واقفین نو کی تعلیم و تربیت

خطباتِ نکاح

خطبہ نکاح 27 اپریل 2013ء

حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے ایک نکاح کا اعلان فرماتے ہوئے فرمایا’’۔۔۔ واقف زندگی لڑکے کو بھی اور لڑکی کو بھی ہمیشہ یاد رکھنا چاہیئے کہ دوسروں کی نسبت ان کی ذمہ داریاں بہت زیادہ ہیں۔ ان کے عملی نمونے دیکھ کر دوسروں نے بھی نصیحت پکڑنی ہوتی ہے۔ اس لئے چاہے وہ گھریلو معاملات ہوں یا باہر کے، ہر معاملہ میں واقفِ زندگی کو اپنا نمونہ قائم کرنے کی کوشش کرنی چاہیئے۔‘‘

 

( الفضل انٹرنیشنل 13فروری 2015ء۔جلد 22 شمارہ 7۔ صفحہ 2)

خطبہ نکاح 30 مارچ 2012ء

حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے ایک نکاح کا اعلان فرماتے ہوئے فرمایا’’۔۔۔ جو لڑکی واقفِ زندگی سے شادی کرنا چاہتی ہے یا لڑکی کے جو والدین اپنی بیٹی کو واقفِ زندگی سے بیاہنا چاہتے ہیں ان دونوں کو یہ خیال رکھنا چاہیئے، لڑکی کو یہ کہ مَیں واقفِ زندگی کے ساتھ شادی کر رہی ہوں تو مَیں نے جہاں بھی اور جس طرح بھی ایک مبلغ یا مربی رکھا جائے ، بھیجا جائے ، جن حالات میں بھی رکھا جائے وہاں اگر ساتھ بھیجا جائے تو اسکے ساتھ گزارا کرنا ہے۔ اور اگر ساتھ نہ بھیجا جاتا تو پھر جتنا عرصہ بھی علیحدہ رہنا ہے مَیں نے خاموشی اور صبر سے یہ دن گزارنے ہیں اور کسی قسم کا شکوہ نہیں کرنا۔ کوئی مطالبہ مربی سے نہیں ہوگا۔ اسی طرح لڑکی کے والدین جو ہیں انکو بھی ہمیشہ یہ خیال رکھنا چاہیئے کہ واقفِ زندگی سے بیاہنے کے بعد غیر ضروری مطالبات نہیں ہونے چاہیئں۔ کیونکہ عموماً جہاں جھگڑے اٹھتے ہیں والدین بھی اس میں Involve ہو جاتے ہیں۔ پس دونوں طرفوں کو یہ خیال رکھنا چاہیئے کہ ہم نے اس رشتے کو اسطرح نبھانا ہے جس طرح اللہ تعالیٰ نے ہمیں حکم دیا ہے اور تقویٰ سے کام لیتے ہوئے ، ایک دوسرے کے جذبات کا بھی خیال رکھنا ہے، ایک دوسرے کی ضروریات کا بھی خیال رکھنا ہے۔ اللہ کرے کہ یہ رشتہ جو آج قائم ہو رہا ہے ہر لحاظ سے بابرکت ہو اور اتنے پیار اور محبت اور خلوص سے یہ رشتہ قائم رہے کہ مربی سلسلہ کو یکسوئی سے کام کرنے کا موقعہ ملتا رہے۔ اور آئندہ نسلیں بھی اس نیک تربیت کی وجہ سے جو ایک مربی کے گھر کے ماحول میں ہونی چاہیئے نیک اور صالح پیدا ہوں۔ آمین


( الفضل انٹرنیشنل 21 فروری 2014ء۔جلد 21 شمارہ 8۔ صفحہ 20)

خطبہ نکاح 10 مارچ 2012ء

حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے ایک نکاح کا اعلان فرماتے ہوئے فرمایا’’۔۔۔ واقفین زندگی کو خاص طور پر یہ یاد رکھنا چاہیئے کہ میری ذمہ داریاں دوسروں سے بہت بڑھکر ہیں کیونکہ اسکا ایک نمونہ ہے جو اس نے نہ صرف اپنے گھر میں قائم کرنا ہے بلکہ اپنے ماحول میں بھی قائم کرنا ہے اور جس جگہ رہتا ہے وہاں بھی قائم کرنا ہے۔ ہر ایک کی نظر واقفِ زندگی پر ہوتی ہے۔ اچھا واقفِ زندگی علاقہ میں ، اپنے معاشرے میں نیک تربیت کا باعث بنتا ہے۔ بغیر کچھ کہے اس کا عمل دوسروں کو متاثر کر رہا ہوتا ہے اور جو صحیح ذمہ داریاں نہیں نبھا رہا وہ دوسروں کیلئے ٹھوکر کا بھی باعث بنتا ہے۔ پس اس لحاظ سے بھی ہر واقفِ زندگی کو خاص طور پر اس بات کو مدنظر رکھنا چاہیئے کہ ہم نے اپنے وقف کے حق ادا کرنے ہیں۔


( الفضل انٹرنیشنل 21 فروری 2014ء۔جلد 21 شمارہ 8۔ صفحہ 2)

خطبہ نکاح 22 فروری 2012ء

حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے ایک نکاح کا اعلان فرماتے ہوئے فرمایا ’’عموماً واقفاتِ نو اور واقفینِ نو جو بھی ہیں اللہ کے فضل سے بڑے جذبے سے اپنے اس عہد کو جو اُن کے والدین نے پیدائش سے پہلے اُن کے بارہ میں کیا تھا نبھا رہے ہیں اور جب بڑے ہوتے ہیں تو خود بھی اس عہد کو پورا کرنے کا عہد کرتے ہیں۔ اور جنہوں نے جب بھی کوئی کیریئر پلاننگ کرنی ہو مثلاً ایسے واقفین زندگی، ایسے واقفینِ نو لڑکے جو جامعہ میں جانے والے نہیں، وہ خود آکے پوچھتے ہیں کہ آگے کیا تعلیم حاصل کریں، عموماً بغیر مشورہ کے آگے نہیں چلتے۔ اسی طرح واقفاتِ نو بچیاں ہیں وہ بھی اپنی کیریئر پلاننگ کے لئے پوچھتی ہیں۔ پس یہ نیکی جو اِن واقفینِ نو اور واقفاتِ نو میں قائم ہے یہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے ایک بہت بڑا انعام ہے جو ان کے بچپن سے، بلکہ پیدائش سے پہلے سے وقف کرنے کی صورت میں ان کو ملا ہے کہ ان میں ایک سعادت پیدا ہوئی ہے اور ان میں دین کی خاطر کام کرنے کا، خدمت کا ایک جذبہ ہے۔ پس واقفاتِ نو بچیوں کو بھی اور بچوں کو بھی یاد رکھنا چاہیئے کہ جب وہ نئی زندگی شروع کریں تو اللہ تعالیٰ کے ان حکموں کی کہ تقویٰ پر چلنا ہے اور تقویٰ پر چلتے ہوئے اپنی آئندہ زندگی کے لئے بھی پلاننگ کرنی ہے، باقی دوسرے احمدی بچوں سے زیادہ ان پر ذمہ داری ہے۔ کیونکہ ایک تو ویسے بھی عمومی طور پر ہماری احمدی بچیوں پر یہ ذمہ داری ہے کہ انہوں نے اگلی نسل کی تربیت کرنی ہے اور واقفاتِ نو کی خاص طور پر یہ ذمہ داری ہے کہ انہوں نے اپنے آپ کو دین کے لئے، دین کی خدمت کے لئے پیش کیا تو اس ذمہ داری کو انتہائی اعلیٰ رنگ میں نبھانے کی کوشش کریں۔ اور اپنی زندگی کو دنیاوی آسائشوں اور تعیش سے گزارنے کی بجائے زیادہ سے زیادہ اس نہج پر چلانے کی کوشش کریں کہ انہوں نے دین کو دنیا پر مقدم رکھنا ہے اور آئندہ نسلوں کے دلوں میں بھی احمدیت اور اسلام کا پیار اور محبت پیدا کرنا ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کو یہ توفیق عطا فرمائے۔ اور یہ چیز اگر پیدا ہو جائے تو جیسا کہ مَیں نے کہا پھر جہاں رشتے نبھتے ہیں، نہ صرف نبھتے ہیں بلکہ پیار اور محبت سے پروان چڑھتے ہیں۔ گھروں کے سکون قائم ہوتے ہیں اور اگلی نسلیں بھی اعلیٰ اسلامی اخلاق اور کردار کی مالک بنتی ہیں۔‘‘


(الفضل انٹرنیشنل 14 فروری 2014ء۔جلد 21 شمارہ 7۔ صفحہ 16)

خطبہ نکاح 12 فروری 2012ء

حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے ایک نکاح کا اعلان فرماتے ہوئے فرمایا ’’یہ نکاح جو ہے وہ بھی لڑکا اورلڑکی دونوں وقفِ نو میں شامل ہیں۔ اور ان پر بڑی ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں کہ وقفِ نو ہوتے ہوئے جب انہوں نے بلوغت کی عمر کو پہنچ کر اپنے اس عہد کی تجدید کی ہے، اسے Renew کی ہے تو پھر اسے حقیقی روح سے نبھانا ہے۔ ایک وقف کی روح اپنے دل میں پیدا کرنی ہے۔ اور اب جماعت کے لئے اپنے آپ کو پیش کرنا ہے اور خالصتاً جماعت کی خدمت کے لئے ہر وقت اور ہمہ وقت تیار رہنا ہے۔ اور وقفِ نو کے بچوں کے لئے یہ بہت ضروری ہے۔ یہ نہیں کہ وقفِ نو کا ٹائٹل لگ گیا، وقفِ نو کا ایک اعزاز مل گیا اور جب پڑھائی مکمل کی تو اپنے کاموں میں مصروف ہو گئے، دنیا داری میں پڑ گئے، دین کو بھول گئے۔ یہ قطعاً نہیں ہونا چاہیئے۔ وقفِ نو کو ہمیشہ یہ اپنے مدِّنظر رکھنا ہے کہ دین کو دنیا پر مقدم رکھنا ہے اور چاہے جتنی مرضی تعلیم حاصل کر لیں لیکن تعلیم مکمل کرنے کے بعد دین کی خدمت کے لئے اپنے آپ کو پیش کریں۔ اگر جماعت کہے کہ اپنا کام کرو تو پھر اس صورت میں بھی یہ کوشش ہونی چاہیئے کہ جتنا وقت میسر آئے زیادہ سے زیادہ جماعت کی خدمت کے لئے دیا جائے۔ اللہ کرے کہ یہ سوچ ہمارے واقفینِ نو میں ہمیشہ قائم رہے تا کہ ہمیشہ دین کے خادم ہر میدان میں اور ہر جگہ ہمیں میسر آتے رہیں۔‘‘


(الفضل انٹرنیشنل 14 فروری 2014ء۔جلد 21 شمارہ 7۔ صفحہ 16 )

خطبہ نکاح 28 جنوری 2012ء

حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے چند نکاحوں کا اعلان فرماتے ہوئے فرمایا’’ ۔۔۔ وہ لوگ جو دین کی خاطر وقف کر رہے ہوں یا جن کے ماں باپ نے ان کو اس عہد کے ساتھ وقف کیاہے کہ جو کچھ بھی میرے ہاں پیدائش ہونے والی ہے اس کو میں دین کی خاطر وقف کرتی ہوں اور اللہ کرے کہ یہ دین کی سچی خادمہ بنے۔ لڑکی بھی اور لڑکا بھی وقف کیا ہے۔ اس میں بچیاں بھی شامل ہیں۔ تو ایسے بچے جب جوان ہو رہے ہیں، انکی شادیاں ہو رہی ہیں تو ان کو صرف اور صرف اپنے پیش نظر اللہ تعالیٰ کی رضا رکھنی چاہیئے کہ یہی اس بہتر مستقبل کے حصول کا ذریعہ بنے گا جو انسان کی ایک انتہا ہے۔ پس جو واقفِ زندگی ہمارے مربی بن رہے ہیں، واقفاتِ نو ہیں ان سب کو ہمیشہ یہ پیش نظر رکھنا چاہیئے کہ ہم نے اللہ تعالیٰ کی رضا دنیا کی چیزوں پر بہرحال مقدم رکھنی ہے اور دین کی خاطر ہر ایک قربانی کے لئے تیار رہنا ہے۔ یہ عہد جو ہم باندھتے ہیں اس عہد کو ہر صورت میں پورا کرنا ہے۔ ان شاء اللہ تعالیٰ ۔ اللہ تعالیٰ سب کو اس کی توفیق عطا فرمائے۔


( الفضل انٹرنیشنل 14 فروری 2014ء۔جلد 21 شمارہ 7۔ صفحہ 20)

خطبہ نکاح 18 جولائی 2011ء

حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے ایک نکاح کا اعلان فرماتے ہوئے فرمایا ’’۔۔۔ہمیشہ یادرکھنا چاہیئے کہ واقفِ زندگی کو حتی المقدور یہ کوشش کرنی چاہیئے کہ اپنی ذاتی خواہشات کو ختم کر دے۔ زندگی میں جو کچھ ہو، جو حاصل کرنے کی خواہش ہو وہ صرف یہ ہو کہ ہم نے خدا کی رضا حاصل کرنی ہے اور اس کے دین کی سربلندی کے لئے ، دین کی خدمت کے لئے اپنی تمام تر صلاحیتیں اور استعدادیں صرف کرنی ہیں۔ اگر یہ چیز نہیں تو پھر ایک واقفِ زندگی ہونے کا کوئی فائدہ نہیں۔ ایک واقفِ زندگی میں اور ایک عام احمدی میں ایک امتیاز ہونا چاہیئے۔ گو ایک احمدی کا معیار بھی بہت بلند ہونا چاہیئے، تقویٰ کی ان راہوں کی تلاش کرنی چاہیئے جن پر خدا تعالیٰ ہمیں، ایک حقیقی مومن کو چلانا چاہتا ہے۔ لیکن واقفین زندگی وہ ہیں جنہوں نے اپنے آپکو دین کی خدمت کیلئے پیش کیا اور ان کا ہر لمحہ اور زندگی کا ہر منٹ، ہر دن دین کی خدمت کیلئے ہی وقف رہنا چاہیئے۔ اس سوچ کے ساتھ آئندہ بھی اپنی زندگی گزاریں۔ اللہ تعالیٰ ان بچوں کے علم و عرفان میں بھی ترقی عطا فرمائے اور جماعت کیلئے مفید وجود بنائے۔ ‘‘


(الفضل انٹرنیشنل 7 ستمبر 2012ء۔جلد 19 شمارہ 36-37۔ صفحہ 36)

خطبہ نکاح 25 ستمبر 2011ء

حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے ایک نکاح کا اعلان فرماتے ہوئے فرمایا ’’۔۔۔واقفِ زندگی کی حیثیت سے ان کی اور بہت ساری ذمہ داریاں ہو جاتی ہیں اور اسی طرح جس نے واقفِ زندگی سے بیاہ کرنا ہے، اسے پتہ ہونا چاہیئے کہ واقفِ زندگی کی بعض حدود ہیں، ان کے اندر رہنا ہو گا۔ جب کوئی بھی لڑکی کسی واقفِ زندگی سے شادی کرتی ہے، یا اس کے گھر والے اس کا رشتہ طے کرتے ہیں تو ان کو ہمیشہ یہ مدنظر رکھنا چاہیئے کہ واقفِ زندگی کی اپنی زندگی کوئی نہیں ہوتی۔ یہ نہ خیال کریں کہ یورپ کے جامعہ میں پڑھ رہا ہے تو اس نے یورپ میں ہی رہنا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ اس کو افریقہ کے جنگلوں میں بھیج دیا جائے۔ ساتھ اس کی بیوی کو بھی جانا پڑے، سختیاں جھیلنی پڑیں۔ پس جس نے واقفِ زندگی سے رشتہ کیا ہو، اس کو ہمیشہ مدنظر رکھنا چاہیئے کہ میں بھی واقفِ زندگی کے ساتھ اپنی زندگی ایک واقفِ زندگی کی طرح ہی گزاروں گی اور بعض حدود اور پابندیاں ہیں، ان کی تعمیل کرنی ہو گی۔ پردے کا نمونہ ہے، دوسروں سے بڑھ کر دکھانا ہو گا۔ بعض اور اخلاق دوسروں سے بڑھ کر دکھانے ہونگے۔ تعلقات ہیں، دوسروں سے بڑھ کر کرنے ہونگے۔


پس یہ چیزیں ہمیشہ یاد رکھنی چاہیئں خاص طور پر واقفِ زندگی جوڑوں کو اور عموماً یہ ہدایت تو ہر احمدی کے لئے ہے، ہر مسلمان کے لئے ہے۔ ایک اعلیٰ معیار ہے جس کو قائم کرنے کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام تشریف لائے۔ اس لئے رشتے کو صرف رشتہ سمجھ کر نہ کریں بلکہ رشتہ ایک اعلیٰ دینی فریضہ سمجھ کر ادا کریں۔ آنحضرت ﷺ نے بھی یہی فرمایا تھا کہ جب تم کسی عورت سے رشتہ کرتے ہو، اس کے خاندان کو دیکھتے ہو، دولت کو دیکھتے ہو، اس کی شکل کو دیکھتے ہو، لیکن تم میں سے بہتر وہی ہے جو دین کو دیکھے۔ پس جہاں لڑکے کو حکم ہے کہ وہ دین کو دیکھے وہاں لڑکے کو یہ توجہ دلائی گئی ہے کہ تمہارا دین اچھا ہو گا تو تم لڑکی کا دین دیکھ سکو گے۔ اگر خود آوارہ گردیوں میں مبتلا ہو، بیہودگیوں میں مبتلا ہو، لغویات میں مبتلا ہو تو تم نے دین کہاں دیکھنا ہے، تمہیں تو اپنی جیسی ہی لڑکی ملے گی۔ پس یہ توجہ صرف ایک چیز کے لئے نہیں ہے۔ اس ایک لفظ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم  کے بڑے حکمت کے الفاظ ہیں۔ دونوں کو توجہ دلا دی ہے کہ لڑکے کو بھی اپنا دین دیکھنا ہو گا اور اپنے دین پر قائم رہنا ہو گا اور مثال پیش کرنی ہو گااور پھر اس کو سامنے رکھتے ہوئے تمہیں ایسی لڑکی تلاش کرنی چاہیئے جو دین پر چلنے والی ہو۔ اللہ کرے کہ ہمارے جتنے بھی رشتے جماعت میں طے ہوتے ہیں، قول سدید پر طے ہونے والے ہوں، نیکیوں پر قائم ہونے والے ہوں، مستقل نبھنے والے رشتے ہوں اور ان میں سے آئندہ نیک نسلیں بھی پیدا ہوں۔‘‘


(الفضل انٹرنیشنل 25 نومبر 2011ء۔ جلد 18 شمارہ 47۔ صفحہ 2)