شاہد کروانے کیلئے نیا جامعہ کھلا ہے۔ پہلے وہاں جامعہ تو تھا لیکن تین سالہ کورس میں صرف معلمین تیار ہوتے تھے تو یہ جامعہ احمدیہ جو غانا میں کھلا ہے یہ فی الحال تمام افریقہ کی جماعت کیلئے شاہد مبلغ تیار کرے گا ۔ اسی طرح بنگلہ دیش میں بھی جامعہ احمدیہ ہے۔
تبلیغ کا کام بہت وسیع کام ہے اور یہ باقاعدہ تربیت یافتہ مبلغین سے ہی زیادہ بہتر طور پر ہو سکتا ہے۔ اس لئے واقفینِ نو کو زیادہ سے زیادہ یا واقفینِ نو کی زیادہ سے زیادہ تعداد کو جامعہ احمدیہ میں آنا چاہیئے۔ جبکہ جو اعداد و شمار میں نے بتائے ہیں اس سے تو ہم ہر ملک کے ہر علاقے میں جیسا کہ میں نے کہا مستقبل قریب کیا بلکہ دُور میں بھی ہر جگہ مبلغ نہیں بٹھا سکتے۔ اور جب تک کل وقتی معلمین اور مبلغین نہیں ہونگے انقلابی تبدیلی یا انقلابی تبلیغی پروگرام بہت مشکل ہے۔
اس وقت دنیا بھر سے شعبے کے پاس جو رپورٹ آئی ہے یہ شاید ان کے پاس جولائی 2012 تک کی رپورٹ ہے۔ اس کے مطابق 15 سال سے اوپر کے واقفینِ نو اور واقفاتِ نو کی تعداد 25 ہزار ہے۔ جس میں سے لڑکے 16988 ہیں اور ان میں پاکستان کے واقفینِ نو 10687 ہیں۔ پاکستان کے بعد جرمنی میں سب سے زیادہ واقفینِ نو ہیں۔ 1877 لڑکے اور 1155 لڑکیاں۔ پھر انگلستان ہے 918 لڑکے اور ان کی کل تعداد 1758 ہے باقی آٹھ سو کچھ لڑکیا ں ہیں۔ لیکن جامعہ احمدیہ میں آنے والوں کی تعداد جرمنی میں بھی اور یوکے میں بھی بہت کم ہے۔ ان دونوں جامعات میں یورپ کے دوسرے ملکوں سے بھی طالب علم آتے ہیں۔ اس طرح تو یہ تعداد اور بھی کم ہو جاتی ہے۔ اسی طرح امریکہ اور کینیڈا کے جامعات میں تعداد کم ہے۔ جماعتیں مبلغین اور مربیان کا مطالبہ کرتی ہیں تو پھر واقفینِ نو کو جامعہ میں پڑھنے کے لئے تیار بھی کریں۔ کینیڈا اور امریکہ میں اس وقت 15 سال سے اوپر تقریباً 800 واقفینِ نو ہیں۔ اگر ان کو تیار کیا جائے تو اگلے 2 سال میں جامعات میں داخل ہونے والوں کی تعداد خاصی بڑھائی جا سکتی ہے۔ صرف مربی مبلغ کیلئے نہیں بلکہ جامعہ میں پڑھ کے، دینی علم حاصل کر کے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب کے مختلف زبانوں میں تراجم کے لئے بھی تیار کئے جا سکتے ہیں۔ ان کو جامعہ میں پڑھانے کے بعد مختلف زبانوں میں سپیشلائز بھی کروایا جا سکتا ہے۔
واقفینِ نو زبانیں سیکھنے کی طرف توجہ کریں:
پھر جو جامعہ میں نہیں آ رہے وہ بھی زبانیں سیکھنے کی طرف توجہ کریں۔ اور زبانیں سیکھنے والے کم از کم جیسا کہ حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ؒ نے بھی فرمایا تھا اور یہ ضروری ہے کہ تین زبانیں ان کو آنی چاہیئں۔ ایک تو ان کی اپنی زبان ہو، دوسرے اردو ہو تیسرے عربی ہو۔ عربی تو سیکھنی ہی ہے قرآن کریم کی تفسیروں اور بہت سارےمیسرلٹریچر کو سمجھنے کے لئے۔ اور پھر قرآن کریم کا ترجمہ کرتے ہوئے جب تک عربی نہ آتی ہو صحیح ترجمہ بھی نہیں ہو سکتا ۔ اور اردو پڑھنا سیکھنا اس لئے ضروری ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب سے ہی اس وقت دین کا صحیح فہم حاصل ہو سکتا ہے کیونکہ آپؑ کی تفسیریں، آپکی کتب، آپکی تحریرات ہی ایک سرمایہ ہیں اور ایک خزانہ ہیں جو دنیا میں ایک انقلاب پیدا کر سکتی ہیں جو صحیح اسلامی تعلیم دنیا کو بتا سکتی ہیں۔ جو حقیقی قرآن کریم کی تفسیر دنیا کو بتا سکتی ہیں۔ پس اردو زبان سیکھے بغیر بھی صحیح طرح زبانوں میں مہارت حاصل نہیں ہو سکتی۔
ایک وقت تھا کہ جماعت میں ترجمے کے لئے بہت دقّت تھی۔ دقّت تو اب بھی ہے لیکن یہ دقّت اب کچھ حد تک مختلف ممالک کے جامعات کے جو لڑکے ہیں ان سے کم ہو رہی ہے یا اس طرف توجہ پیدا ہو رہی ہے۔ جامعہ احمدیہ کے مقالوں میں اردو سےترجمےبھی کروائے جاتے ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب، حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓ کی بعض کتب کے ترجمے کئے ہیں اور جو بھی طلباء کے سپر وائزر تھے ان کے مطابق اچھے ہوئے ہیں۔ لیکن بہرحال اگر معیار بہت اعلیٰ نہیں بھی تو مزید پالش کیا جا سکتا ہے۔ بہرحال ایک کوشش شروع ہو چکی ہے۔ لیکن یہ تو چند ایک طلباء ہیں جن کو دوچار کتابیں دے دی جاتی ہیں۔ ہمیں زیادہ سے زیادہ زبانوں کے ماہرین چاہیئں۔ اس طرف واقفینِ نو کو بہت توجہ کرنے کی ضرورت ہے۔ اگر جامعہ کے طلباء کے علاوہ کوئی کسی زبان میں مہارت حاصل کرتا ہے تو اسے جیساکہ میں نے کہا عربی اور اردو سیکھنے کی طرف بھی توجہ کرنی چاہیئے۔ اس کے بغیر وہ مقصد پورا نہیں ہو سکتا جس کے لئے زبان کی طرف توجہ ہے۔
جامعہ احمدیہ پر یہاں یا جرمنی میں یا بعض جگہ بعض لوگ اعتراض کر دیتے ہیں کہ یہاں پڑھائی اچھی نہیں ہے ۔ یہ بالکل بودے اعتراض ہیں۔ ان کے خیال میں ان کا جو اعتراض ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ جو جامعہ سے فارغ ہوتا ہے اسے عربی بولنی نہیں آتی یا بول چال اتنی اچھی نہیں ہے۔ جہاں تک زبان کی مہارت کا سوال ہے جامعہ احمدیہ میں کیونکہ مختلف مضامین پڑھائے جاتے ہیں صرف ایک زبان کی طرف ہی توجہ نہیں دی جاتی۔ باقی یونیورسٹیوںمیں یا دوسرے مدرسوں میں اگر پڑھایا جاتا ہے تو ایک مضمون پڑھا کر اس پر توجہ دی جاتی ہے۔ لیکن یہاں تو مختلف مضامین پڑھائے جاتے ہیں ۔ ہاں جب یہ دیکھا جائے کہ کسی کا کسی زبان کی طرف رجحان ہے یا زبانوں کے سیکھنے کی طرف رجحان ہے تو ان کو زبانوں میں پھر سپیشلائز بھی انشاء اللہ کروایا جائے گا۔ اور پھر بولنے کا جو شکوہ ہے وہ بھی دور ہو جائے گا۔ لیکن بہرحال جہاں تک پڑھائی کا سوال ہے جو علم دیا جا رہا ہے وہ بہت وسیع علم ہے جو جامعہ کے طلباء اللہ تعالیٰ کے فضل سے حاصل کر رہے ہیں۔ پاکستان میں تو کیونکہ پرانے جامعات ہو گئے ہیں وہاں تخصص بھی کروایا جاتا ہے۔ سپیشلائز بھی کروایا جاتا ہے۔ تو یہ تو بعض لوگوں کے، خاص طور پر جرمنی سے مجھے اطلاع ملی تھی، جامعہ میں بچوں کو نہ بھیجنے کے بہانے ہیں ۔ جیسا کہ میں نے کہا اللہ تعالیٰ کے فضل سے یوکے اور کینیڈا کے جو طلباء جامعہ سے فارغ ہوئے ہیں، ان کا تبلیغی میدان میں اب تک جو تھوڑا تجربہ ہوا ہے وہ اللہ کے فضل سے بڑے مؤثر رہے ہیں ۔ اور یہ علم تو جیسا کہ میں نے کہا ساتھ ساتھ انشاء اللہ بڑھتا چلا جائے گا۔ پس جو لوگ یہ باتیں کرتے ہیں اوربعض طلباء کو جامعہ آنے یا داخلہ لینے سے بددل کرتے ہیں یہ لوگ صرف فتنہ ہیں یا ان میں نفاق کا رنگ ہے۔ اس لئے ان کو بھی استغفار کرنی چاہیئے۔
انتظامی معاملات کی طرف توجہ:
جوشعبہ وقفِ نو ہے انہوں نے بعض انتظامی باتوں کی طرف بھی توجہ دلائی ہے جو میں دہرا دیتا ہوں۔ شاید پہلے بھی بعض کا ذکر ہو چکا ہو۔ وقفِ نو میں ماں باپ بچوں کی بلوغت کو پہنچ کر یا پہلے ہی اس طرح تربیت نہیں کرتے۔ جیسا میں پہلے ہی کہہ چکا ہوں کہ بچوں نے اپنے آپ کو باقاعدہ جماعت کی خدمت میں پیش کرنا ہے۔ ایسی تربیت سے بچوں کو یہ پتا ہونا چاہیئے۔ تعلیم کے ہر مرحلے پر ان کو توجہ دلائیں اور پھر وقفِ نو کا جو شعبہ ہے اس سے رہنمائی بھی حاصل کریں۔ اپنی تعلیم کے بارے میں بچوں کو پوچھنا چاہیئے کہ اب ہم اس سٹیج پر پہنچ گئے ہیں کیا کریں؟ اور اگر اس نےاپنی مرضی کرنی ہے یا ایسے شعبوں میں جانا ہے جس کی فی الحال جماعت کو ضرورت نہیں ہے تو پھر وقف سے فراغت لے لیں۔
واقفاتِ نو کے لئے خدمت کے میدان:
لڑکیاں جو واقفاتِ نو ہیں جو پاکستانی اُوریجن کی ہیں، پاکستان سے آئی ہوئی ہیں،جن کو اردو بولنی آتی ہے وہ اردو پڑھنی بھی سیکھیں۔اور جو یہاں باہر کے ملکوں میں رہ رہی ہیں وہ مقامی زبان بھی سیکھیں جہاں انگلش ہے، جرمن ہے یا ایسے علاقوں میں ہیں جہاں انگلش سرکاری زبان ہے اور مقامی لوکل زبانیں اور ہیں، وہ بھی سیکھیں۔ عربی سیکھیں۔ پھر اپنے آپ کو تراجم کے لئے پیش کریں۔ مَیں نے دیکھا ہےعورتوں میں لڑکیوں میں زبانوں کا ملکہ زیادہ ہوتا ہے۔ اس لئے وہ اپنے آپ کو پیش کر سکتی ہیں۔ پھر ڈاکٹر ہیں ٹیچر ہیں یہ بھی لڑکیاں اپنے آپ کو ٹیچر اور ڈاکٹر بن کے بھی پیش کر سکتی ہیں۔ اسی طرح لڑکے بھی۔ تو اس طرف بھی توجہ ہونی چاہیئے اور شعبہ کو ہر مرحلے پر پتا ہونا چاہیئے۔
مقامی جماعتی نظام کو لڑکوں اور لڑکیوں کی رہنمائی اور تربیت کے لئے سال میں کم از کم دو مرتبہ ان کے فورم منعقد کرنے چاہیئں جن میں کام اور تعلیم کی رہنمائی ہو۔
مرکز اور نیشنل شعبہ سے مسلسل رابطہ:
انکےشعبہ کوایک شکوہ یہ ہے کہ بعض والدین وقف کرنیکے بعد، حوالہ نمبر ملنے کے بعد، مقامی جماعت اور مرکز دونوں سے تقریباً لاتعلق ہو جاتے ہیں۔ یا ویسے رابطہ نہیں رکھتے جیسا کہ رکھنا چاہیئے۔ اور پھر ایک سٹیج پر پہنچ کے جب شعبہ یہ کہتا ہے کہ رابطہ نہیں ہے آٹھ دس سال گذر گئے ہیں انکو نکال دیا جائے تو اس وقت پھر شکوے پیدا ہوتے ہیں۔ اسلئے حوالہ نمبر ملنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اب رابطہ ختم کر لیا اور وقفِ نو ہو گیا۔ مسلسل رابطہ دفتر سے اور اپنے نیشنل سیکریٹری شعبے سے بھی اور مرکز سے بھی قائم رکھنا ضروری ہے۔
نصاب وقفِ نو:
پھر واقفینِ نو اور واقفاتِ نو کا نصاب مقرر ہے۔ جو پہلے تو صرف بنیادی تھا، اب اکیس سال تک کے لڑکوں اور لڑکیوں کا یہ نصاب مقرر ہو چکا ہے۔ اس کو پڑھنا بھی چاہیئے اور اگر امتحان وغیرہ ہوتے ہیں تو اس میں بھرپور شمولیت اختیار کرنی چاہیئے ۔ اور اس سے اوپر جو لڑکے لڑکیاں ہیں، ان کو قرآن کریم کی تفسیر جن کو اردو آتی ہے اردو میں،اور جن کو انگلش آتی ہے وہ انگلش میں فائیو والیم کومنٹری جوہے وہ پڑھیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب جو مختلف زبانوں میں ترجمہ ہو چکی ہیں، جو جو زبان آتی ہے اس میں پڑھیں۔ خطبات اور خطابات ہیں وہ باقاعدہ سنیں۔ اپنا علم بڑھاتے چلے جائیں۔ یہ بھی ان کے لئے ضروری ہے۔ اور پھر اس کی رپورٹ بھی بھیجا کریں۔
سیکریٹریانِ وقفِ نو کو فعال ہونے کی ضرورت ہے:
جو سیکریٹریانِ وقفِ نو ہیں یہ بھی بعض جگہ فعال نہیں ہیں۔ یہ بھی صرف عہدہ سنبھال کر بیٹھے ہوئے ہیں ۔ ان لوگوں کو بھی فعال ہونے کی ضرورت ہے۔نہیں تو اس سال انتخابات ہو رہے ہیں۔ جماعتوں سے رپورٹیں آنی چاہیئں کہ کون کون سے سیکریٹریانِ وقفِ نو فعال نہیں ہیں۔ اور اگروہ فعال نہیں ہیں تو چاہے ان کے ووٹ زیادہ ہوں ان کو اس دفعہ مقرر نہیں کیا جائے گا۔
نصاب وقفِ نو اور جماعتی نصاب:
نصاب کا ذکر پہلے آیا تھا۔اگر جماعت کا بھی ایک نصاب بنا ہوا ہے، اور وہاں ایسا انتظام نہیں ہے کہ علیحدہ علیحدہ انتظام ہو سکے تو جو جماعتی نصاب ہے، اسی میں وقفِ نو بھی شامل ہو سکتے ہیں۔ پڑھیں۔ تھوڑا بہت معمولی فرق ہے۔ آپس میں دونوں کی کورڈینیشن اگرہو جائے تو اطفال کی عمر کے اطفال کا نصاب پڑھ سکتے ہیں، خدام کی عمر کا وہ پڑھ سکتے ہیں۔ لجنہ والی لجنہ کا پڑھ سکتی ہیں یا نصاب آپس میں سمویا جا سکتا ہے۔ جب جماعتی نظام کے تحت سیکریٹری تربیت، سیکریٹری تعلیم اور سیکریٹری وقفِ نو جماعتی شعبے کے تحت ہی کام کر رہے ہیں تو امراء اور صدران کا کام ہے کہ ان کو اکٹھا کر کے ایسا معین لائحہ عمل بنائیں کہ یہ نصاب بہرحال پڑھا جائے خاص طور پر واقفینِ نو کو اسمیں ضرور شامل کیا جائے۔ پھر یہ جو وقفِ نو کا نصاب ہے، اسکو مختلف ممالک اپنی زبانوں میں بھی شائع کروا سکتے ہیں۔ سویڈن نے اپنی زبان میں شائع کروایا ہے، فرنچ میں شائع کرنے کیلئے فرانس والےاور ماریشس والے کوشش کریں اور یہ کوشش صرف زبانی نہ ہو۔ یہ تو اطلاع فوری طور پر دیں کہ کون اسکا ترجمہ کر سکتا ہے اور دو مہینوں کے اندراندر یہ ترجمہ ہوبھی جانا چاہیئے۔
واقفینِ نو کے لئے لائحہ عمل:
واقفینِ نو کے مطالعہ میں روزانہ کوئی نہ کوئی دینی کتاب ہونی چاہیئے،چاہے ایک دو صفحے پڑھیں۔ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتاب جیسا کہ میں نے کہا اگر وہ پڑھیں تو سب سے زیادہ بہتر ہے۔ پھر اسی طرح خطبات ہیں سو فیصد واقفینِ نو اور واقفاتِ نو کو یہ خطبات سننے چاہیئں۔ کوشش کریں۔ یہاں یوکے میں ایک دن مَیں نےکلاس میں جائزہ لیا تھا تو میرا خیال ہے دس فیصد تھے جو باقاعدہ سنتے تھے۔ اسکی طرف شعبے کو بھی اور والدین کو بھی اور خود واقفینِ نو کو بھی توجہ دینی چاہیئے۔ انتظامیہ کو بھی چاہیئے کہ وہ واقفینِ نو کے جو پروگرام بناتے ہیں وہ انٹرایکٹو پروگرام ہونے چاہیئں جس سےزیادہ توجہ پیدا ہوتی ہے۔
وقفِ نو پلاننگ کمیٹی:
پھر اسی طرح ہر ملک کی جو انتظامیہ ہے وہ ایک کمیٹی بنائے جو تین مہینہ کے اندر یہ جائزہ لے کہ ان ملکوں کی اپنی ضروریات آئندہ دس سال کی کیا ہیں؟ کتنے مبلغین ان کو چاہئیں؟ کتنے زبان کے ترجمے کرنے والے چاہئیں؟ کتنے ڈاکٹرز چاہئیں؟ کتنے ٹیچرز چاہئیں؟ جہاں جہاں ضرورت ہے۔ اور اسی طرح مختلف ماہرین اگر چاہئیں تو کیا ہیں؟ مقامی زبانوں کے ماہرین کتنے چاہئیں؟ تو یہ جائزے لے کر تین سے چار مہینے کے اندراندر اس کی رپورٹ ہونی چاہیئے۔ اورپھرجو شعبہ وقفِ نو ہے وہ اس کا پراپر فالو اَپ کرے۔
بعض لوگ بزنس میں جانا چاہتے ہیں یا پولیس یا فوج میں جانا چاہتے ہیں یا اور شعبوں میں جانا چاہتے ہیں تو ٹھیک ہے وہ بے شک جائیں لیکن وقف سے فراغت لے لیں۔ یہ اطلاع کیا کریں ۔
کیرئر گائڈنس کمیٹی:
پھر اسی طرح ہر ملک میں واقفینِ نو کے لئے کیرئیر گائیڈنس کمیٹی بھی ہونی چاہیئے جو جائزہ لیتی رہے اور مختلف فیلڈز میں جانے والوں کی رپورٹ مرکز بھجوائے یا جن کو مختلف فیلڈز میں دلچسپی ہے ان کے بارے میں اطلاع ہو۔ پھر مرکز فیصلہ کرے گا کہ آیا اس کو کس صورت میں اجازت دینی ہے۔ اور پھر یہ بھی جیسا کہ مَیں کئی دفعہ کہہ چکا ہوں کہ اٹھارہ سال کی عمر کو پہنچنے والے واقفینِ نو اپنے تجدیدِ وقفِ نو کے عہد کو نہ بھولیں، لکھ کر بھجوایا کریں، بانڈ لکھیں۔
واقفینِ نو اور واقفاتِ نو کے لئے رسالہ :
اسی طرح واقفینِ نو کے لئے ایک رسالہ لڑکوں کے لئے ’’ اسمٰعیل‘‘ اور لڑکیوں کے لئے ’’مریم‘‘ شروع کیا گیا ہے، جرمن اور فرنچ میں بھی اس کا ترجمہ ہونا چاہیئے۔ اگر تو ایسے مضامین ہیں جو وہاں کے مقامی واقفینِ نو اور واقفاتِ نو لکھیں تو وہ شائع کریں ، نہیں تو یہاں سے مواد مہیا ہو سکتا ہے اس کو یہ اپنی اپنی زبانوں میں شائع کر لیا کریں۔ اردو کے ساتھ مقامی زبان بھی ہو۔
اللہ تعالیٰ تمام اُن والدین میں جنہوں نے اپنے بچے وقفِ نو کے لئے پیش کئے، اس رنگ میں بچوں کی تربیت اور دعا کرنے کی طرف توجہ پیدا فرمائےجو حقیقت میں اُن کو واقفینِ نو بنانے کا حقدار بنانے والی ہوں۔ اور یہ بچے والدین کے لئے آنکھوں کی ٹھنڈک ہوں۔ بچوں کو بھی اپنے ماں باپ اور اپنے عہدوں کو پورا کرنے کی طرف توجہ دینی چاہیئے۔ اللہ تعالیٰ ان کو توفیق بھی عطا فرمائے اور وہ حقیقت میں اُس گروہ میں شامل ہوجائیں جن کا کام صرف اور صرف دین کی اشاعت ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کو توفیق عطا فرمائے۔ آمین
(الفضل انٹرنیشنل 8 فروری 2013ء۔ جلد 20 شمارہ 06۔ صفحہ 5 تا 9)