وقف نو کلاسز انٹرنیشنل
حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے دریافت فرمایا کہ کتنی بچیاں قرآن کریم ترجمہ سے پڑھتی ہیں۔ فرمایا کہ بچیوں کو قرآن کریم کے مطالب سکھائیں اور نصیحت فرمائی کہ قرآن کریم ترجمہ کیساتھ پڑھا کریں۔
حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے بچیوں سے سکول اور کالج میں پردے کے بارہ میں صورت حال دریافت فرمائی اور نصیحت فرمائی کہ اگر سکول/ کالج میں کہیں دوپٹہ منع ہے تو پھر سکول / کالج کے گیٹ سے نکلتے ہیں اپنا پردہ کر لیں۔ ورنہ اگر ہو سکے تو بچیوں کو پرائیویٹ سکولوں میں داخل کروائیں جو صرف لڑکیوں کا ہو۔ اپنے اساتذہ کو حجاب کے بارہ میں بتائیں کہ فرانس میں تاریخ سے ثابت ہے کہ پہلے لوگ سر ڈھانپ کر رکھتے تھے۔
(روزنامہ الفضل ربوہ 8 جنوری 2005ء۔ جلد 55-90نمبر 7۔ صفحہ 2)
حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے بچوں سے مخاطب ہوتے ہوئے فرمایا آپ میں سے پانچوں نمازیں کون پڑھتا ہے؟ کتنے چار نمازیں پڑھتے ہیں؟ کتنےتین نمازیں پڑھتے ہیں؟ بعد ازاں حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا کہ جو بچے دس سال کی عمر کو پہنچ چکے ہیں انہیں نماز ہر گز معاف نہیں ہے۔ تین یا چار نمازیں نہیں بلکہ پوری پانچوں نمازیں پڑھا کریں۔ نماز آپ پر فرض ہے۔ واقفِ نو بچوں کو دوسروں کے لئے نمونہ ہونا چاہیئے۔ آپ میں سے جن کو قرآن کریم پڑھنا آتا ہے وہ روزانہ کم از کم ایک رکوع کی تلاوت کیا کریں اور اس میں بھی باقاعدگی اختیار کریں۔
آخر پر حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے بچوں سے دریافت فرمایا کہ آپ میں سے جو جامعہ میں جانا چاہتے ہیں وہ ہاتھ کھڑا کریں۔ اسی طرح حضورِ انور نے ڈاکٹر اور انجینئر کے متعلق پوچھا۔ ایک بچے نے بزنس لائن میں جانے کا اظہار کیا جس پر حضورِ انور نے فرمایا کہ پھر تم ہمارے کسی کام کے نہیں رہ جاؤ گے۔
(روزنامہ الفضل ربوہ 16 جون 2005ء۔ جلد 55-90نمبر 133۔ صفحہ 2)
حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے بچوں سے دریافت فرمایا کون کون تلاوت کرتا ہے؟ صبح کی نماز پڑھتا ہے؟ حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا امی ابو کو نماز کےلئے کہہ دیا کریں کہ وہ آپ کو جگا دیا کریں۔ ہر احمدی کو تلاوت کرنی چاہیئے اور واقفینِ نو کو اس طرف زیادہ توجہ کی ضرورت ہے۔ نماز پڑھنے والے گناہوں سے محفوظ رہتے ہیں۔ حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا کہ جو پندرہ سولہ سال کے بچے ہیں انہیں پتہ ہے کہ یہاں کس کس طرح کے گناہ ہیں۔ ان گناہوں سے بچیں۔ چندہ تحریکِ جدید، وقفِ جدید میں شامل ہوں۔ چندہ دینے کی عادت پیدا کریں۔آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے بارہ میں پڑھیں تا کہ آپ اعتراضات کے جوابات دے سکیں۔
(روزنامہ الفضل ربوہ 27 ستمبر 2005ء۔ جلد 55-90نمبر 216۔ صفحہ 3)
حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے بچوں سے دریافت فرمایا کہ کتنے ہیں جنہوں نے H.S.C کر لیا ہے؟ کوئی ایساتو نہیں جس نے تعلیم چھوڑ دی ہے۔ پندرہ سال سے زائد عمر کے بچوں کا جائزہ لیتے ہوئے آپ نے دریافت فرمایا کہ بچوں نے کون سی لائن ، فیلڈ چننی ہے۔ حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے ایک بچے سے دریافت فرمایا کہ وقفِ نو کا مطلب کیا ہے۔ اور یہ بھی جائزہ لیا کہ کتنے ہیں جو روزانہ پانچوں نمازیں پڑھتے ہیں، کتنے ہیں جو روزانہ تلاوت قرآن کریم کرتے ہیں۔ حضورِ انور نے اس بات کا بھی جائزہ لیا کہ چھوٹے بچوں میں سے کتنے ہیں جو قرآن کریم ختم کر چکے ہیں۔
حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے ان بچوں کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا کہ وقفِ نو بچوں کو نمازوں کا پابند ہونا چاہیئے۔ اگر نماز نہیں پڑھتے تو وقف کا کوئی فائدہ نہیں۔ پہلی بات نماز ہے اور دوسری بات قرآن کریم کی روزانہ تلاوت کرنا۔ پھر جماعت کے لٹریچر میں سے کوئی کتا ب لے کر خاص طور پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب میں سے جو فرنچ یا انگلش میں ترجمہ ہو چکی ہیں، چاہے ایک صفحہ ہی پڑھیں، مگر ضرور پڑھیں۔ اپنا مذہبی علم بڑھائیں۔ قرآن کریم باترجمہ پڑھنا بھی سیکھیں۔ فرمایا ایک یا آدھا صفحہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتاب کا جو انگلش میں ترجمہ ہو چکا ہے، پڑھیں اور عادت بنالیں کہ سونے سے پہلے کتاب پڑھنی ہے اور اسکول جانے سے پہلے تلاوت قرآن کریم کرنی ہے۔ اپنے آپ کو پانچوں نمازوں کا عادی بنائیں۔ اگر آپ ان باتوں پر عمل کریں گے تو اپنے علم کو بڑھا سکیں گے اور پھر ہی صحیح وقفِ نو بچے کہلا سکیں گے۔ اگر آپ یہ نہیں کرتے تو آپ اور دوسرے عام بچوں میں جو آپ کی عمر کے ہیں کوئی فرق نہیں ہے۔ کوشش کریں کہ اپنے آپ کو دوسروں سے الگ بنائیں۔
حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا آپ میں بہت سارے کمپیوٹر ٹیکنالوجی میں دلچسپی رکھتے ہیں لیکن ہمیں آپ میں سے مبلغ بھی چاہیئں اور ٹیچر بھی اور انجینئرز اور ڈاکٹرز بھی چاہیئں۔
(روزنامہ الفضل ربوہ 23 دسمبر 2005ء۔ جلد 55-90نمبر 286۔ صفحہ 6)
حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے واقفینِ نو سے دریافت فرمایا کہ پانچوں نمازیں پابندی کے ساتھ کون کون پڑھتا ہے۔ نیز حضورِ انور نے روزانہ تلاوت قرآن کریم کے بارہ میں دریافت فرمایا۔
حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے ان واقفینِ نو بچوں کو جن کی عمر 15 سال سے زائد ہے فرمایا کہ نصاب وقفِ نو کا سلیبس تو سترہ سال کی عمر میں ختم ہو جاتا ہے۔ اس کے بعد تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام اور کتب حضرت مسیح موعودؑ کا مطالعہ کریں۔
حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا کہ بھارت بہت بڑا ملک ہے اس میں مربیان کی زیادہ ضرورت ہے۔ آپ نے نئے آنے والوں کی تربیت کرنی ہے اس کے لئے آپ کو پوری طرح تیاری کرنی ہو گی۔ حضورِ انور نے بچوں سے دریافت فرمایا کہ کتنے واقفین مبلغ بننا چاہتے ہیں۔ اس پر اکثر بچوں نے ہاتھ اٹھائے تو حضور ِ انورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے ماشاء اللہ کہہ کر اظہار خوشنودی فرمایا۔
(روزنامہ الفضل ربوہ 15 فروری 2006ء۔ جلد 56-91نمبر 34۔ صفحہ 3)
حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے بچوں کو نصائح کرتے ہوئے فرمایا کہ آپ کے والدین نے آپ کو اللہ کی راہ میں وقف کیا ہے۔ اب آپ نے اپنی ذمہ داری ادا کرنی ہے۔ اپنی پڑھائی میں باقاعدگی اختیار کریں۔ سیکنڈری سکول کے بعد کیا کرنا ہے جماعت کو بتائیں۔ اگر جامعہ جانا ہے تو لکھیں کہ ہم نے جامعہ جانا ہے اور مبلغ بننا ہے۔ اگر دوسرے میدانوں میں جانا چاہتے ہیں تو آگاہ کریں۔
لڑکیاں میڈیکل میں جائیں ڈاکٹر بنیں یا نرس بنیں یا ٹیچر بنیں۔ اب جماعت آپ کو جو بھی حکم دے آپ نے وہی کرنا ہے اور کامل اطاعت کرنی ہے۔
حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا ابھی سے جس میدان میں جس شعبے میں جانا چاہتے ہیں، ذہنی طور پر اس کی تیاری کر لیں۔ عام احمدی بچوں سے آپ کا مقام زیادہ ہے۔ آپ اپنے اندر ایمانداری پیداکریں۔ جماعتی کاموں میں حصّہ لیں۔ اپنی حالت میں تبدیلی لائیں۔
(روزنامہ الفضل ربوہ 2 جون 2008ء۔ جلد 58-93نمبر 123۔ صفحہ 6)
حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے پندرہ سال سے بڑے واقفینِ نو کا جائزہ لیا کہ کیا انہوں نے اپنے وقف فارم پُر کر دیئے ہیں اسی طرح حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے دریافت فرمایا کہ جو مربی بننا چاہتے ہیں اور جامعہ میں جانا چاہتے ہیں وہ ہاتھ کھڑا کریں۔
بعد ازاں ایک بچے کے سوال پر کہ آپ کینیڈا میں کیا پسند کریں گے۔ حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا آپ لوگ نماز نہ چھوڑیں، روزانہ قرآن کریم پڑھا کریں اور اس کی تلاوت کیا کریں۔ قرآن کریم کا ترجمہ سیکھیں، ترجمہ سیکھ کر پھر دیکھیں کہ اس میں کون کون سے حکم ہیں۔ ان پر عمل کریں۔ دنیا کی طرف زیادہ نہ دیکھیں ۔ جنہوں نے ڈاکٹرز، ٹیچرز، وکیل بننا ہے یا کسی اور شعبہ میں جانا ہے تو ان لوگوں کو بھی دینی علم آنا چاہیئے اور جو خواہشات ہیں بنیادی وہ نہیں ہونی چاہیئں۔ صبر ہونا چاہیئے اور قناعت کو اختیار کریں۔
ایک بچے نے سوال کیا کہ میں ڈاکٹر بننا چاہتا ہوں مجھے کوئی نصیحت کریں۔ اس پر حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا کہ دعاؤں اور نمازوں کی طرف توجہ دیں۔
ایک بچے نے سوال کرنے سے قبل قریب آ کر حضورِ انور کے گھٹنے ہو ہاتھ لگایا اس پر حضورِ انور نے فرمایا کہ نئی بدعتیں نہ ڈالیں۔ میں دیکھنا چاہتا ہوں کہ تم نیک بنو، تلاوت کرنے والے ہو، نمازیں پڑھنے والے ہو، قرآن کریم کا ترجمہ سیکھنے والے ہو اور تمہاری توجہ دین کی طرف ہو دنیا کی طرف نہ ہو۔
ایک بچے کے سوال پر حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا کہ نماز وقت پر ادا کرنے کی کوشش کریں۔ الارم لگا کر سویا کریں اور وقت پر بیدار ہوں۔ اگر کسی وجہ سے اٹھ نہیں سکے تو خواہ دیر سے اٹھیں لیکن نماز ضرور پڑھنی ہے۔
(روزنامہ الفضل ربوہ 12 جولائی 2008ء۔ جلد 58-93نمبر 158۔ صفحہ 3)
حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا آپ جو بچیاں واقفاتِ نو ہیں، آپ کا دوسری بچیوں سے تھوڑا سا فرق ہونا چاہیئے۔ آپ کے ڈریسز میں فیشن نہیں ہونا چاہیئے۔ دینی علم سیکھیں، قرآن کریم پڑھیں اور اس کا ترجمہ سیکھیں، احمدیت کا لٹریچر پڑھا ہونا چاہیئے۔ آپ کا جو بھی پروفیشن ہو اس کے ساتھ دینی تعلیم ضروری ہو۔ یہ نہیں کہ جوڑا کون سا خوبصورت ہے، بال کس طرح کے ہوں، پھر ڈریسنگ کس طرح کروانی ہے۔ ان باتوں کی طرف توجہ نہ ہو۔ آپ باہر نکلیں تو باقاعدہ حجاب ہو۔ کوٹ پہننا شروع کر دینا چاہیئے۔ سر پر دوپٹہ ہو، حجاب ہو۔ یہ نہیں سوچنا کہ فلاں نے جینز پہنی ہے اس لئے ہم بھی جینز پہنیں۔ تم وقفِ نو ہو، تم نے دوسروں کے لئے نمونہ بننا ہے۔ اگر تم لوگ بھی دوسروں کی طرح ماحول میں بہتے ہوئے چلے گئے تو پھر سب ایک جیسے ہو جائیں گے اور آئندہ تربیت کرنے والا کوئی نہیں رہے گا۔ پس تم نے نہ صرف اپنی تربیت کرنی ہے بلکہ چھوٹے بچوں کی بھی تربیت کرنی ہے اور بعد میں آنے والوں کی بھی تربیت کرنی ہے۔ حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا ان باتوں کی سمجھ آ گئی ہے؟
ایک سوال کے جواب میں حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا لڑکیوں میں سے زیادہ میڈیسن میں جائیں تو اس کی ضرورت ہے اور ٹیچرز کی بھی ضرورت ہے۔ جو پندرہ سال سے اوپر کی بچیاں ہیں کتنی ہیں جو مجھے خط لکھتی ہیں۔ مجھ سے خط لکھ کر پوچھیں کہ ہمیں اس بات کا شوق ہے۔ ان مضامین میں دلچسپی ہے۔ ہمیں بتائیں کہ ہم نے کیا بننا ہے۔ خط لکھ کر رابطہ رکھیں۔
( روزنامہ الفضل ربوہ 28 اگست 2008ء۔ جلد 58-93نمبر 197۔ صفحہ 3)
حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے دریافت فرمایا کہ کون کون سے لڑکے یونیورسٹی چلے گئے ہیں اور کیا کر رہے ہیں، کونسے مضامین لئے ہیں۔ طلبأ نے جو مضامین بتائے ان میں انجینئرنگ، الیکٹرانک، انگریزی زبان، لاء، اکاؤنٹنگ، میڈیسن وغیرہ شامل تھے۔ حضورِ انور نے فرمایا جو واقفینِ نو بچے کالج یا یونیورسٹی جا رہے ہیں وہ اپنے دو تین مضامین چوائس کر کے پہلے پوچھ لیا کریں کہ یہ یہ مضامین ہمیں پسند ہیں ان میں سے ہم کون سا مضمون اختیار کریں۔ حضورِ انور نے بچوں سے دریافت فرمایا جو پندرہ سال سے اوپر تھے کہ کیا انہوں نے باقاعدہ اپنے وقف فارم پُر کر دیئے ہیں۔ فرمایا جس نے ابھی تک اپنا وقف فارم پُر نہیں کیا وہ پُر کرے اگر وہ وقف میں رہنا چاہتا ہے۔ جس نے نہیں رہنا وہ بتا دے کہ ہم نہیں رہنا چاہتے۔
(روزنامہ الفضل ربوہ 25 اکتوبر 2008ء۔ جلد 58-93نمبر 244۔ صفحہ 4)
حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے دریافت فرمایاجن بچیوں کی عمر 15 سال ہو گئی ہے کیا انہوں نے باقاعدہ وقف فارم پُر کر دئیے ہیں۔ اگر نہیں کئے تو جو اپنا وقف جاری رکھنا چاہتی ہیں وہ یہ فارم پُر کریں۔
حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا جو بچیاں کالج اور یونیورسٹی میں پڑھ رہی ہیں وہ ہمیشہ یاد رکھیں کہ ایک تو ہر احمدی لڑکی کو ویسے ہی اپنا تقدس قائم رکھنا چاہیئے اور یہ احساس ہونا چاہیئے کہ ہم احمدی ہیں اور دوسروں سے فرق ہے لیکن جو وقفِ نو بچیاں ہیں وہ ان سے بھی زیادہ اپنا تقدس قائم رکھنے والی اور اپنا خیال رکھنے والی ہونی چاہیئں کیونکہ انہوں نے آئندہ جماعت کی خدمت بھی کرنی ہے اور تربیت بھی کرنی ہے۔ اس لئے ہمیشہ اس ماحول میں بازار میں جاؤ تو سر پر سکارف، حجاب لے کر جاؤ۔ چاہے یہاں بُرا سمجھیں یا نہ سمجھیں۔ فرمایا سکول میں بھی کوشش ہونی چاہیئے کہ سکارف لیا جائے، پرائیویٹ سکول بھی ہیں جہاں ایسی پابندی نہیں ہے۔ جو پرائیویٹ سکولوں کے خرچ برداشت کر سکتے ہیں وہ وہاں جا سکتے ہیں۔ اگر سکول میں مشکل ہے تو پھر سکول کی حد تک تو سکارف اتر سکتا ہے اس کے بعد نہیں۔ سکول سے نکلیں تو حجاب ، سکارف لیں۔
(روزنامہ الفضل ربوہ 25 اکتوبر 2008ء۔ جلد 58-93نمبر 244۔ صفحہ 4)
حضورِ انورنے فرمایا کہ تم عام بچیوں کی طرح نہیں ہو۔ تمہارا لباس اچھا ہونا چاہیئے، کوٹ پہننا ہے اور جینز نہیں پہننی۔ اگر پہننی ہے تو پھر اوپر لمبی قمیص پہنیں۔ دوسروں سے الگ نظر آئیں۔ سر اچھی طرح ڈھکا ہونا چاہیئے۔
(روزنامہ الفضل ربوہ 31 اکتوبر 2008ء۔ جلد 58-93نمبر 249۔ صفحہ 4)
حضورِ انور نے فرمایا جو بھی یونیورسٹی جا رہے ہیں اور ان کے پاس دو تین چوائس ہیں تو وہ پوچھ لیا کریں اور رہنمائی لے لیا کریں۔ جو میڈیسن کر رہے ہیں اور جب وہ فائنل ایئر میں پہنچیں اور سپیشلائزیشن کرنے کے لئے کسی فیلڈ کا انتخاب کرنا ہے تو اس وقت پوچھ لیا کریں کہ کس فیلڈ میں سپیشلائزیشن کروں۔
حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے دریافت فرمایا کہ جو بچے 15 سال یا اس سے اوپر کے ہیں کیا انہوں نے اپنا وقف فارم پُر کر دیا ہے کہ اپنا وقف جاری رکھنا ہے۔ حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا نمازیں باقاعدہ پڑھتے ہو؟ پانچوں نمازیں پڑھا کرو، قرآن کریم کی تلاوت روزانہ کیا کرو۔ جو بچے بڑے ہو گئے ہیں وہ تلاوت کے ساتھ ساتھ ترجمہ پڑھنا شروع کر دیں۔
حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے بچوں سے مخاطب ہوتے ہوئے فرمایاکہ سکول کالج جاتے ہو اور پھر گھر آ جاتے ہو باہر اِدھر اُدھر زیادہ پھرتے تو نہیں؟ تو اس پر بچوں نے عرض کیا کہ گھر آ جاتے ہیں۔ فرمایا ٹھیک ہے گھر رہتے ہو۔
(روزنامہ الفضل ربوہ 31 اکتوبر 2008ء۔ جلد 58-93نمبر 249۔ صفحہ 4)
حضورِ انورنے پندرہ سال اور اس سے اوپر کی عمر کے بچوں سے دریافت فرمایا کہ کیا آپ نے اپنا وقف فارم پُر کر دیا ہوا ہے؟ فرمایا آپ کو خود وقف کرنا چاہیئے کہ ہم وقف کے لئے تیار ہیں۔ ہمارے والدین نے جو ہمیں وقف کیا تھا ، جو فارم پُر کیا تھا ہم اس کے لئے تیار ہیں۔ اب آپ نے خود نیا فارم پُر کرنا ہے۔
حضورِ انور نے بچوں سے دریافت فرمایا کہ جامعہ میں کتنے جائیں گے، میڈیسن اور انجینئرنگ میں کون کون جائے گا۔ اسی طرح اساتذہ کون بنیں گے؟ حضورِ انور نے فرمایا اپنے اپنے سیکریٹری وقفِ نو سے رابطہ کریں کہ کون سی فیلڈ ایسی ہے جو جماعت کے لئے زیادہ مفید ہے اور مجھے وہ اختیار کرنی چاہیئے۔ فرمایا کہ جنہوں نے ابھی اپنے مستقبل اور کسی شعبے کو اختیار کرنے کے بارہ میں فیصلہ نہیں کیا وہ اپنے سیکریٹری سے پوچھیں۔
حضورِ انورنے فرمایا آپ نے جماعت کے لئے خدا کی خاطر زندگی وقف کی ہے۔ اب آپ نے جماعت کی خدمت کرنی ہے اور اپنے اندر انقلابی تبدیلی پیدا کرنی ہے۔ پانچوں نمازوں کی ادائیگی کا اہتمام کریں۔ قرآن کریم کی تلاوت روزانہ کرنی ہے ، اسکی عادت ڈالیں۔ اپنے والدین، رشتہ داروں اور دوسرے لوگوں کے ساتھ بہت اچھا برتاؤ کرنا ہے، اچھا سلوک کرنا ہے۔ آپکے عمل سے لوگوں کو پتا چلے کہ آپ لوگ دوسروں سے مختلف ہیں۔ آپ کا عمل، آپ کا کردار ہر پہلو سے مثالی اور اعلیٰ ہونا چاہیئے۔
حضورِ انورنے فرمایا اپنی تعلیم کی طرف پوری توجہ دیں اور دوسری اردگرد کے ماحول کی Activitiesمیں زیادہ Involve نہ ہوں۔ جو وقت پڑھائی سے بچے وہ کھیل کودمیں لیکن ٹی وی اور انٹر نیٹ پر اپنا وقت ضائع نہ کریں۔ یہ چیزیں مستقبل کو تباہ کر دیتی ہیں۔ ایسی فلمیں نہ دیکھیں جو اسلام احمدیت کی روایات کے خلاف ہیں۔ یہاں اس قسم کی بہت سی فلمیں ہندو کلچر کی ہیں۔ کرسچیئن کلچر کی ہیں۔ آپ کو صرف نالج، علم ہونا چاہیئے۔ لیکن ان سب چیزوں سے بچیں۔ ان سے بچنا ضروری ہے۔ یہ آپ پر اثر انداز نہ ہوں۔ آپ کے مذہب ، دین پر اثر انداز نہ ہوں۔
(روزنامہ الفضل ربوہ 9 جنوری 2009ء۔ جلد 59-94نمبر 6۔ صفحہ 5)
واقفینِ نو کو اپنی نمازوں کے بارہ میں جائزہ لینا چاہیئے
حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا آپ لوگوں نے بڑے اچھے عناوین چنے ہیں۔ پہلے نماز کی اہمیت کے بارہ میں مضمون تھا لیکن میں نے جائزہ لیا ہے مضمون تو پڑھ لیتے ہیں لیکن جب پوچھا جائے کہ پانچ نمازیں کس کس نے پڑھی ہیں تو بہت کم ہوتے ہیں پڑھنے والے۔ نمازوں میں سستی کرتے ہیں۔ صرف مضمون پڑھنے سے فرض پورا نہیں ہو جاتا۔ واقفینِ نو کو اپنا جائزہ لیتے رہنا چاہیئے۔ سونے سے قبل اپنا جائزہ لیں کہ کیا ہم نے پانچ نمازیں ادا کر لی ہیں۔ اس طرح آپ کو خود پتا لگ جائے گا کہ ہم کس حد تک پابندی کر رہے ہیں۔
حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا نماز برائی سے روکتی ہے لیکن بہت سے نمازیں پڑھنے والے ایسے لوگ ہیں، مسلمانوں کے بچے ہیں آ کر مسجد پر پتھر، گند اور گندے پمفلٹ وغیرہ پھینک جاتے ہیں۔ اب ان کو نماز برائی سے نہیں روک رہی۔ اللہ تعالیٰ نے تو یہ فرمایا ہے کہ خالص ہو کر میرے پاس آؤ۔ مَیں تمہارا ہر کام، ہر فعل دیکھ رہا ہوں۔ ہر حرکت دیکھ رہا ہوں۔ تو صاف دل اور خلوص نیّت کے ساتھ پڑھی جانے والی نمازیں برائیوں سے روکتی ہیں۔ جن کاموں سے منع کیا ہے ان سے رک جاؤ تو تب فائدہ ہو گا۔ کسی کی تقریر کرنے یا ایک سال بعد مضمون پڑھنے سے فائدہ نہیں ہو گا۔جو دس سال سے اوپر ہیں ان سب پر نماز فرض ہے اگر وہ نماز نہیں پڑھتے اور انکے ماں باپ انکو جگاتے ہیں اور یہ آگے سے ہوں، ہاں کر کے سو جاتے ہیں تو یہ غلط چیز ہے۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اتنے رحم دل تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کسی کی کوئی تکلیف برداشت نہ ہوتی تھی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک موقع پر فرمایا کہ جو لوگ نمازوں پر نہیں آتے میرا دل چاہتا ہے کہ لکڑیوں کا ایک گٹھا لوں اور ان کے گھروں کو آگ لگا دوں۔ اُس زمانے میں بھی بعض لوگ مسجد میں نہیں آتے تھے، مجلسیں لگاتے تھے، تو نمازیں رہ جاتی تھیں۔ آج کل بھی ٹی وی ہے، ڈرامے ہیں، انٹرنیٹ ہے، رات دیر تک یہ چیزیں دیکھتے رہتے ہیں اور پھر فجر پر آنکھ نہیں کھلتی۔
وقفِ نو ٹائٹل نہیں ہے
حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا آپ سب کو ہمیشہ یاد رکھنا چاہیئے کہ آپ وہ لوگ ہیں جن کے ماں باپ نے پیدائش سے قبل وقف کیا تھا تا کہ جماعت کو خوبصورت تحفہ پیش کریں جو جماعت کی خدمت کرنے والا ہو۔ قرآن کریم کی تعلیم پر عمل کرنے والا ہو۔ اگر یہ احساس آپ لوگوں میں پیدا نہیں ہوتا، اگر یہ جذبہ پیدا نہیں ہوتا تو وقفِ نو کے ٹائٹل لگ جانے سے تو کوئی فائدہ نہیں۔
والدین کا احسان
حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا دوسرا مضمون یہ پڑھا گیا ہے کہ ہم احمدی کیوں ہیں۔ اصل یہ ہے کہ آپ اپنے عملی نمونے دکھائیں۔ آپ کے باپ دادا کو توفیق مل گئی، والدین کو توفیق مل گئی تو انہوں نے مان لیا۔ لیکن وقفِ نو میں سے تو کوئی ایسا نہیں ہو سکتا جس نے قبول کیا ہو۔ پس یہ احسان جو ماں باپ دادا کا ہےہمیشہ یاد رکھیں کہ انہوں نے احمدیت قبول کی اور احمدیت پر قائم رہے۔
سچ کی اہمیت
حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا ہمیں ان نمونوں پر چلنا ہو گا جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے قائم فرمائے۔ عرب کے بگڑے ہوئے لوگ چور تھے، ڈاکو تھے، قاتل تھے، شرابی تھے۔ لیکن وہ ایسے نیک بن گئے کہ ہر برائی چھوڑ دی اور سچائی کو ایسا اختیار کر لیا کہ انکے ہر قول و فعل میں سچائی تھی۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو سچ نہیں بولتے اور جھوٹ بولتے ہیں اس کا مطلب یہ ہے کہ ان کو خدا پر یقین نہیں ہے۔ جھوٹ سے کام لینے والا شرک کرنے والا ہے۔ خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ سارے گناہ بخش سکتا ہوں لیکن شرک نہیں۔
مرکز آپ کو ہدایت دے گا کہ آپ نے آئندہ کیا کرنا ہے
حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا وقفِ نو والے گہرائی میں جا کر سوچیں کہ کس طرح ہم نے زندگی گزارنی ہے کس طرح دین کا پیغام پہنچانا ہے۔ بہت سارے ایسے ہیں جو جامعہ میں نہیں جا سکیں گے اور دوسرے فیلڈ میں جائیں گے۔ آپ نے پڑھائی مکمل کر کے اپنے آپ کو جماعت کے لئے پیش کرنا ہے۔ اپنی تعلیم مکمل کرنے کے بعد آ پ نے جماعت سے یہ پوچھنا ہے کہ ہم نے اپنی پڑھائی مکمل کر لی ہے اب ہمارے لئے کیا ہدایت ہے۔ ہم اپنے آپ کو جماعت کی خدمت میں پیش کرتے ہیں ۔ اس کے بعد مرکز آپ کو ہدایت دے گا کہ آپ نے آئندہ کیا کرنا ہے۔ اگر کوئی یہ کہے کہ مَیں نے پائلٹ بننا ہے تو جماعت کو تو اس کی ضرورت نہیں ہے۔ ہاں اگر کسی کو بہت شوق ہے تو باقاعدہ اجازت لے لے۔ جب جماعت کے جہاز ہوں گے تو ضرورت ہو گی۔ لیکن اب ضرورت نہیں ہے۔
حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا کہ بعض لوگ کہتے ہیں کہ ہم نے بزنس کرنا ہے لیکن اس کا فیصلہ خلیفۂ وقت کرے گا کہ آیا آپ نے جماعت کی خدمت کرنی ہے یا کوئی دوسرا کام کرنا ہے، کسی کمپنی میں کام کرنا ہے۔ ہر لیول پر آپ کو پوچھنا چاہیئے کہ کیا کرنا ہے۔ جماعت کو ڈاکٹرز، ٹیچرز، انجینئرز، میڈیا اور مختلف زبانوں میں ٹرانسلیشن کے کام کرنے والوں کی ضرورت ہے۔ آپ کو فائدہ اسی تعلیم کا ہو گا جو جماعت کی مرضی سے آپ حاصل کریں گے۔ ناروے کے واقفینِ نو یاد رکھیں کہ اگر ان کے ذہن میں ہے کہ ناروے کے واقفین، ناروے میں ہی رہیں گے تو ایسا نہیں ہوگا۔ جہاں جماعت کو ضرورت ہو گی وہاں بھیج دیا جائے گا۔ اس چیز کو ہمیشہ اپنے سامنے رکھیں۔
(روزنامہ الفضل ربوہ 19 اکتوبر 2011ء۔ جلد 61-96نمبر 239۔ صفحہ 4)
پردے کے سلسلہ میں بھی واقفاتِ نو نے ہی نمونے قائم کرنے ہیں
حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا پردے کے اوپر آپ نے بڑا اچھا مضمون پیش کیا ہے۔ لیکن صرف اچھا مضمون پیش کرنےسے پردہ نہیں ہو جاتا۔ پردے کا معاملہ تو ساری دنیا میں ہے لیکن یورپ میں خاص طور پر ہے۔ ایک وقت میں ناروے کے بارہ میں پردے کے حوالے سے زیادہ شکایتیں آتی تھیں۔ اس لئے حضر ت خلیفۃ المسیح الثالث ؒ نے ناروے میں ایک بڑا سخت خطبہ دیا تھا۔ مَیں نے بھی اپنے خطبے میں اس کی مثال دی تھی اور اس کا ذکر کیا تھا۔ کیونکہ مجھے ذاتی تجربہ تو نہیں ہے لیکن ان دنوں کی باتوں سے اندازہ لگایا تھا کہ پردے کے بارہ میں احتیاط نہیں کی جاتی۔ لندن میں مجھے ایک دفعہ وقفِ نو بچی ملنے آئی۔ اس نے جو پردہ کیا ہوا تھا اس کے کوٹ کے بازو یہاں تک کہنیوں تک تھے۔ ایسے پردے کا تو کوئی فائدہ نہیں۔ واقفاتِ نو کا جو پردہ ہے اور جب وہ بڑی ہو جاتی ہیں تو ان کا جو لباس ہے وہ ایسا ہی ہونا چاہیئے جیسا کہ مضمون میں بتایا گیا ہے۔ حیا ہونی چاہیئے اور جب حیا ہوگی تو آئندہ پردے کا احساس بھی ہوگا۔ پھر اس بچی سے جو ملاقات کے لئے آئی تھی مَیں نے یہ بھی پوچھا تھا کہ تم سر پر دوپٹہ یا چادر لیتی ہو یا نہیں۔ سکارف باندھتی ہو یا نہیں ۔ وہ ایک باریک سی چُنّی یا سکارف جسے کہتے ہیں وہی اس کے سر پر ہوتا تھا۔ اس کے علاوہ کچھ نہیں۔ لیکن بہرحال اس نے وعدہ کیا کہ آئندہ مَیں پردہ کروں گی اور اس کے بعد سنا ہے کہ وہ پردہ کرتی ہے۔ تو یہ پردہ کرنے کا احساس جب تک واقفاتِ نو میں پید انہیں ہوگا بڑے بڑے دعوے اور نظمیں پڑھنا کہ ہم یہ کر دیں گے وہ کر دیں گے اس کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔
حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا ابھی یہاں ناروے میں ملاقاتیں ہو رہی ہیں۔ ان میں مَیں دیکھ رہا ہوں کہ بعض عورتیں ملنے آتی ہیں مجھے لگتا ہے کہ بڑے عرصے کے بعد نقاب ان کا باہر نکلا ہے۔ چھ سال قبل 2005ء میں یہاں ملاقاتیں ہوئی تھیں تو ملاقات کے لئے چھ سال کے بعد یہ نقاب باہر نہیں نکلنا چاہیئے بلکہ روز نکلنا چاہیئے اور اس کے نمونے واقفاتِ نو نے ہی قائم کرنے ہیں۔
حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایاجیسا کہ مَیں نے کہا کہ نمونے واقفاتِ نو نے ہی قائم کرنے ہیں تو آپ یہ نہ سمجھیں کہ آپ لوگ چھوٹی ہیں۔ مَیں نے ابھی جرمنی میں مجلس خدام الاحمدیہ کے اجتماع پر ان کو یہی کہا تھا کہ اگر وہ سمجھتے ہیں کہ بڑے اپنا حق، اپنے فرائض ادا نہیں کر رہے اور جو اسلامی تعلیم ہے اس پر عمل نہیں کر رہے اور جس طرح جماعت کی خدمت کرنی چاہیئے ویسے نہیں کر رہے تو پھر نوجوان آگے آ جائیں۔
حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا لجنہ کی اور ناصرات کی تنظیم بھی اسی لئے بنائی گئی تھی اور اسی لئے واقفاتِ نو کو بھی قبول کیا جا رہا ہے۔ واقفاتِ نو اس طرح تو ایکٹو رول ادا نہیں کر سکتیں جس طرح ہمارے وہ مبلغ ادا کر سکتے ہیں جن کو باقاعدہ ٹریننگ دے کر اور ملازمت میں لے کر بطور مبلغ بھجوایا جاتا ہے۔ اور جہاں اکیلی عورت تو جا نہیں سکتی صرف مرد ہی جا سکتے ہیں۔ پس جو واقفاتِ نو بچیاں ہیں انہوں نے عورتوں میں ، لڑکیوں اور بچیوں میں اپنے نمونے قائم کرنے ہیں۔
حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایاکہ میرا خیال ہے کہ یہاں ایک دو کے سوا باقی بچیاں دس سال سے اوپر کی ہیں۔ اب دس سال کی عمر ایک ایسی عمر ہے جو اسلام کی تعلیم کے مطابق میچور عمر ہے جس میں نماز ادا کرنا فرض کیا گیا ہے۔ اب نماز ایک ایسی عبادت ہے جو خدا تعالیٰ کے حضور پانچ وقت ادا کرنی ہے اور اس عبادت کو اللہ اور اس کے رسول نے دس سال کی عمر میں فرض کر دیا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اس عمر میں تمہارے ہر عمل میں ایک تبدیلی ہو جانی ہے۔
حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا بچیاں کہتی ہیں کہ ہم تو ابھی چھوٹی ہیں گیارہ بارہ سال کی ہیں، بڑی ہونگی تو ہم سکارف پہن لیں گی یا کوٹ پہن لیں گی۔ تو اگر دس سال تک یہ احساس پیدا نہیں ہوا تو پھر بڑے ہوکر بھی یہ احساس کبھی پیدا نہیں ہوگا۔ اس لئے یہ یاد رکھو کہ ہمیشہ واقفاتِ نو نے دوسروں کیلئے نمونہ بننا ہے۔ اپنے لوگوں کیلئے بھی اور اپنی قوم کے لئے بھی نمونہ بننا ہے۔
حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا کہ اس عزم کا بھی اظہار کیا گیا ہے کہ اپنے لوگوں کے لئے بھی اور اس قوم کے لوگوں کے لئے بھی تبلیغ کریں گےاور ناروے کے نارتھ میں وہاں تک جائیں گے جہاں 2008 میں جھنڈا لہرا دیا تھا۔ اس ایک جھنڈا لہرانے سے، ایک نمائش لگانے سے یا ایک آدمی کو قرآن کریم دینے سے انقلاب نہیں آ جایا کرتے۔ اس کا پھر فولواَپ بھی ہونا چاہیئے۔ باقاعدہ پیچھے پڑ کے دیکھنا ہوگاکہ ہم نے جو کام کئے ہیں ان کو آگے کہاں تک پہنچایا ہے۔ پس ایک لیکچر سے، ایک تقریر سے نہ تو پردے قائم ہو سکتے ہیں اور نہ ہونگے جب تک کہ ہر ایک کے دل میں یہ احساس نہیں ہو گا کہ ہم نے جو باتیں سنی ہیں ان پرعمل کرنا ہے۔
حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا رات کو سونے سے قبل بجائے ٹی وی ڈرامہ دیکھنے کے یا ٹی وی ڈرامہ کوئی اچھا ہے تو بے شک دیکھ لو لیکن اس میں کسی قسم کا ننگ نہیں ہونا چاہیئے۔ یا انٹر نیٹ پر لمبا وقت گذارنے کی بجائے وقت پر سونے کی عادت ڈالیں تا کہ نماز پر اٹھ سکیں اور پھر سونے سے قبل یہ جائزہ بھی لیں کہ ہم نے آج کیا کیا کام کئے ہیں جو ایک واقفۂ نو کے لئے ضروری ہیں۔ جب نمازیں فرض ہیں تو کیا ہم نے ادا کی ہیں۔ قرآن شریف پڑھنے کا حکم ہے تو کیا ہم نے پڑھا ہے اور یہ بھی کہ قرآن شریف کے کسی حکم پر ہم نے غور کیا ہے اور اس میں بیان شدہ تعلیم اور معانی نکالے ہیں۔
خود اپنے جائزے لیں
حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا آپ لوگوں نے آگے جا کر پڑھانا ہے۔ دوسروں کی تربیت کرنی ہے۔ صرف یہ نہیں کہ ایک واقفۂ نو ڈاکٹر بن جائے گی، ایک ٹیچر بن جائے گی یا اور کچھ نہیں تو تھوڑی سی پڑھائی کر کےاتنا ہی کافی ہے کہ شادی ہو جائے اور اپنے گھر میں چلی جائے۔ بلکہ آپ لوگوں نے ہر جگہ اپنے نمونے قائم کرنے ہیں۔ پس ان نمونوں کو تلاش کرنے کی ضروررت ہے اور یہ اس وقت تک نہیں ہو سکتے جب تک رات سونے سے پہلے آپ خود اپنا جائزہ نہ لیں۔ کوئی دوسرا آپ کا جائزہ لے گا تو جھوٹ بولا جا سکتا ہے لیکن جب آپ خود اپنا جائزہ لیں گی تو جھوٹ نہیں بول سکتیں۔ جب اس بات کو سامنے رکھتے ہوئے جائزہ لیں گی کہ اللہ تعالیٰ کہتا ہے کہ مَیں تم کو دیکھ رہا ہوں تو پھر آپ تقویٰ پر قائم رہتے ہوئے سچائی کے ساتھ اپنا جائزہ لیں گی۔ کیونکہ نہ اپنے آپ کو دھوکہ دیا جا سکتا ہے اور نہ اللہ تعالیٰ کو دھوکا دیا جا سکتا ہے۔
(روزنامہ الفضل ربوہ 19 اکتوبر 2011ء۔ جلد 61-96نمبر 239۔ صفحہ 6)
پنجوقتہ نماز کی طرف توجہ
حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا سب سے پہلے تو یہ ہے کہ پانچ نمازیں پڑھنی چاہیئں۔ سردیوں میں دن چھوٹے ہوتے ہیں اور وقت کم ہوتا ہے اور نماز ظہر و عصر کا وقت سکول، کالج میں ہو جاتا ہے۔ ایسا نہیں ہونا چاہیئے کہ وہ نمازیں رہ جائیں۔ نماز تو بہرحال ادا کرنی ہے۔ آپ کو اس کا کوئی باقاعدہ انتظام کرنا چاہیئے۔
کھانے کی چیزوں میں احتیاط
ایک بچی نے سوال کیا کہ میری ایک ساتھی نے کیک بنایا اور مجھے بتایا اس نے اس میں الکحل بھی ڈالی ہے لیکن وہ کیک تیار کرتے ہوئے جل گئی ہے۔ تو کیا مَیں اس کیک کو کھا سکتی ہوں۔ اس پر حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا کہ نہیں کھا سکتی۔ یہ تو راستے کھولنے والی بات ہے سوائے اس کے کہ مجبوری ہو۔ دوائیوں میں بھی الکحل پڑتی ہے لیکن وہ علاج کے لئے استعمال کرتے ہیں جو ایک مجبوری کی حالت ہے۔ لیکن اس طرح کھانوں کے بارے میں یہ کہنا کہ اس میں جو الکحل تھی جو پک گئی اور ختم ہو گئی یہ غلط چیز ہے۔ احمدیوں کو ایسا کھانا نہیں کھانا چاہیئے ورنہ بہانے ملتے جائیں گے اور پھر بات رُکے گی نہیں۔
ایک بچی نے سوال کیا کہ ہم جیلیٹن کی چیزیں کھا سکتے ہیں۔ حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا کہ احتیاط کے ساتھ پہلے دیکھنا چاہیئے۔ بعض دفعہ سؤر کی ہڈیوں سے بناتے ہیں وہ تو نہیں کھانی، لیکن جو حلال جانور کی ہڈیوں وغیرہ سے بنی ہو وہ استعمال کر لیا کرو۔ فرمایا کہ میں تو چاکلیٹ اور کیک وغیرہ بھی پڑھ کر کھاتا ہوں۔ ان کی پیکنگ پر وہ سب کچھ لکھاہوتا ہے جو ان کی تیاری میں استعمال ہوا ہے۔ ان کی شرابوں کی کئی قسمیں ہیں۔ بعض دفعہ پڑھنے کے باوجود پتہ نہیں چلتا کہ یہ کیا چیز ہے تو تم یہ نہ سمجھو کہ بڑی اچھی چیز ہے۔ پہلے ڈکشنری میں دیکھ لیا کرو۔ فرمایا milk چاکلیٹ ہوتی ہے Nuts والی چاکلیٹ ہوتی ہے وہ کھا لیا کرو۔
ایک بچی نے سوال کیا کہ اگر غلطی سے الکحل والی چیز کھا لی جائے تو پھرکیاکرنا چاہیئے؟ حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا غلطی سے کھا لو تو استغفار پڑھو۔ پہلے ہی احتیاط کر لیا کرو۔ پڑھ لیا کرو۔ ان یورپیٔن لوگوں میں اتنی شرافت ہے کہ اوپر لکھ دیتے ہیں۔ بعض لوگو ں کی کراہت اتنی بڑھ جاتی ہے کہ جب پتا چل جائے کہ کوئی غلط چیز کھا لی ہے تو قے کر دیتے ہیں۔ بہرحال غلطی ہے اگر کھالی جائے تو غلطی تو اللہ تعالیٰ معاف کر دیتا ہے۔ تم لوگ بھی دوسروں کی غلطیاں معاف کیا کرو۔ اگر کوئی معافی مانگتا ہو تو معاف کر دیا کرو۔
ایک بچی نے سوال کیا کہ بعض غیر احمدی لوگ یہ کہتے ہیں کہ میک اَپ کرنے کی صورت میں اور نیل پالش کی صورت میں نماز نہیں ہو سکتی کیونکہ پوری طرح وضو نہیں ہوتا۔ حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا اگر کسی کی نہیں ہوتی تو وہ نہ پڑھا کرے۔ ہم تو پڑھتے ہیں۔ نیل پالش اور ناخن کے درمیان تو کوئی گند نہیں آ سکتا اسلئے جو وضو ہوتا ہے بالکل صحیح ہوتا ہے۔ نماز نہ پڑھنا زیادہ گناہ ہے بہ نسبت اس کے کہ اس قسم کے مسائل بنا کر نماز چھوڑ دی جائے۔ میک اَپ کی وجہ سے وضو نہ کرنا کہ خراب ہو جائے گا تو یہ غلط ہے۔
(روزنامہ الفضل ربوہ 28 مئی 2012ء۔ جلد 62-97نمبر 123۔ صفحہ 4 تا 5)
حضورِ انور نے بچوں سے دریافت فرمایا کہ روزانہ پانچ نمازیں پڑھنے والے کتنے ہیں؟ فرمایا کہ سردیوں میں دن چھوٹے ہوتے ہیں اور نماز ظہر و عصر کا وقت بہت کم رہ جاتا ہے تو آپ کس طرح یہ نمازیں ادا کرتے ہیں؟ جس پر بعض بچوں نے کہا کہ ہم گھر واپس آتے ہوئے ٹرین میں پڑھ لیتے ہیں۔ اس پر حضورِ انور نے فرمایا کہ سکول میں پڑھ لیا کرو اور باقاعدہ ان سے سکول کی انتظامیہ سے اجازت لے لیا کرو۔
ایک طالب علم نے عرض کیا کہ میں کام کے ساتھ ساتھ سول انجینئرنگ میں ماسٹر کرنا چاہتا ہوں۔ حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا کہ اگر تم تعلیم کے اخراجات مہیا کر سکتے ہو تو صرف پڑھائی کرو اور ماسٹر مکمل کرو ورنہ کام کے ساتھ ساتھ کر لو۔
ایک واقفِ نو طالب علم نے سوال کیا کہ کیا کیلیگرافی میں جماعت کی خدمت ہو سکتی ہے؟ اس پر حضورِ انور نے فرمایا کہ خدمت یہی ہے کہ مسجد میں آیات، دعائیں لکھی جاتی ہیں، اسمائے الہٰی لکھے جاتے ہیں وہ لکھ سکتے ہیں۔ اگر شوق ہے تو یہ خدمت ہو سکتی ہے۔ حضورِ انورنے فرمایا یہ زائد چیز ہونی چاہیئے اس کے علاوہ تمہارا کوئی پروفیشن ہونا چاہیئے۔ فرمایا کہ کیلیگرافی کے ذریعے خدا تعالیٰ کے ناموں سے نمائش لگائی جا سکتی ہے۔ خدا تعالیٰ کے ناموں کا مطلب مفہوم بتا یا جا سکتا ہے۔ اس طرح تبلیغ بھی ہو سکتی ہے۔
تبلیغ سے متعلق ایک سوال کے جواب میں حضورِ انور نے فرمایا اگر آپ میں سے ہر لڑکا یہ عہد کرے کہ وہ دس لڑکوں کو بتائے گا ، احمدیت کا پیغام پہنچائے گا تو آپ جو 25 بیٹھے ہیں 250 کو تو بتا سکتے ہیں۔ اس طرح جب ان دس تک پیغام پہنچ جائے تو پھر دوسرے دس کو پہنچائیں اس طرح تعداد بڑھتی رہے گی۔۔ فرمایا کہ صرف جماعتی پروگرام بنا لیا اور مربی صاحب کو بلا لیا اور پروگرام کر لیا یا کسی جگہ بک سٹال لگا لیا تو یہ کافی نہیں۔ نئے نئے راستے نکالیں۔ کوئی پاکٹ لے لیں۔ کسی علاقے کا انتخاب کر لیں اور پھر سروے کریں اور دیکھیں کہ کس طرح ان لوگوں کو احمدیت کا پیغام پہنچانا ہے۔ عام روایتی تبلیغ سے کا م نہیں چلے گا۔ اسلئے خاص پروگرام بنائیں اور نئے راستے دیکھیں اور پھر مجھے بتائیں۔
(روزنامہ الفضل ربوہ 28 مئی 2012ء۔ جلد 62-97نمبر 123۔ صفحہ 5 تا 6)
حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا کہ واقفاتِ نو کو کچھ تھوڑی بہت اردو بھی سیکھنی چاہیئے۔ انگریزی تو اس ماحول میں آ ہی جاتی ہے۔ ایسے پروگرام ہونے چاہیئں اور اردو زبان سیکھنے کی طرف بھی توجہ ہو۔
واقفاتِ نو دوسروں کے لئے نمونہ بنیں
حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا تم لوگوں نے بڑے بڑے عہد کئے ہیں کہ ہم یہ کر دیں گے ہم وہ کر دیں گے۔ خلافت کی بات مانیں گے ۔ جو بھی ہمیں حکم ملے گا ہم کریں گے۔ حفاظت کریں گے، نماز پڑھیں گے، قرآن کریم پڑھیں گے۔ تم لوگ بڑے سپیشل ہو اور واقفاتِ نو سپیشل اس لئے ہیں کہ انہوں نے اپنے آپ سے یہ عہد کیا ہے کہ ہم اپنے آپ کو جماعت کی خدمت کے لئے پیش کریں گی۔ جماعت کی خدمت کے لئے پیش کرنے کے لئے ان باتوں کو جو اللہ تعالیٰ نے بتائی ہیں سیکھنا اور ان پر عمل کرنا بھی ضروری ہے۔ اس میں سے پہلی بات باقاعدہ نماز پڑھنا اور دوسری بات قرآن کریم باقاعدگی کے ساتھ پڑھنا ، پھر اس کو سمجھنا اور اس پر عمل کرنا ہے۔ تم واقفاتِ نو نے دوسروں کے لئے ایک نمونہ بننا ہے اور وہ تب ہو گا جب تم لوگ خود قرآن کریم پر عمل کرو گے۔
حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا جہاں قرآن کریم نے اَور بہت سی باتیں کی ہیں وہاں اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں کہتا ہے کہ سچ بولو، غریبوں کا خیال رکھو۔ اس لئے charity کے لئے تم کو کام کرنا چاہیئے۔ نمازوں کا ذکر تو پہلے آ چکا ہے، اللہ تعالیٰ کہتا ہے کہ بڑوں کا ادب کرو۔ بڑوں کی پوری Respect ہونی چاہیئے۔ اپنے ماں باپ کا کہا مانو، جوں جوں لڑکیاں جوان ہوتی جاتی ہیں وہ سمجھتی ہیں کہ ہم نے زیادہ پڑھ لیا ہے۔ اب ہم اپنے ماں باپ سے زیادہ عقلمند ہو گئی ہیں اس لئے بات نہ مانیں، یہ سوچ غلط ہے۔ پھر جب رشتے ہوں تو وہاں بھی جن گھروں میں جاؤ ان کی بات مانو اور وہاں بھی اچھے اخلاق دکھاؤ۔ اب تم بڑی ہو گئی ہو۔ میری یہ باتیں بے شک بڑوں تک پہنچا دیں جن کو سننی چاہیئں۔
واقفاتِ نو پردے میں بھی اپنی مثالیں قائم کریں
پھر اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں دو تین جگہ بڑا واضح طور پر کہا ہے کہ ایک عورت کی جو Sanctity اور Chastity ہے اس کو قائم رکھو۔ اس کے لئے سر ڈھانکنا، حجاب اور سکارف لینا بتایا ہے۔ تم جو واقفاتِ نو ہو اپنی مثالیں قائم کرو۔ بغیر شرمائے، سکولوں میں کالجو ں میں Bullying وغیرہ سے ڈرنے کی ضرورت نہیں۔ اپنی مثالیں قائم کرو تا کہ دوسرے بھی انہیں دیکھ کر نمونہ پکڑیں۔ جس طرح آج سر ڈھانپے ہوئے ہیں کسی کو کوئی complex ہے کہ ہم نے کیوں سر ڈھانکا ہوا ہے؟ اور پیچھے جو کیمرے پر کھڑی ہیں۔ سیکیوریٹی پر کھڑی رہتی ہیں انہوں نے بھی بڑے اچھے پردے کئے ہوئے ہیں۔ مجھے امید ہے ان کو بھی کوئی کمپلیکس نہیں ہو گا۔ یہ اللہ تعالیٰ کا حکم ہے۔ اللہ کا حکم مانو گی تو محفوظ رہو گی اور آپ نے وقف کیا ہے۔ تو وقف کا مطلب یہ ہے کہ تم کو دوسروں کی نسبت زیادہ اللہ تعالیٰ کا حکم ماننا چاہیئے۔ اس لئے تمہارے نقاب اور سکارف اترنے نہیں چاہیئں ۔یہ بڑا ضروری ہے تا کہ دوسرے بھی تمہارے سے نمونہ پکڑیں۔
حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا جب تک تم بارہ تیرہ سال کی ہو ماں باپ کے اَنڈر ہو۔ یہاں کلاس میں آتی ہیں تو بڑے اچھے سکارف لپیٹے ہوئے بڑی خوبصورت لگ رہی ہوتی ہیں۔ اس کے بعد عمر زیادہ ہوتی ہے تو آہستہ آہستہ پریشان ہو جاتی ہیں۔ تو جو بڑی لڑکیاں ہیں ان کی فہرست مجھے صدر لجنہ یا سیکریٹری تربیت بھجوائے کہ کون سی لڑکیاں باقاعدہ سکارف لیتی ہیں اور جو نہیں لیتیں ان کو کہیں کہ لیا کریں۔ ان کو سمجھائیں اور اگر دو مہینہ کے اندر ان میں کوئی تبدیلی نہیں آتی تو مجھے نام بھیجیں تا کہ ان کو وقفِ نو سے خارج کیا جائے۔
حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا وقفِ نو بننا ایک قربانی چاہتا ہے۔ وقفِ نو تب ہی ہے کہ Sacrifice کرو، تم لوگ اپنے سکارف کی Sacrifice نہیں کر سکتے تو پھر اَور کیا کرنا ہے؟ پھر نمازوں کے لئے وقت کی قربانی ہے۔ یہ نہیں کہ سردیوں میں یہاں کے دن چھوٹے ہوتے ہیں، سکول جاتے ہو اور لیٹ واپس آتے ہو تو پھر سکولوں میں ہی ظہر و عصر کی نمازیں پڑھا کرو۔ وہاں باقاعدہ اجازت لے لو اور ایک کونے میں بیٹھ کر نمازیں پڑھ سکتے ہو۔ یہ نہیں کہ گھر میں آ کے مغرب کی نماز کے ساتھ ظہر و عصر کی نمازیں پڑھ لیں، یہ بھی غلط چیز ہے۔ پس یہ چیزیں اگر تم لوگوں میں رہیں گی تو تم لوگ حقیقی واقفاتِ نو کہلاؤ گی۔ نہیں تو صرف ترانے پڑھنے والی کہلاؤ گی اور تمہارا عمل نہیں ہو گا۔ صرف منہ کی باتیں ہونگی اور ایسا کسی بھی وقفِ نو کو ہر گز نہیں ہونا چاہیئے۔
ایک واقفۂ نو نے سوال کیا کہ جماعت میں ایسی لڑکیاں ہیں کئی دفعہ جب باہر جاتی ہیں جیسے شاپنگ سنٹر وغیرہ میں پھرتی ہیں یا کہیں جاتی ہیں تو دوپٹے اتار دیتی ہیں۔ صحیح طرح حجاب نہیں لیا ہوتا اور جب مسجد میں آتی ہیں تو صحیح طرح حجاب لے کے آتی ہیں۔ تو کیا یہ صحیح طریقہ ہے؟ حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا میرا تو خیال ہے یہاں پر بھی نہیں لے کر آتیں۔ میں نے جلسہ پر اپنی تقریر میں کہا کہ سر پر دوپٹہ لو حجاب لو۔ اس کے بعد مَیں پوڈیم سے اپنی کرسی پر جب بیٹھا ہوں تو کم از کم چار عورتوں کو تو مَیں نے دیکھا ہے جو اٹھ کے گئی ہیں۔ ان کے بال پیچھے سے کھلے ہوئے تھے اور سر پر دوپٹہ کوئی نہیں تھا۔ یہ تو لجنہ کے شعبہ تربیت کا کام ہے۔ صدر صاحبہ اور تربیت والے صرف تقریریں نہ کیا کریں بلکہ دیکھا کریں کہ عملاً کیا ہو رہا ہے۔ اس لئے مَیں نے کہا ہے کہ تم جو واقفاتِ نو ہو تم لوگوں نے اپنے آپ کو پیش کیا ہے کہ ہم نے دنیا کی اصلاح کرنی ہے اپنی ایسی مثال بناؤ کہ تمہیں دیکھ کر دوسروں کو شرم آ جائے۔ اب دیکھتے ہیں کہ تم میں سے کتنی ایسی ہیں جو دوسروں کو شرم دلاتی ہیں۔
حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا کہ منافقت نہیں ہونی چاہیئے۔ اس لئے مَیں نے صدر لجنہ کو بھی کہا ہوا ہے کہ بے شک جو بہت پڑھی لکھی ہیں، بہت محنت کرنے والی ہیں، بہت کام کئے ہیں لیکن ان کا پراپر حجاب وغیرہ نہیں ہوتا تو پھر ان کو کسی بھی جگہ لجنہ کی خدمت نہیں دینی اور مجھے لگتا ہے کہ اپنی ایک ٹیم علیحدہ بنانی پڑے گی جو چیک کرے گی۔ میرا خیال ہے کہ واقفاتِ نو میں سے کچھ لڑکیوں کو منتخب کروں اور اپنی ٹیم بناؤں۔ تم آ کر مجھے بتاؤ کہ کون کیا کرتا ہے۔ تم لوگوں کا اصل کام یہ ہے کہ خلیفۂ وقت کی بازو بن جاؤ، ہاتھ بن جاؤ، اس لئے تم لوگوں کا سب سے بڑا کام یہ ہےکہ اگر تم ایسی بن جاؤ تو مَیں سمجھوں گا کہ کم از کم کینیڈا ہم نے فتح کر لیا ہے۔
واقفاتِ نو کے لئے خدمت کے میدان
ایک واقفۂ نو نے سوال کیا کہ وقفِ نو لڑکیوں کے لئے کون سا پروفیشن اچھا ہے۔ حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا کہ اپنی سیکریٹری وقفِ نو سے کہو کہ مختلف وقتوں میں، مَیں نے جو ہدایتیں دی ہیں ان کو ایک جگہ اکٹھا کر کے اور پوانٹس بنا کر تم لوگوں کو بتائیں۔ حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا کہ میں نے پہلے کہا ہوا ہے کہ میڈیسن بڑی اچھی جاب ہے۔ پھر ٹیچنگ کا شعبہ ہے۔ پھر کوئی زبان سیکھو۔ ترجمہ کرنے کے لئے ہمیں مترجمین کی ضروت ہے۔ کمپیوٹر سائنس والوں کی بھی ہمیں ضرورت ہے۔ میڈیا کی بھی ضرورت پڑ جاتی ہے۔ جرنلزم میں کر سکتی ہو تا کہ تم آرٹیکل اخباروں میں لکھو اور میڈیا کے ذریعہ تبلیغ کرو۔ عورتوں پر جو اعتراضات ہوتے ہیں ان کے جواب دو۔
حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا واقفاتِ نو لڑکیوں کے لئے میں لاء پسند نہیں کرتا۔ اگر پڑھنا ہے تو پھر پریکٹس نہیں کرنی کیونکہ بہت زیادہ Exposure اور Interaction مردوں کے ساتھ ہو جاتا ہے۔ پھر چور، ڈاکوؤں کے ساتھ جن کے اخلاق ہی خراب ہوتے ہیں واسطہ پڑتا ہے۔ اس لئے یہ کام مردوں کو کرنے دو۔
ایک واقفۂ نو نے سوال کیا کہ لڑکے جب وقف کرتے ہیں تو کئی دفعہ مربی بنتے ہیں اور کئی دفعہ نہیں بنتے لیکن جب ان کو کہا جاتا ہے افریقہ جانے کے لئے یا کہیں اور جانے کے لئے تو وہ چلے جاتے ہیں۔ کیا واقفاتِ نو لڑکیوں کے ساتھ بھی یہی ہوتا ہے؟ حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا واقفاتِ نو لڑکیاں ڈاکٹر بنیں، ٹیچر بنیں، Linguist بنیں اور بتائیں تو ان سے جماعت باقاعدہ وقف کی طرح کام لیتی ہے اور اگر نہ لے تو ان کو بتاتی ہے کہ اپنا کام کئے جاؤ، لجنہ کے ساتھ یا اپنے ملک میں جہاں رہ رہی ہو اور جب ضرورت پڑے گی تو تمہیں بھیج دیں گے۔ لیکن اگر کسی لڑکی نے صرف بیچلر کیا ہوا ہے تو اس کا تو کوئی فائدہ نہیں۔ اس کا یہی ہے کہ اپنے ملک میں کام کرتی رہے۔ یا تو کچھ بن کر دکھاؤ پھر ان شاء اللہ تمہیں باقاعدہ جماعت میں لے کے کام پر لگایا جائے گا، کئی لڑکیاں اس طرح کام کرتی ہیں۔ جو میڈیا میں پڑھ رہی ہیں یا پروگرامنگ وغیرہ کر رہی ہیں ان کو ایم ٹی اے کے لئے استعمال کرتےہیں۔
(روزنامہ الفضل ربوہ 9 اگست 2012ء۔ جلد 62-97نمبر 186۔ صفحہ 4 تا 6)
حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے واقفینِ نو بچوں سے دریافت فرمایا کہ جامعہ میں جانے کا کس کس کا ارادہ ہے ؟ ڈاکٹر کس نے بننا ہے نیز ہدایت فرمائی کہ جنرل سرجری میں سپیشلائز کریں اس کی افریقہ میں ہمیں بہت ضرورت ہے۔ ایک طالب علم سے جو انجینئر بن رہے تھے فرمایا کہ آپ کنسٹرکشن کے شعبہ میں چلے جائیں۔ ایک واقفِ نو کو فرمایا کہ سپینش زبان سیکھیں اور اس میں سپیشلائزیشن کریں۔
ایک واقفِ نو نے کہا کہ مَیں نے مربی صاحب بننا ہے۔ اس پر حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا صاحب نہ بننا صرف مربی بننا۔ صاحب بن گئے تو پھر کام نہیں ہو گا۔
حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بارہ میں آیت قرآنیہ ’’ وَ اِبْـرَاھِـیْـمَ الَّـذِیْ وَفّٰی‘‘ کے حوالہ سے فرمایا کہ اصل چیز وفا ہے اور اپنے عہد کو پوراکرنا ہے۔ پس یہ وفا ہی ہے جو تم کوآگے بڑھائے گی۔ اصل بات یہی ہے کہ وفا کے ساتھ اپنے عہد پر قائم رہیں۔
(روزنامہ الفضل ربوہ 18 اپریل 2013ء۔ جلد 63-98نمبر 88۔ صفحہ 5)
واقفاتِ نو کی خصوصیات
ایک بچی نے سوال کیا کہ واقفاتِ نو بچیوں کی سب سے اہم کوالٹی کیا ہونی چاہیئے؟ حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا نیک اور متقی بنیں، خدا کا خوف رکھنے والی ہوں۔ پانچوں نمازیں ادا کرنے والی ہوں، قرآن کریم کی تلاوت کرنے والی ہوں، قرآن کریم کا ترجمہ پڑھیں اور پھر اس کی تفسیر پڑھنے والی ہوں، قرآن کریم کی سچی تعلیمات کو سیکھنے والی اور پھر اس پر عمل کرنے والی ہوں۔آپ اپنے آپ کو اس طرح تیار کریں کہ سچی تعلیمات پر خود بھی عمل کریں اور دوسروں کو بھی بتا سکیں دوسروں کے لئے بہترین اور مثالی نمونہ پیش کریں۔ قرآن کریم کی سچی تعلیمات میں سے ایک یہ ہے کہ عورت حیا دار اور باپردہ ہو۔ آپ پردہ کرنے والی ہوں اور سوسائٹی کے بد اثرات سے اپنے آپ کو بچانے والی ہوں۔ پس آپ کے ملک میں کوئی زیادہ سختی بھی نہیں ہے لیکن یورپ میں دوسرے ملکوں کی نسبت زیادہ سختی ہے۔ آپ کا کم ازکم پردہ یہ ہے کہ بال ڈھکے ہونے چاہیئں اور نیچے ٹھوڑی والا حصّہ ڈھکا ہونا چاہیئے۔ ہاں اگر میک اپ کرنا ہے تو پھر اپنا منہ بھی ڈھانکو۔
ایک واقفۂ نو کے اس سوال پر کہ ہمارے لئے بہترین کیریئر کون سا ہے؟ حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا ڈاکٹر بننا سب سے بہتر ہے۔ حدیث میں آتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ دو قسم کے علم ہیں علم الادیان و علم الابدان۔ یعنی دین کا علم اور جسم کا علم یعنی طب کا علم۔ پھر اس کے بعد ٹیچنگ ہے۔ پھر مختلف زبانیں ہیں، کوئی زبان سیکھ کر ترجمہ کا کام بھی کر سکتی ہیں۔
ایک واقفۂ نو نے سوال کیا کہ کوئی ایسی دعا بتائیں جو ہر بچی کو پڑھنی چاہیئے۔ حضورِ انورنے فرمایا پانچ وقت کی نمازیں پڑھو۔ قرآن کریم باقاعدہ پڑھو۔
(روزنامہ الفضل ربوہ 20 مئی 2013ء۔ جلد 63-98نمبر 113۔ صفحہ 5)
ایک واقفِ نو بچے نے سوال کیا کہ ہمارے لئے کیا ہدایت ہے؟ حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا کہ میں نے اس سال واقفینِ نو کے حوالے سے ایک خطبہ دیا تھا جس میں ان کے لئے گائڈ لائن بھی دی تھی وہ خطبہ دوبارہ سن لو۔
اس سوال کے جواب میں کہ جماعت کو کس فیلڈ میں واقفین کی ضرورت ہے۔ حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا ہمیں مبلغین بھی چاہیئں، ڈاکٹرز اور ٹیچرز بھی چاہیئں ۔ اس طرح مختلف زبانیں جاننے والے ماہرین بھی چاہیئں۔ اسی طرح بعض اور فیلڈ بھی ہیں۔
واقفینِ نو رول ماڈل بنیں
حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا تربیت کی کمی ہو جاتی ہے۔ واقفینِ نو کو تربیت کی طرف بہت توجہ دینی چاہیئے۔ نمازوں کی ادائیگی کی طرف توجہ دیں۔ قرآن کریم کی تلاوت روزانہ کریں پھر اس کا ترجمہ بھی پڑھیں اور بعد میں تفسیر بھی۔ نئے آنے والوں کے لئے آپ ایک رول ماڈل بن جائیں۔ اب بہت سے نئے لوگ آئیں گے جو آپ کا نمونہ دیکھیں گے۔ اللہ تعالیٰ نے سورۃ نصر میں اس کا ذکر فرمایا ہے کہ ۔۔۔ یعنی جب کثرت سے لوگ آئیں تو پھر خدا کی تسبیح اور استغفار کرو تا کہ آنے والے بھی اس طرف توجہ دیں اور دوسرے تم بھی استغفار اور تسبیح سے ان کی تربیت کرنے والے بن سکو۔
حضورِ انور نے فرمایا ہر ایک کو خواہ وہ ڈاکٹر ہے خواہ انجینئر ہے خواہ ٹیچر ہے یا کسی بھی فیلڈ میں ہے، اپنے ماحول میں ایک رول ماڈل ہونا چاہیئے۔
(روزنامہ الفضل ربوہ 22 مئی 2013ء۔ جلد 63-98نمبر 115۔ صفحہ 6)
شادی کے بعد جماعت کی خدمت
ایک واقفۂ نو نے سوال کیا کہ اگر ہماری شادی ایسے لڑکے سے ہوتی ہے جو وقف نہیں ہے تو شادی کے بعد ہم کس طرح اپنا وقف قائم رکھ سکتی ہے؟ حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا کہ جب بھی رشتہ ہو تو جس طرح مرد کو حکم ہے کہ ایسی لڑکی تلاش کرو جو دیندار ہو۔ اِسی طرح لڑکیوں کو بھی دینداری دیکھنی چاہیئے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جیسے فرمایا ہے کہ نہ دنیا دیکھو، نہ دولت دیکھو، نہ خاندان دیکھو، نہ خوبصورتی دیکھو۔ بلکہ دینداری دیکھو اور اگر خاوند وقفِ نو ہو اور دیندار بھی ہو تو آپ کو دین کی خدمت کرنے سے نہیں روکے گا۔ جس ماحول میں ہو وہاں خدمت کر سکتی ہو۔ لجنہ کے ذریعے سے خدمت کی جا سکتی ہے۔ پھر تبلیغ کی خدمت ہے۔ اگر تم Linguist ہو تو جماعتی لٹریچر کے ترجمہ کی خدمت کر سکتی ہو۔ اگر ڈاکٹر ہو تو اپنے خاوند کو کہہ سکتی ہو کہ کچھ عرصہ کے لئے وقف کر دیں۔ جس طرح بعض لڑکیاں وقف ہیں اُن کے خاوند بھی ان کے ساتھ چلے گئے اور دونوں کام کر رہے ہیں۔ اگر جماعت 24 گھنٹے کے لئے کہے تو پوری طرح وقف کر کے مین سٹریم جماعت کے وقف کا سسٹم ہے اس میں آ جاؤ پھر جماعت کوئی نہ کوئی حل نکال لے گی۔ اور اگر یہ نہیں ہے تو جس جگہ تم لوگ بیٹھے ہو، اسی جگہ بیٹھ کر خدمت کرتے رہو۔ تبلیغ سے تو کسی نے نہیں روکا اور نہ ہی دعائیں کرنے سے۔ ہاتھ سے کام کرنے سے، لٹریچر کا ترجمہ کرنے سے تو کسی نے نہیں روکا ہے۔ اور نہ لجنہ کے کام سے کسی نے روکا ہے۔ عبادت کرنے سے نمازیں پڑھنے سے کسی نے نہیں روکا ۔ یہ سب کام تو آپ کر سکتی ہیں۔
ایک بچی نے سوال کیا کہ واقفاتِ نو میڈیکل اور ٹیچنگ کے علاوہ اور کس طرح جماعت کی خدمت کر سکتی ہیں؟ حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا مَیں نے کب کہا ہے کہ صرف میڈیکل اور ٹیچنگ کرو۔ ابھی جو تم نے میرا ریفرینس بیان کیاہے جو مَیں نے یوکے کی لجنہ یا اس سے پہلے ایک اجتماع میں بتایا تھا کہ تم لوگ Linguist بن سکتی ہو، ٹیچنگ کر سکتی ہو، میڈیسن کر سکتی ہو، ریسرچ میں جا سکتی ہو اور بہت ساری چیزیں ہیں۔ عورتوں کو کن چیزوں میں دلچسپی ہوتی ہے؟ اس پر بچی نے جواب دیا کہ اس کو میڈیکل سائنس میں دلچسپی ہے اس پر ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا سائنس میں تو بہت سارے شعبے ہیں۔ اگر ریسرچ میں بھی جانا چاہتی ہو تو چلی جاؤ کوئی حرج نہیں ہے۔
تربیت اولاد
ایک واقفۂ نو نے یہ سوال کیا کہ اولاد کی تربیت میں کس چیز پر سب سے زیادہ زور دینا چاہیئے یعنی سب سے زیادہ ضروری کیا چیز ہے؟ حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا دعا۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے لکھا ہے کہ مجھے سمجھ نہیں آتی کہ لوگ بچوں کو روکتے رہتے ہیں کہ یہ کرو وہ کرو، اِدھر جاؤ، اُدھر جاؤ یا چپیڑ ہی لگا دی۔ ہمارے معاشرے میں اسی طرح ہے۔ جب دس گیارہ سال تک بچہ صحیح طرح بولنے نہیں لگ جاتا اس وقت تک چپیڑیں مارتے رہتے ہیں۔ پھر جب وہ Teen Age میں ماں کو کہتا ہے کہ مَیں پولیس میں رپورٹ کروں گا تب ماں باپ رکتے ہیں۔ تو اس لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا کہ زیادہ روک ٹوک نہ کیا کرو۔ زیادہ سمجھاؤ اور دعا کرو۔ کل مَیں نے ایک حوالہ رکھا ہوا تھا بلکہ مَیں نے اس کو پڑھنا تھا لیکن لمبا ہو رہا تھا اس لئے چھوڑ دیا۔ اس میں یہی تھا کہ اولاد کی تربیت کرنی ہے تو پہلی چیز یہ ہے کہ بجائے مارنے دھاڑنے کے دعا کرو۔ دوسرے نمبر پر پھر اپنا نمونہ قائم کرو۔ اگر ماں باپ گھر میں تو نمازیں نہیں پڑھ رہے اور بچوں کو کہتے ہیں کہ نمازیں پڑھو، قرآن پڑھو اور خود کبھی صبح اٹھ کر تلاوت نہیں کی۔ خود دین کی کتابیں نہیں پڑھتے رات کو بیٹھ کر ٹی وی پروگرامز دیکھتے ہیں۔ پتہ نہیں یہاں ہے کہ نہیں مگر یورپ میں تو ٹی وی پروگرامز سے پہلے وارننگ آتی ہے کہ یہ پروگرام بچوں کے ساتھ بیٹھ کر دیکھیں اور یہ پروگرامز بچوں کو نہیں دکھانے۔ ان میں برائی ہوتی ہے تو وہ وارننگ دیتے ہیں۔ ایک احمدی کو تو ویسے ہی ان پروگرامز کو نہیں دیکھنا چاہیئے۔ لیکن بچہ اگر رات کو اٹھ کر ماں باپ کو وہ پروگرامز دیکھتے ہوئے دیکھ لے جس سے اس کو منع کرتے ہیں تو اس پر کیا اثر ہو گا۔ یعنی پہلے خود نمونہ قائم کرو۔ اور تیسری چیز یہ ہے کہ گھر میں ماں باپ کو کبھی نظامِ جماعت کے خلاف باتیں نہیں کرنی چاہیئں۔ بچے وہ باتیں سن لیتے ہیں اور پھر نظام کا اثر ختم ہو جاتا ہے۔ اگر چھوٹی موٹی شکایتیں ہیں تو صدر لجنہ کو بتا دو اور اگر بہت زیادہ شکایتیں ہیں تو مجھے بتا دو۔
عورتوں کو زیادہ ورزش کرنی چاہیئے
ایک بچی نے سوال کیا کہ ڈاکٹرز ہمیں کہتے ہیں کہ ہمارے جسم کے لئے ورزش بہت ضروری ہے اور ہم لوگ کہتے ہیں کہ نماز بھی ایک Exercise ہے۔ اس کو ہم سائنسی طور پر کس طرح ثابت کر سکتے ہیں؟ حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا یہ تو ورزش نہ کرنے کا بہانہ ہے کہ ہم نے نماز پڑھ لی تو ہماری ورزش ہو گئی۔ مَیں تو نماز بھی پڑھتا ہوں اور ورزش بھی کرتا ہوں۔ نماز تو ایک ہلکی پھلکی ورزش ہے جو مختلف وقتوں میں مل جاتی ہے لیکن یہ کہنا کہ ہم نے ورزش کر لی اور دوسری نہیں کرنی ٹھیک نہیں ہے۔ اگر تم اسی طرح کرتی رہی تو تم over weight ہو جاؤ گی۔ ورزش ضروری ہے اور نماز ایک ہلکی پھلکی ورزش ہے جو انسان کو چست رکھتی ہے۔ عورتوں کا Structure ہی ایسا ہوتا ہے اور قدرتی طور پر ان کا وزن بڑھتا ہے اس لئے عورتوں کو زیادہ ورزش کرنی چاہیئے۔ اتنی کہ اپنے آپ کو کنٹرول میں ر کھ سکیں۔ ویسے یوکے میں ہمارا ایک نوجوان اس بات پر ریسرچ کر رہا ہے کہ نماز کے مختلف حصے انسان کو چست رکھتے ہیں۔ لیکن عورتوں میں عادت ہو جاتی ہے کہ جب وزن بڑھ جاتا ہے تو کچھ عرصہ بعد بیٹھ کر نمازیں پڑھنے لگ جاتی ہیں۔ یہاں بھی مَیں نے دیکھا ہے کہ شادی ہو جائے اور ذرا سی چوٹ لگ جائے یا امید سے ہو جائیں تو فوراً بیٹھ کر نمازیں پڑھنے لگ جاتی ہیں حالانکہ کوئی ضرورت نہیں ہوتی۔اولمپک میں ایک چائنیز لڑکی گئی تھی اور وہ Pregnancy کے باوجود گولڈ میڈل جیت کر آ گئی تھی۔ ہمارے یہاں ہوتا ہے کہ نماز ہی بیٹھ کر پڑھنے لگ جاؤ۔
سالگرہ منانے کا صحیح طریق
ایک بچی نے سوال کیا کہ ہمیں سالگرہ منانے سے منع کیا گیا ہے لیکن پھر بھی کچھ فیملیاں گھر میں کیک کاٹ کر تھوڑا سا کچھ کر لیتی ہیں ۔ حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا مجھ سے لندن میں بھی کسی نے یہ سوال کیا تھا کہ ہمیں سالگرہ منانے سے منع کیا گیا ہے تو مَیں نے کہا تھا کہ بالکل نہیں منع کیا گیا۔ مگر ہمارا سالگرہ منانے کا طریق اَور ہے۔ ہماری سالگرہ یہ ہے کہ صبح اٹھو، دو نفل ادا کرو، خدا تعالیٰ کا شکر ادا کروکہ تمہارے پچھلے تمام سال اچھے گزر گئے اور آئندہ جو زندگی ہے وہ بھی اچھی گزرے اور کچھ صدقہ دو۔ کسی غریب کو charity میں دو تا کہ جو اتنے سارے لوگ بھوکے مر رہے ہیں ان کو آپ کے کیک کے بدلے دو وقت کی روٹی مل جائے۔ یہ اصل سالگرہ ہے۔ احمدیوں کو اسی طرح منانی چاہیئے۔ دعا پر بنیا د رکھنی چاہیئے۔ اس لئے نفل پڑھو اور دعا کرو اور واقفۂ نو تو خاص طور پر اس طرح دعا کرے کہ پچھلی زندگی اچھی گزر گئی اللہ تعالیٰ آئندہ زندگی اچھی گزارے اور اپنے وقف کے عہد پر قائم رہنے کی توفیق دے اور ہر پریشانی اور مشکل سے بچائے اور صحت دے تا کہ میں کام کر سکوں۔
(روزنامہ الفضل ربوہ 21 جون 2013ء۔ جلد 63-98نمبر 140۔ صفحہ 2 تا 4)
ایک بچے نے سوال کیا کہ کیا واقفینِ نو بچے ہنر سیکھ سکتے ہیں جیسے آٹو مکینک وغیرہ؟ حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا اگر ایسے پیشوں میں جانے کا شوق ہو تو پہلے اجازت لینی ہو گی۔ ہمیں ہر طرح کے ہنر جاننے والے چاہیئں۔ ہمیں آٹو مکینک، الیکٹریشن، الیکٹریکل انجینئرز، مکینیکل انجینئرز سب چاہیئں۔ اگر تمہیں کسی ایسی چیز میں انٹرسٹ ہے تو تم وہ پڑھ لو لیکن پہلے پوچھ لو کہ مَیں یہ پڑھنا چاہتا ہوں۔
حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا اسی لئے مَیں نے کہا تھا کہ 15 سال بعد اپنا عہد دوبارہ تازہ کریں۔ پھر 18 سال کے بعد جب یونیورسٹی میں جاتے ہوتو پہلے اجازت لو کہ میں یہ پڑھنا چاہتا ہوں۔ اگر اجازت مل جائے تو تم وہ پڑھ لو اور اس کے بعد جب اس تعلیم سے فارغ ہو جاؤ اور اپنی تعلیم مکمل کر لو تو اس کے بعد پھر تمہیں بتا دیں گے کہ خود اپنا کام کرنا ہے یا جماعت تم سے کام لے گی۔ لیکن اگر کوئی آٹو مکینک یا الیکٹریشن یا پلمبنگ یا پھر اس قسم کے ہنر میں جانا چاہے تو اس قسم کے لوگ بھی ہمیں چاہیئں مگر آ پ اپنے عزائم بلند کیوں نہیں رکھتے؟
اس کے بعد حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے دریافت فرمانے پر اسی بچے نے بتایا کہ وہ بارہواں گریڈ ختم کرنے والا ہے اور آگے بزنس پڑھنے کا خواہش مند ہے۔ اس پر حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا بزنس سے بہتر ہے آٹو مکینک کر لیں۔ آپ کے بزنس کو جماعت احمدیہ کیا کرے گی؟
(روزنامہ الفضل ربوہ 21 جون 2013ء۔ جلد 63-98نمبر 113۔ صفحہ 5 تا 6)
تعلیمی قرضہ
ایک واقفِ نو نے عرض کی کہ وہ ایم بی اے کر رہا ہے اور اس پر 19 ہزار ڈالرز خرچ ہونگے۔ تو کیا واقفینِ نو سٹوڈنٹس لون لے سکتے ہیں؟ حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے بچے سے دریافت فرمایا کہ کیا یہ لون سود کے بغیر ہوگا؟ جس پر طالبِ علم نے عرض کی کہ حضور کچھ مدت کے بعد دو فیصد سود لگے گا۔ اس پر حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے مزید دریافت فرمایا کہ جب تک پڑھ رہے ہیں اس وقت تک کوئی سود نہیں ہے؟ اس پر طالب علم نے عرض کیا کہ ایسا ہی ہے۔ حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا کہ اگر بغیر سود کے ہے تو لے سکتے ہیں لیکن اگر کوئی مجبوری ہو تو مجھے بھی بتا سکتے ہیں۔
ایک اور طالب علم نے سوال کیا کہ حضورِ انور نے جنوری میں اپنے جمعہ کے خطبہ میں فرمایا تھا کہ وہ واقفینِ نو جو بزنس سٹڈیز میں ہیں وہ اپنا وقف چھوڑ دیں، اس میں کیا حکمت ہے؟ حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا آپ بات صحیح طرح نہیں سمجھے۔ اس خطبہ کو غور سے سنیں۔ چھ سات مضامین مَیں نے بتائے تھے کہ یہ بڑے اہم مضامین ہیں کہ جن کی اس وقت جماعت کو ضرورت ہے اور بعض لوگ کہتے ہیں کہ ہم بزنس پڑھ رہے ہیں۔ جب ان سے پوچھو کہ کیا کرو گے تو وہ یہ کہتے ہیں کہ ہم اس کے بعد اپنا بزنس کریں گے یا میرے ماں باپ کا، فیملی کا بزنس ہے اس میں جائیں گے۔ تو انکو میں نے کہا تھا کہ ایسے لوگوں کو تو چاہیئے کہ اگر وہ اس نیّت سے پڑھ رہے ہیں کہ اپنے فیملی بزنس میں جانا ہے یا اپنا بزنس کرنا ہے تو وہ پھر وقف چھوڑ دیں اور یہ اعلان کریں کہ ہم نے وقف توڑ دینا ہے۔ یہ نہ ہو کہ آخر وقت تک پڑھتے رہیں اور ہم سمجھیں کہ وقفِ زندگی ہے اور جو گریجویشن کر لے، ماسٹرز کر لے، کوالیفائی کر لے اور جب وقت آئے کہ آؤ جماعت کی خدمت کرو تو کہہ دے السلام علیکم، مَیں تو اپنا فیملی بزنس کر رہا ہوں۔
مَیں نے ساتھ یہ بھی کہا تھا کہ وقفِ نو کو ہر لیول پر رہنمائی چاہیئے۔ ایک منصوبہ ہونا چاہیئے۔ اس منصوبے کےلئے میں نے جماعتوں کو کہا تھا کہ اگلے تین چار مہینوں میں مجھے ایک منصوبہ بنا کر بھیجیں کہ آپ کے واقفینِ نو کتنےہیں۔ ان میں سے کتنے ڈاکٹر بن سکتے ہیں۔ کتنے ٹیچر بن سکتے ہیں۔ کتنے انجینئر بن سکتے ہیں اور کتنے انجینئرنگ کی مختلف برانچز میں جائیں گے؟ کتنے زبان دان بن سکتےہیں اور کون کون سی زبانوں میں جا رہے ہیں؟ اور کتنے ماہر اقتصادیات بنیں گے یا بزنس پڑھیں گے یا اکاؤنٹنگ پڑھیں گے اور اسی طرح مختلف علوم ہیں۔ ۔۔۔ تو یہ سارا منصوبہ ہمارے سامنے ہو تو منصوبہ بندی کر سکتے ہیں کہ اگلے دس سال میں ہمیں کیا کیا چاہیئے۔ اگر اس طرح haphazard کام ہو رہا ہو تو وقفِ نو کا کوئی جھُنڈ تو ہم نے جمع نہیں کرنا۔ ہمیں تو ایسے لوگ چاہیئں جو جماعت کے کام آ سکیں۔
اس لئے مَیں نے کہا تھا کہ ایک تو ہمیں پتہ ہونا چاہیئے۔ جس کو پوچھو وہ کہتا ہے مَیں گرافکس میں ماسٹرز کر رہا ہوں۔ مَیں بیچلر کر رہا ہوں یا اکاؤنٹنگ میں کر رہا ہوں۔ سارے گرافکس میں چلے جائیں گے تو ہمارے پاس تو ایم ٹی اے کے لئے اتنی ضرورت نہیں ہےکہ ہر ایک کو گرافکس میں لے لیں۔ اس لئے ہر موقع پر رہنمائی لیں۔ 15 سال کی عمر میں، 18 سال کی عمر میں اور یونیورسٹی ختم کرنے کے بعد بھی رہنمائی لیں۔
باقی اگر آپ فنانس یا بزنس ایڈمنسٹریشن میں ہیں اور آپ کی نیّت وقف کرنے کی ہے تو پہلے پوچھیں کہ مَیں یہ پڑھ رہا ہوں اور مجھے آگے کیا کرنا چاہیئے۔ پھر ہم آپ کی رہنمائی کریں گے کہ آپ کو کیا کرنا چاہیئے۔ مَیں نے اس طرح نہیں کہا تھا کہ اگر بزنس پڑھو گے تو گناہ ہو جائے گا اور تمہیں سزا ملے گی۔ میرا مطلب یہ نہیں تھا۔ ترجمہ کرنے والے نے پتا نہیں کیا ترجمہ کیا مگر خطبہ کے الفاظ یہ نہیں تھے۔ انگریزی میں خلاصہ نہ پڑھیں بلکہ تفصیل سے پڑھیں۔ آپ کو اردو آتی ہے تو تفصیل سے خطبہ سنیں۔ خطبہ انٹرنیٹ پر موجود ہے اور ہر وقت جو آپ iPad لے کر ادھر اُدھر دیکھتے رہتے ہیں، تو اس خطبہ کو بھی سن لیں۔
جامعہ میں تخصص کا طریق
ایک اور طالب علم نے سوال کیا کہ حضور خاکسار جامعہ میں جانا چاہتا ہے تو کیا تخصص کے بعد ہم کسی اور مضمون میں پڑھائی کر سکتے ہیں؟ حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا کہ تم پہلے جامعہ جاؤ پھر فیصلہ کریں گے کہ تمہیں تخصص کرانا ہے کہ نہیں کرانا۔ جب آپ جامعہ میں پڑھیں گے تو پتہ لگے گا کہ آپ کا کس چیز میں رجحان ہے اور اس کے مطابق پھر آپ کو تخصص اگر کرانا ہو گا تو جماعت کرائے گی۔ اگر جماعت سمجھے گی کہ آپ کو تخصص نہیں کروانا اور آپ کو فیلڈ میں بھیج دینا ہے کہ جائیں تبلیغ کریں، بولیویا میں یا یا ٹرینیڈاڈ میں یا گوئٹے مالا میں یا برکینا فاسو میں یا مالی میں جہاں آج کل نائجیریا کے Bokoharam والے شدت پسند مسلمان کام کر رہے ہیں وہاں جا کر تبلیغ کرنی ہے۔ آپ کو کہاں بھجوانا ہے یا کیا کرنا ہے اس کا فیصلہ ہم نے کرنا ہے، آپ نے نہیں کرنا۔ شاہد کی ڈگری کے بعد آپ کو جماعت بتائے گی کہ آپ میں اتنی استطاعت اور صلاحیت ہے کہ آپ نے تخصص کرنا ہے یا نہیں۔ تخصص میں تو چند ایک لئے جاتے ہیں۔ اگر تم اتنے بہترین طالب علم ہو جاؤ گے تو پھر اس وقت فیصلہ ہو جائے گا۔ ہمارے بعض متخصصین ایسے بھی ہیں کہ تخصص کرانے کے بعد انہیں یونیورسٹی سے ماسٹرز بھی کرایا ہے۔ یہاں بھی ایک دو فرنچ میں کر رہے ہیں، پھر بائبل کے علم میں کر رہے ہیں۔ بعض دینی علوم میں تخصص کر رہے ہیں اور بعض عربی زبان میں بھی کر رہے ہیں۔ اگر وہ اچھے shining بہترین طالب علم ہوں تو جامعہ کے لڑکوں کو آگے مزید یونیورسٹی میں بھی بھیجا جاتا ہے۔
اس کے بعد حضورِ انور نے استفسار فرمایا کہ مجھے بتاؤ آپ میں سے کتنوں نے جامعہ میں جانا ہے؟ چند ایک ہاتھ کھڑے ہوئے تو اس پر حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا کہ اتنے تھوڑے لڑکے اور وہ بھی چھوٹی عمر کے۔ ان میں بڑے تو ہیں نہیں۔ وہاں ابھی یوکے میں خدام الاحمدیہ نے تربیتی کلاس کی ہے تو وہاں GCSC کے چالیس لڑکوں نے جامعہ جانے کے فارم بھی حاصل کئے ہیں۔ یہاں آپ لوگ نکمے ہو، ہاتھ ہی نہیں اٹھاتے۔
(روزنامہ الفضل ربوہ 3 جولائی 2013ء۔ جلد 63-98نمبر 150۔ صفحہ 2 تا 4)
حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے واقفینِ نو خدام سے دریافت فرمایا کہ وقفِ نو کیا ہے، کیا یہ ٹائٹل ہے یا عہد ہے؟ اس پر ایک خادم نے جواب دیا کہ یہ عہد ہے۔ اس پر حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایایہ عہد تو پہلے تمہارے ماں باپ نے کیا تھا۔ اب تم یونیورسٹی میں ہو کیا تم اس عہد کو ، اس وعدہ کو آگے جاری رکھنا چاہتے ہو؟
ایک واقفِ نو خادم نے عرض کیا کہ پڑھائی مکمل کرنے کے بعد اپنا بزنس جاری رکھنا چاہتا ہوں ۔ اس پر حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا کہ اس بارہ میں سنٹر کو لکھیں پھر خلیفۃ المسیح فیصلہ کریں گے کہ اجازت دی جائے یا نہ دی جائے۔
وصیت کے متعلق ایک سوال پر حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا اگر آپ کو جیب خرچ ملتا ہے تو اس پر وصیت کر لو۔ اگر کچھ نہیں ملتا اور کماتے بھی نہیں ہو تو پھر انتظار کرو۔
ایک واقفِ نو نے سوال کیا کہ کیا ہم سیاست میں حصّہ لے سکتے ہیں اسکے جواب میں حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا ایک شہری ہونے کی حیثیت سے لے سکتے ہیں لیکن واقفِ نو ہونے کی حیثیت سے پہلے جماعت کی خدمت کرو۔ ایک احمدی، احمدی ہونے کی حیثیت سے ملکی سیاست میں اپنا رول ادا کر سکتا ہے۔ لیکن جو واقفینِ نو ہیں وہ واقفِ نو کی حیثیت سے جماعت کی خدمت میں آئیں۔
(روزنامہ الفضل ربوہ 23 اکتوبر 2013ء۔ جلد 63-98نمبر 240۔ صفحہ 3 تا 4)
حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے واقفاتِ نو سے دریافت فرمایا کہ ’’ وقفِ نو‘‘ کیا ہے؟ بعد ازاں فرمایا کہ یہ ایک عہد ہے ایک وعدہ ہے جو آپ نے کیا ہے اور اپنے آپ کو جماعت کی خدمت کے لئے پیش کیا ہے۔ یہ محض کوئی ٹائٹل نہیں ہے۔
حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے واقفاتِ نو بچیوں کو ہدایت فرمائی کہ سال میں ہر بچی کم از کم چار پانچ خط حضورِ انور کی خدمت میں ضرور لکھے۔ جو بچی بڑی باقاعدگی کے ساتھ یہ خط لکھے گی تو حضورِ انور اپنے دستخطوں سے اس کے خط کا جواب بھجوائیں گے۔
حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا کہ آپ سب روزانہ باقاعدگی سے قرآن کریم کی تلاوت کریں۔ پانچوں نمازیں باقاعدگی سے پڑھیں اور حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی کتب کا مطالعہ باقاعدگی سے کریں۔
ایک واقفۂ نو نے سوال کیا کہ جب واقفینِ نو بچے اور بچیاں بڑے ہو جائیں گے اور ان کی شادی ہو جائے تو کیا ان کے لئے ضروری ہے کہ شادی کے بعد اپنے ہونے والی اولاد کو بھی وقف کریں؟ اس سوال کے جواب میں حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا یہ لازمی نہیں ہے اور کوئی ایسی پابندی نہیں ہے کہ یہ اپنے بچے بھی وقفِ نو سکیم میں پیش کریں۔
ایک سوال یہ کیا گیا کہ اگر کسی واقفِ نو کے والدین کا جماعت سے اخراج ہوا ہو تو اس کا مطلب یہ سمجھا جائے گا کہ اب ان کے بچے بھی وقفِ نو سکیم سے فارغ ہیں۔ حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا بالکل ایسا ہی ہے۔ وہ والدین جنہوں نے خود اپنا اچھا نمونہ پیش نہیں کیا تو وہ کس طرح اپنے بچوں کی ایک اچھے احمدی کے طور پر تربیت کر سکتے ہیں۔ ان کے بچے کس طرح بہتر ماحول میں پروان چڑھیں گے۔ اگر والدین کو معافی مل جاتی ہے تو پھر ان کے وقفِ نو بچے دوبارہ وقف میں آنے کے لئے حضورِ انور کو لکھ سکتے ہیں۔ پھر اس بارہ میں حضورِ انور فیصلہ فرمائیں گے کہ ان کو دوبارہ شامل کرنا ہے یا نہیں۔
ایک سوال یہ کیا گیا کہ لسٹ میں 30 پروفیشن کا ذکر کیا گیا ہے۔ واقفاتِ نو کے لئے ان میں سے کون سے بہتر پروفیشن ہیں؟ حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا کہ یہاں لسٹ تو موجود نہیں ہے۔ تا ہم لڑکیوں کے لئے میں اس بات کو ترجیح دیتا ہوں کہ وہ ڈاکٹر بنیں، کسی زبان میں مہارت حاصل کریں یا ٹیچر، آرکیٹیکٹ اور Historian کے پروفیشن میں جائیں یا ریسرچ میں جائیں۔
ایک سوال کے جواب میں کہ کیا ایک واقفۂ نو بچی کے لئے ضروری ہے کہ وہ ایک واقفِ نو سے ہی شادی کرے؟ حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا یہ ضروری نہیں ہے لیکن خفیہ طور پر کوئی شادی نہیں ہونی چاہیئے۔ واقفِ نو بچیاں کسی بھی احمدی لڑکے سے شادی کر سکتی ہیں لیکن لڑکا اچھے کردار کا ہونا چاہیئے اور اس شادی کے بعد بھی آپ واقفین کی طرح ہی خدمت کریں گی۔
ایک واقفۂ نو نے سوال کیا کہ ہم اپنی تعلیم مکمل کرنے کے بعد سنگاپور میں ہی کام کر سکتی ہیں یا ہم حضورِ انور کی ہدایت کا انتظار کریں؟ حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا آپ تعلیم مکمل کرنے کے بعد خلیفۃ المسیح کو لکھیں اور پھر ہدایت کا انتظار کریں۔ آپ اپنی تعلیم کے دوران ہی خلیفۃ المسیح کو اپنی ترجیحات کے بارہ میں لکھ سکتی ہیں۔
ایک واقفۂ نو نے سوال کیا کہ ہم کس عمر میں یہ فیصلہ کریں کہ ہم نے وقفِ نو سکیم کے تحت اپنا وقف جاری رکھنا ہے؟ حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا کہ جب آپ پندرہ سال کی عمر کو پہنچیں تو اپنا وقف فارم پُر کریں اور اپنے سیکریٹری وقفِ نو کی وساطت سے مرکز کو بھجوائیں اور جب آپ اپنی تعلیم مکمل کر کے فارغ ہوتی ہیں تو پھر بھی اپنے وقف کا عہد کریں اور سنٹر کو اس سے مطلع کریں۔
ایک واقفۂ نو بچی نے سوال کیا کہ کیا جب ہم اپنی تعلیم مکمل کر لیں تو ہم بطور سول سرونٹ کام کر سکتے ہیں باوجود اس کے کہ ہم نے اپنا وقف فارم پُر کیا ہوا ہے؟ حضورِ انور نے فرمایا کہ از خود اس کی اجازت نہیں ہے۔ کوئی بھی کام کرنے سے قبل خلیفۃ المسیح سے اجازت حاصل کرنی ضروری ہے۔ خلیفۃ المسیح کی اجازت کے بعد ہی آپ کوئی دوسرا کام کر سکتی ہیں۔
(روزنامہ الفضل ربوہ 23 اکتوبر 2013ء۔ جلد 63-98نمبر 240۔ صفحہ 4 تا 5)
قبولیت دعا ایک بہت بڑی دلیل ہے
ایک سوال کے جواب میں حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا یہ جو دوسرے مذاہب کے لوگ ہیں ان پر حجت تمام کرنے کے لئے قبولیتِ دعا ایک بہت بڑی دلیل ہے۔ آپ لوگوں کو خداتعالیٰ سے اتنا تعلق پیدا کر لینا چاہیئے کہ دوسروں کو بتا سکو کہ کس کی دعا قبول ہوتی ہے اور اگر مقابلہ میں آؤ تو خداتعالیٰ ہماری دعا قبول کرے گا۔ دوسروں کو بتاؤ کہ اگر خدا تعالیٰ تم پر رحم کر رہا ہے تو وہ اس کے ایک جنرل اصول کے تحت ہے کیونکہ خدا تعالیٰ کو اپنی مخلوق پسند ہے۔ ۔۔۔۔ پس اگر آپ نے دوسروں کا مقابلہ کرنا ہے تو پھر اپنے اندر تبدیلی پیدا کرو۔ نمازی بنو اور خداتعالیٰ سے سچا تعلق پیدا کرو اور پھر قبولیت دعا کے نشان خود بھی دیکھو اور دوسروں کو بھی دکھاؤ۔
ایک واقفِ نو نوجوان نے عرض کیاکہ بزنس میں ماسٹر کیا ہے۔ حضورِ انور نے فرمایا لکھ کر پوچھیں کہ اب کیا کرنا ہے۔ اگر ماسٹر کرنے کے بعد آگے مزید پڑھ کر بہتر کوالیفائی کر سکتے ہیں تو آپ کو کر لینا چاہیئے۔
تعلیم کے لئے قرض
ایک نوجوان نے سوال کیا کہ تعلیم کے حصول کیلئے ہم نے جو یونیورسٹی کا قرض حاصل کیا ہوا ہے کیا جماعت کی خدمت میں آنے سے قبل اس قرض کے اتارنے کی اجازت ہوگی؟ حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا ہر کیس کا ذاتی طور پر فیصلہ ہو گا۔ اس لئے آپ لکھ کر دیں۔ اگر جماعت کو خدمت کی ضرورت ہو گی تو پھر جماعت قرض اتارنے کی ذمہ داری لے گی اور اگر ضرورت نہیں ہو گی تو پھر آپ کو کہا جائے گا کہ اپنی جاب کرو اور قرض اتارو۔
ایک نوجوان نے سوال کیا کہ میں نے انجینئرنگ کی ہے اب مزید کسی لائن میں جانا ہے۔ حضورِ انور نے فرمایا آرکیٹیکچر میں کریں، ڈیزائننگ میں۔
( روزنامہ الفضل ربوہ 2 نومبر 2013ء۔ جلد 63-98نمبر 249۔ صفحہ 4 تا 5)
وقفِ نو کا مطلب
حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نےبچیوں سے دریافت فرمایاکہ وقف نو کا مطلب کیا ہے؟ پھر فرمایا کہ وقفِ نو کا مطلب ہے کہ جو بچے بچیاں اپنی زندگی خدا تعالیٰ کی خاطر وقف کرتے ہیں۔ بچوں کے پیدا ہونے سے پہلے ان کے ماں باپ کرتے ہیں پھر بچے بچیاں بڑے ہو کر خود اپنی زندگی وقف کرتی ہیں۔ پس اس کا مطلب ہے وقفِ نو بچوں کو دوسروں سے زیادہ اللہ تعالیٰ کی باتیں ماننے کی ضرورت ہے، سیکھنے کی ضرورت ہے اور اللہ تعالیٰ سے تعلق پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ اب یہ تعلق کسطرح پیدا کرنا ہے؟ نمازیں پڑھنے سے تعلق قائم ہو گا۔ تو پانچوں نمازوں کی ادائیگی اچھی طرح کرو، پھر نفل بھی کبھی کبھی پڑھو۔ ہاں جو بڑی لڑکیاں ہیں وہ باقاعدہ پڑھیں جب بھی پڑھنے کی اجازت ہے۔ آپ اچھی واقفاتِ نو تبھی بنیں گی ورنہ فائدہ کوئی نہیں۔ پھر جب تمہاری تعلیم مکمل ہو جائے تو پھر جماعت کی خدمت کرو۔
شادی شدہ واقفۂ نو کی ذمہ داریاں
ایک واقفۂ نو نے سوال کیا کہ اگر ایک واقفۂ نو کسی وجہ سے پڑھائی مکمل نہیں کر پاتی اور اس کی شادی ہو جاتی ہے اور بچوں کی پیدائش کے بعد وہ بچوں کی تربیت اور گھر کے کاموں میں لگ جاتی ہے تو وہ کس طرح خدمت کرے گی، اپنا وقف نبھائے گی؟ حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا کہ وہ نمازیں پڑھے، دعائیں کرے اور اپنے بچوں کی اعلیٰ تربیت کرے تو اس کے وقف کا یہی معیار ہو گا۔ بچوں کی تربیت جو ہے وہی انکے لئے ثواب ہے۔ ایک دفعہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں ایک عورت آئی۔ ان سے کہا ہمارے مَرد جو ہیں وہ جہاد پر جاتے ہیں، دین کی خدمت کرتے ہیں، بہت سارے باہر کے کام کر رہے ہیں، انکو ثواب مل رہا ہے اور جہاد کا ثواب تو بہت زیادہ ہے اور ہم اپنے گھروں میں بیٹھی انکے بچوں کو پال رہی ہیں۔ انکے گھروں کی نگرانی کر رہی ہیں تو کیا ہمیں بھی اتنا ثواب ملے گا؟ جبکہ ہم مَردوں کی طرح تو نہیں کر سکتیں۔ یہ بات سن کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تمہارا بھی اتنا ہی ثواب ہے۔ حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا ٹھیک ہے نیک بچے بنا دو، دین کے خادم بنا دو، تربیت کر کے ایسے بچے بنا دو جو دین سے جڑے رہنے والے ہوں، اللہ سے تعلق پیدا کرنے والے ہوں، قرآن کریم پڑھنے والے ہوں، دین کا علم جاننے والے ہوں تو یہی تمہارا وقف ہے۔ اکثر 90 فیصد واقفاتِ نو لڑکیوں کا یہی کام ہے کہ اپنے گھروں کی تربیت کریں۔ حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا حدیث میں آیا ہے کہ ایک عورت اپنے گھر کی نگران ہوتی ہے اور یہ ایک عام مسلمان عورت کے لئے ہے لیکن جو واقفاتِ نو ہیں ان پر تو گھر کی نگرانی کی زیادہ ذمہ داری ہے۔ مَیں نے لجنہ کے ایڈریس میں یہی کہا تھا کہ اگر خاوند نماز نہ پڑھ رہے ہوں تو ان کے بھی کان کھینچیں۔
دعوۃ الامیر اور دیباچہ تفسیر القرآن کا ہر واقفِ نو کو مطالعہ کرنا چاہیئے
تبلیغ کے سلسلہ میں ایک سوال کے جواب میں حضورِ انور نے فرمایا حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓ کی کتاب دعوۃ الامیر ہے یہ سب واقفینِ نو کو پڑھنی چاہیئے۔ اس میں اس زمانے کی ساری باتیں اور پیشگوئیاں بڑی اچھی طرح تفصیل کے ساتھ بیان کی ہیں۔ دیباچہ تفسیر القرآن یہ کتاب انگریزی ترجمہ کے ساتھ Introduction to the study of the Holy Quran کے نام سے شائع شدہ ہے اور ہر بک سٹال سے مہیا ہے۔ آپکو خریدنی چاہیئے۔ ہر وقفِ نو اسکو پڑھے، اسکے جو بھی پہلے پچاس ساٹھ صفحے ہیں اس میں ہندوؤں کا، یہودیوں کا، بدھسٹ کا اور عیسائیوں کا ہر ایک جواب دیا ہوا ہےکہ کیا کیا انکے اندر خامیاں ہیں اور پھر آخر میں کیوں اسلام کی ضرورت ہے اور اس کتاب کا جو دوسرا حصّہ ہے وہ آنحضرت ﷺ کی سیرت پر ہے اور پھر آخری صفحات میں ذکر ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے آنے کی کیا ضرورت تھی۔ پس تم حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓ کی یہ دونوں کتابیں دعوۃ الامیر اور دیباچہ تفسیر القرآن پڑھ لو تو تم ہر ایک کا جواب دے سکتی ہو۔ کم از کم 75 فیصد سوالات کے جوابات تو دے سکتی ہو ان شاء اللہ۔
واقفاتِ نو کو کیا بننا چاہیئے
ایک واقفۂ نو نے سوال کیا کہ جیسے حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا ہے کہ لڑکوں کے لئے سب سے بہتر یہ ہے کہ وہ مربی بنیں تو پھر لڑکیوں کے لئے سب سے بہتر کیا ہے؟ حضورِ انور نے فرمایا کہ اچھی لڑکیاں بنیں، دین کا علم حاصل کریں، مربی باہر تبلیغ کرنے کے لئے بنیں گے تو لڑکیاں جو ہیں وہ بھی تبلیغ کر سکتی ہیں۔ اپنے گھروں میں اپنے بچوں کی تربیت بھی کریں اور تبلیغ بھی کر سکتی ہیں۔ اس لئے حضرت مصلح موعود ؓ نے فرمایا تھا کہ اگر پچاس فیصد لڑکیوں کی اصلاح ہو جائے تو ہر ایک جماعت کے اندر ایک انقلاب آ جائے گا۔
( روزنامہ الفضل ربوہ 2 نومبر 2013ء۔ جلد 63-98نمبر 249۔ صفحہ 5 تا 6)
جاب کے سلسلہ میں مرکز سے اجازت
ایک واقفۂ نو سوال کیا کہ جب وقفِ نو بچے بڑے ہو جاتے ہیں تو کیا وہ کہیں بھی جاب کر سکتے ہیں؟ حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا اگر جماعت اجازت دے گی تو کر سکتے ہیں ورنہ نہیں۔ جماعت کی خدمت کرنی چاہیئے۔ لڑکیاں بھی جماعت سے پوچھیں۔ اگر جماعت کہہ رہی ہے کہ فوری طور پر تمہاری ضرورت نہیں ہے تو پھر تمہیں اجازت دیں گے کہ تم کچھ وقت باہر جاب کر سکتی ہو۔ لیکن اس کے لئے پوچھنا اور اجازت لینا ضروری ہے۔ ابھی تک تم لوگوں کو تمہارے وقفِ نو کی انتظامیہ یہ بتاتی نہیں کہ جماعت سے پوچھے بغیر اجازت لئے بغیر کوئی قدم نہیں اٹھانا؟۔ مَیں نے بارہا یہ ہدایت دی ہے کہ جب پندرہ سال کے ہو جاؤ تو وقف کا فارم پُر کر کے اپنے آپ کو پیش کرو۔ پھر جب تمہاری تعلیم مکمل ہو جائے تو پھر دوبارہ اپنے آپ کو پیش کرو اور بتاؤ کہ مَیں نے اپنی تعلیم مکمل کر لی ہے۔ یہ میری تعلیم اور ڈگری ہے اور مجھے بتایا جائے کہ مَیں اب کیا کروں؟ پھر تمہیں بتائیں گے کہ اپنا کام کر لو اور جماعت کی خدمت بھی ساتھ ساتھ کر لو یا اپنے آپ کو پوری طرح جماعت کے سپرد کرو۔ پھر جماعت جہاں خدمت لینا چاہے گی لے گی۔
واقفاتِ نو کے لئے پروفیشنز
ایک واقفۂ نو نے یہ سوال کیا کہ کون سے پروفیشن ہیں جن میں واقفاتِ نو کی ضرورت ہے؟ حضورِ انور نے فرمایا کہ مَیں نے پہلے بھی کئی مرتبہ بتایا ہوا ہے۔ میری کلاسیں سنا کرو، میں نے کہا تھا میڈیسن ہے، ٹیچنگ ہے، ہسٹری ہے، سائنس میں ریسرچ ہے اس میں جا سکتی ہیں۔ لیکن ہمیں زیادہ ٹیچرز اور ڈاکٹرز کی ضرورت ہے اور Linguistics کی ضرورت ہے تا کہ جماعت کا جو لٹریچر ہے اس کی ٹرانسلیشن کی جائے۔ اردو زبان کا بے انتہا لٹریچر ہے جو ابھی تک پڑا ہے اور انگریزی زبان میں اس کا ترجمہ ہونے والا ہے۔ اردو سے انگلش میں ترجمہ کرو۔ عربی سے انگلش آنی چاہیئے۔ اور بہت ساری زبانیں آنی چاہیئں تا کہ ٹرانسلیشن میں مدد دے سکو۔ ٹیچنگ کے علاوہ میڈیسن بہت اچھا ہے اور پھر آرکیٹکچر وغیرہ بھی ہے۔ اگر تمہاری Statistics اچھی ہے تو پھر تم اس میں بھی جا سکتی ہو۔ اگر تمہیں اس میں دلچسپی ہو۔ پھر کمپیوٹر میں ہے، گرافکس وغیرہ میں لڑکیاں کام کر دیتی ہیں۔
تربیت اولاد
ایک واقفۂ نو نے سوال کیا کہ بچوں کی تربیت کے حوالے سے کوئی چیز جو بہت ضروری ہو؟ حضورِ انورنے فرمایا اپنا نمونہ ایسا بنائیں کہ بچے اسے دیکھ کر عمل کریں اور نمونہ پکڑیں۔ نمازوں میں پابندی آپ میں ہو، قرآن کریم کی تلاوت آپ باقاعدہ کرنیوالے ہوں، ماں اور باپ دونوں تلاوت کرنیوالے ہوں۔ صرف نیکی کرنیکی تلقین نہ ہو بلکہ خود نیکیوں کی طرف ماں باپ کی بھی توجہ ہو۔ سچ بولنے کیطرف رجحان ماں باپ کا ہو۔ غلط بات کو برداشت نہ کریں۔ بچے کو یہ پتا ہو کہ میرے ماں باپ خود بھی سچ بولتے ہیں اور سچ کو پسند کرتے ہیں تو آپکا اپنا عمل ہے جو بچوں کو نیک بنائے گا۔
ریسرچ کی اہمیت
ایک واقفۂ نو نے سوال کیا کہ حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ نے فرمایا تھا کہ احمدی بچوں کو تھوڑا سا Landmark ہونا چاہیئے کہ وہ ایک نوبیل پرائز حاصل کریں۔ اس پر حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایاکہ یہ حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒ نے فرمایا تھا اور پھر آگے حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ نے اپنی ایک مجلس میں فرمایا تھا کہ جماعت احمدیہ کی صد سالہ جوبلی کا سال آ رہا ہے اور حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒ نے یہ تحریک کی تھی کہ جوبلی سال آئے تو جماعت احمدیہ میں ایک نہیں تقریباً سو ڈاکٹر عبدالسلام کے لیول کے لوگ ہونے چاہیئں۔ حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ نے پھر اس تحریک کا ذکر فرمایا کہ ڈاکٹر عبدالسلام صاحب کے لیول کے اَور لوگ بھی ہونے چاہیئں۔ حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا کہ اس کے بعد مَیں نے بار بار اپنے پروگراموں میں، کلاسز میں طلباء کو توجہ دلائی ہے کہ ریسرچ میں جاؤ اور تمہارا کم سے کم ٹارگٹ نوبیل پرائز ہونا چاہیئے۔ حضورِ انور نے اس بچی سے مخاطب ہوتے ہوئے فرمایا کہ تمہاری بات کی مَیں نے تصحیح کر دی ہے اب بتاؤ کیا سوال ہے۔ جس پر بچی نے سوال کیا کہ واقفاتِ نو لڑکیاں بھی ریسرچ میں جائیں؟ حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا میڈیکل ریسرچ میں جا سکتی ہیں۔ ہسٹری میں جا سکتی ہیں ۔ اسی طرح اور چیزوں میں، دوسرے فیلڈ میں جس کی آپ میں صلاحیت ہے اور آپ اس calliber کی ہیں تو ریسرچ میں جا سکتی ہیں اور اس معیار تک پہنچ سکتی ہیں اور آپ کو پہنچنا بھی چاہیئے۔
مربیان کی بیویوں کی ذمہ داریاں
ایک بچی نے سوال کیا کہ میری شادی مربی سلسلہ سے ہوئی ہے۔ واقفۂ نو اور پھر مربی کی بیوی ہونے کے لحاظ سے میری کیا ذمہ داریاں ہیں۔ اس کے جواب میں حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمایا آپ کی ذمہ داری دوہری ہو جاتی ہے۔ اپنے گھر کو سنبھالیں، اپنے آپ کو نمونہ بنائیں اور جہاں بھی مربی کا تقرر ہوتا ہے وہاں لوگ آپ کو دیکھیں گے، آپ کو ہر لحاظ سے نمونہ ہونا چاہیئے۔ نمازوں کے لحاظ سے، تربیت کے لحاظ سے، آپ کی باتوں کے لحاظ سے اور ہر لحاظ سے مربی کی بیوی کو نمونہ ہونا چاہیئے اور عاجزی کے لحاظ سے انکساری ہونی چاہیئے۔ عاجزی بھی بہت زیادہ۔
(روزنامہ الفضل ربوہ 4 جولائی 2014ء۔ جلد 64-99نمبر 152۔ صفحہ 4 تا 6)
حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا خدا کے ساتھ تعلق سے ہی خدا کی رضا حاصل ہوتی ہے اور خدا ملتا ہے اور جب خدا مل گیا تو پھر دین بھی ملا اور ساتھ دنیا بھی ملی۔ لیکن جو صرف دنیا کے پیچھے پڑے رہتے ہیں ان کو نہ دین ملتا ہے اور نہ دنیا ملتی ہے۔ ایک شعر بھی ہے کہ
نہ خدا ہی ملا نہ وصال صنم نہ اُدھر کے رہے نہ اِدھر کے رہے
تعلیم کے سلسلہ میں مرکز سے رہنمائی
حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا جو پڑھائی مکمل کر چکے ہیں کیا انہوں نے لکھ کر دے دیا ہے اور اپنے آپ کو وقف کر کے خدمت کے لئے پیش کر دیا ہے۔ جب آپ نے اپنی پوری زندگی وقف کی ہے تو پھر وقف یہ ہے کہ جہاں ہم بھجوانا چاہیں گے بھجوائیں گے۔
ایک واقفِ نو نے عرض کیا کہ پی ایچ ڈی کا پروگرام ہے۔ اس پر حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا کہ جب پی ایچ ڈی کر لیں تو پھر بتائیں اور اپنے آپ کو پیش کریں۔ پھر ہماری مرضی ہو گی۔ جہاں چاہیں گے خدمت لیں گے یا یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ آپ باقاعدہ وقف میں ہیں لیکن فی الحال اپنا کام کریں۔
حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا دو ہی صورتیں ہیں۔ واقفینِ نو اپنی تعلیم مکمل کرنے کے بعد اپنے آپ کو باقاعدہ وقف کر کے خدمت کے لئے پیش کریں گے اور پھر وہ باقاعدہ وقفِ زندگی ہو جائیں گے اور دوسری صورت یہ ہے کہ جو اپنے آپ کو پیش نہیں کریں گے وہ خود ہی کوئی کام کر لیں گے تو وہ وقفِ نو سے فارغ ہو جائیں گے اور ان کا وقف ختم ہو جائے گا۔
ایک سوال کے جواب میں حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا کہ جو واقفینِ نو ہیں اور پندرہ سال کی عمر کے بعد وقف کر چکے ہیں۔ ان کے لئے ضروری ہے کہ مزید تعلیم کے لئے وہ کوئی بھی فیلڈ اختیار کرنے سے قبل مرکز سے دریافت کریں تو مرکز ان کو بتائے گا کہ مرکز کو کس پروفیشن کی ضرورت ہے۔ اگر آپ نے اس پروفیشن کے علاوہ کچھ کرنا ہے تو پھر آپ کو مرکز سے اجازت لینی پڑے گی اس کے بعد ہی کسی دوسری فیلڈ میں جا سکتے ہیں۔
حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا خواہ آپ واقفِ نو، واقفِ زندگی کسی بھی فیلڈ میں ہوں آپ کے لئے ضروری ہے کہ پانچوں نمازیں ادا کرنے والے ہوں، باقاعدہ روزانہ قرآن کریم کی تلاوت کرنے والے ہوں اور دین کا علم بھی رکھتے ہوں۔ مسلسل اپنے دینی علم میں اضافہ کرتے رہیں۔ خواہ آپ کی کوئی بھی فیلڈ ہو آپ کو دینی علم کے لحاظ سے تیار ہونا چاہیئے۔
(روزنامہ الفضل ربوہ 7 نومبر 2013ء۔ جلد 63-98نمبر 253۔ صفحہ 5 تا 6)
ایک واقفۂ نو نے سوال کیا کہ حضور! اگر آپ کی بیٹی ہوتی اور وہ وقفِ نو میں ہوتی تو آپ اس کے لئے کیا پسند کرتے کہ وہ کس فیلڈ میں جائے۔ اس سوال کے جواب میں حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا اللہ تعالیٰ کے فضل سے میری بیٹی تو ہے لیکن اس وقت وقفِ نو تحریک نہیں تھی اس لئے وقفِ نو میں نہیں ہے اور اس کے لئے مَیں کیا پسند کرتا؟ مَیں اس کی صحیح تربیت کرتا کہ وقفِ نو کیا چیز ہے تو اسے خود اپنے لئے پسند کرنا چاہیئے تھا کہ وہ کس طرح بہتر رنگ میں جماعت کی خدمت کر سکتی ہے۔
حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا باقی میں نے لڑکیوں کے لئے چھ سات مضامین بتائے ہوئے ہیں کہ ان میں سے انتخاب کر لو، ٹیچنگ اچھی ہے، میڈیسن اچھی ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا دو علم بڑے اچھے ہیں علم الادیان اور علم الاجسام، ایک دین کا اور دوسرا میڈیسن کا ، تو میڈیسن میں جا سکتی ہیں۔ پھر Linguist عورتیں اچھی بن سکتی ہیں۔ زبانیں سیکھو اور لٹریچر کےتراجم کرو۔ پھر بعض لڑکیاں ریسرچ میں بھی جا تی ہیں۔ آرکیالوجی میں بھی گئی ہیں تو یا پھر دین کا علم سیکھو اور دین کا علم دوسروں کو بھی سکھاؤ۔ حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا ہر ایک کا اپنا اپنا انتخاب ہوتا ہے کہ کس فیلڈ میں جانا ہے، کس طرف رجحان ہے۔ جتنا بھی فری ہینڈ ملتا ہے ہم وقفِ نو کو دیتے ہیں کوئی زبردستی نہیں ہے۔ کبھی کسی پر کوئی زور زبردستی نہیں کیا۔ اسی لئے چھ سات مضامین دئیے ہوئے ہیں کہ جو چاہو انتخاب کر لو اور ان میں سے جس فیلڈ میں جانا چاہتی ہو چلی جاؤ۔
حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمایا میری کلاسوں کی رپورٹس پڑھا کرو اور سنا کرو اور میری مختلف ملکوں کی کلاسوں کی جو رپورٹس ہوتی ہیں انہیں پڑھ لیا کرو یا ایم ٹی اے پر سن لیا کرو تو ہر ایک کو پتہ لگ جائے گا۔ اپنے آپ کو ایم ٹی اے سے جوڑیں۔ کالج اور یونیورسٹی کے جو طلباء طالبات ہیں ان سے بھی علیحدہ علیحدہ کلاسیں ہوتی ہیں۔ یہ بھی دیکھا کریں اور ضرور سنا کریں۔ میرے خطبات بھی سب ضرور سنا کریں۔ امسال شروع میں میرا خیال ہے اپریل میں شاید وقفِ نو کے بارہ میں خطبہ دیا تھا وہ دیکھیں اور پڑھیں۔ پھر اسی طرح اس سال بھی اور پچھلے سال بھی مَیں نے یوکے میں وقفِ نو کے اجتماع پر جو ایڈریس کئے تھے وہ پڑھیں۔ یہ دونوں ایڈریس انگریزی میں تھے۔
ایک واقفۂ نونے عرض کیا کہ مَیں نے پاکستان سے بی اے کیا تھا۔ اس پر حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایاہسٹری، اسلامیات مضامین ہوں گے اور انگریزی لازمی ہوتی ہے۔ میرے علم میں ہے ایسے ہی ہوتا ہے۔ بس بی اے کر لو تا کہ کوئی یہ نہ کہے کہ ڈگری نہیں لی۔ حالانکہ سوچ سمجھ کر کوئی مضمون، فیلڈ اختیار کرنی چاہیئے۔ اب تم یہاں آگئی ہو تو انگلش میں داخلہ لو اور پہلے انگلش میں ڈپلومہ لو اور پھر ڈگری کرو اور پھر ہماری ترجمہ کرنے والی ٹیم میں شامل ہو جاؤ جو اردو سے انگریزی زبان میں ترجمہ کرتی ہے۔ تمہارے لئے میں یہی پسند کر رہا ہوں کہ انگلش زبان سیکھو اور اتنی پالش کرو ELOQUENT ہو جاؤ کہ اچھی طرح تراجم کر سکو۔
ایک بچی نے عرض کیا کہ مَیں نے بھی پاکستان سے گریجوایشن کی ہوئی ہے۔ سائیکالوجی اور سوشیالوجی میرے مضامین تھے۔ اسلام آباد کالج فار گرلز سے پڑھی ہوں۔ حضورِ انور کے دریافت فرمانے پر بچی نے بتایا کہ انگلش میڈیم تھا۔ جس پر حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا شکر ہے کچھ بہتر ہوا۔ بچی نے عرض کیا کہ اب میں اپنے میاں کے ساتھ آسٹریلیا میں ہوں اور میرے دو بچے بھی ہیں۔حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا اگر ساتھ ساتھ پڑھائی کر سکتی ہو تو کر لو۔ پہلے اپنی انگریزی زبان پالش کرو پھر سائیکالوجی Anthropology میں داخلہ مل جائے تو کر لو۔ بچی نے بتایا کہ مَیں نے انگلش کا کورس چھ ماہ کا کیا تھا۔ اب چلڈرن سروسز میں ڈپلومہ کر رہی ہوں۔ حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا یہ بھی ٹھیک ہے۔ چلڈرن سروسز میں بھی تو سائیکالوجی پڑھاتے ہیں۔ ٹھیک ہے یہ کر لو اور میرا خیال ہے کہ پھر ٹیچنگ میں چلی جاؤ۔
شادی شدہ واقفاتِ نو کی ذمہ داریاں
ایک واقفۂ نو نے سوال کیا کہ جب ہماری شادی ہوتی ہے تو ہمارے اوپر گھر، فیملی کی یا بچوں کی ذمہ داری آتی ہے۔ اس وقت ہم اپنے وقفِ نو ہونے کا رول صحیح کیسے ادا کر سکتے ہیں؟ اس سوال کے جواب میں حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا کہ صحیح طریقہ یہ ہے کہ پانچوں نمازیں فرض ہیں وہ پڑھو۔ اگر تہجد پڑھ سکتی ہو تو وہ پڑھو۔ قرآن شریف پڑھو۔ اس کا ترجمہ پڑھو۔ اگر لجنہ کا کوئی کام تمہارے سپرد ہوتا ہے تو وہ جس حد تک ہوتا ہے وہ کرو۔ پھر سب سے بڑی ذمہ داری یہ ہے کہ جو بچے ہیں ان کی ایسی تربیت کرو کہ ان کا اللہ سے تعلق پیدا ہو جائے۔ خاوند کو یہ realise کرواؤ کہ مَیں وقفِ نو ہوں اور میرا کام یہ ہے کہ اپنی بھی تربیت کرنا اور اپنے گھر کی بھی تربیت کرنا، اپنے بچوں کی تربیت کرنا۔ اس لئے تم بھی اس میں میرا ساتھ دو۔ کیونکہ اگر خاوند، باپ بچوں کی تربیت میں اپنا رول ادا نہ کر رہا ہو تو پھر بچوں کی تربیت صحیح نہیں ہوتی۔ تو سب سے بڑی ذمہ داری گھر کی ہے اور تم لوگوں کے لئے یہی بڑا ثواب ہے۔
حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا حدیث میں آتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک عورت آئی اس نے کہا ہمارے جو خاوند ہیں وہ کماتے ہیں، جہاد پر بھی جاتے ہیں، چندے بھی دیتے ہیں اور بہت سارے ایسے کام کرتے ہیں جو باہر مرد کرتے ہیں۔ ہم عورتیں وہ کام گھروں میں نہیں کر سکتیں تو کیا یہ جہاد اور چندہ دینے کا جو ثواب ہے وہ ہمیں بھی ملے گا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں ملے گا کیونکہ تم ان کے گھر کی اچھی طرح نگرانی کرتی ہو، ان کے بچوں کی تربیت کرتی ہو اور ان کی غیر حاضری میں بچوں کی دیکھ بھال کرتی ہو۔ پھر جو نیک نسل پیدا ہو رہی ہے اس وجہ سے تو تمہیں بھی اس کا اتنا ہی ثواب ملے گا۔ پھر یہ بھی برداشت کرتی ہو کہ اپنے خاوندوں کو بھیجتی ہو کہ جاؤ دین کی خدمت کرو اور اگر خاوند دنیا کی خدمت بھی کر رہا ہے دین کی نہیں کر رہا تو یہ بھی حدیث میں ہے کہ عورت جو ہے وہ گھر کی نگران ہے۔ پس ذمہ داری جو وقفِ نو کی ہے وہ یہ ہے کہ اپنی نئی نسل کو احمدیت پر قائم کرو۔ اللہ تعالیٰ سے اس کا تعلق جوڑو۔
سکارف لینے کی عمر
ایک بچی نے سوال کیا کہ جب ہم سکول جاتے ہیں تو ہمیں کون سی عمر میں سر پر سکارف لینا چاہیئے؟ اس سوال کے جواب میں حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا جب تم پانچ سال کی ہوتی ہو تو تمہیں فراک بغیر Legging کے نہیں پہننی چاہیئے۔ تمہاری ٹانگیں ڈھکی ہوئی ہونی چاہیئں تا کہ تمہیں احساس ہو کہ اب آہستہ آہستہ ہمارا لباس ڈھکا ہوا ہونا چاہیئے۔ Sleeveless فراک نہیں پہننی چاہیئے۔ پھر تمہاری چھ سات کی عمر ہو تو Legging پہن کر سکول جاؤ اور جب تم دس سال کی ہو جاتی ہو تو تھوڑا سا سکارف لینے کی عادت ڈالو اور تم گیارہ سال کی ہو جاتی ہو تو پھر پوری طرح سکارف لو۔ سکارف تو یہاں بھی لوگ سردیوں میں لے لیتے ہیں۔ سردی ہوتی ہے تو اپنے کان وغیرہ لپیٹ لیتے ہیں، وہ سکارف ہی ہوتا ہے۔
حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا بعض لڑکیاں دس سال کی عمر میں بھی چھوٹی نظر آتی ہیں اور بعض دس سال کی عمر میں بارہ سال کی لڑکی کی طرح نظر آتی ہیں۔ قد لمبے ہو جاتے ہیں تو ہر لڑکی دیکھے کہ وہ اگر بڑی نظر آتی ہے تو پھر اس کو سکارف لے لینا چاہیئے۔ چھوٹی عمر میں سکارف لینے کی عادت ڈالو پھر شرم نہیں آئے گی۔ نہیں تو پھر ساری عمر شرماتی رہو گی۔ اگر تم کہو گی کہ 12 سال کی عمر میں، 13 سال کی عمر میں، 14 سال کی عمر میں جا کر سکارف لے لوں گی تو پھر سوچتی رہو گی اور تمہیں شرم آ جائے گی۔ پھر تم کہو گی کہ اب اگر مَیں نے سکارف لیا تو کہیں لڑکیاں میرا مذاق نہ اڑائیں اور مجھ پر ہنسیں نہیں۔ اس لئے سکارف لینا عادت ڈالو کہ کبھی کبھی سکارف سات، آٹھ ، نو سال کی عمر میں لینا شروع کر دو۔ لڑکیوں کے سامنے بھی لو تا کہ تمہاری جو شرم ہے وہ ختم ہو جائے اور جب تم بڑی نظر آؤ تو پوری طرح سکارف لو، تمہارے لئے اتنا ہی کافی ہے۔ ہاں جو بڑی ہیں ان کو علم ہونا چاہیئے کہ پردے کا مقصد یہ ہے کہ حیا ہونی چاہیئے۔ جو یورپین ہیں یا ویسٹرن Influence کے اندر آتے ہیں پرانے زمانے میں ان کے لباس بھی لمبے ہوتے تھے۔ لمبی میکسی فراک ہوتی تھی۔ اب تو یہ ننگے پھرتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ جو مرد ہے وہ اچھا Well Dressed تب کہلاتا ہے جب اس نے ٹراؤزر پورا پہنا ہو، کوٹ پہنا ہو، ٹائی لگائی ہو اورعورت کو کہتے ہیں کہ تم Well Dressed اسوقت ہو گی جب تم نے منی سکرٹ پہنی ہو۔
حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا مجھے ان کا یہ فلسفہ سمجھ میں نہیں آیا۔ اس لئے مَردوں کو نہ دیکھو۔ عورتیں خود بھی اپنے آپ کو ننگا کر کے اپنی بے عزتی کرواتی ہیں۔ پس ایک احمدی لڑکی ، احمدی عورت کا وقار اسی میں ہے کہ اپنی حیا کو قائم کرے اور اصل چیز حیا ہے اور یہ حیا ہی ہے جو دوسروں کو تمہارے اوپر غلط نظر ڈالنے سے روکتی ہے۔
ہونے والے بچے کے لئے دعائیں
ایک واقفۂ نو نے سوال کیا کہ جب بچہ پیٹ میں ہوتا ہے تو عورت کو کون سی دعا مانگنی چاہیئے کہ اللہ تعالیٰ اسے نیک بنائے۔ اس سوال کے جواب میں حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا اس کے لئے دعا کرنی چاہیئے کہ جو بھی پیدائش ہونے والی ہے اللہ تعالیٰ اس کو نیک اور صالح بنائے۔ دین پر قائم رہنے والا بنائے، صحت مند ہو، کسی بھی طرح نہ مجھے شرمندہ کرے، نہ خاندان کو شرمندہ کرے، نہ جماعت کو شرمندہ کرنے والا ہو، دین پر قائم رہنے والا ہو۔ جس طرح حضرت مریم ؑ کی والدہ نے دعا کی تھی کہ جو میرے پیٹ میں ہے مَیں اسے اللہ تعالیٰ کی نذر کرتی ہوں۔ نذر کرنے کا مطلب کیا ہے کہ مَیں یہ دعا کرتی ہوں کہ اللہ تعالیٰ تیرے جو حکم ہیں ان پر چلنے والی ہو، انکے مطابق عمل کرنے والی ہو۔ نیکیوں پر قائم رہنے والی ہو۔ مَیں اسے تیرے سپرد کرتی ہوں تیرے دین کی خاطر۔ تو یہ کوشش کرو۔ یہ دعا کرو کہ بچہ دین پر قائم رہے۔ ابھی لڑکوں کی کلاس میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کا ایک اقتباس پڑھا گیا تھا کہ دین کو حاصل کرنے کی کوشش کرو گے تو دنیا خود ہی مل جائے گی۔ جو دنیا کے پیچھے پڑے رہتے ہیں کچھ تھوڑا سا کما لیتے ہیں۔ لیکن ہر وقت فکر ہی رہتی ہے ۔ ان کو ہر وقت یہی فکر رہتی ہےکہ اب اتنے پیسے کم ہو گئے۔ اتنے زیادہ ہو گئے۔ بینک بیلنس میں کمی آ گئی۔ آج بلڈ پریشر ہو گیا، آج شوگر ہائی ہو گئی۔ فکریں ان کو بھی پڑی رہتی ہیں۔
حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا میں ایک ہندو آدمی کو جانتا ہوں ۔سندھ میں کنری میں رہتا تھا۔ وہ لوگوں کو قرض دیا کرتا تھا اور اس پر انٹرسٹ بڑا ملٹی پلائی ہوتا رہتا تھا۔ تو پھر لوگ قرض کے عوض اس کے پاس عورتوں کے سونے کے زیور رکھواتے تھے۔ اس طرح اس نے کافی سونا اکٹھا کر لیا تھا۔ میرا خیال ہے کوئی چالیس پچاس کلو سونا اس کے گھر پڑا تھا۔ وہ یہ سونا بینک میں نہیں رکھواتا تھا کہ کہیں بینک والے کھا نہ جائیں۔ اس نے زمین میں ایک گڑھا کھودا ہوا تھا اورایک سیف بنایا ہوا تھا اور اس میں سونا رکھتا تھا اور اس کے اوپر اپنی چارپائی رکھی ہوئی تھی اور وہاں سوتا تھا کہ رات کو کہیں کوئی چور ہی نہ آ جائے۔ اور رات کو کئی دفعہ جاگتا تھا کہ پتہ نہیں کہ سونا ہے یا نہیں ۔ تو ایک روز اسی غم میں کہ کہیں کوئی سونا تو نہیں لے گیا اس کو ہارٹ اٹیک ہو گیا اور یہ فوت ہو گیا۔ سونا وہیں کا وہیں رہ گیا۔ اس کا جو بیٹا تھا وہ ذرا عیاش طبع تھا۔ اس نے سونا نکالا اور جو دنیا کی چیزیں استعمال کی تھیں وہ لیں اور سونا ختم ہو گیا اور اس کے بھی کام نہیں آیا۔ تو یہ جو تم نے سوال کیا ہے کہ بچہ کے لئے کیا دعا کرنی چاہیئے۔ ایسی چیز جو اللہ تعالیٰ کو پسند ہے ویسے بچے ہوں۔ پس یہ دعا ہو اور اس طرح بچے کی تربیت ہو۔
روزے رکھنے کی عمر
ایک واقفۂ نو نے سوال کیا کہ جب ہم رمضان میں روزے رکھتے ہیں تو کس عمر میں روزے رکھنے شروع کریں۔ حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا تم پر تب روزے فرض ہوتے ہیں جب تم پوری طرح میچور ہو جاؤ۔ اگر تم طالب علم ہو اور تمہارے امتحان ہو رہے ہیں ان دنوں میں اگر تمہاری عمر تیرہ چودہ یا پندرہ سال ہے تو پھر تم روزے نہ رکھو۔ اور اگر تم برداشت کر سکتی ہو پندرہ یا سولہ سال کی عمر میں تو پھر ٹھیک ہے۔ لیکن عموماً جو فرض روزے ہیں سترہ یا اٹھارہ سال کی عمر میں یا اس کے بعد رکھنے چاہیئں اور یہ فرض ہوتے ہیں۔ باقی آٹھ دس سال کی عمر میں اگر شوقیہ دو تین چار پانچ روزے رکھنے ہیں تو ر کھ لو لیکن فرض کوئی نہیں ہیں۔ فرض تم پر اس وقت ہونگے جب تم بڑی ہو جاؤ گی۔ اور جب روزوں کوبرداشت کر سکو گی۔
حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے دریافت فرمایا یہاں سحری اور افطاری میں کتنا فرق ہے۔ حضورِ انور کی خدمت میں عرض کیا گیا کہ سردیوں میں تو بارہ گھنٹے کاہوتا ہے لیکن گرمیوں میں تو انیس گھنٹے کا ہوتا ہے۔ اس پر حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا تو بس انیس گھنٹے تو تم بھوکی نہیں رہ سکتیں۔ یوکے میں جو گزشتہ روزے گزرے ہیں ساڑھے اٹھارہ گھنٹے کے روزے تھے اور سویڈن وغیرہ میں تو بعض علاقوں میں بائیس گھنٹے کے روزے ہوتے ہیں وہاں بہرحال ایڈجسٹ کرنا پڑتا ہے۔ اتنا لمبا روزہ تو نہیں رکھا جا سکتا۔ لیکن برداشت اس وقت ہوتی ہے جب تم جوان ہو جاتی ہو۔ سترہ اٹھارہ سال کی کم از کم ہو جاؤ تو پھر ٹھیک ہے پھر روزے رکھو۔
حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا دس گیارہ سال کی عمر میں عادت ڈالنے کے لئے دو تین روزے رکھ لینے چاہئیں۔ ہر رمضان میں چھوٹے بچوں کو بھی پتہ چلے کہ رمضان آ رہا ہے۔ لیکن روزے نہ بھی رکھنے ہوں تو صبح اٹھو۔ اماں ابا کے ساتھ سحری کھاؤ، نفل پڑھو، نمازیں باقاعدہ پڑھو۔ تم لوگوں کا رمضان یہی ہے۔ سٹوڈنٹس اور بچیاں رمضان میں اٹھیں اور ضرور سحری کھائیں۔ نفل پڑھیں، سحری سے پہلے دو یا چار نفل پڑھ لیں۔ پھر نمازیں باقاعدہ پڑھیں۔ قرآن شریف باقاعدہ پڑھیں۔
(روزنامہ الفضل ربوہ 8 نومبر 2013ء۔ جلد 63-98نمبر 254۔ صفحہ 3 تا 4)